.
صحابی رسول ص مسلم بن عقبہ اور حصین بن نمیر
یزیدی فوج کے 2 سپاہ سالار
.
المسعودی کی کتاب “التنبیہ الاشراف” باب سن وفات 11 ہجری کے تذکرے صفحہ نمبر 119 پر لکھتے ھیں کہ
.
حصین بن نمیر کتابت نبوی ﷺ کا فریضہ انجام د یتا تھا۔



اور مسلم بن عقبہ بھی صحابی تھا ۔

.
حصین بن نمیر نے یزیدی فوج کی سپاسالاری میں کعبہ پر حملہ کیا

اور انہوں نے ہی مدینہ پاک پر حملہ کیا جو کہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ھے۔ اس واقعہ میں ایک ہزار سات سو مہاجرین و انصار اور علماء تابعین کے علاوہ دو ہزار آدمیوں کو مارا گیا ۔ سات سو حفاظ کو قتل کیا گیا قریش کے ستانوے افراد کو ذبح کیا گیا ۔ ایک ہزار عورتوں سے زبردستی زنا کیا گیا۔
.
علامہ ابن حزم جو کہ مسلک ِاہل ِسنت اور خصوصا ْسلفی اور اھل حدیث طبقہ میں معتبر عالم سمجھے جاتے ہیں اور انہیں “امام الجلیل ،المحدث الفقیہ ،الاصولی،قوی العارضہ،شدید المعارضہ،بالغ الحجت،صاحب تصنیف ،مجدد القرن الخامس” جیسے القابات سے نوازہ جاتا ہے
.
ابن حزم یزید کے متعلق لکھتے ہیں:
.
یزید نے مدینہ نبوی حرم رسول اللہ (ص) اور مکہ معظمہ کیطرف (جو اللہ تعالیٰٰ کا حرم ہے) اپنی فوجیں لڑنے کے لئے بھیجیں .
.
چنانچہ حرہ کی جنگ میں مہاجرین اور انصار جو باقی رہ گئے تھے ان کا قتل عام کیا .
یہ حادثہ آج بھی اسلام کے بڑے مصائب اور اس میں رخنہ انداز میں شمار ہوتا ہے
.
کیونکہ افاضل مسلمین ،بقیہ صحابہ اور اکابر تابعین میں بہترین مسلمان اس جنگ میں کھلے دھاڑے ظلماً قتل کر دیئے گئے اور گرفتار کر کے ان کو شہید کر دیا گیا.
.
یزیدی لشکر کے گھوڑے رسول اللہ (ص) کی مسجد میں بندھے دکھاتے رہے اور “ریاض الجنہ” میں آنحضرت (ص) کی قبر اور آپ (ص) کے منبر مبارک کے درمیان لید کرتے اور پیشاب کرتے رہے .
.
ان دنوں مسجد نبوی میں کسی ایک نماز بھی جماعت نہ ہوسکی اور نہ بجز سعید المسیب کے وہاں کوئی فرد موجود تھا انھوں نے مسجد نبوی کو بالکل نہ چھوڑا
.
اگر عمرو بن عثمان بن عفان اور مروان بن الحکم (یزید کے سالار لشکر) مجرم مسلم بن عقبہ کے سامنے یہ شہادت نہ دیتے کہ یہ دیوانہ ہے تو وہ ان کو بھی ضرور مار ڈالتا اور اس نے اس حادثہ میں لوگوں کو اس پر مجبور کیا کہ وہ یزید بن معاویہ سے اس شرط پر بیعت کریں کہ وہ اس کے غلام ہیں چاہے وہ ان کو بیچے ،چاہے ان کو آزاد کرے اور جب اس کے سامنے ایک صاحب نے یہ بات رکھی کہ ہم قرآن و سنت رسول (ص) کے حکم کے مطابق بیعت کرتے ہیں تو اس نے ان کے قتل کا حکم دیا اور انکو گرفتار کر کے فوراً قتل کر دیا گیا .
.
اس مسرف یا مجرم مسلم بن عقبہ نے اسلام کی بڑی بے عزتی کی .مدینہ منورہ میں تین دن برابر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا ، رسول اللہ (ص) کے صحابہ کو ذلیل کیا گیا اور ان پر دست دارازی کی گئی .
.
ان کے گھروں کو لوٹا گیا ،پھر یہ فوج مکہ معظمہ کا محاصرہ کیا گیا اور بیت اللہ پر منجنیق سے سنگباری کی گئی . یہ کام حصین بن نمیر کی سر کردگی میں شام کے لشکروں نے انجام دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم بن عقبہ مری کو تو جنگ حرہ کے تین دن بعد ہی موت نے آدبوچا تھا اور اب اس کی جگہ سالار لشکر حصین بن نمیر ہو گیا تھا اور اللہ تعالی ٰٰ نے یزید کو بھی اسی طرح پکڑا جس طرح وہ غالب قدرت والا پکڑتا ہے .
چنانچہ واقعہ حرہ کے بعد تین ماہ سے کم ، اور دو ماہ سے زائد کی مدت میں موت کے منہ میں چلا گیا
.
اور یزیدی لشکر مکہ معظمہ سے واپس چلے گئے .یزید کی موت 15 ربیع الاول 64 ھجری کو واقع ہوئی . اس وقت اس کی عمر کچھ اوپر تیس سال تھی . اس کی ماں کا نام میسون بنت بجدل کلبیہ تھا. یزید کی مدت حکمرانی کل تین سال آٹھ ماہ اور کچھ دن تھی
.















.
شیخ عبدالحق ؐحدث دھلوی لکھتے ہیں
.

.

.





ابن حجر لکھتے ہیں
.

.
متن

.

المؤلف : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي
الناشر : مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت
الطبعة الثالثة ، 1406 – 1986
تحقيق : دائرة المعرف النظامية – الهند












جیسا کہ سمہودی نے نقل کیا ہے:
.

.


۔
۔
۔
السائب بن خَلّادؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہؐ نے فرمایا:
.
«مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَخَافَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا».
.

.



.
شیخ البانی نے مسند احمد اور نَسائی کی اِس حدیث کی سند کو “بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح” قرار دیا ہے۔
.
