اَشّہَد اَنَّ امیٓرَالْمُومنیّنَ وَ اِمْامَ الْمُتّقینَ عَلیُِّ وَْلِی اللہِ وَ وَصیُّْ رَسوُلِ اللہ وا خَلیفَۃُ بِلا فَصل وا خَلیفَۃُ بِلا فَصل وا خَلیفَۃُ بِلا فَصل
.
امام شوکانی جو کہ برادران اہل سنت کے ہاں کسی تعارف کے محتاج نہیں جنکی مشہور تصنیفات میں سے تفسیر فتح القدیر, نیل الاوطار اور الفوائد المجموعہ وغیرہ شامل ہیں۔۔
انہی امام شوکانی کی ایک کتاب “العقد الثمین فی اثبات وصایت امیر المومنین” کے نام سے ہے جس میں امام شوکانی نے امام علی علیہ السلام کے وصی رسول ہونے پہ دلائل نقل کئے اور تسلیم کیا کہ جناب امیر علیہ السلام کا جناب رسول خدا ص کا وصی ہونا ثابت ہے۔۔

.
ابن حزم ظاہری (المتوفی ۴۵۶ ہجری) نے امت کے مختلف اجماعات نقل کرتے ہوئے یوں لکھا :
.
وَاتَّفَقُوا ان الامام إذا كَانَ من ولد على وكان عدلا وَلم تتقدم بيعَته بيعَة أُخْرَى لانسان حَيّ وَقَامَ عَلَيْهِ من هُوَ دونه ان قتال الآخر وَاجِب.
اور وہ (امت) اس بات پر متفق ہے کہ اگر امام اولاد علیؑ میں سے ہے اور عادل ہے، اور اسکی بیعت سے پہلے کسی کی بیعت نہ کی گئی ہو جو زندہ ہو اور اسکے علاوہ اسکی بیعت کے بعد اسکے خلاف آنے کی کوشش کرے گا تو اسکے خلاف قتال کرنا واجب ہیں۔

.



.
صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت علی ع کو خلافت کا حقدار سمجھتی تھی اور انکو تمام صحابہ پر فضیلت دیتی تھی.. جیسے حضرت سلمان.. عمار.. ابوذر و مقداد ع وغیرہ
کتاب :السنۃ والشیعۃ او الوھابیۃ والرافضۃ/السید الامام محمد رشید رضا.

.
پوری جماعت صحابہ میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا مولا علی علیہ السّلام کو خلیفہء اول بنانے کا اعلان
اور کسی دوسرے کو خلیفہ بنانے سے انکار
BOOK REFERENCE AHL-E-SUNNAT
حوالہء کتاب اھلسنت : مصنف عبد الرزاق
جلد نمبر : 7
صفحہ نمبر : 419 تا 420
حدیث انٹرنیشنل نمبرنگ : 20646
وفد مدینہ منورہ میں آیا فراغت کے بعد کہا تم میں سے رسولِ خدا کا وصی کون ھے تو حضرت ابوبکر نے مولا علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا وہ ھے


.
اھـل سنت والجماعت مسلک کے بلند ترین عالم دین امام محب الدین طبری اپنی کتاب
ریاض نضرہ فی مناقب عشرہ مبشرہ
میں باب علی علیہ سلام میں روایت نقل کرتے ہیں
” قیس بن حازم رض سے روایت ہے کہ جناب ابوبکر اور حضور مولائے کائنات علی ع کی
ملاقات ہوئـی تو جناب ابوبکر انہیں دیـکھ کر
مسکرانے لگے
حضور مولائے کائنات علی ع نے کہا ! آپ نے تبسم
کس لئے کیا ہے ،
جناب ابوبکر نے کہا ! میں نے رسولِ خدا ص سے سنا آپ ص فرماتے تھے
یعنی
کـوئی پل صـراط سے نہیں گزر سکے گا وہ مگر
جس کے ویزے پر حضور مولائے کائنات علی ع کو مھر ہوگئی
حوالہ
ریاض النضرۃ فی مناقب عشرہ مبشرہ

اُردو جلد دوئم ص 290


.
.
.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ھیں کہ ھم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھیں ہمارا وصی کون ھے ؟
.
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول (ص) آپ کا وصی کون ھے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار فرمایا اے سلیمان موسیٰ کا وصی کون تھا؟
انہوں نے کہا یوشع بن نون تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یقینا” میرا وصی اور میرا وارث میرا قرض چکائے گا اور میرے وعدے کو پورا کرے گا وہ علی بن ابی طالب ع ھے
.
فضائل صحابہ احمد بن حنبل ص 369 ح 1052
.
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ مِّنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّيْ عَنِّيْ إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.
رَوَاهُ التِّرْمَذِيُ
وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ع مجھ سے اور میں علی ع سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و نقض میں) میرے اور علی ع کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کرسکتا۔
اس کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘


سنیوں کا اپنے عوام کو دھوکے میں رکھنا اور اہلبیتؑ سے بغض کا اظہار کرنا
.
ابنِ ماجہ کی سنن کا متن کچھ یوں ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى ، قَالُوا : حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : «عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا عَلِيٌّ»
.
حُبشی بن جنادہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ وآلہ کو یہ فرماتے سنا ہے :
“علیؑ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ، میری طرف سے صرف علیؑ ہی ادا کریں گے “
حوالہ: [سنن ابن ماجہ، حدیث 119 ]
اس روایت میں سنیوں کا رد تھا کیونکہ ایسے فضائل کے مالک تو فقط جنابِ امیر المومنینؑ ہیں ناکہ ان کے خلفاء تو یوں وہ روایت کا حصہ ہی کھا پی گئے
سنی موصوف کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے:
’’ علیؑ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں”
حوالہ: [سنن ابن ماجہ جلد 1 ص 73 طبع مکتبة العلم اردو بازار لاہور]
ترجمہ اس لیے کھا پی گئے تاکہ کہیں عوام اور جاہل مولوی پوچھ ہی نہ لیں کہ ایسے فضائل کی حامل شخصیت (یعنی علیؑ) بعد از رسولﷺوآلہ افضل کیوں نہیں!


.
اہل سنت امام الحافظ شیرویہ بن شھردار الدیلمی نقل کرتے ہیں:
.
حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ نبی ص نے فرمایا کہ اگر لوگ جان لیں کہ علی ع کو کب امیر المومنین کہا گیا تو لوگ انکی فضیلت کا انکار نہ کریں, علی ع کو اس وقت امیر المومنین کہا گیا جب آدم ع روح اور جسم کے درمیان تھے, اللہ نے فرمایا:
.
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِىٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِـمْ ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَاَشْهَدَهُـمْ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ.
اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟
(سورہ الاعراف آیت 172)
.
ملائکہ نے (بھی) کہا بالکل (ہم اقرار کرتے ہیں)
پس اللہ نے فرمایا:
“میں تمہارا رب ہوں, محمد ص تمہارے نبی ہیں اور علی ع امیر ہیں”
.
(فردوس الاخبار جلد 3 ص 399)


کتاب شواہد التنزیل سے ایک صحیح السند روایت پیش کرتے ہیں جو کہ مولا علی ؑ کے وصی رسول خدا ﷺ ہونے پر دلالت کرتی ھے.
.
ہم اس روایت کے رجال پر بھی بات کریں گے ان شاء اللہ عزوجل اور اسی روایت کی متابعت میں دیگر کتب اھلسنت سے بھی روایات نقل کریں گے
.
حدثنا محمد بن عبداللہ قال حدثنا محمد بن حماد الاثرم بالبصرہ و علی بن داود القنطری عن سفیان ثوری عن منصور عن مجاھد عن سلیمان فارسی قال سمعت رسول الللہ ﷺ
یقول إن وصي و خلیفتي خیر من اترک بعدی و ینجز موعدی و بلغنی دینی علی ابن ابی طالب ؑ
.
جناب سلیمان فارسی ؑ سے روایت ھے آپ نے فرمایا رسول خدا ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا میں میرے بعد جو میں چھوڑے جا رہا ہوں میرے وعدوں کو پورا کرنے والے اور میرے دین کی تبلیغ کرنے والے میرے وصی اور میرے خلیفہ علی ابن ابی طالب ؑ ہیں
شواہد التنزیل ص ٧٧
.
اس روایت کے رجال پر نظر
.
1 محمد بن حماد الاثرم ابو العباس
.
أبو العباس محمد بن أحمد الاثرم – صدوق ، حدثنا علي بن داود القنطرى – ثقة
میزان الاعتدال
أَخْبَرَنِي أبو طاهر حمزة بن محمد بن طاهر الدقاق، قَالَ: أخبرنا علي بن عمر الدارقطني، قَالَ: حدثنا أبو العباس بن الأثرم الخياط المقرى، محمد بن أحمد شيخ ثقة فاضل.
تاریخ بغداد خطیب بغدادی ج ٢ ص ٨٠
ذھبی نے میزان الاعتدال میں صدوق قرار دیا ھے
خطیب بغدادی تاریخ بغدادی میں دارقطنی کا قول نقل کرتے ہیں دارقطنی نے کہا کہ یہ فاضل اور ثقہ ہیں
تاریخ بغداد ج ٢ ص ٨٠
.
2 علی بن داود القنطری
.
ابن حجر العسقلاني صدوق
الخطيب البغدادي ثقة
مصنفوا تحرير تقريب التهذيب
ثقة، روى عنه جمع من الثقات
القَنْطَرِيُّ أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ دَاوُدَ بنِ يَزِيْدَ
الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ دَاوُدَ بنِ يَزِيْدَ التَّمِيْمِيُّ، البَغْدَادِيُّ، القَنْطَرِيُّ، الأَدَمِيُّ الحَافِظُ
سیر اعلام النبلاء حافظ ذھبی
ج ١٣ ص ١٤٣
ابن حجر عسقلانی نے صدوق خطیب بغدادی نے ثقہ اور حافظ ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں حافظ امام محدث قرار دیا ھے
.
3 سفیان ثوری
.
امام ثقہ فی الحدیث
ان کی ثقاہت پر اجماع ھے جمہور کا
اس روایت میں جو علل ھے وہ یہ ھے کہ سفیان ثوری پر مدلس کی جرح ھے اور وہ منصور سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس علت کا جواب بھی دیتے ہیں
.
سفیان ثوری پر تدلیس کی جرح کا جواب
.
جیسا کہ سفیان پر مدلس کی جرح ھے ایسے ہی اھلسنت کی صحیحین میں ابو قلابہ کی بھی روایات ہیں جو کہ مدلس ہیں لیکن ان کی روایات کو قبول کیا جاتا ھے
اھلحدیث سکالر شیخ زبیر علی زئ اپنے رسالہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام میں
لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا ھے کہ ابو قلابہ مشہور تابعی مدلس ہیں
احسن الکلام ج ٣ ص ١١١
.
کہ ابو قلابہ صحیحین کے راوی ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں حافظ ذہبی نے انکو امام اور شیخ الاسلام کا لقب دیا ھے
سیر اعلام النبلاء ج ٤ ص ٤٦٨
.
لیکن حافظ ذھبی نے انکو مدلس قرار دیا ھے شیخ زبیر علی زئ لکھتے ہیں اس سے مراد لغوی تدلیس ھے یعنی ارسال ھے
اصطلاحی تدلیس نہیں ھے اور حافظ ذھبی نے ابو قلابہ والی متعدد عن والی روایات کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ھے
تلخیص المستدرک ج ١ص ٣٢٣
.
سیر اعلام النبلاء میں ان کی معنن روایات کو ھذا حدیث حسن صحیح کہا ھے
.
اسی طرح حافظ ذھبی اپنی کتاب الموقظہ میں لکھتے ہیں
المدلس ما رواہ الرجل عن آخر ولم یسمعہ منہ ولم یدرکہ
مدلس اس روایت کو کہتے ہیں جو ایک آدمی دوسرے سے بیان کرے اور اس نے اس آدمی سے سنا نہ ہو یا اس نے اسے پایا نہ ہو
الموقظہ ص ٤٧
.
معلوم ہوا حافظ ذھبی کے نزدیک تدلیس اور ارسال ایک ہی چیز کا نام ھے
.
ابن قلابہ کی عن والی روایات کو بخاری مسلم ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ھے
.
حافظ زبیر علی زئ چونکہ اھلحدیث سکالر تھے وہ اسی رسالہ کے صحفہ نمبر 27,28 پر لکھتے ہیں.
جو لوگ سفیان ثوری سلیمان الاعمش قتادہ ابو زبیر وغیرہ مدلسین کی عن والی روایات سے حجت پیش کرتے ہیں ان کو ابو قلابہ پر تدلیس کے الزام سے شرم آنی چاہیے
.
پھر دیوبندی عالم ظفر تھانوی اعلاء السنن میں لکھتے ہیں
.
والتدلیس والارسال فی القرون الثلاثہ یضر عندنا
اور قرون ثلاثہ میں ہمارے نزدیک تدلیس اور ارسال مضر نہیں ھے
اعلاء السنن ج ١ ص ٣١٣
.
اسی طرح تھانوی صاحب مزید لکھتے ہیں
.
قلت فان کان المدلس من الثقات القرون الثلاثة یقبل تدلیسہ کارسالہ مطلقا
میں کہتا ہوں اگر مدلس قرون ثلاثہ کے ثقہ لوگوں میں سے ہو تو اس کی تدلیس بھی اسی طرح مقبول ھے جس طرح اس کی مرسل روایت مقبول ہوتی ھے
قواعد فی علوم الحدیث ص 159
.
ایسے ہی سفیان ثوری پر مدلس کی جرح کسی کام کی نہیں رہے گی کیونکہ حافظ ذھبی لکھتے ہیں
ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺤﺠﺔ اﻟﺜﺒﺖ، ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ، ﻣﻊ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺪﻟﺲ ﻋﻦ اﻟﻀﻌﻔﺎء، ﻭﻟﻜﻦ ﻟﻪ ﻧﻘﺪ ﻭﺫﻭﻕ، ﻭﻻ ﻋﺒﺮﺓ ﻟﻘﻮﻝ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ: ﻳﺪﻟﺲ ﻭﻳﻜﺘﺐ ﻋﻦ اﻟﻜﺬاﺑﻴﻦ
میزان الاعتدال جلد٢ صفحہ ١٦٩
.
اس سے ثابت ہوا کہ
سفیان ثوری حجت و ثبت ہے
.
.. (ائمہ حدیث کے مابین)مطفق طور پر حجت ہے باوجود اس کے وہ ضعفاء سے تدليس کرتے تھے.. لیکن ان کو ضعفاء کی روایات کی نقد کی صلاحیت ہے اور انکی صحیح و سقیم روایتوں کو پرکھنے کا انہیں ذوق ہے….
.
اور اس آدمی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں جو کہے کہ وہ کذابین سے تدليس کرتے تھے اور ان سے روایات لکھتے تھے…
.
اس کا مطلب واضح ہے کہ باوجود ضعفاء سے تدليس کرنے کے ائمہ حدیث کے نزدیک متفق طور پر حجت ہے…
اب نا صرف اس عبارت میں باوجود تدليس عن الضعفاء کا ان کو متفق طور پر حجت مان رہے ہیں بلکہ امام ذھبی اسی لئے تو سفیان ثوری کی معنعن روایات کو صحیح کہتے ہوئے اس پر ان کا عمل بھی موجود ہے
.
لھذا اس قول کی بنیاد پر سفیان کی معنعن روایات کو ضعیف کہنا
جھالت کے سوا کچھ نہیں.
. کیونکہ اس قول کا قائل ہی اسکو معنعن روایات میں حجت سمجھتا ہے.
.
4 منصور بن المعتمر ( ع )
.
الحافظ الثبت القدوة أبو عتاب السلمي الكوفي أحد الأعلام . قال أبو عبيد القاسم بن سلام : هو من بني بهثة بن سليم من رهط العباس بن مرداس السلمي .
سیر اعلام النبلاء ج ٥ ص ٤٠٢
.
حافظ ذھبی کہتے ہیں
منصور بن المعتمر حافظ ثبت اور ثقہ ہیں
.
5 مجاہد بن جبیر
حافظ ذھبی نے تذکرة الحفاظ میں ابن سعد کی طبقات کے حوالے سے نقل کیا ھے کہ
علامہ ابن سعد لکھتے ہیں ‘کان فقیھا عالما ثقۃ کثیر الحدیث ’ حافظ ذہبی کا بیان ہے کہ وہ علم کا ظرف تھے امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے
5 تذکرۃ الحفاظ ج ١ ص ٨٠
.
ثابت ہوا کہ شواہد التنزیل کی یہ روایت صحیح السند ھے اور اس پر ضعف کی جرح کرنا انتہائ بے وقوفی ھے
.
اس روایت کی متابعت میں دیگربطریق اور کتب سے روایات پیش کرتے ہیں
.
( 1 )اسی روایت کو ابو سعید خدری ؓ نے جناب سلیمان ؑ سے نقل کیا ھے
.
طبرانی نے معجم الکبیر مجلد ٦ ص ٢٢١ میں نقل کیا ھے
حدثنا محمد بن عبداللہ الحضرمی ثنا ابراہیم بن الحسن الثعلبی ثنا یحیحی بن یعلی عن ناصح بن عبداللہ عن سہاک بن حرب عن ابی سعید الخدری عن سلمان قال قلت یا رسول اللہ ﷺ لکل نبی وصی فمن وصیک فسکت عنی فلیا کان بعد رأنی فقال یا سلیمان فاحرت الیہ قلت لبیک قال و تعلم من وصی موسی قلت نع
یوشع بن نون قال ولم فقلت لانہ کان اعلمھم قال فان وصی و موضع سری و خیر من اترک ینجز عدتی و یقضی دینی علی ابن ابی طالب ؑ
.
(2 )ابن عساکر نے تاریخ مدینہ و دمشق میں اس کو دو طرہق سے نقل کیا ھے
1 پہلا طریق
اخبرنا ابو عبداللہ الفراوی و ابو محمد السیدی و ابو القاسم الشحامی قالو أنا ابو سعد الجنزرودی انا عبدالوہاب بن محمد بن عبدالوھاب الرازی نایوسف بن عاصم الرازی نا محمد بن حمید نا علی بن مجاہد عن محمد بن اسحاق عن شریک بن عبداللہ النخعی عن ابی ربیعة الایادی عن ابن بریدہ عن ابیہ أن النبی ﷺ قال لکل نبی وصیاً ووارثاً وان علیاً وصیی ووارثی
.
تاریخ مدینة و دمشق مجلد ٤٢ ص ٣٩٢ ح ٩٠٠٥
.
دوسرا طریق جو کہ ابی بریدہ سے ہی روایت ہوا ھے
اخبرنا ابوالقاسم بن السمرقندی أنا ابو الحسن بن النقور انا ابو القاسم عیسی بن علی انا ابو القاسم البغوی نا محمد بن حمید الرازی نا علی بن مجاہد نا محمد بن اسحاق عن شریک بن عبداللہ عن ابی ربیعة الایادی عن ابن بریدہ عن ابیہ قال النبی ﷺ لکل نبی وصی ووارث وان علیا وصی ووارثی
تاریخ مدینہ و دمشق ج ٤٢ ص ٣٩٢ ح ٩٠٠٦
.
( 3)امام احمد بن حنبل نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب فضائل صحابہ میں نقل کیا ھے
حدثنا ھثیم بن خلف قثنا محمد بن ابی عمر الدوری قثنا شاذان قثنا جعفر بن زیاد عن مطر عن انس بن مالک قال قلنا لسلیمان سئل النبی ﷺ من وصیہ فقال لہ سلیمان یا رسول اللہ من وصیک یا سلیمان من کان وصی موسی فقال لہ یوشع بن نون قال فان وصی ووارثی یقضی دینی و ینجز موعودی علی ابن ابی طالب ؑ
فضائل الصحابہ ج ١ ص ٦١٥ احمد بن حنبل
.
تحریر و تحقیق
سید ساجد بخاری










علی ع وصیِ رسول ص اور امام المتقین و مومنین



.
.
.
.
امام احمد بن حنبل کے نزدیک خلافت مولا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام پر صحابہ کا اجماع تھا 

امام احمد بن حنبل کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ع کے صحابہ امام علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہوئے، اس پر انہوں نے اجماع کیا، بعض صحابہ سیدنا امام علی علیہ السلام کے پاس آتے تھے، آپ ع ان پر حد قائم کرتے تھے، اور کوئی اس پر انکار نہیں کرتا تھا، صحابہ ان کو خلیفہ کے نام سے پکارتے تھے، آپ خطبہ دیتے، مال غنیمت تقسیم کرتے اور صحابہ اس پر انکار نہیں کرتے تھے۔
میں نے یعنی راوی نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ کیا سیدنا مولا علی علیہ السلام کی خلافت ثابت ہے؟
پس امام احمد نے فرمایا : سبحان اللہ ! علی علیہ السلام حد قائم کرتے ہیں، چور کے ہاتھ کاٹتے ، صدقہ وصول کرتے ہیں اور غنائم تقسیم کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے یہ سب بغیر حق کے کرتے ہیں؟ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ ناحق ان سے کچھ منسوب کروں ۔
ہاں ! سیدنا مولا علی علیہ السلام خلیفہ ہیں، صحابہ ان کی خلافت پر راضی تھے، وہ آپ کے پیچھے نماز ادا کر تے تھے، آپ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوتے ، جہاد کرتے، حج کرتے اور ان کو امیر المومنین کے نام سے پکارتے تھے، صحابہ اس پر راضی تھے، انکار نہیں کرتے تھے ۔ پس ہم ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ہم اللہ سے ان کی اطاعت پر ثواب کی امید رکھتے ہیں، ان شاء اللہ ۔ یہ اطاعت اس کے ساتھ اللہ و رسول کی اطاعت ہے جس کا انھوں نے حکم دیا ہے ۔”


