احباب گرامی
اہل سنت کی روایات کے مطابق بھی رسول خدا ﷺ اور امیر المؤمنین علی ؑ مخلوق خدا پر خداوند کی طرف سے حجت ہیں
اھلسنت کتب میں یہ دو مختلف عبارات سے روایت نقل ھے
.
پہلا متن
رسول اللہ ﷺ اور امير المؤمنین علی ؑ روز قیامت حجت خدا بر امت
خطيب بغدادی نے كتاب تاريخ بغداد میں روايت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے
.
قال نبأنا الحسين بن محمد بن مصعب السنجي قال نبأنا علي بن المثني الطهوي قال نبأنا عبيد الله بن موسي قال حدثني مطر بن أبي مطر عن أنس بن مالك قال كنت عند النبي صلي الله عليه وسلم فرأي عليا مقبلا فقال انا وهذا حجة علي امتي يوم القيامة.
.
مطر ابن ابی مطر نے انس ابن مالک سے روايت نقل کرتے ہوئے کہا ہے: میں رسول خدا ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی وقت علی ؑ بھی وہاں آ گئے، رسول خدا نے فرمایا
میں اور یہ (علی ؑ ) روز قیامت اس امت پر حجت ہوں گے۔
.
البغدادي، ابو بكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 2، ص 88، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
.
اس روايت کو ابن عساكر نے بھی اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج42، ص 309،
.
دوسرا متن
پيغمبر خدا ﷺ اور امير المؤمنین علی ؑ مخلوقات پر حجت خدا
ابن عساكر نے اس روايت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے
.
أخبرنا أبو بكر محمد بن القاسم بن المظفر بن الشهرزودي بدمشق أنا أبو الحسن علي بن أحمد بن محمد المؤذب المديني بنيسابور أنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسي السلمي أنا القاضي أبو الحسن عيسي بن حامد الرخجي ناجدي محمد بن الحسن نا علي بن محمد القطان نا عبيد الله بن موسي العبسي نامطر الإسكاف قال سمعت أنس بن مالك يقول نظر رسول الله صلي الله عليه وسلم إلي علي بن أبي طالب رضي الله عنه فقال أنا وهذا حجة الله علي خلقه.
.
انس ابن مالک کہتے ہیں رسول خدا ﷺ نے علی ابن ابی طالب ؑ کی طرف دیکھ کے فرمایا: میں اور یہ خلق خدا پر حجت خدا ہیں۔
تاريخ مدينة دمشق، ج 42، ص 309
.
اور یہ روایت اس عبارت کے ساتھ بھی ذکر ہوئی ہے
جو کہ صحیح سند کے ساتھ نقل ہوئ ھے
اور ہم اسی طریق کے رجال پر بات کریں گے
.
أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن عبد الملك أنا أبو طاهر بن محمود أنا أبو بكر بن المقريء أنا أحمد بن عمرو بن جابر الرملي نا أحمد بن خيثم نا عبيد الله بن موسي عن عطاء بن ميمون عن أنس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم أنا وعلي حجة الله علي عباده.
.
انس ابن مالک روايت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا
میں اور علی ؑ مخلوق خدا پر حجت خدا ہیں۔
تاريخ مدينة دمشق، ج 42، ص 309
.
احوال سند
.
اس روایت کا پہلا راوی
ابو عبداللہ الحسین بن عبدالملک
ان کا نام الخلال ابو عبداللہ حسین بن عبداللہ بن الحسین ھے
حافظ ذھبی نے انکو شیخ امام صدوق شیخ العربیہ مسند اصبہان جیسے القابات سے نوازا ھے
443 ھجری میں متولد ہوۓ یہ سمعانی ابن عساکر ,عثمان موید جیسے محدثین کے اساتذہ میں سے تھے
ذھبی نے سمعانی کا قول نقل کیا ھے
سمعانی کہتے ہیں میں نے ان کو بوڑھا ہونے کے بعد دیکھا وہ ایک اچھے ساتھی اور اچھے رہن سہن والے اچھی گفتگو کرنے والے تھے غربت کے باوجود کسی سے کچھ نہ قبول کرتے
532 ھجری میں وفات پائ
سیر اعلام النبلاء جلد 19 ص 620 مکتبة الاسلامیہ طبقہ ثلاثون والعشرون
.
2 ابو طاھر الثقفی
حافظ ذھبی نے ان کا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کروایا ھے
یہ ثقہ ہیں
ذھبی لکھتے ہیں الشیخ العالم الثقة المحدث مسند أصبھان ابو طاہر احمد بن محمود بن احمد بن محمود الثقفی
سمع من ابی الشیخ
حدث عن ابی بکر بن المقرئ و ابی احمد بن جمیل ,وابی مسلم عبدالرحمن بن شھل
ؤا حمد بن علی الخلقانی ,والحافظ ابی عبداللہ بن مندہ
اپنے والد سے سمع کیا اور
ع ابی بکر بن المقرئ و ابی احمد بن جمیل ,وابی مسلم عبدالرحمن بن شھل
ؤا حمد بن علی الخلقانی ,والحافظ ابی عبداللہ بن مندہ سے روایت کرتے ہیں
سیر اعلام النبلاء جلد 18 ص 123 مکتبہ اسلامیہ
.
روایت کے تیسرے راوی
3 ابو بکر المقری
الشيخ الحافظ الجوال الصدوق ، مسند الوقت أبو بكر محمد بن إبراهيم بن علي بن عاصم بن زاذان الأصبهاني ابن المقرئ ، صاحب ” المعجم ” ، والرحلة الواسعة
ان کی کتاب معجم ھے
یہ ثقة الحدیث ہیں
انہوں نے محمد بن نضیر بن ابان المدینی اسماعیل بن عمرو بجلی ابو یعلی الموصلی سے روایات نقلی کی ہیں
جبکہ ان سے ابو اسحاق بن حمزہ ابو بکر بن مردویہ
ابن علی الذکوانی نے روایات نقل کی ہیں
قال ابن مردویہ فی تاریخہ ثقہ مامون صاحب اصول حدیث
قال ابو نعیم محدث کبیر ثقہ
سیر اعلام النبلاء ج16بص 399
.
روایت کے چھوتھے راوی
احمد بن عمرو بن جابر الرملی
ابو بکر الحافظ بالرملة
ذھبی لکھتے ہیں
ثقة امام حافظ محدث بالرملہ
یہ محمد بن عوف الطائ سے ابراھیم بن عبداالہ القصار ھے
سلیمان بن سیف الحرانی
سیر اعلام النبلاء طبقات سیوطی
.
پانچواں راوی
أبي حاتم الرازي – الجرح والتعديل
احمد بن رشد بن خثيم [الهلالي –
مقبول راوی ھے
ابن أخي سعيد بن خثيم روى عن عمه سعيد بن خثيم روى عنه أبي وسمع منه ايام عبيد الله بن موسى أحاديث
ابن ابی حاتم۔کہتے انہوں اپنے چچا کے بیٹے سے اور اپنے چچا سے روایت کی ھے اور عبیداللہ بن موسی سے روایت کی ھے
ابن ابی حاتم نے ان پر کؤئ جرح نہیں کی
.
چھٹا راوی
عبید اللہ بن موسی بن ابی المختار باذام
یہ صحیح بخاری کے راوة میؔ سے ھے
ثقہ ھے امام حافظ آلعابد کہا جاتا ھے
ان سے احمد بن حنبل اسحاق ابن معین ,محمد بن عبداللہ بن نمیر عباس االدوری احمد بن عبداللہ العجلی ,احمد بن حاذم الغفاری نے روایات نقل لی ہیں
روایت کے ساتویں راوی
عطاء بن میمون ہیں
5649 – عطاء بن ميمون. عن أنس. لا يعرف. وخبره منكر.
أحمد بن خثيم، حدثنا عبد الله بن موسى، عن عطاء، عن أنس – مرفوعا: أنا وعلى حجة الله على عباده. روى ابن المقرى، عن أحمد بن عمرو بن جابر الرملي، عنه.
ذھبی لکھتے ہیں کہ عطاء بن میمون انس سے روایت کرتے ہیں لیکن ان کا پتا نہیں ھے کون ہیں یعنی مجھول ہیں
احمدبن خثیم۔عبیداللہ بن موسی سے وہ عطاء بن میمون سے وہ انس سے مرفوعا نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور علی ؑ لوگوں پر اللہ کی حجت ہیں
میزان لاعتدال ج 3 ص 86
احوال سند میں عطاء بن میمون پر مجھول کی جرح ھے باقی رجال ثقات میں سے ییں ذھبی کا اس خبر کو منکر کہنا صحیح نہیں ھے کیونکہ اس کے اور طریق بھی موجود ہیں تین طریق تو اسی سکین میں موجود ہیں جو پیش کیا گیا ھے
.
اس کا ایک اور طریق یعنی مطر لاسکاف سے پیش خدمت ھے
أَخْبَرَنَا أَبُو القاسم، أنا أبو القاسم، أنا أبو القاسم، أنا أبو أحمد بن عدي نا ابن
زیدان، نا عبد الرحمن بن سراج، نا عبيد الله بن موسى، عن مطر، عن أنس قال : كنت جالساً مع النبي ﷺ إذ أقبل علي بن أبي طالب رضي الله عنه فقال النبي ﷺ : يا
أنس أنا وهذا حجة الله على خلقه
.
اور اس کی شواہد میں شیعہ سنی کتب میں بھی روایات موجود ہیں
ہم نے صرف ایک طریق کی سند پر وضاحت پیش کی
تحرہر و تحقیق سید ساجد بخاری


انس بن مالک کہتے ہیں میں رسول خدا کیساتھ بیٹھا ہوا تھا تو علی ہمارے پاس آئے تو رسول خدا ص نے پوچھا بتا انس یہ کون ہے ؟
میں نے کہا یہ علی بن ابی طالب ہیں۔
تو رسول خدا نے فرمایا اے انس میں اور یہ علی ابن ابی طالب اس مخلوق خدا پر اسکی کی حجت ہیں۔
اس میں تمام راوی ثقہ ہیں۔

