1
علی رسالت کے واحد گواہ اور اول ایمان لانے والے






2
السلام علیکم تحفہ یاعلی علیہ السلام مدد…
جیسا کہ تمام جانتے ہیں کہ تاریخ بغداد میں موجود صحیح السند روایت سے ثابت ہے کہ جب من کنت مولا کا اعلان ہوا تو الیوم اکملت والی آیت نازل ہوئی.
لیکن اب قارئین کی خدمت میں یہ صحیح روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ یا ایھا الرسول بلغ (سورہ مائدہ آیت 67) بھی جناب امیر المومنین ع کے حق میں نازل ہوئی..
ملاحظہ کیجئے صحیح حدیث:
أخبرنا أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو حامد الأزهري أنا أبو محمد المخلدي أنا أبو بكر محمد بن حمدون نا محمد بن إبراهيم الحلواني نا الحسن بن حماد سجادة نا علي بن عابس عن الأعمش وأبي الجحاف عن عطية عن أبي سعيد الخدري قال نزلت هذه الاية ( يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك) على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.
ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ جب سورہ مائدہ کی آیت 67 کہ اے رسول پہنچا دے وہ پیغام جو تیرے رب کی طرف سے نازل کیا گیا غدیر خُم کے دن جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع کے حق میں نازل ہوئی.
(تاریخ مدینہ دمشق جلد 42 ص 237)
سند کی تحقیق:
——————————————-
پہلا راوی: ابو بكر وجيه بن طاهر.
امام ذہبی لکھتے ہیں:
الشيخ العالم العدل مسند خراسان أبو بكر أخو زاهر الشحامي النيسابوري من بيت العدالة والرواية.
یہ عدالت اور روایت کے گھرانے میں سے تھے.
(سیر اعلام النبلاء جلد 20 ص 109)
———————————————-
دوسرا راوی: أبو حامد الأزهري.
عبدالغافر فارسی انکو ثقہ کہتے ہیں.
(طبقات رواۃ الحدیث بخراسان فی القرن الخامس الھجری جلد 2 ص 852)
امام ذہبی لکھتے ہیں:
العَدْلُ المُسْنِدُ الصَّدُوْقُ أَبُو حَامِدٍ؛ أَحْمَدُ بنُ الحسن بن محمد ابن الحَسَنِ بنِ أَزْهَر الأَزْهَرِيُّ النَّيْسَابُوْرِيُّ الشُّروطِيُّ مِنْ أَوْلاَد المُحَدِّثِيْنَ.
(سیر اعلام النبلاء جلد 18 ص 254)
——————————————-
تیسرا راوی: ابو محمد المخلدی:
امام ذہبی لکھتے ہیں:
الإمام الصدوق المسند أبو محمد ، الحسن بن أحمد بن محمد بن الحسن بن علي بن مخلد بن شيبان المخلدي النيسابوري العدل ، شيخ العدالة ، وبقية أهل البيوتات ..
صدوق امام ہیں, عدالت کے شیخ ہیں اور عدل کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.
مزید ذہبی نے امام حاکم کا قول لکھا ہے کہ:
قال الحاکم : هو صحيح السماع والكتب ، متقن في الرواية.
انکا سماع اور کتب صحیح ہیں اور یہ روایت کے معاملہ میں اتقان رکھتے ہیں.
(سیر اعلام النبلاء جلد 16 ص 540)
———————————————-
چوتھا راوی: محمد بْن حمدون بْن خَالِد النَّيْسابوريّ، أبو بَكْر:
امام ذہبی لکھتے ہیں:
أحد الثقات الرّحّالين..
مزید امام حاکم کا قول لکھتے ہیں:
قال الحاكم:كان من الثقات الأثبات..
(تاریخ اسلام جلد 7 ص 374 رقم 479)
——————————————
پانچواں راوی: محمد بن إبراهيم بن عبد الحميد، أبو بكر الحلواني:
امام ابوبکر خطیب بغدادی اسے ثقہ کہتے ہیں.
(تاریخ بغداد جلد 1 ص 415 رقم 369)
امام ابن عساکر اسے ثقہ کہتے ہیں .
(تاریخ ابن عساکر جلد 51 ص 215 رقم 6044)
ابن الجوزی اسے ثقہ کہتے ہیں.
(المنتظم جلد 12 ص 279)
—————————————-
چھٹا راوی: الحسن بن حماد سجادة:
امام ابوبکر خطیب بغدادی اسے ثقہ کہتے ہیں.
(تاریخ بغداد جلد 8 ص 248 رقم 3755)
امام ذہبی اسے ثقہ کہتے ہیں.
(الکاشف رقم 1024)
ابن حبان نے اسے ثقات میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے تقریب میں اسے صدوق قرار دیا ہے.
————————————–
ساتواں راوی: علی بن عابس:
امام دارقطنی اسکو معتبر قرار دیتے ہیں.
(سوالات البرقانی للدارقطنی ص 52 رقم 264)
امام بخاری اسے مقارب الحدیث(قوی) قرار دیتے ہیں.
(ترتیب علل الترمذی الکبیر ص 72, الجامع فی الجرح والتعدیل جلد 2 ص 233)
امام ابن عدی لکھتے ہیں:
ولعلی بن عابس احادیث حسان.
علی بن عابس کی احادیث حسن ہیں.
(الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 5 ص 190 طبع دارالفکر)
علی بن عابس پر کچھ کی جانے جروح کا جواب:
ابن حبان کہتے ہیں:
كان ممن فحش خطؤه وكثر وهمه فيما يرويه فبطل الاحتجاج بہ.
یہ بہت فحش غلطیاں کرتا تھا اور اکثر اسکو ان روایات میں وہم ہوتا جنکو یہ روایت کرتا پس اس سے احتجاج باطل ہے.
(المجروحین جلد 2 ص 79)
ابن حبان کی انفرادی جرح مقبول نہیں کیونکہ یہ متشدد ہیں.
امام ذہبی افلح بن سعید کے حالات میں لکھتے ہیں:
ابن حبان ربما قصب الثقة حتى كأنه لا يَدري.
ابن حبان ثقہ راویوں پہ بھی جرح کردیتا ہے اور نہیں دیکھتا کہ کیا کررہا ہے.
(میزان الاعتدال)
امام عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
فإنّك قد عرفت سابقاً أنّ ابن حبان معدود ممن له تعنت وإسراف في جرح الرجال….
(الرفع والتکمیل ج1 ص 355)
علامہ شعیب ارنووط لکھتے ہیں:
قد أشار الأئمة إلي تشدده وتعنته في الجرح..
(صحیح ابن حبان جلد 1 ص 36)
ڈاکٹر عدنان بن محمد شاش لکھتے ہیں:
کما اشتھر انہ متشدد فی التجریح.
ابن حبان جرح میں متشدد مشہور ہیں.
(شیخ الاسلام.ابن تیمیہ محدثا صفحہ 328)
محمد طاہر الجوابی لکھتے ہیں:
عبدالفتاح ابو غدۃ فاثبت انہ… متشدد فی الجرح..
عبدالفتاح نے کہا پس یہ ثابت ہے کہ ابن حبان جرح میں متشدد ہیں.
(الجرح والتعدیل بین المتشددین والمتساہلین صفحہ 461)
امام ناصر الدین البانی بھی کہتے ہیں کہ جرح کے معاملہ میں ابن حبان متشدد ہیں.
(سلسلہ احادیث الضعیفہ جلد 12 ص 180 طبع ریاض)
لہذا ابن حبان کی انفرادی جرح مردود ہے.
دوسری جرح علی بن عابس پہ منکر الحدیث کی ہے جو کہ ابوزرعہ نے کی ہے لیکن یہ جرح بھی مردود ہے جیسا کہ امام ذہبی احمد بن عتاب المروزی کے حالات میں لکھتے ہیں:
ما كل من روي المناكير يضعّف.
ہر وہ راوی جو منکر روایات نقل کرتا ہو وہ (مطلقا) ضعیف نہیں.
(میزان الاعتدال جلد 1 ص 259)
ابن حجر عسقلانی حسین بن فضل بجلی کے حالات میں لکھتے ہیں:
فلو كان كل من روي شيئاً منكراً استحق أن يذكر في الضعفاء، لما سلم من المحدثين أحد.
پس اگر ہر وہ راوی جو منکر روایات نقل کرے وہ ضعیف کہلانے کا مستحق ہو تو محدثین میں سے کوئی بھی سلامت نہیں رہے گا.
(لسان المیزان جلد 2 ص 307)
امام سخاوی لکھتے ہیں:
وقد يطلق ذلك [منكر الحديث] علي الثقة إذا روي المناكير عن الضعفاء.
منکر الحدیث کا اطلاق ثقہ پہ بھی ہوتا ہے جو ضعیف راویوں سے منکر روایات نقل کرے.
(فتح المغیث جلد 1 ص 373 طبع دارالکتب العلمیہ)
لہذا یہ جرح بھی راوی کو مردود قرار نہیں دیتی اور باقی سب نے فقط ضعیف ضعیف کی رٹ لگائی ہے جو کہ جرم مبہم ہے لہذا علی بن عابس معتبر راوی ہے اور اس پہ جرح ثابت نہیں.
—————————————–
آٹھواں راوی: اعمش اور ابی الجحاف:
سلیمان الاعمش کسی تعارف کے محتاج نہیں یہ بخاری مسلم کے راوی ہیں اور اہل سنت میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں.
دوسرا راوی: ابی الحجاف:
امام ذہبی لکھتے ہیں:
داود بن أبي عوف أبو الجحاف البرجمي مولاهم الكوفي عن أبي حازم الأشجعي وشهر وعنه السفيانان وعلي بن عابس وثقه أحمد ويحيى وقال أبو حاتم صالح الحديث قليله .
امام احمد اور یحی بن معین نے اسکو ثقہ کہا اور ابوحاتم نے صالح الحدیث قرار دیا.
(الکاشف جلد 1 ص 381 رقم 1457)
——————————————
نواں راوی: عطیہ بن سعد العوفی.
یہ ثقہ اور حسن الحدیث درجہ کا راوی ہے اس پہ مفصل بحث تحقیق قضیہ فدک میں کی گئی ہے اور اس پہ کی جانے والی تمام جروح کا رد کیا گیا ہے.
—————————————-
ابوسعید الخدری:
صحابی رسول ہیں…
طالب دعا:
حیدری.

3
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے مسند میں ایک روایت لائی ہے جس کا متن یوں ہے :
” سیدنا علی علیہ السلام اللہ سبحان و تعلی کے اس فرمان ( انما انت منذر ولكل قوم هاد – سورة الرعد : 7 ) تم صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لے ایک ہادی ہے , کے متعلق فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ فرماتے ہے کہ ڈرانے والا اور ہادی بنی ھاشم میں سے ایک مرد ہوگا ”
المسند میں یہ اس سند سے مروی ہے :
حدثنا عبدالله حدثني عثمان بن ابي شيبة حدثنا مطلب بن زياد عن السدي عن عبدخير عن علي عليه السلام في قوله …. الخ
المسند احمد / جلد 1 / مسند علی علیہ السلام / صفحہ 122 / رقم 1041 / طبع بیت الافکاریہ
یہ روایت ان کتب میں بھی :
-معجم الاؤسط / رقم 1383
– معجم الصغیر ( مع اردو ترجمہ ) / رقم 1114
– مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للھيثمی/جزء:7/صفحة 124
– الأحاديث المختارة للضياء المقدسي/ جلد2 / صفحہ:286/ رقم:668 وفي بعض الطبعات الترقيم (ج 1 / ص 355)رقم669
یہ روایت بغض ناصبیوں و منکرین الحدیث کو ہضم نہیں ہوتی کیونکہ اس میں بنی ہاشم کی فضیلت ورد ہوئی ہے ( بعض روایات کی توضیع کے بعد اس میں امام علی علیہ السلام کی بھی فضیلت آتی ہے ..الحمدللہ ) تو وہ لوگ اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کرتے ہے جیسا کہ مہشور حنفی محقق علامہ شعیب الارنؤط نے مسند کی تحقیق میں اسکو ضعیف کہا ہے ( المسند بتحقیق الارنؤط / جلد 1 / صفحہ 126 ) اور اسکی وجہ السدي جو انکے بقول محمد بن مروان السدی الصغیر ہے جوکہ کذاب راوی ہے
معجم الصغیر ( مع اردو ترجمہ ) کے محقق حافظ عبدالشکور ترمذی نے بھی شعیب الارنؤط کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس روایت پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا
عرض ہے کہ شعیب الارنؤط نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ السدي سے مراد یہاں محمد بن مروان بن عبداللہ السدی الصغیر نہیں بلکہ اسماعیل بن عبدالرحمان السدی الکبیر ہے جیسا کہ علامہ ذھبی نے بھی سیر أعلام النبلاء / جلد 5 / صفحہ 263- 265 / رقم 1124 پر ان کے بارے میں یوں لکھا ہے
السدي
إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبي كريمة الإمام المفسر أبو محمد الحجازي ثم الكوفي الأعور السدي أحد موالي قريش
حدث عن أنس بن مالک ….. وعبد خير الهمداني و …… الخ
حدث عنه شعبة و……… والمطلب بن زياد و…… الخ
لہذا ثابت ہوا کہ یہاں السدی سے مراد اسماعیل بن عبدالرحمان بن عبدالکریمہ السدی الکبیر ہے جو کہ صحیح مسلم کا راوی ہے اور جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہے نیز دیکھے تحریر تقریب التہذیب ( 1/ 136 ت 463 ) نہ کہ کذاب محمد بن مروان الضغیر
کچھ لوگ السدی الکبیر پر تشیع کی تہمت لے کر اس پر جرح کرنے کی کوشش کرتے ہے جوکہ مردود ہے کیونکہ کسی ثقہ راوی کا تشیع کی طرف مائل ہونا مضر نہیں ہوتا ہے جیسا کہ شیخ عبدالرحمان بن یحییٰ المعلمی الیمانی ( ذھبی العصر ) نے ثابت کیا ہے کہ وہ صدوق راوی جس پر بدعتی ہونے کا الزام ہے , اس کی روایت قابل قبول ہوتی ہے , چاھے وہ اسکی بدعت کی تقویت میں ہو یا نہ ہو بشرطیکہ بدعت مکفرہ نہ ہو
دیکھے : التنكيل بمافي تأنيب الكوثري من الاباطيل / جلد 1 / صفحہ 42 – 52
مزید اس روایت کو بہت سارے علماء نے مقبول قرار دیا ہے جیسے :
1 – شیخ احمد محمد شاکر اس روایت کے بارے میں یوں فرماتے ہے :
إسناده صحيح، المطلب بن زياد بن أبي زهير الثقفي الكوفي: ثقة، وثقه أحمد وابن معين وغيرهما، وترجمه البخاري في الكبير ٤/ ٢/ ٨ فلم يذكرفيه جرحا.
– المسند بتحقیق احمد محمد شاکر / جلد 2 / صفحہ 48 / رقم 1041
2 – حافظ زبیر علی زائی نے بھی اس روایت کو تفسیر ابن کثیر کی تحقیق میں حسن کہا ہے
– تفسیر ابن کثیر بتحقیق علی زائی ( اردو ) / جلد 3 / صفحہ 39 / طبع دھلی
3- علامہ ھیثمی نے اسکے بارے میں کہا :
رواۃ عبد الله بن أحمد والطبراني في الصغير والأوسط ورجال المسند ثقات
– مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للھيثمی/جزء:7/صفحة 124
4 – ضیا المقدسی نے بھی اسکو حسن کہا ہے :
– الأحاديث المختارة للضياء المقدسي/ جلد2 / صفحہ:286/ رقم:668 وفي بعض الطبعات الترقيم (ج 1 / ص 355)رقم669
لہذا ثابت ہوا کہ یہ روایت صحیح ہے اور شعیب الارنؤط کا اسے ضعیف کہنا ان کی علمی خطا ہے ….واللہ العالم








4
اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ( سورۃ الرعد آیت نمبر7)
تم تو محض ڈرانے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہبر ہوتا آیا ہے
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ھے قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ھے کہ آپؐ تو صرف ڈرانے والے ھیں اور ھر قوم میں ایک ھادی آیا ھے ۔ نبیؐ نے اس آیت کے متعلق فرمایا ڈرانے والا اور رھنمائی کرنے والابنو ھاشم کا ایک آدمی ھے
اسناد صحیح لیکن ستم ظریفی یہ ھے کہ مسند احمد کا اردو ترجمہ جو کہ مولانا محمد ظفر اقبال نے اس حدیث کو ضعیف لکھا ھے اور یہی بغض علی ھے
مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 1041
امام ابن جریر نے حضرت عکرمہ اور الضحاک سے روایت کیا ھے کہ رسول اللہ نے اپنے سینے پر ھاتھ رکھا اور فرمایا میں منذر ھوں اور اپنے ھاتھ سے حضرت علی کے کندھے پر اشارہ کیا اور فرمایا اے علی تو ھادی ھے میرے بعد ھدایت پانے والے تجھ سے ھدایت پائیں گے
تفسیر درمنثور جلد چہارم ص 129




5
حضرت ابراھیم کی دعا علی علیہ السلام اور علیؑ کا نام قرآن میں
.
وَاجْعَلْ لِّـىْ لِسَانَ صِدْقٍ فِى الْاٰخِرِيْنَ (سورۃ الشعراء 84)
اے رب مجھے آخرین میں لِسَانَ صِدْقٍ (سچی زبان) عطاکر
.
مولانا عبیداللہ امرتسری اپنی کتاب ارجح المطالب صفحہ 134میں روایت بیان کی ھے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ھے
.
اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا قبول کی اور سورہ مریم آیت نمبر50 میں جواب فرمایا
.
وَوَهَبْنَا لَـهُـمْ مِّنْ رَّحْـمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَـهُـمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا
ھم نے اپنی رحمت سے ان کو نوازا لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا (سچ کی زبان والے علی سے)
.
علامہ حسکانی نے شواھدالتنزیل جلد ا صفحہ نمبر 357 میں روایت نقل کی ھے کہ
عَلِيًّا سے مراد علی علیہ السلام ھیں
.
.
6
آیت بلغ کیا 18 ذوالحج کو اعلان غدیر پر نازل ہوئی
.
تاریخ دمشق میں صحیح السند اہل سنت روایت اس طرح ہے
.
أخبرنا أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو حامد الأزهري أنا أبو محمد المخلدي أنا أبو بكر محمد بن حمدون نا محمد بن إبراهيم الحلواني نا الحسن بن حماد سجادة نا علي بن عابس عن الأعمش وأبي الجحاف عن عطية عن أبي سعيد الخدري قال نزلت هذه الاية ( يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك) على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.
.
ترجمہ : ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ یہ آیت (اے رسول پہنچا دے وہ پیغام جو تیرے رب کی طرف سے نازل کیا گیا) غدیر خُم کے دن علی ابن ابی طالب (ع) کے حق میں نازل ہوئی.
.
حوالہ : تاریخ مدینہ دمشق جلد 42 ص 237




7
﴿وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ٨٢﴾ [النمل:82]
اہل سنت کی تفاسیر کی کتب قرآن میں دابة چلنے کے معنی میں آیا ہے
اور مولا علی ع کا فرمان میں دابة۔۔۔۔ہوں
اہل سنت علماء نے اس سے مراد انسان ہی لیا ہے نہ کہ جانور
.
.
موضوع جاری ہے