حضرت جہجاہ بن سعید رضی اللہ

حضرت جہجاہ بن سعید رضی اللہ
.
بیعتِ رضوان میں حاٖضر تھے” شَہِدَ بیعۃَ الرضوانِ بالحدیبیۃ۔
(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1؍621)
.
اور متعدد کتب میں عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا لکھا ہے، جس کی تائید “استیعاب” سے بالخصوص ہوتی ہے کہ انھوں نے پہلے اِن کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا اور پھر “ہذا ہو الذی تَنَاوَلَ العَصَا” کے الفاظ کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا ہے۔
(الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،1 ؍ 334)
.
انکے صحابی ہونے کی صراحت اِن کتب میں بھی کی گئی ہے.(۱)
(التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید) فلما أسلمتُ
غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی شریف کے منبر اقدس پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بدنصیب اورخبیث النفس انسان جس کا نام ’’جہجاہ غفاری‘‘تھا کھڑا ہوگیا اور آپ کے دست مبارک سے عصا چھین کر اس کو توڑ ڈالا۔ آپ نے اپنے حلم وحیاء کی و جہ سے اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن خدا تعالیٰ کی قہاری وجباری نے اس بے ادبی اورگستاخی پر اس مردود کو یہ سزاد ی کہ ا سکے ہاتھ میں کینسر کا مرض ہوگیا اوراس کا ہاتھ گل سڑ کر گرپڑا اوروہ یہ سزا پاکر ایک سال کے اندرہی مرگیا۔(1)
(حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۲وتاریخ الخلفاء،ص۱۱۲)
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی منزلہ فحلب لی عنزا،7؍ . (230 (۲) (الثقات لابن حبان)وکان جہجاہ من فقراء المہاجرین وہو الذی أکل عند النبی صلی اللہ علیہ و سلم وہو کافر فأکثر ثم أسلم فأکل فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم المؤمن یأکل فی معی واحد والکافر یأکل فی سبعۃ أمعاء (1؍280) (۳)(أسد الغابۃ) ثم أسلم فلم یستتم حلاب شاۃ واحدۃ (1؍451) (۴)(شرح مشکل الآثار للطحاوی) ثم إنہ أصبح فأسلم (1؍280)(حصہ دوم( (۵) شرح الزرقانی علی المؤطا. ثم أصبح فأسلم۔ (4؍393)
.
1…حجۃاللّٰہ علی العالمین،الخاتمۃفی اثبات کرامات الاولیاء۔۔۔الخ،المطلب الثالث فی ذکرجملۃجمیلۃ۔۔۔الخ،ص۶۱۳
.
اگر ایک بیعتِ رضوان میں حاٖضر صحابی حضرت جہجاہ بن سعید رضی اللہ کو بدنصیب ، خبیث النفس اور مردود کہا جاسکتا ھے توجو صحابی خلیفہ رسول حضرت علی بن ابی طالب کے خلاف لڑتے ھیں اور ان پرسب و دشتم کرتے رھے کیا ان کو بدنصیب ، خبیث النفس اور مردود کے القابات سے کیوں نہیں پکارا جاسکتا
.
ابو نعیم اصفہانی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا :
“جہجاہ الغفاری عثمان کی طرف گیا جب وہ منبر پر خطبہ دے رہا تھا اور اس کے ہاتھ سے عصاء چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پہ رکھ کر توڑنے کی کوشش کی ، لیکن لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا ، پھر اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا ، جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی ، اور وہ اُسی وجہ سے سال سے کم عرصے میں مرگیا ۔
⛔دلائل النبوۃ – ابو نعیم اصفہانی // صفحہ ۵۸۱ // رقم ۵۲۹ // طبع دار النخائس بیروت لبنان۔
اس گستاخ عثمان – جہجاہ الغفاری کے بارے میں ابن حجر عسقلانی نے اپنے صحابہ کے موسوعہ میں یوں لکھا ہے :
جھجاہ بن سعید، کہا جاتا ہے یہ ابن قیس اور کہا جاتا ہے ابن مسعود الغفاری۔ یہ بیعت رضوان میں شامل تھا حدیبیہ کے موقعہ پر۔۔۔۔ ابن عبدالبر نے ادکو مہاجرین میں بھی شامل کیا۔
⛔الاصابۃ – ابن حجر عسقلانی // جلد ۱ // صفحہ ۳۸۲ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
واضح رہے کہ اھل سنت کا عقیدہ ہے کہ بیعت رضوان میں شامل تمام صحابہ جنتی تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صحابی جھجاہ الغفاری کہاں جائے گا ؟؟؟