عام مسلمانوں میں ایک تاثر ہے کہ علی ابن ابی طالبؑ عثمان سے بے حد محبت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں حسنؑ و حسینؑ کو اسکی حفاظت کے لے روانہ کیا جب لوگوں نے اسکا محاصرہ کیا تھا۔ اس قصے کا اصل مصدر ابن شبہ نمیری کی کتاب ہے جس نے اسکو اپنی سند سے ایسے نقل کیا ہے کہ
.
سعيد ابن مسيب سے نقل ہوا ہے کہ عثمان جب محاصرے میں تھا تو اس نے اپنے گھر کی چھت سے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا:
کیا یہاں پر علیؑ موجود ہے ؟ کہا گیا: نہیں، پھر پوچھا: کیا یہاں پر سعد موجود ہے ؟ کہا گیا: نہیں، پھر عثمان نے کہا: کیا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جو ہم تک پانی پہنچا دے ؟
.
جب یہ خبر علیؑ کو ملی تو انھوں نے تین پانی سے بھری مشکیں عثمان تک پہنچا دیں۔ عثمان تک یہ پانی پہنچاتے پہنچاتے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے کچھ افراد زخمی ہو گئے اور جب علیؑ کو خبر ملی کہ مظاہرین عثمان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو علیؑ نے کہا:
.
ہم اس (عثمان) سے مروان کو مانگ رہے ہیں، لیکن ہم عثمان کو قتل نہیں کرنا چاہتے۔ پھر علیؑ نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے فرمایا:
جاؤ عثمان کے دروازے پر جا کر کھڑے ہو جاؤ اور کسی کو بھی اس تک پہنچنے کی اجازت نہ دینا۔ زبیر اور طلحہ نے بھی اپنے اپنے بیٹے کو وہاں بھیج دیا، حالانکہ طلحہ کا بیٹا اس کام پر راضی نہیں تھا۔ بعض اصحاب نے بھی اپنے بیٹوں کو بھیج دیا تا کہ وہ لوگوں کو عثمان کے گھر میں داخل ہونے سے روکیں اور عثمان سے کہیں کہ مروان کو اپنے گھر سے باہر نکال دے۔
.
محمد ابن ابوبکر دیکھ رہا تھا کہ لوگ انکی طرف تیر برسا رہے ہیں، یہاں تک کہ حسنؑ گھر کے دروازے کے نزدیک خون سے رنگین ہو گئے، مروان کو گھر کے اندر تیر لگا، محمد ابن طلحہ بھی خون سے رنگ گیا، قنبر کا سر زخمی ہو گیا، محمد ابن ابوبکر ڈر گیا کہ کہیں بنی ہاشم امام حسنؑ و امام حسینؑ کی حالت کی وجہ سے غصہ میں نہ آ جائیں، اسی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ کو پکڑ کر ان سے کہا:
.
اگر بنی ہاشم آئیں اور خون کو حسنؑ کے چہرے پر دیکھیں تو ناراض ہوں گے، لوگوں کو عثمان تک پہنچنے سے روکیں گے اور تم بھی اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاؤ گے، پس آؤ میرے ساتھ چلو تا کہ دیوار سے اوپر جا کر اسے قتل کر دیں، اسطرح کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا، پس محمد ابن ابوبکر اور اسکے ساتھ دو بندے ایک انصاری کے گھر کی دیوار سے عثمان کے گھر میں داخل ہو گئے، عثمان کے ساتھیوں کو بالکل پتا نہ چلا کہ کوئی گھر میں داخل ہوا ہے کیونکہ عثمان کے گھر میں موجود سب لوگ گھر کی چھت پر تھے اور صرف عثمان کی بیوی گھر کے اندر تھی۔
محمد ابن ابوبكر نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا: تم ادھر ہی کھڑے رہو اور میں کمرے کے اندر جاتا ہوں، جب میں نے اسے مارنا شروع کروں تو تم بھی اندر آ جانا تا کہ اسے مل کر اتنا ماریں کہ وہ مر جائے۔
.
پس محمد بن ابوبكر اندر داخل ہوا اور عثمان کی داڑھی کو پکڑ لیا، عثمان نے اسے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا باپ تجھے ایسا کرتے دیکھ لیتا تو غصے سے مر جاتا، محمد نے اسکی داڑھی کو چھوڑ دیا لیکن اسکے دو ساتھیوں نے عثمان پر حملہ آور ہو کر اسے اتنا مارا کہ وہ مر گیا اور جس راستے سے اندر آئے تھے ڈرتے ڈرتے اسی راستے سے باہر فرار کر گئے۔
.
عثمان کی بیوی نے شور مچایا لیکن گھر میں اتنا شور تھا کہ کسی نے اسکی آواز کو نہ سنا، پھر عثمان کی بیوی لوگوں کے سامنے گئی اور ان سے کہا:
.
امير المؤمنين (عثمان) قتل ہو گیا ہے،
.
پس حسنؑ و حسینؑ اور انکے ساتھی اندر داخل ہوئے دیکھا کہ عثمان ذبح ہوا زمین پر پڑا ہے، انھوں نے عثمان کے لیے گریہ کیا اور گھر سے باہر چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ گھر کے اندر آئے اور انھوں نے بھی دیکھا کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر علیؑ ، طلحہ، زبیر، سعد اور مدینہ کے دوسرے لوگوں تک پہنچی تو وہ سارے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے، یہ خبر سن کر وہ دیوانہ وار عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں اسے ذبح شدہ پایا، پس سب نے انا لله وإنا اليه راجعون کہنا شروع کر دیا۔
.
علیؑ نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا: تم دونوں گھر کے دروازے پر تھے پھر وہ کیسے قتل ہو گیا، پھر علیؑ نے حسنؑ اور حسینؑ کو ایک ایک تھپڑ مارا، محمد ابن طلحہ کو گالی دی اور عبد اللہ ابن زبیر پر لعنت کی۔
.
علیؑ شدید غصے کی حالت میں گھر سے باہر چلے گئے، انکا خیال تھا کہ عثمان کو قتل کرنے میں طلحہ کا بھی ہاتھ ہے، طلحہ کا جب علیؑ سے سامنا ہوا تو اس نے کہا:
.
اے ابو الحسن آپکو کیا ہوا ہے کہ آپ نے حسن و حسین کو تھپڑ مارا ہے ؟ علیؑ نے کہا: خدا کی لعنت ہو تم پر میں کیسے غصہ نہ کروں، حالانکہ امیر المؤمنین (عثمان) کو قتل کر دیا گیا ہے، وہ صحابی رسول اور جنگ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے تھا، بغیر کسی وجہ اور دلیل کے لوگوں نے اسکو قتل کر دیا ہے۔ طلحہ نے کہا: اگر مروان کو ہمارے حوالے کر دیتا تو ایسے قتل نہ ہوتا۔ علیؑ نے کہا: اگر مروان کو تمہارے حوالے کر دیتا تو وہ حکومت ملنے سے پہلے ہی قتل ہو جاتا۔
.
ابن شبہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس پر یوں تبصرہ کیا :
.
یہ ایسی حدیث ہے کہ جس میں سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے، اسکی سند منکر ہے، راوی نے اسے ابی ذئب سے نقل کیا ہے کہ جسے کوئی جانتا ہی نہیں ہے، جبکہ ابی ذئب اور اس سے پہلے والے راوی قوی (معتبر) ہیں۔
.




ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں اسکے ایک راوی محمد بن عیسی بن قاسم کے زیل میں یوں لکھا ہے :
.
بخاری نے کہا : اس نے ابن ابی ذئب سے یہ حدیث نہیں لی یعنی جو زھری سے منقول ہے عثمان کے قتل کے بارے میں۔
ابن حبان نے کہا کہ اس نے یہ روایت ابن ابی ذئب سے نہیں سنی بلکہ اس نے یہ روایت اسماعیل بن یحیی سے سنی تھی جس نے پھر ابن ابی ذئب سے سنی اور اس نے اسماعیل (بن یحیی) سے تدلیس کی اوہ وہ اسماعیل خراب راوی ہے۔
.
ابن عدی نے کہا کہ اسکی اس روایت پر انکار کیا گیا جو اس نے قتل عثمان کے بارے میں نقل کی کہ اس نے یہ ابن ابی ذئب سے سنی ہی نہیں۔
.
ابو عبداللہ حاکم نے کہا کہ یہ اچھا راوی ہے لیکن اس نے ابن ا ی ذئب دے منکر حدیث نقل کی عثمان کے قتل کے بارے میں۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب میں عن اسماعیل بن یحیی عن ابن ابی ذئب تھا اور اس نے اسکو ساقط کیا اور یہ اسماعیل خراب راوی تھا۔
.




لہذا ثابت ہوا کہ اس پورے قصے کی سند ہی ضعیف ہے۔
.
اگر اس روایت کو تسلیم بھی کیا جائے تو اس کے متن میں کافی ایسے نکات ہیں جنکو اھل سنت تسلیم ہی نہیں کریں گے مثلاً :





اب فیصلہ اھل سنت عوام پر چھوڈتے پیں۔
.
المصنف ابن شیبہ کتاب الجمل میں ہیں ان میں سے ایک روایت یہ بھی ھے کہ جناب علی ؑ مالک اشتر کے ساتھ طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آۓ تھے کہ قتل عثمان کو روکو لیکن طلحہ نے کہا میں نہیں روکوں گا جب تکہ بنی امیہ لوگوں کا مال واپس نہیں کرتے
المصنف ابن ابی شیبہ مجلد 11 کتاب الجمل آخری صفحات



