.
صحابہ کرام میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کا عقیدہ تفضیل مولا علی علیہ السلام
.
ابن حجر عسقلانی لکھتا ہے کہ


.



.
*سابقین صحابہ رض اور بعض بنوامیہ بھی تفضیل علی (ع) کا عقیدہ رکھتے تھے*
.
اھل سنت کے جید عالم دین جناب ابو زھرہ مصری اپنی کتاب الشافعی میں لکھتے ہیں کہ

مثلا“ عمار بن یاسر ، مقداد بن الاسود ، ابوذرغفاری ، سلمان فارسی ،جابر بن عبداللہ ، ابی بن کعب ، حذیفہ ، بریدہ ، ابو ایوب ، سہل بن حنیف ، عثمان بن حنیف ، ابو الیہثم ، خزیمہ بن ثابت ، ابو الطفیل عامر بن واثلہ ، عباس بن عبدالمطلب اور ان کے صاحبزادگان اور جملہ بنی ہاشم ،شروع شروع میں زبیر بھی اس کے قائل تھے بعد میں ان کا خیال بدل گیا.
خود بنی امیہ میں کئی ایسے لوگ تھے جو دوسرے صحابہ پر تفضیل علی (ع) کے قائل تھے .
مثلا“ خالد بن سعید بن العاص اور عمر بن عبد العزیز



حضرت عبداللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں کہ ہم باتیں کرتے تھے کہ


اسناد صحیح




ابن حجر عسقلانی نے اسکو فتح الباری کے مقدمے میں نقل کیا اور کہا :
” اسکے تمام راوی ثقہ ہے”



ابن حجر نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ شاید یہ بات عبداللہ بن مسعود نے عمر بن خطاب کی وفات کے بات کئی۔
عرض ہے :
.


.
حدیث طیر
.
حدیث طیر کو تیس (30) سے زیادہ تابعین ؓ نے نقل کیا ہے
.
إنَّ النَّبِی(ص) کانَ عِندَهُ طائِرٌ، فَقالَ: اللَّهُمَ ائتِنی بِأَحَبِّ خَلقِک إلَیک؛ یأکلُ مَعی مِن هذَا الطَّیرِ. فَجاءَ أبو بَکرٍ، فَرَدَّهُ، ثُمَّ جاءَ عُمَرُ، فَرَدَّهُ، ثُمَّ جاءَ عَلِی، فَأَذِنَ لَهُ.
پیغمبر اکرم ﷺ وآلہ کی خدمت میں پرندے کا گوشت لایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: یا اللہ اپنی مخلوقات میں سب سے عزیز مخلوق میرے پاس بھیج تاکہ اس پرندے کا گوشت کھانے میں میرا ساتھ دے۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ آئے لیکن پیغمبر اکرمؐ نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد عمر بن خطاب ؓ آئے ان کو بھی قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد حضرت علی ؑ تشریف لائے تو آپ کو اجازت دی گئی۔
(خصائص امیرالمؤمنین / مترجم مولانا صائم چشتی/ صفحہ 40/ تمیمی موصلی / مسند ابی یعلی/ جلد 7 / صفحہ 105)


حافظ ابن حجر عسقلانی (المتوفی 852ھ)
اہل سنت کے مشہور و معروف محدث، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنے جوابات میں ترمذی والی روایت کو “حسن” قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
الحديث السادس عشر: كان عند النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- طير، فقال: “اللهم ائتني بأحب خلقك إليكَ يأكل معي هذا الطير”، فجاء علي فأكل معه.
ترجمہ:
سولہویں حدیث: نبی -صلى اللَّه عليه وسلم- کے پاس ایک پرندہ تھا، آپ (ص) نے دعا فرمائی: اے الله! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آجو تیری مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے، تو علی (ع) آئے اور انہوں نے آپ (ص) کے ساتھ کھانا کھایا۔
اس حدیث پر ابن حجر عسقلانی نے ان الفاظ میں حکم لگایا:
السادس عشر: الترمذي، وهو حسن
ترجمہ:
سولہویں (حدیث): ترمذی (والی حدیث)، یہ حسن ہے۔
[حوالہ مشكاة المصابيح ويليه أجوبة الحافظ ابن حجر (ت: الألباني)، ج 3، ص 1787 و 1791، المكتب الإسلامي، بیروت-لبنان]



حاکم نیشاپوری (المتوفی 405ھ) نے اپنی کتاب، مستدرک علی الصحیحین میں حدیث نمبر 4560 پر ان الفاظ سے تحکیم کی ہے:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ” وَقَدْ رَوَاهُ عَنْ أَنَسٍ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ زِيَادَةً عَلَى ثَلَاثِينَ نَفْسًا، ثُمَّ صَحَّتِ الرِّوَايَةُ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَسَفِينَةَ
یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر “صحیح” ہے لیکن شیخین نے اسکو نقل نہیں کیا۔ اس حدیث کو 30 سے زائد صحابہ (رض) کی ایک پوری جماعت نے حضرت انس کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ پھر یہ حدیث سند صحیح کے ساتھ حضرت علی (ع)، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت سفینہ سے بھی مروی ہے۔
[حوالہ: مستدرک علی الصحیحین، ج 4، ح 4560، ص 263-262، شبیر برادرز، لاہور-پاکستان]



اہلسنت عالم دین قاری ظہور احمد فیضی صاحب شرح خصائص علی ؑ میں اس حدیث کی تفضیلی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“امام حاکم کے بقول اس حدیث (طیر) کو حضرت انس ؓ سے تیس (۳۰) سے زیادہ تابعین کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے۔ اور یہ حدیث صحت کے ساتھ حضرت علی ؑ ، ابوسعید الخدری ؓ اور سفینہ ؓ سے مروی ہے۔ اور حضرت ثابت بنانی ؓ سے بھی مروی ہے اور اس کے الفاظ زیادہ ہیں۔ امام حاکم نے خود اس حدیث کو دو سندوں سے نقل کیا ہے”.
(شرح خصائص علی ؑ / صفحہ 121 / حدیث 12)


حافظ زبیر علی زئی
اہل سنت محدث، حاکم نیشاپوری کی جانب سے اس حدیث (الطیر/پرندے) کو “صحیح” قرار دیا ہے
[حوالہ: فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام، ص 575-572، مکتبہ اسلامیہ، لاہور-پاکستان]





حدیثِ طائر برياں اور ناصبى علماء کی قلابازیاں
حدیثِ طير بہت مشہور حدیث ہے اور تواتر رکھتی ہے۔ تمام حفاظ حدیث نے اسکو صحیح قرار دیا ہے۔ حدیث یوں ہے کہ حضور ص کے پاس ایک بھنا ہوا طائر لایا گیا تو آپنے دعا کی کہ پالنے والے اپنی محبوب ترین مخلوق کو بھیج دے جو اِس طائر کو میرے ساتھ کھائے۔ حضور ص نے دوبارہ دعا کی اور دونوں بار صرف امیر المومنین ع تشریف لائے۔ انس جو اُس وقت پیغمبر ص کے خادم تھے اِمام علی ع کو واپس کرتے رہے صرف اِس اُمید پر کہ شاید اُن کے قبیلہ کا کوئی آجائے اور یہ فضیلت اُنکے قبیلے کو مل جائے یعنی انصار کو۔ آخر تیسری بار سرکار ص نے دعا کی اور جب اِمام علی ع آئے تو رسول ص نے دروازہ کھولنے کا حُکم دیا پھر اِمام علی ع خدمت پیغمبر ص میں حاضر ہوئے اور اُس طائر کو حضرت ص کے ساتھ نوش فرمایا ۔ (۱)
ذہبی مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیثِ طير اگرچہ ضعیف ہے لیکن کثیر طریقوں سے روایت کی گئی ہے۔ میں نے اسے ایک الگ جزء میں جگہ دی ہے ثابت تو نہیں ہے لیکن میں اس کے بطلان کا قائل بھی نہیں ہُوں ۔ (۲)
ابنِ کثیر کہتے ہیں: بہرحال اِس حدیث کی صحت کے بارے میں دل میں شک تو موجُود ہے اگرچہ یہ کثیر طریقوں سے وارد ہوئی ہے ۔ (۳)
اگر یہی حدیث شیخین یا کسی اور کے بارے میں وارد ہوئی ہوتی چاہے اسناد جتنی ہی کمزور ہوتیں تو ان لوگوں کو کوئی تکلیف اور شبہ نہ ہوتا اور یہ حضرات آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے!!!
بغض اِمام علی ع ہی کا نتیجہ ہے کہ ابو داؤد جو حدیثِ غدیر کے منکر ہیں اِس حدیثِ طير کی رد میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔ کہتے ہیں کہ اگر حدیثِ طير صحیح ہے تو پھر نبی کی نبوت باطل ہے اِس لئے کہ اِس حدیث میں نبی کا حاجب خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ نبی ص کا حاجب خائن نہیں ہو سکتا ۔ (٤)
ابو داؤد کے اس شگوفہ پر ذہبی کو غُصہ آگیا اور اُنہوں نے سختی سے اُسکی تردید کی ہے ۔ لکھتے ہیں: “ابو داؤد کی عبارت بلکل ردی اور بیکار ہے بلکہ ایک منحوس بات ہے ۔ حدیث طير صحیح ہو یا غلط نبوت محمد ص بہرحال صحیح ہے۔ بھلا نبوت محمد ص اور حدیثِ طير میں کیا رابطہ ہے۔ “
پھر ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ بعض صحابہ کیسی بکواس کیا کرتے تھے ۔
لیکن پھر ذہبی کو ابنِ داؤد پر رحم آگیا اور فورا اُن کے گناہ میں تخفیف کر دی بلکہ مدح سرائی شروع کردی ۔ کہتے ہیں: “ابو داؤد نے اپنے اِس قول میں خطاۓ اجتہادی کی ہے اور انہیں اپنی اس خطا کا اجر تو ملےگا ہی پھر ثقه کے لئے بعید نہیں ہے کہ وہ خطاکار نہ ہو یا بھول چوک سے محفوظ ہو ۔ ابو داؤد اسلام کے بڑے علماء میں سے ہیں اور حفاظ حدیث میں سب سے زیادہ قابلِ اعتبار شخص ہیں۔ (٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسند صحيح حديث الطير مشوي
فهذا الحديث عند أهل السنة وُرِد في المعجم الأوســـط للطبراني حديث رقم 1780 بسند صـــحـــيــــح لـــذاتـــه :-
حَدَّثَنَا أَحمَدُ(و هو بن عبد العزيز الوشاء ثقة وثقة الحاكم), قَالَ : نا سَلَمَةُ بنُ شَبِيبٍ(الثقة, بل قال عنه الذهبي أحد الجوّالين), قَالَ : نا عَبدُ الرَّزَّاقِ(و هو الصنعاني غنير عن التعريف!), قَالَ : أَنَا الأَوزَاعِيُّ(ثناء العلماء عنه كثير نكتفي بقول الذهبي :شيخ الإسلام)، عَن يَحيَى بنِ أَبِي كَثِيرٍ(إمام ثقة و إن قيل أنه مدلّس فقد عـــاصر الصحابة و هذه منهجية مسلم صاحب الصحيح!)، عَن أَنَسِ بنِ مَالِكٍ, قَالَ : أَهدَت أُمُّ أَيمَنَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ طَائِرًا بَينَ رَغِيفَينِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” هَل عِندَكُم شَيءٌ ؟ ” فَجَاءَتهُ بِالطَّائِرِ، فَرَفَعَ يَدَيهِ، فَقَالَ : ” اللَّهُمَّ ائتِنِي بِأَحَبِّ خَلقِكَ إِلَيكَ، يَأكُلُ مَعِي مِن هَذَا الطَّائِرِ “، فَجَاءَ عَلِيٌّ، فَقُلتُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ مَشغُولٌ، وَإِنَّمَا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ آنِفًا، فَثَبَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّائِرِ شَيئًا، ثُمَّ رَفَعَ يَدِهِ، فَقَالَ : ” اللَّهُمَّ ائتِنِي بِأَحَبِّ خَلقِكَ إِلَيكَ يَأكُلُ مَعِي مِن هَذَا الطَّائِرِ “، فَجَاءَ عَلِيٌّ، فَارتَفَعَ الصَّوتُ بَينِي وَبَينَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ : ” أَدخِلهُ مَن كَانَ “، فَدَخَلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ : ” وَالِي يَا رَبِّ ” ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَأَكَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ حَتَّى فَرَغَا
اِس باب میں بہترین علمی رسالہ آیت اللہ محقق المیلانی نے ‘ حدیث الطیر’ نام سے تالیف کیا ہے جو دیکھا جا سکتا ہے۔
تبصرہ:
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ وہی ذہبی ہیں جو طعن و تشنيع کے بارے میں لکھ چکے ہیں کہ ایک جماعت نے ابنِ ابی داؤد پر طعن کی ہے اور غیروں کی کیا بات ہے خود ابنِ ابی داؤد کے والد فرماتے تھے کہ میرا بیٹا جھوٹا ہے ۔ (٦)
یہ بھی ملاحظہ ہو کہ ابنِ ابی داؤد کی ناصبیت ظاہر ہونے کے بعد بھی (حدیثِ غدیر کا منکر اور حدیث طير کی تردید) کیسے اِس شخص کی وکالت ہو رہی ہے ، اسے ثقه اور علامه بتایا جا رہا ہے اور حافظ حدیث گردانا جا رہا ہے! نيز حدیثِ طير کے کثیر طریق کے بعد بھی شک و شبہہ دِلوں میں ڈیرہ ڈالے ہوۓ ہے۔
حوالاجات:
(١) المستدرك على الصحيحين، ج ٣, كتاب معرفة الصحابه، ذكر اسلام امير المؤمنين على، ص ١٤١-١٤٢/ تاريخ دمشق، ج ٤٢, ص ٢٤٧-٢٥٩ و ج ٤٥, ص ٨٤, عمر لن صالح بن عثمان کے ترجمه میں/ مجمع الزوائد، ج ٩, ص ١٢٥-١٢٦/ المعجم الاوسط، ج ٢, ص ٢٠٧ اور ج ٦, ص ٣٣٦/ معجم الكبير، ج ١, ص ٢٥٣/ سنن الترمزى، ج ٥, ص ٦٣٦/ سنن الكبرى للنسائ، ج ٥, ص ١٠٧/ مسند ابى حنفيه، ص ٢٣٦/ مسند البزار ج ٩, ص ٢٨٧/ تاريخ الكبير، ج ٢, ص ١٢ / طليعة التنكيل، يمانى، ص ٤٠
(٢) سير اعلام النبلاء، ج ١٣, ص ٢٣٣
(٣) تاريخ دمشق، ج ٥٨, ص ٣٦٩/ الفردوس بماثور الخطاب، ج ٢, ص ٢٤٤/ تاريخ بغداد، ج ١٢, ص ٣٥١/ البداية والنهاية، ج ٧, ص ٣٩٠
(٤) تاريخ دمشق، ج ٤٢, ص ٢٨٧-٢٨٨/ النهابة فى غربب الحديث، ج ١, ص ١٦١-/ ماده بور میں لسان العرب، ج ٤, ص ٨٧
(٥) سير اعلام النبلاء، ج ١٣, ص ٢٣٣
(٦) سير اعلام النبلاء، ج ١٣, ص ٢٣٠, ابوبكر سيجستانى كى سوانح حيات / تذكرة الحفاظ، ج ٢, ص ٧٦٧-٧٧٢, ابن ابى داؤد كى سوانح
نقل از: فى رحاب العقيده، ج ٣, ص ١٠٦-١٠٨, انتشارات مركز جهانى علوم اسلامى
.
.
.
.
.
*فضلیت امام علی ع کا اظھار کرنا علماء اھل سنت کے لئے عظیم خطرات کا باعث تھا*
ایک واقعہ جسے امام اھل سنت علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں شیخ الشافعیہ امام علامہ ابوبکر محمد بن احمد مصری المعروف ابن الحداد کے حالات میں الکندی کی کتاب “الولاۃ والقضاء سے نقل کیا ہے ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں
کندی نے ابن زولاق سے نقل کیا ہے کہ امام ابن حداد نے امام نسائی کی کتاب خصائص علی ع کے ذکر کے دوران ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ
وہ ایک جماعت کے ساتھ ابوالقاسم بن اخشید کی مجلس میں تھے ، مجلس کے اختتام پذیر ہوئی تو انہوں نے مجھے روک لیا ۔
میں نے عرض کیا : کوئی کام ہے ؟
تو فرمایا : ہاں ، بتائو ! کون افضل ہیں ابوبکر ،عمر یا علی ع ؟
تو میں نے کہا : ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔
انہوں نے پھر فرمایا : کون افضل ہیں :ابوبکر ، عمر یا علی ع ؟
تب میں نے عرض کیا : *اگر یہ بات آپ تک رہے تو امام علی ع ہی افضل ہیں اور اگر آشکار ہو تو ابوبکر افضل ہیں۔*
علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ اسی کی مانند مجھے ابن عبدالحکم کا واقعہ پہنچا ہے کہ ایک شخص نے ان سے ایسا ہی سوال کیا تو انھوں نے معذرت کر لی ۔
سائل نے اصرار کیا تو فرمایا:
اگر تم نے میرے جواب کو کسی شخص پر آشکار کیا تو میں احمد بن طولون سے تمھاری چکایت کروں گا تو انھوں وہ تمھیں کوڑے سے مارے گا ، *علی ع ہی افضل ہیں ۔*

ان حقائق سے چند فوائد حاصل ہوتے ہیں





چند جلیل القدر اصحاب رسول اللہ ص کے نام جو مولا علی علیہ سلام کو تمام اصحاب سے افضل جانتے تھے


.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب تھا؟
عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّيْمِيِّ، قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَي عَائِشَة، فَسُئِلَتْ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ : فَاطِمَة، فَقِيْلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ : زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ سلام اﷲ علیہا۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا)؟ فرمایا : اُن کے شوہر، جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403، 404، الرقم : 1008، 1009، و ابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 219، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 125، و المزي في تهذيب الکمال، 4 / 512، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 273.


ضرت علی علیہ السلام کو افضل جاننا






اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی ع جناب ابوبکر و عمر سے زیادہ زاہد تھے
ابن تیمیہ لع


تفضیل امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور اصحاب رسول رضوان الله علیہم کا عقیدہ

اھلسنت کے مشہور عالم دین علامه ابو زہرہ مصری صاحب اپنی کتاب “امام اعظم” میں لکھتے ہیں:
“شیعوں کا عقیدہ ہے که حضرت علی ابن ابی طالب نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفه مختیار تھے اور یه تمام صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین سے افضل ہیں اور یہاں اس بات کی نشاندھی لازمی ہے صرف شیعه حضرات ہی حضرت علی رضي الله عنه کو تمام صحابہ سے افضل نہیں سمجھتے ہیں بلکه بعض صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کا بھی یہی مسلک تھا جن کے نام قابل ذکر ہیں۔
عمار بن یا سرؓ ، مقداد بن اسودؓ ، ابوذر غفاریؓ ، سلمان فارسیؓ ، جابر بن عبداللہؓ ، ابی بن کعبؓ ، حذیفہؓ ، بریدہؓ ، ایوبؓ ، سہل بن حنیفؓ ، عثمان بن حنفیہؓ ، ابوالھثیمؓ ، حذیفہ بن ثابتؓ ، ابوطفیلؓ ، عامر بن وائلہؓ ، عباس بن ابومطلبؓ ، اور بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اسی میں شامل ہیں”.




تفضیل امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور اصحاب رسول رضوان الله علیہم کا عقیدہ

صحابی رسول حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه سے روایت ہے که:
“ہم اہل مدینه میں سب سے افضل سیدنا علی ابن ابی طالب رضي الله عنه کو سمجھتے تھے”
الشیخ وصی الله بن محمد عباس اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
“اسنادہ صحیح”


اھلسنت عالم دکتور محمد حسین ذہبی اپنی کتاب “التفسیر والمفسرون” میں شیعه اثنا عشری عقائد پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
« ويظهر لنا أن هذا الحب لعلىّ وأهل بيته، وتفضيلهم على مَن سواهم، ليس بالأمر الذي جَدَّ وحدث بعد عصر الصحابة، بل وُجِدَ من الصحابة مَن كان يحب علياً ويرى أنه أفضل من سائر الصحابة، وأنه أَولى بالخلافة من غيره، كعمَّار بن ياسر، والمقداد بن الأسود، وأبى ذر الغفارى، وسلمان الفارسى، وجابر بن عبد الله … وغيرهم كثير. »
ترجمه: “ہمیں معلوم ہوتا ہے که حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت علیھم السلام سے یہ محبت اور ان کو باقی تمام (صحابه) سے افضل ماننا، یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ جو صحابہ کرام (رضوان الله علیہم) کے دور کے بعد شروع ہوئے ہوں بلکہ خود صحابہ ہی میں ایسے اصحاب (رضوان الله علیہم) موجود تھے جو حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت رکھتے تھے اور آپ (علی ع) کو باقی تمام اصحاب سے افضل اور دوسروں سے بڑھ کر خلافت کا حقدار مانتے تھے؛
جیسے حضرت عمار بن یاسر (رض)، حضرت مقداد بن اسود (رض)، حضرت ابوذر غفاری (رض)، حضرت سلمان فارسی (رض)، حضرت جابر بن عبدالله (رض)، اور بہت سے دوسرے اصحاب کرام (رضوان الله علیہم اجمعین)”.


.
رسول اللّه ص کے ہاں جو مقام و مرتبہ مولا علی ع کا ہے وہ مخلوق میں سے کسی کا نہیں تھا۔



.
علی جیسا کوئی فاتح (مرد میدان) نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں ۔
علی ایک ضرب (تلوار کی) ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔




.
صحابہ کی ایک جماعت مولا علی ع کی افضلیت کی قائل تھی





.


.

وَقَالَ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ ثم يسكت.
قال عبد الرزاق: قَالَ لَنَا سُفْيَانُ: أُحِبُّ أَنْ أَخْلُوَ اللَّيْلَةَ بِأَبِي عُرْوَةَ.
قَالَ: فَقُلْنَا لِمَعْمَرٍ: اشْتَهَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَنْ يَخْلُوَ بِكَ لَيْلَةً. قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ: فَخَلَا بِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قُلْتُ: يَا أَبَا عُرْوَةَ كَيْفَ رَأَيْتَهُ؟
قَالَ: هُوَ رَجُلٌ إِلَّا أَنَّكَ قَلَّمَا تُكَاشِفُ كُوفِيًّا إِلَّا وَجَدْتَ فِيهِ. – كَأَنَّهُ يُرِيدُ التَّشَيُّعَ-
.
ترجمہ:

میں نے امام عبدالرزاق الصنعانی سے پوچھا : آپ کی اس پر کیا رائے ہے (کہ عثمان افضل ہے یا علیؐ) ؟
تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا ۔
اور انہوں نے کہا : سفیان ثوری کہا کرتے تھے : ابوبکر اور عمر پھر خاموش ہوجاتے تھے ۔
امام عبدالرزاق بیان کرتے ہیں :
ہمیں سفیان ثوری نے بتایا : میں نے خواہش کی کہ ابو عروہ یعنی معمر کے ساتھ تنہائی میں ایک شب ملاقات ہو ۔
امام عبدالرزاق فرماتے ہیں : ہم نے معمر سے عرض کی کہ ابو عبداللہ آپ سے شب کی تنہائی میں ملاقات کی گزارش کی تو انہوں نے اجازت فرمائی ۔
امام عبدالرزاق فرماتے ہیں : پھر ان دونوں کی ملاقات ہوئی ، پھر جب صبح ہوئی تو میں نے معمر سے عرض کیا : یا ابا عروہ ! آپ نے انہیں کیسا پایا ؟
فرمایا: وہ بھی ایک شخص ہے ، پر تم کسی بھی کوفی کو ٹٹولو گے تو اس میں یہ چیز ضرور پائو گے
گویا انہوں نے ” تشیع ” کی طرف اشارہ کیا ۔

نوٹ: اہل کوفہ کو شیعہ اسلئے کہا جاتا تھا کہ وہ ابوبکر و عمر کے بعد عثمان کے بجائے امام علی ع کو افضل مانتے تھے اسلئے اہل کوفہ شیعان علی کے نام سے جانے جاتے تھے (ورنہ کوفہ والے بس تفضیلی تھے نہ کہ رافضی)


صحابہ، علم امیرالمومنین [علیہ السلام] کے محتاج تھے
.
ابن جوزی اپنی کتاب “المنتظم فی تاریخ الامم والملوک” کے باب “ذکر غزارۃ علمہ: امیرالمومنین کی کثرت و عظمت علم کا ذکر” میں لکھتے ہیں:
.
کان أبو بکر وعمر یشاورانه ویرجعان إلى رأیه، وکان کل الصحابة مفتقرا إلى علمه، وکان عمر یقول: أعوذ بالله من معضلة لیس لها أبو الحسن.
ابوبکر و عمر حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کرتے تھے اور ان کی رائے لیتے تھے اور تمام صحابی آپ کے علم کے محتاج تھے، اور عمر کہتے ہیں: میں ہر اس مشکل سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کے لئے امیرالمومنین [علیہ السلام] موجود نہ ہوں۔
.
المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک،ج5،ص68 ط دار الکتب العلمیة

سنیوں کا اپنے عوام کو دھوکے میں رکھنا اور اہلبیتؑ سے بغض کا اظہار کرنا
.
ابنِ ماجہ کی سنن کا متن کچھ یوں ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى ، قَالُوا : حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : «عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا عَلِيٌّ»
.
حُبشی بن جنادہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ وآلہ کو یہ فرماتے سنا ہے :
“علیؑ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ، میری طرف سے صرف علیؑ ہی ادا کریں گے “
حوالہ: [سنن ابن ماجہ، حدیث 119 ]
اس روایت میں سنیوں کا رد تھا کیونکہ ایسے فضائل کے مالک تو فقط جنابِ امیر المومنینؑ ہیں ناکہ ان کے خلفاء تو یوں وہ روایت کا حصہ ہی کھا پی گئے
سنی موصوف کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے:
’’ علیؑ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں”
حوالہ: [سنن ابن ماجہ جلد 1 ص 73 طبع مکتبة العلم اردو بازار لاہور]
ترجمہ اس لیے کھا پی گئے تاکہ کہیں عوام اور جاہل مولوی پوچھ ہی نہ لیں کہ ایسے فضائل کی حامل شخصیت (یعنی علیؑ) بعد از رسولﷺوآلہ افضل کیوں نہیں!


اھلسنت کے جرح و تعدیل کے امام ابی ذکریا یحیحی ابن معین نے معرفة الرجال میں نقل کیا ھے
.
سمعت یحیی ابن معین یقول سمعت یعلی بن عبید یقول کان أبی یقدم علیا علی ابی بکر و عمر و ھذا رأئ
امام جرح و تعدیل ابی ذکریا یحیحی ابن معین کہتے ہیں کہ کہ میں نے یعلی بن عبید سے سنا انہوں نے کہا کہ میرے والد عبید بن امیہ (جو ثقہ تابعین میں سے ہیں ) انہوں نے کہا امام علی ؑ ابو بکر و عمر سے افضل ہیں
اور میری بھی یہی راۓ ھے
معرفة الرجال یحیحی ابن معین جلد 1 ص 159
.
امام یحییٰ بن معین مزید فرماتے ہیں
.
سأل سلمة بن عفان يحيى بن آدم فقال له ترى السيف ؟ قال : لا أرى السيف على أحد من أمة محمد ولكن مالقيت أحداً من أهل هذا المصر إلا وهو يقدم عليـاً على أبي بكر وعمر ماخلا سفيان الثوري فإني لا أدري .
سلمہ بن عفان نے یحیٰی بن آدم جو کہ ثقہ حافظ ہیں امام سے پوچھا کیا تم تلوار دیکھ رہے ہو؟ اس نے کہا مجھے امت محمدیہ میں سے کسی پر تلوار نظر نہیں آتی لیکن میں اس مصر کے لوگوں میں سے کسی ایسے شخص سے نہیں ملا جو علی ؑ کو ابوبکر و عمر پر افضلیت نہ دیتا ہو سوائے سفیان ثوری کے انکی راۓ کے بارے میں نہیں جانتا
یحییٰ بن معین مزید کہتے ہیں
سمعت عبيد الله بن موسى يقول ما كان أحد يشك في أن عليا أفضل من أبي بكر وعمر .
میں نے عبید اللہ بن موسیٰ (جو کہ ثقہ ہیں ) کو سنا وہ کہتے ہیں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ علی ؑ ابوبکر اور عمر سے افضل ہیں۔
معرفة الرجال جلد 1 ص 159

اھلسنت علماء و محدثین تفضیل علی ؑ کا ذکر کرنے سے ڈرتے ہیں
اس روایت کو حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ابو عمر الکندی کی کتاب الولایة والقضاء سے نقل۔کیا ھے
پہلے ہم اس روایت کو پیش کرتے ہیں اس کے بعد اس روایت میں شامل رجال اور مؤلفین کتب کا مختصر تعارف و توثیق پیش کریں گے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ ابْنُ زولاَق: حَدَّثَنَا ابْنُ الحَدَّاد بكتَاب (خصَائِص عليّ) – رَضِيَ اللهُ عَنْهُ -، عَنِ النَّسَائِيّ، فَبَلَغَه عَنْ بَعْضهم شَيْءٌ فِي عَلِيّ، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَملِي الكِتَابَ فِي الجَامع.
قَالَ ابْنُ زولاَق: وَحَدَّثَنِي عَلِيُّ بنُ حسن، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الحَدَّاد، يَقُوْلُ:كُنْتُ فِي مَجْلِسِ ابْنِ الإِخْشِيذ – يَعْنِي: مَلِكَ مِصْر – فَلَمَّا قُمْنَا أَمسكنِي وَحْدِي.
فَقَالَ: أَيُّمَا أَفْضَل أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، أَوْ عليّ؟
فَقُلْتُ: اثْنَيْنِ حِذَاء وَاحد.
قَالَ: فَأَيُّمَا أَفْضَل أَبُو بَكْرٍ، أَوْ عليّ؟
قُلْتُ: إِنْ كَانَ عِنْدَك فعلِيّ، وَإِنْ كَانَ برّاً فَأَبُو بَكْرٍ، فَضَحِكَ.
قَالَ: وَهَذَا يُشبه مَا بَلَغَنِي، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ الحَكَمِ، أَنَّهُ سأَله رَجُلٌ: أَيُّمَا أَفْضَل أَبُو بَكْرٍ، أَوْ عليّ؟
فَقَالَ: عُدْ إِليَّ بَعْد ثَلاَث، فَجَاءهُ.
فَقَالَ: تقدَّمْنِي إِلَى مُؤخَّر الجَامع، فتقدَّمه، فَنَهَضَ إِلَيْهِ، وَاسْتعفَاهُ، فَأَبَى.
فَقَالَ: عَلِيٌّ، وَتَالله لَئِنْ أَخَبْرتَ بِهَذَا أَحداً عَنِّي لأَقولنَّ للأَمِيْرِ أَحْمَدَ بن طُولُوْنَ، فيضربك بِالسِّيَاط.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ذھبی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “سیر اعلام النبلاء ” میں شیخ الشافعیہ امام علامہ ابوبکر محمد بن احمد مصری المعروف ابن الحداد کے حالات میں الکندی کی کتاب
“الولاۃ والقضاء ” سے نقل کیا ہے ۔
علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
کندی نے ابن زولاق سے نقل کیا ہے کہ امام ابن حداد نے امام نسائی کی کتاب خصائص علی ع کے ذکر کے دوران ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ ابوالقاسم بن اخشید کی مجلس میں تھے ، مجلس کے اختتام پذیر ہوئی تو انہوں نے مجھے روک لیا ۔
میں نے عرض کیا : کوئی کام ہے ؟
تو فرمایا : ہاں ، بتاؤ ! کون افضل ہیں
ابوبکر ؓ ،عمر ؓ یا علی ع ؟
تو میں نے کہا : ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔
انہوں نے پھر فرمایا :
کون افضل ہیں ، ابوبکر ؓعمر ؓ یا علی ع ؟
تب میں نے عرض کیا :
“اگر یہ بات آپ تک رہے تو امام علی ع ہی افضل ہیں
اور اگر آشکار ہو تو ابوبکر ؓ افضل ہیں”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ اسی کی مانند مجھے
“ابن عبدالحکم ” کا واقعہ پہنچا ہے کہ ایک شخص نے ان سے ایسا ہی سوال کیا تو انھوں نے معذرت کر لی۔۔۔
سائل نے اصرار کیا تو فرمایا:
اگر تم نے میرے جواب کو کسی شخص پر آشکار کیا تو میں احمد بن طولون سے تمھاری شکایت کروں گا تو انھوں وہ تمھیں کوڑے سے مارے گا ، علی ع ہی افضل ہیں ۔۔۔
(سیر اعلام النبلاء – ذہبی – ج 15 – ص 449 – طبع بیروت)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاحظہ #اسکینز 3 ,4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔________ #تـعـارف_و_تــوثـیـق_ابـن_ذولاق ___________
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اس روایت کو ابن ذولاق روایت کرتے ہیں اس لیے ہم ان کی توثیق نقل کرتے ہیں
“ابـن ذولاق ” ( متوفی 387 ھجری)
قال الذھبی فی “سیر اعلام النبلاء “
الشیخ العلامة المحدث المورخ ابو محمد الحسن بن أبراھیم بن ذولاق المصری صاحب تصنیف
سمع من ابی جعفر الطحاوی فمن بعدہ و قدر ارتحل الی دمشق
ذھبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں :
یہ بزرگ عالم محدث مورخ ہیں انہوں نے ابی جعفرالطحاوی سے سمع کیا اس کے بعد انہوں نے دمشق کی طرف ہجرت کی !
آگے مزید لکھتے ہیں ۔۔۔۔
“و ھو حسن بن ابراھیم بن حسن بن الحسین بن علی بن خلف بن ذولاق الیثی مولاھم المصری رحمہ اللہ و کان جد أبیہ من کبار العلماء”
یہ حسن بن ابراھیم بن حسن بن الحسین بن علی بن خلف بن ذولاق اللیثی ہیں ان کے والد اور دادا کبارالعلماء میں سے تھے !
(سیر اعلام النبلاء ج16 ص 463)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن خلکان نے ان کا تعارف یوں کروایا ھے
ابو محمد الحسن بن ابراھیم الحسین بن علی بن خد بن راشد بن عبداللہ بن سلیمان بن ذولاق کان فاضلاً فی التاریخ
(ابن خلکان ج 2 ص 27)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________ #ابـن_الـحـداد_کـی_تــوثـیـق ____________
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن احمد بن محمد المصری ابن الحداد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___
تـوثـیق
___


۔۔۔۔۔ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال الدارقطنی کان ابن الحداد کثیر الحدیث
دارقطنی کہتے ہیں ابن حداد کثیر الحدیث تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال ابن کثیر فی الطبقات الشافعین
کان ابن الحداد فقیھا متعبدا بحسن علوما کثیرة منھا علم القرآن و علم الحدیث ولاسماء والنحو واللغة و اختلاف الفقھاء
(طبقات الشافعین ص 258)
ابن کثیر طبقات شافعیہ میں لکھتے ہیں:
ابن حداد فقیہ عبادت گزار کثرت سے علوم جاننے والے جن میں علم قرآن لغت اور نحو اسماء الرجال نسب اشعار کو جاننے والے تھے
(طبقات الشافعین ص 258)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ذھبی نے ان کا تعارف یوں کروایا ھے
“الامام العلامة الثبت شیخ الاسلام “
عالم العصر ابی بکر محمد بن احمد بن محمد بن جعفر الکنانی المصری الشافعی
“یہ امام عالم ثبت اپنے زمانے کے شیخ الاسلام تھے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکرہ ابن ذولاق و کان من أصحابہ
فقال کان تقیا متعبدا
ابن ذولاق ذکر کرتے ہیں کہ ہم ان کے اصحاب میں سے ہیں
کہتے ہیں یہ پرھیز گار اور عبادت گزار تھے
یحسن علوما کثیرة علم القرآن و علم الحدیث والرجال والکنی واختلاف العلماء والنحو
یہ کثیر علوم جانتے تھے جن میں علم قرآن علم حدیث علم الرجال کنیتوں کا علم علماء کے اختلافات صرف و نحو شامل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال ابن یونس المصری :
کان ابن الحداد کان حافظ للفقة علی مذھب الشافعی وکان کثیر الصلاة متعبدا ولی القضاء بمصر
ابن یونس کہتے ہیں :
کہ یہ مذھب شافعی کی فقہ کے حفاظ میں سے تھے کثرت سے نماز ہڑھتے عبادت گزار تھے اور مصر کے قاضی تھے
(سیر اعلام النبلاء ج 15 ص 450)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________ #ابـوعـمـر_الکـنـدی_کــی_تــوثــیـق _________
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو عمر الکندی محمد بن یوسف بن یعقوب من بنی کندہ
“کان اعلم الناس بتاریخ ولہ علم بالحدیث ولانساب “
“یہ لوگوں میں تاریخ حدیث اور انساب کو جاننے والے تھے”
(الاعلام ج 7 ص 148)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال ابو محمد عبداللہ بن احمد الفرغانی :
” کان من اعلم الناس بالبلد و کان من جلة اھل العلم بالحدیث والنسب عالما بکتب الحدیث صحیح الکتاب
ابو محمد عبداللہ بن احمد الفرغانی کہتے ہیں :
” کہ یہ اپنے شہر میں لوگوں سے زیادہ عالم تھے
جلیل القدر اھل علم میں سے حدیث اور نسب کے عالم تھے ان کی کتب صحیح ہیں
“سمع من نسائ”
“انہوں نے نسائ سے سمع حدیث کیا”
(المقفی الکبیر المقریزی ج 7 ص 664)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و تحریر : سید ساجد بخاری
منجانب : ” دفاع مکتب شیعہ خیرالبریہ”




بعض اصحاب النبی رضوان الله علیہم اجمعین فرماتے ہیں:
“حضرت علی علیہ السلام کی بڑی بڑی ایسی کئی نیکیاں ہیں، اگر ان میں سے ایک نیکی لوگوں میں تقسیم کر دی جائے، تو وہ ایک نیکی ہی سب (کی نجات) کے لئے کافی ہو جائے گی”.
(تاریخ مدینة دمشق /ابن عساکر/ جلد 42/ صفحہ 418)


حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے مولا علی علیہ السّلام سے فرمایا:
” اس ذات کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے۔اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ میری امت کے کچھ لوگ وہی نہ کہنا شروع کردیں۔جو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق کہا تھا تو آ ج تیرے متعلق ایسی بات کرتا کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی گزرتا تو تیرے قدموں کی مٹی پکڑتا اور اس کے ذریعے برکت طلب کرتا۔”
حوالہء کتاب : المعجم الکبیر للطبرانی
حدیث انٹرنیشنل نمبرنگ : 944
جلد نمبر : 1
صفحہ نمبر : 475


ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ کا اعتراف کہ حضرت علی علیہ السلام خیر البشر ھیں کوئی اس میں شک کرے وہ کافر ھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد افضل کون؟
.
نبی کریم کے بعد افضل کون ہے؟ اس پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے، ھم یہاں پر اھل سنت عالم، علامہ ابن حزم اندلسی (المتوفی ۴۵۶ ہجری) کا اس بارے میں کلام نقل کرتے ہیں، وہ اپنی مشہور کتاب “الفصل فی الملل والاھواء والنحل” میں لکھتے ہیں:
اختلف المسلمون فيمن هو أفضل الناس بعد الأنبياء عليهم السلام فذهب بعض أهل السنة وبعض أهل المعتزلة وبعض المرجئة وجميع الشيعة إلى أن أفضل الأمة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب وقد روينا هذا القول نصا عن بعض الصحابة رضي الله عنهم وعن جماعة من التابعين والفقهاء
وذهبت الخوارج كلها وبعض أهل السنة وبعض المعتزلة وبعض المرجئة إلى أن أفضل الصحابة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر وعمر وروينا عن أبي هريرة رضي الله عنه أن أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب وبهذا قال عاصم النبيل وهو الضحاك بن مخلد وعيسى بن حاضر قال عيسى وبعد جعفر حمزة رضي الله عنه
وروينا عن نحو عشرين من الصحابة أن أكرم الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب
انبیاء کے بعد لوگوں میں افضل ترین ھستی پر مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے، بعض اہل سنۃ، بعض معتزلۃ، بعض مرجئہ اور تمام شیعہ کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد امت کا افضل ترین شخص حضرت علی بن ابی طالب (علیھما السلام) ہیں، ہم نے یہی قول بعض صحابہ اور تابعین وفقھاء کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔
تمام خوارج، بعض اھل سنۃ، بعض معتزلۃ، اور بعض مرجئہ کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد صحابہ میں افضل جناب ابوبکر اور پھر جناب عمر ہے، نیز ھم نے جناب ابوھریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد سب سے افضل حضرت جعفر بن ابی طالب (علیھما السلام) ہیں، ابوعاصم نبیل ضحاک بن مخلد اور عیسی بن حاضر کا بھی یہی قول ہے، عیسی بن حاضر نے کہا ہے کہ حضرت جعفر کے بعد حضرت حمزہ سب سے افضل ہیں۔
ھم نے تقریبا 20 صحابہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے نزدیک سب سے مکرم ترین انسان حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ ہیں۔
الفصل في الملل والأهواء والنحل ج 4 ص 90 ، اسم المؤلف: علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الطاهري أبو محمد، دار النشر : مكتبة الخانجي – القاهرة
ابن حزم کے اس بیان میں کچھ نکات کی طرف توجہ کریں:
1: امام علی علیہ السلام کو افضل سمجھنے والے
بعض اھل سنت
بعض معتزلۃ
بعض مرجئہ
تمام شیعہ
2: جناب ابوبکر کو افضل سمجھنے والے
تمام خوارج
بعض اھل سنۃ
بعض معتزلۃ
بعض مرجئہ
یاد رکھیں! جناب ابوبکر کی افضلیت کا نظریہ اھل سنت کا اجماعی نہیں ہے، بعض اھل سنت امیرالمومنین حضرت علیؑ کو افضل سمجھتے ہیں اور بعض دیگر اھل سنت جناب ابوبکر کو افضل کہتےہیں۔
جو یہ کہتا ہو کہ جناب ابوبکر کو افضل سمجھنے کا نظریہ اھل سنت کا اجماعی ہے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ چودہ سو سال میں کوئی ایک صدی بھی ایسی نہیں جس میں اھل سنت کا جناب ابوبکر کی افضلیت پر اتفاق ہو۔ ہاں! جناب ابوبکر کی افضلیت کا نظریہ خوارج کے ہاں اجماعی ہے۔ تمام خوارج کا ابن حزم کے بقول اس پر اتفاق ہے۔
ابن حزم اندلسی کے بیان کے مطابق امام علیؑ کو افضل ماننے والے افراد صحابہ میں بھی تھے اور تابعین وفقھاء میں بھی ایک جماعت تھی۔


*الإمام الحافظ المجتهد المطلق أبو محمد ابن حزم الظاهري م456ھ رحمه الله مسئلہ تفضیل پر اپنی کتاب میں بہترین تفصیلی کلام فرماتے ہیں 

اختلف المسلمون فيمن هو افضل الناس بعد الانبياء عليهم السلام فذهب بعض اهل السنة وبعض المعتزلة وبعض المرجئة وجميع الشيعة الى ان أفضل الامة بعدرسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب وقد روينا هذا القول نصاً عن بعض الصحابة رضي الله عنهم وعن جماعة من التابعين والفقهاء وذهبت الخوارج كلها وبعض اهل السنة وبعض المعتزلة و بعض المرجئة الى ان افضل الصحابة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ابو بكر وعمر .
مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد لوگوں میں افضل کون ہے ۔ بعض اہلسنت بعض معتزلہ بعض مرجئہ اور سارے کے سارے شیعہ کا یہ مؤقف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں افضل علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم ہیں ۔ ہم نے یہ قول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و فقہاء کرام کی جماعت سے نقل کیا ۔ پھر فرماتے ہیں سارے کے سارے خوارج بعض اہلسنت بعض معتزلہ بعض مرجئہ کا یہ مؤقف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما افضل ہیں ۔
مزید اختلاف نقل کرتے ہیں!!
وروينا عن ابي هريرة رضي الله عنه ان افضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن ابي طالب وبهذا قال ابو عاصم النبيل وهو الضحاك بن مخلد وعيسى بن حاضر قال عيسى و بعد جعفر حمزة رضي الله عنه .
اور ہم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں اور ایسا ہی ابو عاصم النبیل ( امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بالاتفاق ثقہ محدث ) اور عیسیٰ بن حاضر نے کہا بلکہ عیسیٰ بن حاضر نے کہا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔
وروينا عن نحو عشرين من الصحابة ان اكرم الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب والزبير بن العوام
ہم نے بیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والے علی ابن ابی طالب اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما تھے .
مسئلہ تفضیل پر مزید اختلاف نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں!!
وروينا عن ام المؤمنين عائشة رضي الله عنها مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وثلاث رجال لا يعد احد عليهم بفضل سعد بن معاذ واسيد بن حضير وعباد بن بشر
اور ہم نے سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے روایت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تین آدمیوں سے افضل کوئی نہیں حضرت سعد بن معاذ اسید بن حضیر عباد بن بشر رضی اللہ عنہم اجمعین
وروينا عن ام سلمة ام المؤمنين رضي الله عنها انها تذكرت الفضل ومن هو خير فقالت ومنهو خير من ابي سلمة اول بيت هاجر الى رسول الله صلى الله عليه وسلم
اور ہم نے سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیہا سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا افضل کون ہے تو آپ نے فرمایا ابو سلمہ سے زیادہ افضل کون ہے ؟؟ پہلا گھر جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کی ۔
وروينا عن مسروق بن الاجدع وتميم بن حذلم وابراهيم النخعي وغيرهم ان افضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله مسعود قال تميم وهو من كبار التابعين رأيت ابا بكر وعمر فما رأيت مثل عبد الله بن مسعود
اور ہم نے مسروق بن الاجدع اور تمیم بن حذلم اور ابراہیم نخعی وغیرہ سے روایت کیا کہ لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں تمیم جوکہ کبار تابعین میں سے ہیں انہوں نے فرمایا ہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے لیکن ہم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مثل کسی کو نہیں پایا ۔
وروينا عن بعض من ادرك النبي صلى الله عليه وسلم ان افضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب وانه افضل من ابي بكر رضي الله عنهما
اور ہم نے بعض ان لوگوں سے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا ہے روایت کیا کہ لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہیں ۔
وبلغني عن محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري انه كان يذهب الى هذا القول . قال داود بن علي الفقيه رضي الله عنه أفضل الناس بعد الانبياء اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وافضل الصحابة الاولون من المهاجرين ثم الاولون من الانصار ثم من بعدهم منهم ولا نقطع على انسان منهم بعينه انه افضل من آخر من طبقته ولقد رأينا من متقدمي اهل العلم ممن يذهب الى هـذا القول وقال لي يوسف بن عبد الله بن عبد البر النميري غير مامرة ان هذا هو قوله ومعتقده
مجھے یہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ خبر ملی کہ وہ اس کے قائل ہیں داؤد بن علی الفقیہ نے فرمایا لوگوں میں سب سے افضل انبیاء علیہم السلام کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ہیں اور صحابہ میں سب سے افضل مہاجرین و انصار میں سبقت لے جانے والے ہیں اور پھر انکے بعد والے اور ہم کسی صحابی کے لئے یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے طبقہ کے دوسرے صحابی سے افضل ہے اور ہم نے اہل علم متقدمین کو دیکھا جنکا یہ قول ہے یوسف بن عبداللہ النمیری نے مجھ سے کہا یہ انکا قول اور عقیدہ ہے .
[ الفصل في الملل والأهواء والنِحل 4/ص181/182 ]
خلاصہ کلام یہ ہوا یہ مسئلہ تفضیل پر اتنے اختلاف اور اتنے اقوال کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت اجماعی اور قطعی ہے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے ۔
ہمارے نزدیک مسئلہ تفضیل ایک ظنی اور اجتہادی مسئلہ ہے جس میں دلائل کے ساتھ اختلاف کی گنجائش ہے ۔
*امام مجتہد ابن حزم ظاہری رحمه الله کے کلام سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں*
1 : ابن حزم رحمه الله نے فرمایا بعض اہلسنت کا یہ مؤقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مولا علی علیہ السلام سب سے افضل ہیں اور یہ قول انہوں نے صحابہ و تابعین اور فقہاء کرام کی جماعت سے نقل کیا ۔
2 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور یہی مؤقف ثقہ ثبت محدث ابو عاصم النبیل رحمه الله سے بھی نقل کیا ۔
3 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے 20 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں مولا علی اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کی افضلیت نقل کی ۔
4 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے رسول اللہ ﷺ کے بعد 3 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی افضلیت نقل کی ۔
5 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیہا سے رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو سلمہ اور آپکے گھر والوں کی افضلیت نقل کی ۔ رضی اللہ عنهم
6 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے ابراهيم النخعي ٬ تميم بن حذلم ٬ مسروق بن الاجدع رحمهم الله جیسے جلیل القدر تابعین سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی افضلیت نقل کی ۔
7 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی افضلیت نقل کی ۔
8 : امام ابن حزم ظاہری رحمه الله نے امام حاکم نیشاپوری ٬ داؤد ظاہری ٬ یوسف بن عبداللہ النمیری جیسے جلیل القدر محدثین فقہاء سے یہ قول نقل کیا کہ وہ کسی ہم طبقہ صحابی کو اس کے ہم طبقہ دوسرے صحابی پر تفضیل نہیں دیتے تھے ۔
مسئلہ تفضیل پر اس قدر اختلاف صحابہ و تابعین و محدثین میں اب بھی کوئی اجماع کا دعویٰ کرے تو اللہ اسکو ہدایت دے ۔



.
کتب صحیحین کے راوی عبید اللہ بن موسی العبسی اور یعلی بن عبید بن أبی امیہ کا عقیدہ تفضیل
(امیر المو منین امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام شیخین ؓ سے افضل ہیں
کچھ عرصہ قبل لکھی گئ ایک پرانی تحریر شئر کی جا رہی ھے
کیا مولا علی ؑ کو سب سے افضل سمجھنے والے آج کے علماء ہیں یا یہ عقیدہ اصحاب رسول خدا ﷺ اھلبیت اطہار ؑ تابعین محدثین اور فقھاء کا بھی رہا ھے
تو اس تحریر سے واضح ہو جاۓ گا کہ تابعین اور آئمہ محدثین کے جید شیوخ بھی اسی عقیدے پر اس دنیا سے تشریف لے گئے
ہمارا سوال یہ ھے کہ عقیدہ تفضیل علی ؑ تو کتب اھلسنت سے ثابت ھے تو پھر افضلیت شیخین پر اجماع کیونکر کیا گیا جب کہ ان کی افضلیت پر ہمیں کچھ نہیں ملتا
ان روایات کو ابی العباس احمد بن محمد بن القاسم معروف بہ ابن محرز نے ابن معین کے اقوال سے نقل کیا ھے
پہلے ہم ابن محرز کی توثیق نقل کرتے ہیں اس کے بعد ہم روایات کی طرف آئیں گے
ابن محرز البغدادی کا تعارف اور توثیق
ابن محرز اھلسنت کے ہاں مجہول سمجھا جاتا ھے یا ان کی توثیق نقل نہیں کی گئ اس کا جواب
ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز ان سے ابن معین کے کہے گئے اقوال جو کہ جرح وتعدیل کے متعلق ہیں بیان ہوۓ ہیں
ان سے ابن معین کے اقوال بھی ہیں اور سوالات بھی ہیں
ان اقوال کو محدثین نے قبول کیا ھے جن میں امام الرجال حافظ المزی ابن حجر عسقلانی اور حافظ ذھبی شامل ہیں
ان کے علاوہ بھی محدثین کی ایک جماعت نے ابن محرز سے ابن معین کے اقوال کو اپنی کتب میں نقل کیا ھے
حافظ ذھبی نے اپنی مشہور کتاب میزان الاعتدال میں بھی ابن محرز کے جرح و تعدیل کے متعلق اقوال نقل کیے ہیں
اگر کتب جرح و تعدیل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کسی بھی جرح و تعدیل کے امام نے محض اس بنیاد پر کہ ابن محرز کے واسطہ سے منقول اقوال کو مسترد نہیں کیا
کہ ابن محرز کی توثیق نقل نہیں کی گئ
اب ہم مختصر کرتے ہوۓ ابن محرز کی توثیق نقل کرتے ہیں
ناعبدالرحمن حدثنی أبی حدثنی ابو العباس المحرزی قال سألت علی ابن المدینی عن ابی کعب صاحب الحریر فقال کان یحیی بن سعید یوثقہ
عبدالرحمن ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوالعباد محرزی نے بیان کیا کہتے ہیں علی بن المدینی سے میں نے ابو کعب کے بارے سوال کیابتو انہوں نے کہا کہ یحیی بن سعید القطان ان کی توثیق کرتے تھے
الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم الرازی ج 6ص41
یہاں ابن ابی حاتم کے والد ابو العباس محرز سے روایت کرتے ہیں
ابو حاتم کا صرف ثقات سے روایت کرنا ہی ابن محرز کی توثیق ھے
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ صرف ثقات سے ہی روایات لیتے تھے
حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب پر الارناؤط اور بشار عواد کہتے ہیں
فقد روی عنہ جمع من الثقات منھم ابو داود الرازیان و ھما من تعرف فی شدة التحری
صالح بن سہیل سے ثقات کی ایک جماعت نے روایات کیا ھے جن میں ابوداود نے اپنی سنن میں وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے روایات نہیں کرتے اور ابو زرعہ الرازی اور ابو حاتم بھی یہ دونوں حضرات راویوں کے حالات جاننے میں سخت ہیں
تحریر تقریب التہذیب ج 2 ص 129
علماۓ عرب میں ایک ممتاز شخصیت ہے ابو اسحاق الحویني ہیں جو روایت حدیث و کتاب کے بارے میں کہتے ہیں
وكذلك ابن محرز وهو أبو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز راوي كتاب “معرفة الرجال” وهو سؤالاته لابن معين في “الجرح والتعديل” ولا اعرفه له بجرح ولا تعديل، ولم أجد له ترجمة فيما بين يدي من المراجع ومع ذلك فالعلماء ينسبون الكلام لابن معين بروايته وما علمت أحدا توقف في قبوله والأمثلة على ذلك تطول
. نثل النبال بمعجم الرجال الذين
ترجم لهم الشيخ المحدث أبو إسحاق الحويني
ج 1 ص 176
اسی طرح ابن محرز کا معاملہ ہے، جو ابو عباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز کتاب معرفۃ الرجال کا راوی ہے جس میں اُنھوں نے ابن معین سے جرح و تعدیل کی بابت (اقوال) کیے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں جرح یا تعدیل کا کوئی علم نہیں۔ میری دسترس میں موجود مراجع میں اس کا ترجمہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود علماء اس کی وساطت سے ابن معین کی طرف قول کو منسوب کرتے ہیں۔ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اسے قبول کرنے میں توقف کیا ہو۔ اس بارے میں مثالوں کا ذکر ہی طوالت کا باعث ہے۔
ان اقوال سے ثابت ہو گیا کہ آئمہ جرح و تعدیل نے ابن محرز کے معرفة الرجال میں ابن معین کے اقوال کو قبول کیا ھے
اب آتے ہیں ان روایات کی طرف جس میں امیرالمومنین علی ؑ کو ابو بکر ؓ و عمر ؓ سے افضل قرار دیا گیا ھے
۸۸۱ – سمعت يحيى بن معين يقول : سمعت يعلى بن عبيد يقول :
كان أبي يقدم علياً على أبي بكر وعمر وهذا رأيي .
ابن محرز کہتے ہیں میں نے یحیی ابن معین سے سنا انہوں نے کہا کہ میں نے یعلی بن عبید سے سنا کہ انہوں نے کہا میرے والد علی ؑ کو ابو بکر و عمر پر فوقیت دیتے تھے اور میری بھی یہی راۓ ھے
معرفة الرجال لابن معین ج 1 ص 159
,,,,
(یعلی بن عبید کی توثیق )
نام یعلی بن عبید بن ابی امیہ
کنیت ابو یوسف
میلاد 117 ھجری
متوفی 209 یا 207 ھجری
قال ذھبی فی سیر اعلام النبلاء
یعلی بن عبید ابن امیہ الحافظ الثقہ الامام ابو یوسف الطنافسی الکوفی
ذھبی کہتے ہیں کہ یعلی بن عبید بن امیہ ابو یوسف الطنافسی حافظ ثقہ امام محدث ہیں
قال احمد بن حنبل کان صحیح الحدیث صالحا فی نفسہ
احمد بن حنبل کہتے ان کی احادیث صحیح ہیں اور یہ خود صالح ہیں
روی الکوسج عن یحیی ابن معین
اسحاق الکوسج ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا یہ ثقہ ہیں
قال احمد بن عبداللہ بن یونس ما رأیت أفضل من یعلی بن عبید و مارأیت أحدا یرید بعلمہ اللہ الا یعلی بن عبید
احمد بن عبداللہ بن یونس کہتے ہیں میں نے یعلی بن عبید سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور میں نے یعلی بن عبید سے زیادہ علم حاصل کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا
قال أحمد بن الفرات ما رأیت یعلی ضاحکا قط
احمد بن الفرات کہتے ہیں میں نے یعلی بن عبید کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا
سیر اعلام النبلاء ج 9 ص 479 طبقة العاشرہ
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر کتاب ثقات میں کیا ھے
تہذیب الکمال ج 32 ص 389
قال دار قطنی بنو عبید کلھم ثقات
دارقطنی جو کہ امام حاکم کے شیخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ بنو عبید تمام ثقات میں سے ہیں
تہذیب التہذیب ج 4 ص 450
محمدبن سعد کاتب واقدی
کان ثقہ کثیر الحدیث
محمد بن سعد کاتب واقدی کہتے ہیں یہ ثقہ اور ان کی احادیث کثرت سے ہیں
تہذیب التہذیب ج 4 ص 450
ابن ابی حاتم جرح و تعدیل میں نقل کرتے ہیں
حدثنا عبدالرحمن قال سألت ابی عن یعلی بن عبید فقال صدوق کان أثبت اولاد ابیہ فی الحدیث
عبدالرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے یعلی بن عبید کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا وہ صدوق سچے ہیں وہ حدیث میں اپنے والد اور ان کے بیٹوں یعنی اپنے بھائیوں سے زیادہ ثبت ہیں
جرح و تعدیل لابن ابی حاتم ج 9 ص 304
۸۸۳ – سمعت يحيى بن معين يقول : سمعت عبيد الله بن موسى
يقول : ما كان أحد يشك في أن عليا أفضل من أبي بكر وعمر .
سمعت يحيى بن معين يقول : جاء رجل الى عبيد الله بن موسى فقال له : أيما كان أفضل علي أو أبو بكر وعمر ؟ فسمعت عبيد الله بن موسى
يقول ما كان أحد يشك أن عليا أفضل من أبي بكر وعمر
میں نے یحیحی ابن معین کو کہتے سنا کہ انہوں نے کہا میں عبید اللہ بن موسی کو کہتے سنا کہ علی ؑ ابو بکر ؓ و عمر ؓ سے افضل ہیں اس میں کسی نے شک نہیں کیا
میں نے ابن معین کو کہتے سنا کہ ایک شخص عبید اللہ بن موسی کے پاس آیا اس نے کہا کہ کون افضل تھا علی ؑ یا ابو بکر ؓ اور عمر ؓ
؟ تو میں نے عبید اللہ بن موسی کو کہتے سنا اس میں شک نہیں کہ علی ؑ ابو بکرؓ و عمر ؓ سے افضل ہیں
معرفة الرجال لابن معین ج 1 ص 159 حدیث 883
عبید اللہ بن موسی العبسی کی توثیق
عبید اللہ بن موسی بن ابی المختار واسمہ باذام العبسی مولاھم ابو محمد الکوفی
قال ابو بکر بن أبی خثیمہ عن یحیی ابن معین ثقہ
ابن معین کہتے ہیں یہ ثقہ ہیں
قال ابو حاتم صدوق ثقہ حسن الحدیث
ابو حاتم کہتے ہیں یہ سچے ثقہ اور ان کی احادیث حسن ہیں
وعبید اللہ أثبتھم فی اسرائیل
اور عبید اللہ اسرائیل سے زیادہ ثبت ہیں
جرح و تعدیل ج 5 رقم 1582
قال احمدبن عبداللہ العجلی کان عالماً بالقرآن
عجلی کہتے ہیں یہ ثقہ ہیں اور قرآن کے عالم تھے
تاریخ اسماء الثقات ص 36
قال ابن سعد ثقہ صدوق کثیر الحدیث
تہذیب الکمال ج 19 ص 164
قال ذھبی فی سیر اعلام النبلاء
عبید اللہ بن موسی العبسی الامام الحافظ العابد
اول من صنف المسند علی ترتیب الصحابہ بالکوفہ
ثقہ ابن معین و جماعة و حدیثہ فی الکتب الستة
ذھبی کہتے ہیں عبید اللہ بن موسی العبسی عبادت کرنے والے امام اور حافظ تھے کوفہ میں سب سے پہلےصحابہ کی ترتیب کے ساتھ مسند کو انہوں نے تصنیف کیا
ابن معین نے ثقہ قرار دیا ھے اور ان کی حدیث کتب ستہ میں نقل ہیں
سیر اعلام النبلاء ج 9 ص 554
تحقیق سید ساجد بخاری النقوی
.
.
.
امام ابوالحسن اشعری لکھتے ہیں کہ :
” اور شیعہ کی ان تین قسموں کا ہم ذکر کر چکے ہیں اور کہ چکے ہیں کہ اُن پر شیعت کا اطلاق ہوتا ہے ایک فرقہ الزیدیہ کا ہے ۔
شیعہ الزیدیہ کو الزیدیہ کیوں کہا جاتا ہے؟؟
امام ابوالحسن اشعری لکھتے ہیں کہ :
” انہیں الزیدیہ اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؑ کے اقوال کو حجت مانتے ہیں ۔ “
زید بن علیؑ کا عقیدہِ افضلیت
امام ابوالحسن اشعریؒ لکھتے ہیں کہ :
” زید بن علی کی ہشام بن عبدالمالک کے زمانہ میں کوفہ میں بیعت ہوئی اس وقت کوفہ کا امیر یوسف بن عمر الثقفی تھا ۔ یہ ( امام زید بن علیؑ ) علی بن ابی طالبؑ کو تمام صحابہ سے افضل سمجھتے تھے ۔ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے دوستی کے قائل تھے ۔ نیز ظالم آیمہ کے خلاف بغاوت و خروج کو جائز ٹہراتے تھے ۔ “
اُمت محمدیﷺ میں پہلے روفض کون ؟؟
امام ابوالحسن اشعری لکھتے ہیں کہ :
” انہوں نے اپنے ماننے والوں کا کوفہ میں سامنا کیا جنہوں نے اُن کی بیعت کر رکھی تھی تو انہوں نے یہ سنا کہ اُن میں سے کچھ لوگ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعنہ ظن ہیں ۔ انہوں نے اُن کو روکا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن لوگوں نے اُن سے رفض یا علیدگی اختیار کر لی انہوں نے جب یہ دیکھا تو کہا :
رفضتمونی تم نے مجھے چھوڑ دیا ۔ (امام ابوالحسن اشعری لکھتے ہیں ) کہا جاتا ہے کہ اُن کو
* روافض * اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ زید نے اُن کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ۔ “
کتاب : مسلمانوں کے عقائد و افکار یعنی
مقالاتِ اسلامین ، جلد/اول، صفحہ نمبر / 70
———————-
علیؑ سب سے افضل
——-
الملل والنحل
میں محمد بن عبد الكريم الشهرستاني لکھتے ہیں کہ :
” اُن ( امام زید بن علیؑ ) کا مذہب یہ تھا کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت درست ہے سو انہوں نے کہا : علی بن ابر طالبؑ سب صحابہ سے افضل تھے مگر یہ کہ خلافت ابوبکر صدیقؓ کو سونپی گئی ( وہ ) کسی مصلحت کے تحت تھی جس کو انہوں نے مدنظر رکھا اور کسی قاعدہ دینیہ کے مطابق تھی جس کی انہوں نے پابندی کی ۔ “
الملل والنحل ۔ صفحہ نمبر / 180
******
علیؑ سب سے افضل
——————–
محمد أبو زهرة لکھتے ہیں کہ :
كان من مذهب زيد
جواز إمامة المفضول مع قيام الأفضل، فقال (أي زيد) كان على بن أبي طالب أفضل الصحابة إلا أن الخلافة فوضت إلى أبي بكر لمصلحة رأوها، وقاعدة دينية راعوها من تسكين ثائرة الفتنة،
عنوان الكتاب: الإمام زيد حياته وعصره آراؤه وفقهه
المؤلف: محمد أبو زهرة
الناشر: دار الفكر العربي- القاهرة
.
.
.
صحیحین کے متفقہ علیہ راوی
جناب الحکم بن عتیبہ تفضیل امیر المومنین علی ؑ کے قائل تھے اور جناب امیرالمومنین علی ؑ کو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے افضل سمجھتے تھے
اس سے ثابت ہوتا ھے کہ عقیدہ تفضیل میں شیعہ امامیہ یا پھر تفضیلی حضرات کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ
یہ عقیدہ تو کبار اصحاب رسول خدا ﷺ اور فقھاء و تابعین و محدثین کا رہا ھے
حافظ ذھبی سیر اعلام النبلاء میں
الحکم بن عتیبہ کے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں
حدثنا سليمان الشاذكوني ، حدثنا يحيى بن سعيد ، سمعت شعبة يقول كان الحكم يفضل عليا على أبي بكر وعمر
سلیمان الشاذکونی یحیی بن سعید سے حدیث بیان کرتے ہیں انہوں نے شعبہ سے سنا شعبہ نے کہا کہ حکم بن عتبہ امیر المومنین علی ؑ کو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دیتے تھے
سیر اعلام النبلاء ج 5 ص 238
اس روایت میں یحیی بن سعید اور شعبہ بن الحجاج متفقہ علیہ ثقہ ثبت حافظ امام فی الحدیث ہیں
ہم یہاں صرف الحکم بن عتبہ اور سیلمان الشاذکونی کی توثیق پیش کریں گے
حافظ ذھبی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک کلام خود کرتے ہیںن
قلت : الشاذكوني ليس بمعتمد وما أظن أن الحكم يقع منه هذا .
کہتے ہیں کہ شاذکونی معتمد نہیں ہیں اور اس حکم کو بیان کرنے میں انہوں نے قیاس سے کام لیا ھے
پہلے ہم الحکم بن عتبہ کی توثیق بیان کرتے ہیں اس کے بعد ہم بیان کریں کے کہ ذھبی خود ہی الشاذکونی کو عالم سمجھتے ہیں اور ان کا یہ قول صرف بغض کا نتیجہ ھے
#الحکم_بن_عتیبہ_کی_توثیق
حدثنا عبدالرحمن قال سمعت ابی یقول الحکم بن عتبہ ثقہ
عبدالرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے کہا کہ الحکم بن عتبہ ثقہ ہیں
جرح و تعدیل ج 3 ص 123
قال عبداللہ بن أحمد بن حنبل سألت أبی من أثبت الناس فی أبراھیم قال الحکم من عتبہ ثم منصور
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد احمد سے سوال کیا کہ لوگوں میں ابراھیم النخعی میں سب سے زیادہ ثبت کون ھے
انہوں نے کہ الحکم بن عتبہ پھر منصور
تہذیب الکمال ج 7 ص 114
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
تہذیب التہذیب ج 1ص 464
قال ابن حجر تابعی صغیر من فقھاء الکوفہ
ابن حجر کہتے ہیں یہ کم درجہ کے تابعی ہیں اور کوفہ کے مشہور فقیہ ہیں
تعریف اھل التقدیس ج 1ص 107
قال الذھبی عابد ثقہ صاحب السنة
ذھبی کہتے ہیں یہ عابد سنت کی اتباع کرنے والے عبادت گزار ہیں
الکاشف ج 2 ص 304
یعقوب بن سفیان کان فقیھا ثقہ
یعقوب بن سفیان کہتے ہیں یہ فقیہ اور ثقہ ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال عباس الدوری
کان صاحب عبادة والفضل
عباس الدوری کہتے ہیں یہ عبادت و فضیلت والے ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال ابن مھدی
الحکم۔بن عتبہ ثقہ ثبت
ابن مھدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ و ثبت ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال ابن سعد
کان ثقہ فقیھا عالما رفیعا کثیر الحدیث
محمد بن سعد کہتے ہیں یہ کثرت سے حدیث بیان کرنے والے فقیہ ثقہ عالم ہیں
تہذیب الکمال ج 4ص 99
#الشاکوذنی_پر_جرح_کا_جواب
اس قول کو چونکہ الشاکوذنی نے روایت کیا
اس پر بخاری نے فیہ نظر
ابن معین نے کذب نسائ نے لیس بثقہ اور ابو حاتم الرازی نے
منکر کی جرح کر رکھی ھے
اگر ہم اصول حدیث پہ آئیں تو یہ تینوں ہی متشددین میں سے ہیں سواۓ بخاری کے
متشددین کی جرح قابل قبول نہیں ھے چونکہ
جن ائمہ محدثین کا جرح کرنے میں تشدد، تعنت ہو ان کی تعدیل وتوثیق بہت وزن رکھتی ہے لیکن ان کی جرح زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے اس لیے کسی راوی پر محض ان کی جرح سے فیصلہ ضعف نہ کرلیا جائے، متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہوتی، جس راوی پر کسی متشدد کی جرح ہو اس کی جرح کا حال دوسرے ائمہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
اس لیے اس پر کسی دوسرے جرح وتعدیل کے عالم نے جرح نہیں کی سواۓ بخاری کے جو کہ یہ ھے کہ ان میں غور و فکر کی گنجائش ھے اس کا جواب بھی ہم اس کی توثیق میں دے دیں گے کہ عبدان الاھوازی نے اس چیز کا رد کیا ھے
#الشاذکونی_کی_توثیق
ذھبی سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں الشاذکونی العالم الحافظ البارع ابو ایوب سلیمان بن داود بن بشر المنقری البصری
سیلمان بن داود بن بشر بصرہ عالم اور حافظ ہیں
قال حنبل سمعت ابا عبداللہ یقول کان أعلمنا بالرجال یحیی ابن معین و أحفظنا لابواب سلیمان الشاذکونی و علی بن المدینی أحفظت للطوال
حنبل کہتے ہیں میں نے ابا عبداللہ سے سنا کہ رجال میں سب سے زیادہ عالم یحیی ابن معین تھے جبکہ ابواب کے سب سے بڑے حافظ شاذکونی تھے اور علی بن المدینی بڑی احادیث کے حافظ تھے
قال عباس العنبری اسئل أبہما کان أعلم بالحدیث
ابن المدینی او الشاذکونی
قال ابن الشاکونی الصغیر الحدیث و علی بجلیلہ
عباس العنبری نے اپنے والد سے سوال کیا ھے کہ الشاذکونی اور ابن المدینی میں کون حدیث کا بڑا عالم ھے
انہوں نے کہا کہ شاذکونی حدیث کو کم جاننے والے اور علی زیادہ جاننے والے تھے
سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 679
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
قابل ابن عدی قال محمد موسی السواق قال ابن الشاذکونی کوفی لما حضرتہ الوفاة اللھم ما أعتذر إلیک فانی لا أعتذر إنی ما قذفت محصنة ولا دلست حدیث
ابن عدی کہتے ہیں کہ محمد بن موسی السواق نے کہا کہ جب ابن الشاذکونی کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے کہا میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نے کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائ ہو یا حدیث میں تدلیس کی ہو
و ساق لہ ابن عدی أحادیث فولف فہیما ثم قال والشاذکونی حدیث کثیر مستقیم و ھو من الحفاظ المعدودین ما أشبہ أمرہ بما قال عبدان محدث حفظاً فیغلط
ابن عدی نے ان کے حوالے سے کچھ ایسی روایات نقل کی ہیں ، جن میں ان کی روایت ) کے برخلاف نقل کیا گیا ہے، پھر انہوں نے یہ کہا شاذ کونی سے بہت سی مستقیم احادیث منقول ہیں، وہ گنے چنے حافظان حدیث میں سے ایک ہیں ، ان کی صورت حال یہ ہے جیسا
کہ عبدان نے کہا ہے: یہ حافظہ کی بنیاد پر حدیث بیان کرتے ہوئے غلطی کر جاتے ہیں
میزان الاعتدال ج 3 ص 285
دوسری بات ھے کہ یہ ایک قول ھے نہ حدیث کہ اس پر جرح قبول کی جاۓ
تحقیق سید ساجد بخاری النقوی
جناب الحکم بن عتیبہ تفضیل امیر المومنین علی ؑ کے قائل تھے اور جناب امیرالمومنین علی ؑ کو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے افضل سمجھتے تھے
اس سے ثابت ہوتا ھے کہ عقیدہ تفضیل میں شیعہ امامیہ یا پھر تفضیلی حضرات کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ
یہ عقیدہ تو کبار اصحاب رسول خدا ﷺ اور فقھاء و تابعین و محدثین کا رہا ھے
حافظ ذھبی سیر اعلام النبلاء میں
الحکم بن عتیبہ کے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں
حدثنا سليمان الشاذكوني ، حدثنا يحيى بن سعيد ، سمعت شعبة يقول كان الحكم يفضل عليا على أبي بكر وعمر
سلیمان الشاذکونی یحیی بن سعید سے حدیث بیان کرتے ہیں انہوں نے شعبہ سے سنا شعبہ نے کہا کہ حکم بن عتبہ امیر المومنین علی ؑ کو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دیتے تھے
سیر اعلام النبلاء ج 5 ص 238
اس روایت میں یحیی بن سعید اور شعبہ بن الحجاج متفقہ علیہ ثقہ ثبت حافظ امام فی الحدیث ہیں
ہم یہاں صرف الحکم بن عتبہ اور سیلمان الشاذکونی کی توثیق پیش کریں گے
حافظ ذھبی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک کلام خود کرتے ہیںن
قلت : الشاذكوني ليس بمعتمد وما أظن أن الحكم يقع منه هذا .
کہتے ہیں کہ شاذکونی معتمد نہیں ہیں اور اس حکم کو بیان کرنے میں انہوں نے قیاس سے کام لیا ھے
پہلے ہم الحکم بن عتبہ کی توثیق بیان کرتے ہیں اس کے بعد ہم بیان کریں کے کہ ذھبی خود ہی الشاذکونی کو عالم سمجھتے ہیں اور ان کا یہ قول صرف بغض کا نتیجہ ھے
#الحکم_بن_عتیبہ_کی_توثیق
حدثنا عبدالرحمن قال سمعت ابی یقول الحکم بن عتبہ ثقہ
عبدالرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے کہا کہ الحکم بن عتبہ ثقہ ہیں
جرح و تعدیل ج 3 ص 123
قال عبداللہ بن أحمد بن حنبل سألت أبی من أثبت الناس فی أبراھیم قال الحکم من عتبہ ثم منصور
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنے والد احمد سے سوال کیا کہ لوگوں میں ابراھیم النخعی میں سب سے زیادہ ثبت کون ھے
انہوں نے کہ الحکم بن عتبہ پھر منصور
تہذیب الکمال ج 7 ص 114
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
تہذیب التہذیب ج 1ص 464
قال ابن حجر تابعی صغیر من فقھاء الکوفہ
ابن حجر کہتے ہیں یہ کم درجہ کے تابعی ہیں اور کوفہ کے مشہور فقیہ ہیں
تعریف اھل التقدیس ج 1ص 107
قال الذھبی عابد ثقہ صاحب السنة
ذھبی کہتے ہیں یہ عابد سنت کی اتباع کرنے والے عبادت گزار ہیں
الکاشف ج 2 ص 304
یعقوب بن سفیان کان فقیھا ثقہ
یعقوب بن سفیان کہتے ہیں یہ فقیہ اور ثقہ ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال عباس الدوری
کان صاحب عبادة والفضل
عباس الدوری کہتے ہیں یہ عبادت و فضیلت والے ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال ابن مھدی
الحکم۔بن عتبہ ثقہ ثبت
ابن مھدی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ و ثبت ہیں
تہذیب التہذیب ج 1ص 466
قال ابن سعد
کان ثقہ فقیھا عالما رفیعا کثیر الحدیث
محمد بن سعد کہتے ہیں یہ کثرت سے حدیث بیان کرنے والے فقیہ ثقہ عالم ہیں
تہذیب الکمال ج 4ص 99
#الشاکوذنی_پر_جرح_کا_جواب
اس قول کو چونکہ الشاکوذنی نے روایت کیا
اس پر بخاری نے فیہ نظر
ابن معین نے کذب نسائ نے لیس بثقہ اور ابو حاتم الرازی نے
منکر کی جرح کر رکھی ھے
اگر ہم اصول حدیث پہ آئیں تو یہ تینوں ہی متشددین میں سے ہیں سواۓ بخاری کے
متشددین کی جرح قابل قبول نہیں ھے چونکہ
جن ائمہ محدثین کا جرح کرنے میں تشدد، تعنت ہو ان کی تعدیل وتوثیق بہت وزن رکھتی ہے لیکن ان کی جرح زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے اس لیے کسی راوی پر محض ان کی جرح سے فیصلہ ضعف نہ کرلیا جائے، متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہوتی، جس راوی پر کسی متشدد کی جرح ہو اس کی جرح کا حال دوسرے ائمہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
اس لیے اس پر کسی دوسرے جرح وتعدیل کے عالم نے جرح نہیں کی سواۓ بخاری کے جو کہ یہ ھے کہ ان میں غور و فکر کی گنجائش ھے اس کا جواب بھی ہم اس کی توثیق میں دے دیں گے کہ عبدان الاھوازی نے اس چیز کا رد کیا ھے
#الشاذکونی_کی_توثیق
ذھبی سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں الشاذکونی العالم الحافظ البارع ابو ایوب سلیمان بن داود بن بشر المنقری البصری
سیلمان بن داود بن بشر بصرہ عالم اور حافظ ہیں
قال حنبل سمعت ابا عبداللہ یقول کان أعلمنا بالرجال یحیی ابن معین و أحفظنا لابواب سلیمان الشاذکونی و علی بن المدینی أحفظت للطوال
حنبل کہتے ہیں میں نے ابا عبداللہ سے سنا کہ رجال میں سب سے زیادہ عالم یحیی ابن معین تھے جبکہ ابواب کے سب سے بڑے حافظ شاذکونی تھے اور علی بن المدینی بڑی احادیث کے حافظ تھے
قال عباس العنبری اسئل أبہما کان أعلم بالحدیث
ابن المدینی او الشاذکونی
قال ابن الشاکونی الصغیر الحدیث و علی بجلیلہ
عباس العنبری نے اپنے والد سے سوال کیا ھے کہ الشاذکونی اور ابن المدینی میں کون حدیث کا بڑا عالم ھے
انہوں نے کہا کہ شاذکونی حدیث کو کم جاننے والے اور علی زیادہ جاننے والے تھے
سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 679
ذکرہ ابن حبان فی کتاب الثقات
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
قابل ابن عدی قال محمد موسی السواق قال ابن الشاذکونی کوفی لما حضرتہ الوفاة اللھم ما أعتذر إلیک فانی لا أعتذر إنی ما قذفت محصنة ولا دلست حدیث
ابن عدی کہتے ہیں کہ محمد بن موسی السواق نے کہا کہ جب ابن الشاذکونی کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے کہا میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نے کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائ ہو یا حدیث میں تدلیس کی ہو
و ساق لہ ابن عدی أحادیث فولف فہیما ثم قال والشاذکونی حدیث کثیر مستقیم و ھو من الحفاظ المعدودین ما أشبہ أمرہ بما قال عبدان محدث حفظاً فیغلط
ابن عدی نے ان کے حوالے سے کچھ ایسی روایات نقل کی ہیں ، جن میں ان کی روایت ) کے برخلاف نقل کیا گیا ہے، پھر انہوں نے یہ کہا شاذ کونی سے بہت سی مستقیم احادیث منقول ہیں، وہ گنے چنے حافظان حدیث میں سے ایک ہیں ، ان کی صورت حال یہ ہے جیسا
کہ عبدان نے کہا ہے: یہ حافظہ کی بنیاد پر حدیث بیان کرتے ہوئے غلطی کر جاتے ہیں
میزان الاعتدال ج 3 ص 285
دوسری بات ھے کہ یہ ایک قول ھے نہ حدیث کہ اس پر جرح قبول کی جاۓ
تحقیق سید ساجد بخاری النقوی
.
.
.