.
صحابہ کی تعریف نزد شیعہ
.
ہمارے عالم و فقیہ جناب شیخ صدوق علیہ الرحمۃ نے امام صادق علیہ السلام سے با سند صحیح نقل کیا ہے کہ
.
آپ نے فرمایا اصحاب رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ و سلم کی تعداد 12ہزار تھی 8ہزار اہل مدینہ 2ہزار اہل مکہ اور 2ہزار آزاد کردہ (وہ حضرات جو جنگوں میں قید ہوکر مسلمان ہوے) تھے جن میں سے نہ کوئی ان میں سے مرجی تھا نہ قدری نہ حروری (خارجی)تھا نہ معتزلی اور نہ اصحاب رائے میں سے بلکہ وہ رات دن (خوف خدا سے)روتے تھے اور کہتے تھے مالک اس سے پہلے کے ہم خمیری روٹی کهایں (یعنی اچھی غذاؤں کی طرف رغبت کریں ) ہمیں دنیا سے اٹھالے
معلوم ہوا واقعی وہ اصحاب رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ و سلم جو مومن تھے شیعوں کے نزدیک ان کی تعداد 12 ہزار ہے اور قرآن مجید میں جتنی بھی آیات اصحاب کی مدح میں نازل ہویں ان سب کے مصداق یہ مومن صحابہ ہیں
.
شیعہ عالم و فقیہ شیخ طوسی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں بہت وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ،
.
ہمارے نزدیک شفاعت ثابت شدہ امر ہے نبی اکرم صل اللہ علیہ و الہ و سلم اور بعض اصحاب ،وتمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور بہت سے مومنین شفاعت کریں گے
دیکھیں ہم تو اصحاب سے شفاعت کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں جبکہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم اصحاب رسول ص کو مانتے نہیں معاذ اللہ۔۔۔
.
⚫🔊لہذا منکر صحابہ کی نسبت ہماری طرف دینا بالکل درست نہیں ہے ۔
.
مزید دیکھیں
.
شیعہ کتب سے اصحاب نبی ﷺ کے فضائل صحیح احادیث کی روشنی میں
.
بہت قلیل ہوتا ہے کہ ہم اصحاب نبی ﷺ اور ازواج نبی ﷺ کے فضائل پر بات کریں جنکے متعلق آئمہ علیہم السلام نے خود فضیلت بیان کی ہو۔ بعض صالح اور عظیم صحابہ گذرے ہیں اور اور ازواج بھی، جنکا ذکر ہم صحیح احادیث کی روشنی میں کرتے ہیں جن سے انکے فضائل معلوم ہوتے ہیں:
.
حمدويه بن نصير قال حدثنا أبو الحسين بن نوح قال حدثنا صفوان بن يحيى عن ابن بكير عن زرارة قال سمعت أبا عبد الله (ع) يقول: أدرك سلمان العلم الأول و العلم الآخر و هو بحر لا ينضح و هو منا أهل البيت (ع)
.
حمدویہ بن نصیر نے کہا ہم سے بیان کیا حسین بن نوح نے، کہا ہم سے بیان کیا صفوان بن یحیی نے، جس نے ابن بکیر سے جس نے زرارہ سے روایت کی، کہا میں نے امام الصادق علیہ السلام کو فرماتے سنا: سلمان (رض) کو اول کا اور آخر کا علم تھا، اور وہ ایک سمندر تھے جو سوکھتا نہیں، اور وہ ہم اہل بیت ع میں سے ہیں۔ (1) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
.
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَلَمْ يُكَذَّبْ [جَابِرٌ]
.
علی بن ابراہیم، جس نے اپنے والد سے جس نے ابن ابی نجران سے جس نے عاصم بن حمید سے جس نے محمد بن مسلم سے جس نے امام الباقر علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: مجھ سے جابر (رض) نے بیان کیا رسول الله ﷺ سے اور جابر (بن عبد اللہ انصاری رض) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ (2) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
.
حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهِما الْسَّلام) قَالَ لَمَّا مَاتَتْ رُقَيَّةُ ابْنَةُ رَسُولِ الله (صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ رَسُولُ الله (صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) الْحَقِي بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَأَصْحَابِهِ
.
حمید بن زیاد، جس نے حسن بن محمد بن سماعہ سے جس نے ایک سے زیادہ سے جس نے ابان سے جس نے ابی بصیر سے روایت کی، جس نے ان میں سے ایک (امام الصادق یا الباقر) علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: جب رسول الله ﷺ کی بیٹی رقیہ کی وفات ہوئی، رسول الله ﷺ نے فرمایا: ہمارے صالح سلف سے جاکر جڑو عثمان بن مظعون (رض) اور اسکے أصحاب سے۔(3) اس حدیث کی سند مؤثق ہے۔ یہ وہی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیں جنکے نام پر امام علی ع نے اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا تھا بعض روایات کے مطابق۔
.
حمدويه و إبراهيم ابنا نصير، عن أيوب، عن صفوان، عن معاوية بن عمار و غير واحد، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: كان عمار بن ياسر و محمد بن أبي بكر لا يرضيان أن يعصي الله عز و جل
.
حمدویہ اور ابراہیم دونوں نصیر کے بیٹے، جنہوں نے ایوب سے جس نے صفوان سے جس نے معاویہ بن عمار اور ایک کے علاوہ سے، جس نے امام الصادق علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: عمار بن یاسر (رض) اور محمد بن ابی بکر (رض) اس پر راضی نہیں ہوتے تھے کہ الله ﷻ کی معصیت کی جائے۔ (4) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
.
حمدويه، عن يعقوب بن يزيد، عن ابن أبي عمير، عن الحسين بن عثمان، عن ذريح قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: كان علي بن الحسين عليهما السلام يقول: إني أكره للرجل أن يعافى في الدنيا و لا يصيبه شيء من المصائب، ثم ذكر أن أبا سعيد الخدري كان مستقيما نزع ثلاثة أيام فغسله أهله ثم حمل إلى مصلاه فمات فيه
.
حمدویہ، جس نے یعقوب بن یزید سے جس نے ابن ابی عمیر سے جس نے حسی بن عثمان سے جس نے ذریح سے جس نے کہا کہ میں نے امام الصادق علیہ السلام کو فرماتے سنا: میں کسی شخص کیلئے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ دنیا میں عافیت سے رہے اور اس کو مصیبت میں سے کچھ بھی نہ پہنچے، پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابو سعید خدری (رض) مستقیم (سیدھے راستے پر) تھے اور تین دن بیمار رہے تو انکے اہل نے انکو غسل دیا پھر انکو انکے مصلے (نماز پڑھنے کی جگہ) پر اٹھا کر لے گئے اور وہ ادھر ہی وفات پا گئے۔ (5) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
.
قَالَ فَعَجِبَ لَهُ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَقَالَ يَا خُزَيْمَةُ شَهَادَتُكَ شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ.
.
امام ع نے فرمایا: رسول الله ﷺ خوش ہوئے اور اسکو فرمایا: اے خزیمہ (بن ثابت) تمہاری شھادت دو مردوں کے برابر ہے۔ (6) میں نے مکمل روایت نہیں نقل کی جس میں مکمل واقعہ ہے کہ یہ کیوں کہا آپ ﷺ نے۔ مگر خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ذو الشھادتین کہا جاتا ہے کیونکہ انکی گواہی دو مردوں کے برابر ہوا کرتی تھی۔
.
محمد بن قولويه و الحسين بن الحسن بن بندار القميان، عن سعد بن عبد الله بن أبي خلف القمي، عن الحسن بن موسى الخشاب و محمد بن عيسى بن عبيد، عن علي بن أسباط، عن عبد الله بن سنان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: … محمد بن أبي بكر رحمة الله عليه أتته النجابة من قبل أمه أسماء بنت عميس …
.
محمد بن قولویہ اور حسین بن حسن بن بندار قمیان، جنہوں نے سعد بن عبد اللہ بن ابی خلف قمی سے جس نے حسن بن موسی خشاب اور محمد بن عیسی بن عبید سے، جس نے علی بن اسباط سے جس نے عبد اللہ بن سنان سے جس نے کہا کہ میں نے امام الصادق علیہ السلام کو فرماتے سنا:۔۔۔ محمد بن ابی بکر، الله ﷻ کی رحمت ہو ان پر، کی نجابت (عالی نسب) انکی والدہ اسماء بنت عمیس کی جانب سے تھا (نہ کہ والد کی جانب سے)۔ (7) اس حدیث کی سند مؤثق ہے، البتہ سید خوئی نے علی بن اسباط کے مذہب کو اچھا کہا ہے جسکی وجہ سے انکے تحت اسکی سند صحیح ہے۔
.
جنت کی سات بہنیں:
حدثنا أبي رضي الله عنه قال: حدثنا سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد ابن عيسى، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر البزنطي، عن عاصم بن حميد، عن أبي بصير، عن أبي جعفر عليه السلام قال: سمعته يقول: رحم الله الأخوات من أهل الجنة فسماهن: أسماء بنت عميس الخثعمية وكانت تحت جعفر بن أبي طالب عليه السلام، وسلمى بنت عميس الخثعمية وكانت تحت حمزة، وخمس من بني هلال: ميمونة بنت الحارث كانت تحت النبي صلى الله عليه وآله، وأم الفضل عند العباس اسمها هند، والغميصاء أم خالد بن الوليد، وعزة كانت في ثقيف الحجاج بن غلاظ، وحميدة ولم يكن لها عقب.
.
ہم سے بیان کیا میرے والد رضی اللہ عنہ نے، کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبد اللہ نے، جس نے احمد بن محمد بن عیسی سے، جس نے احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی سے، جس نے عاصم بن حمید سے جس نے ابو بصیر سے جس نے امام الباقر علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا کہ میں نے انکو فرماتے سنا: الله ﷻ رحم کرے اہل جنت میں سے بہنوں پر، پھر انہوں نے انکا نام لیا: اسماء بنت عمیس الخثعمیہ اور وہ جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کی بیوی تھیں، سلمیٰ بنت عمیس الخثعمیہ اور وہ حمزہ کی بیوی تھیں، (باقی) پانچ بنی ھلال میں سے: میمومنہ بنت حارث اور وہ نبی ﷺ کی بیوی تھیں، ام فضل اور وہ عباس (بن عبد المطلب) کی بیوی تھیں اور انکا نام ھند تھا، غمیصاء خالد بن ولید کی والدہ، اور عزہ، وہ ثقیف سے تھیں حجاج بن غلاظ کی بیوی، اور حمیدہ، انکا کوئی بیٹا نہیں ہوا۔ (8) حدیث صحیح الاسناد ہے، یہ سات جنت کی بہنیں ہیں اس حدیث کے مطابق جن پر ترحّم کیا ہے امام ع نے، رضی اللہ عنہن۔
.
قَالَ إِنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع كَفَّنَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فِي بُرْدٍ حِبَرَةٍ وَ إِنَّ عَلِيّاً ع كَفَّنَ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ فِي بُرْدٍ أَحْمَرَ حِبَرَةٍ
.
اور امام الصادق علیہ السلام نے فرمایا: حسن بن علی علیہ السلام نے اسامہ بن زید کو حبرہ کے کپڑے میں تکفین کی اور امام علی علیہ السلام نے سہل بن حنیف کو لال رنگ کے حبرہ کے کپڑے میں تکفین کی۔ (9)
.
رَوَى عَلِيُّ بْنُ رِئَابٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ يُعْقِبُونَ بَعِيراً بَيْنَهُمْ وَ هُمْ مُنْطَلِقُونَ إِلَى بَدْرٍ
.
اور علی بن رئاب سے نے ابو بصیر سے روایت کی جس نے امام الباقر علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا رسول الله ﷺ اور امیر المومنین ع اور مرثد بن ابی مرثد غنوی (رض) ایک ہی اونٹ پر سوار ہوتے تھے باری باری کرکے اپنے درمیان جب وہ بدر کی جانب جا رہے تھے۔ (10) حدیث کی سند صحیح ہے، شیخ صدوق کا طریق علی بن رئاب تک صحیح ہے فقیہ میں۔
.
حمدويه بن نصير، عن محمد بن عيسى، عن محمد بن أبي عمير، عن عمر بن أذينة، عن زرارة بن أعين، عن أبي جعفر عليه السلام: أن محمد بن أبي بكر بايع عليا عليه السلام على البراءة من أبيه
.
حمدویہ بن نصیر، جس نے محمد بن عیسی سے جس نے محمد بن ابی عمیر سے جس نے عمر بن اذینہ سے جس نے زرارہ بن اعین سے جس نے امام الباقر علیہ السلام سے روایت کی کہ محمد بن ابی بکر نے امام علی علیہ السلام کو بیعت اپنے والد سے برات کرنے (کی شرط) پر کی۔ (11)
.
وعنه، عن محمد بن الحسن، عن محمد بن الحسن الصفار، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن عبد الرحمن بن أبي نجران، عن صفوان بن مهران الجمال، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: علي ابن أبي طالب ثم سكت، ثم قال: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال علي بن أبي طالب ثم سكت، ثم قال: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: علي بن أبي طالب، والمقداد بن أسود، وأبو ذر الغفاري، وسلمان الفارسي
.
اور اس سے، جس نے محمد بن حسن سے جس نے محمد بن حسن صفار سے جس نے احمد بن محمد بن عیسی سے جس نے عبد الرحمان بن ابی نجران سے جس نے صفوان بن مہران جمال سے جس نے امام الصادق علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بیشک الله ﷻ نے مجھے چار لوگوں کی محبت کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے فرمایا: وہ کون ہیں یا رسول الله ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب، پھر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک الله ﷻ نے مجھے چار سے محبت کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے فرمایا: وہ کون ہیں یا رسول الله ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب، پھر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک الله ﷻ نے مجھے چار سے محبت کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے فرمایا: وہ کون ہیں یا رسول الله ﷺ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب، مقداد بن اسود، ابو ذر غفاری اور سلمان فارسی۔ (12) اس روایت کی سند معتبر ہے، اور یہ مختلف اسانید سے بھی آئی ہے جو اسکو تقویت دیتی ہے۔
.
حدثنا أحمد بن زياد بن جعفر الهمداني رضي الله عنه قال: حدثنا علي ابن إبراهيم بن هاشم، عن أبيه، عن محمد بن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله اثني عشر ألفا ثمانية آلاف من المدينة، وألفان من مكة، وألفان من الطلقاء، ولم ير فيهم قدري ولا مرجي ولا حروري ولا معتزلي، ولا صحاب رأي، كانوا يبكون الليل والنهار ويقولون: اقبض أرواحنا من قبل أن نأكل خبز الخمير.
.
ہم سے بیان کیا احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی رضی اللہ عنہ نے، کہا ہم سے بیان کیا علی بن ابراہیم نے جس نے اپنے والد سے جس نے محمد بن ابی عمیر سے جس نے ہشام بن سالم سے جس نے امام الصادق علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: رسول الله ﷺ کے اصحاب بارہ ہزار اصحاب تھے، ان میں سے آٹھ ہزار مدینہ سے تھے، اور دو ہزار مکہ سے، دو ہزار وہ تھے جو اسلام میں ناپسندیدگی سے داخل ہوئے، اور ان میں کوئی قدری یا مرجی یا خارجی یا معتزلی نہیں تھا، اور نہ صاحب رائے، اور وہ شب و روز رویا کرتے تھے اور کہتے تھے: (اے خداوند) ہماری روحوں کو قبض کر اس سے پہلے کہ ہم جو کی روٹی کھائیں۔ (13) اس رویات کی سند صحیح ہے۔
.
محمد بن مسعود، عن علي بن الحسين علي بن فضال، عن عباس بن عامر، عن أبان بن عثمان، عن شهاب بن عبد ربه قال: قلت لأبي عبد الله عليه السلام كيف أصبحت جعلت فداك؟ قال: أصبحت أقول كما قال أبو الطفيل عامر بن واثلة: و إن لأهل الحق لا بد دولة *** على الناس إياها أرجى و أرقب. قال: أنا و الله ممن يرجى و يرقب
.
محمد بن مسعود، جس نے علی بن حسین علی بن فضال سے جس نے عباس بن عامر سے جس نے ابان بن عثمان سے جس نے شہاب بن عبد ربہ سے، کہا کہ میں نے امام الصادق علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں، آپکی صبح کیسی رہی؟ فرمایا: میں جاگا تو میں نے وہ کہا جو ابو طفیل عامر بن واثلہ (رض) کہا کرتے تھے: اور اور یقیناً اہل حق کیلئے لوگوں کی حکومت کا وقت ہے، میں اس کی امید اور انتظار میں ہوں۔ امام ع نے پھر فرمایا: میں بخدا ان میں سے ہوں جو امید اور انتظار میں ہیں۔ (14) روایت کی سند معتبر ہے۔
.
قال معروف بن خربوذ: فعرضت هذا الكلام على أبي جعفر عليه السلام فقال: صدق أبو الطفيل رحمه الله هذا الكلام وجدناه في كتاب علي عليه السلام وعرفناه
.
(ایک طویل روایت کا ایک حصہ) معروف بن خربوذ نے کہا میں نے یہ کلام امام الباقر علیہ السلام کو پیش کیا تو آپ نے فرمایا ابو طفیل رحمہ اللہ نے سچ کہا، ہم اس کلام کو علی علیہ السلام کی کتاب میں پاتے ہیں اور اسکو پہچانتے ہیں۔ (15) اس روایت کی سند صحیح ہے اور مختلف اسانید سے آیا ہے۔
.
أبو عبد الله محمد بن إبراهيم، قال حدثني علي بن محمد بن يزيد القمي، قال حدثني عبد الله بن محمد بن عيسى، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال كان بلال عبدا صالحا
.
ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم نے کہا مجھ سے علی بن محمد بن یزید قمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبد اللہ بن محمد بن عیسی نے بیان کیا، جس نے ابن ابی عمیر سے جس نے ہشام بن سالم سے جس نے امام الصادق علیہ السلام سے روایت کی، فرمایا: بلال (رض) ایک نیک بندے تھے۔(16) حدیث کی سند قوی ہے۔
.
اس ہی سے ملتی جلتی بات اور مزید نقل کیا ہے شیخ مفید نے صحیح روایت میں
.
وقال فيه أبو عبد الله جعفر بن محمد عليهما السلام: رحم الله بلالا ” فإنه كان يحبنا أهل البيت لعن الله صهيبا ” فإنه كان يعادينا
.
امام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد علیہما السلام نے فرمایا: الله ﷻ کا رحم ہو بلال (رض) پر، کیونکہ وہ ہم اہل بیت سے محبت کرتے تھے، اور الله ﷻ کی لعنت ہو صہیب پر، کیونکہ وہ ہمارا دشمن تھا۔ (17)
.
اسی طرح اور بہت سے اصحاب نبی ﷺ ہیں جن کیلئے مدح وارد ہوئی ہے جنکا ہم نے ذکر نہیں کیا، مثلا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ جو صاحبِ سرّ اور رازدار نبی ﷺ تھے اور منافقین کے نام انکو بتائے تھے آپ ﷺ نے۔ یا پھر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جن کی مدح میں روایات ہیں آئمہ ع سے، یا مصعب بن عمیر جنکا نام مصعب الخیر بھی ہے، یا حنظلہ بن ابی عمیر جنکا نام غسیل الملائکہ ہے کیونکہ فرشتوں نے انکو غسل دیا تھا، یا پھر قیس بن سعد بن عبادہ، ابو ایوب انصاری، زید بن ارقم، ہیثم بن تیھان، عثمان بن حنیف، سہل بن حنیف، براء بن مالک، عدی بن حاتم (حاتم طائی کے فرزند) وغیرہ، یا ازواج میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں جو کہ بہت مقام رکھتی ہیں، یہ اور ان جیسے مخلص اصحاب نبی ﷺ جنکا ہم نے ذکر نہیں کیا تمام نیک لوگ تھے اور عظیم ترین لوگ تھے اور ہم انکی عزت کرتے ہیں، رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔
.
🖋 أحقر: سيد علي أصدق نقوي
.
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
.
مآخذ:
.
(1) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 25
(2) الكافي، ج 7، ص 113
(3) الكافي، ج 3، ص 241
(4) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 112
(5) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 85
(6) الكافي، ج 7، ص 401
(7) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 111
(8) الخصال، ص 363
(9) تهذيب الأحكام، ج 1، ص 296
(10) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 2496
(11) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 114
(12) الإختصاص للمفيد، ص 9
(13) الخصال، ص 640
(14) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 149
(15) الخصال، ص 67
(16) إختيار معرفة الرجال، الرقم: 79
(17) الإختصاص، ص 73