مُغِیرَہ بن شُعبَہ
.
امام ذھبی اپنی کتاب سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
مغیرہ بن شعبہ اکابر اصحاب رسول میں تھے اور بعیت رضوان میں موجود تھے


.
رسول خدا کے ان اصحاب میں سے ہے جس نے وصال پیغمبر کے بعد حضرت فاطمہ کے گھر حملے میں کردار ادا کیا۔ دوسرے خلیفہ کی جانب سے اسے بحرین، بصره اور کوفہ کی حکومتیں دی گئیں نیز وہ معاویہ کے دور حکومت میں کوفے کا حاکم رہا۔ وہ مسجد کوفہ کے منبر پر امام علیؑ اور ان کے شیعوں کو لعن کرتا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب کا قاتل ابو لؤلؤ مغیره کا غلام تھا۔
.
مغیرہ بن شعبہ کا مولا علیؑ پر سب و شتم کروانا


مغیرہ ابن شعبه کا جناب امیر المومنین (ع) کو گالیاں دینا
.
سلفی محدث علامہ البانی اپنی حدیث کی کتاب میں نقل کرتے ہیں
.
عَنْ زِيَادِ بن عِلاقَةَ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بن شُعْبَةَ، سَبَّ عَلَي بن أَبِي طَالِب فَقَامَ إِلَيْهِ زَيْدُ بن أَرْقَمَ ، فَقَالَ: يَا مُغِيرَة! أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَهَى عَنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ؟ فَلِمَ تَسُبّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟.
.
زیاد بن علاقہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے چچا سے بیان كیا كہ مغیرہ بن شعبہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ كو برا بھلا كہا تو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ كھڑے ہو كر ان كےپاس آئےاور كہنے لگے: مغیرہ! تمہیں معلوم نہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں كو برا بھلا كہنے سے منع فرمایا ہے؟ تم علی رضی اللہ عنہ كو برا بھلا كیوں كہہ رہے ہو جبكہ وہ مر چكے ہیں؟۔
.
اسکی مکمل سند مستدرک الحاکم میں ہے اور وہ یوں ہے
.
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ، ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ، ثنا رجاء بن محمد العذري ، ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ، ثنا شعبة ، عن مسعر ، عن زياد بن علاقة ، عن عمه ، أن المغيرة بن شعبة سب علي بن أبي طالب فقام إليه زيد بن أرقم ، فقال : يا مغيرة ، ألم تعلم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ” نهى عن سب الأموات ، فلم تسب عليا وقد مات ؟ ” هذا حديث صحيح على شرط مسلم ، ولم يخرجاه هكذا ، إنما اتفقا على حديث الأعمش ، عن مجاهد ، عن عائشة ، أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال : ” لا تسبوا الأموات ، فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا ” .
.
اس روایت کے سارے راوی ثقہ اور صدوق ہیں
1
ابوبکر محمد بن داؤد بن سلیمان
امام حاکم فرماتے ہیں : ثقہ مامون
الدارقطنی فرماتے ہیں : ثقہ فاضل
جلال الدین سیوطی: ثقہ فاضل
2
عبدللہ بن محمد بن ناجیه
خطیب بغدادی نے کہا : ثقہ ثبت
ذھبی نے کہا : الامام الحافظ الصادق
3
رجاء بن محمد العذدی
ابن حجر نے کہا : ثقہ
ابن ابی عاصم نے کہا : ثقہ
امام نسائی نے کہا : لا باس به
4
عمرو بن محمد بن ابی رزین
امام حاکم نے کہا : صدوق
ابن حجر نے کہا : صدوق رہما اخطا
عبدالباقی نے کہا : صالح
.
باقی راویان بخاری اور مسلم کے راوی ہیں۔
اس بنا پر اس روایت پر صحیح کا حکم لگے گا یا کم سے کم حسن لذاتہ کا، جسکے شواہد مل جانے سے یہ روایت صحیح کے درجے پر چلی جاتی ہے۔
یہ روایت مختلف اسناد سے مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد اور طبرانی میں بھی درج ہے۔



یزید کی بیعت کیلئے مغیرہ بن شعبہ کا کردار
.
ابن الاثیر الجزری تاریخ کامل اور ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ سن چھپن ہجری میں لوگوں نے یزید کے باپ کے ولی عہد ہونے کی وجہ سے یزید کی بیعت کی اس امر کی ابتداء اور تحریک مغیرہ بن شعبہ سے ہوئی،
مغیرہ کو اپنا عہدہ چھن جانے کا ڈر تھا چنانچہ اسی نے یزید اور اسکے باپ کو یزید کی ولی عہدی کیلئے مشورہ دیا۔۔الخ






علامہ البانی کی کتاب سلسلة-الأحاديث-الصحيحة میں ہے کے مغيرا ابن شعبہ رض نے ستر شادیاں کی
الاثير ر ح کی کتاب أسد الغابة في معرفة الصحابة میں ہے کہ 300 اور دوسری روایت 1000





ابوبکرہ اپنے گھر میں تھے اور انکے پاس ایک جماعت اشراف کے بارے گفتگو کررہی تھی کہ اچانک ہوا نے روشندان کا دروازہ کھول دیا اور وہ اسے بند کرنے کیلئے اٹھے کیا دیکھتے ہیں کہ مغیرہ کا روشندان کھلا ہے
اور وہ ایک عورت کے
سینے اور ٹانگوں
کے درمیان بیٹھا ہے اور اس سے جماع کررہا ہے ابوبکرہ نے اپنے اصحاب سے کہا آو اور اپنے امیر کو دیکھو جو ام جمیل سے زنا کررہا ہے


وہ اٹھے اور دیکھا کہ وہ اس عورت سے جماع کررہا ہے
انھوں نے یہ بات حضرت عمر کو لکھ بھیجی



