.
نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم
النظر الی وجہ علی عبادہ
علی ع کا چھرہ دیکھنا عبادت ہے
.
کنزالعمال ج 11 صفحہ 601
کفایۃ الطالب صفحہ 158
مناقب علی ع صفحہ 164
ارجمند الطالب صفحہ 843
الریاض النضرہ صفحہ195
الصواعق المحرقہ صفحہ 430
شرح مزاھب اہل السنتۃ حدیث 103
فضائل خلفاء راشدین حدیث 28
البدایہ والنھایہ جلد 7 صفحہ 467
ینابیع المودۃ صفحہ 143
.
ابن کثیر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکہتا ہے
.
ان میں سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں بلاشبہ ان میں سے کوئی بھی کذاب مجھول الحال شخص سے خالی نہیں اور وہ شیعہ ہے
لیکن یہ ابن کثیر صاحب کی ناصیبیت اور جاھل پن ہے کیونکہ ان جناب نے مولا علی ع سے بعض طاہر کرتے ہوئےاس روایت کے تمام اسناد کو رد کرنے کی کوشش کی


.
لیکن ھم بتاتے ہیں کہ یے روایت اہل سنت کی مشائخ کی نظر کیا حیثیت رکھتی ہے
.
1: امام حاکم نے اسے صحیح کہا۔۔۔مستدرکالحاکم
2: امام جلال الدین سیوطی نے اسے احسن کہا ہے ۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء
3: حافط یوسف کنجی شافعی نے اسے احسن کہا۔۔۔۔۔کفایۃ الطالب
4: علامہ ابن حجر مکی شافعی نے اسے آحسن کہا ہے۔۔۔الحواعق الحرامہ
.
امام ابن شاہین اسے نقل کرنے کے بعد لکہتے ہیں
کفود علی بھذہ الفضیلۃ لم یشر کہ فیھا احد
علی ع اس فضیلت مین اکیلے ہیں اور کوئی بھی اس فضیلت میں انکا شریک نہی
.
شرح مذہب اہل سنتۃان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت اہل سنت کے تمام مشائخ کے نزدیک صحیح اور احسن ہے لیکن ابن کثیر صاحب نے بعض علی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ناصیبی پن ظاہر کیا ہے اور ناصیبیت پن پر ھم پہلے ہی نوٹ بنا چکے ہیں کہ ناصیبی کا مقام اہل سنت کے علماء کی نظر میں کیا ہے



















.
وعلیکم السلام ورحمتہ
دعا طلب تمام استاد صاحبان کے ساتھ فقیر جنسارعلی مولائی
.
حضرت علی ع کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے + حدیث تواتر
اس حدیث پر ناصبیوں کی طرف سے بہت سے اعتراض کیے جاتے ہیں اور ضعیف کہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ لوگ حدیث پر جرح تو کرتے ہیں مگر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ تو حدیث تواتر ہے اور گیارہ صحابیوں سے طرق کے ساتھ بیان ہوئی ہے جن کے نام ابو بکر ، عثمان ، ابن مسعود ، ابن عباس ، معاذ ، جابر ، انس ، ابوہریرہ ، ثوبان ، عمران بن حصین اور عائشہ ہیں۔ یہ جلال الدین سیوطی کا اقرار نامہ ہے۔ اس کے بعد ناصبیوں کے سارے اعتراضات فضول ہیں
تعقبات السیوطی صفحہ 341

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تخریج حدیث
النظر الی وجھہ علی ؑ عبادہ
ؒرسول اللہ ﷺ نے امیر المومنین علی ؑ کے اتنے فضائل و مناقب بیان فرماۓ ہیں جو کہ کسی بھی دوسرے صحابی رسول ﷺ کے حصے میں نہیں آۓ ان فضائل و مناقب میں ایک روایت النظر علی وجھ علی ؑ عبادہ ھے یعنی علی ؑ کا چہرہ دیکھنا عبادت ھے
اس روایت پر ابن جوزی اور ذھبی سمیت متعدد علماء نے موضوع کی جرح کر رکھی ھے
اگر ہم حقیقت اور اصول حدیث اھلسنت کو دیکھیں تو سمجھ آۓ گی کہ یہ سب جرح مردود ھے
اور مولا علی ؑ سے تعصب کی بنیاد پر اس روایت پر موضوع اور ضعیف کا حکم لگایا گیا ھے
نیچے ہم اس روایت کے کچھ طریق کو نقل کریں گے اس کے بعد نتیجہ دیں گے حنفیوں کے ایک مفسد فی الارض شخص نے اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ھے
اس کے اس روایت پراٹھاۓ گئے اشکال کا جواب دیں گے
اس موضوع پر ٹوٹل روایات کی تعداد گیارہ (11) کے لگ بھگ ھے جو کہ مختلف کتب میں نقل ہیں اس کی متابعت میں بھی روایات ہیں
ہم پہلے چار روایات نقل کرتے ہیں ان میں سے ایک کے رجال پر بحث ہو گی
نمبر 1 مستدرک علی الصحیحین کی روایت کا طریق
#1حدثنا عبدالباقی بن قانع الحافظ ثنا صالح بن مقاتل بن صالح ثنا محمد بن عبد بن عتبہ ثنا عبداللہ بن محمد بن سالم ثنا یحیی بن عیسی الرملی عن الاعمش عن ابراھیم عن علقمة عن عبداللہ بن مسعود
قال النبی ﷺ النظر علی وجھ علی عبادہ
المستدرک علی الصحیحین ج 3 ص 142 کتاب معرفة الصحابہ
امام طبرانی نے بھی اس روایت کو کتاب المعجم الکبیر میں نقل کیا ھے
طبرانی میں یہ روایت یوں نقل ھے
#2حدثنا محمد بن عثمان بن ابی شیبة ثنا احمد بن بدیل الیامی ثنا یحیی بن عیسی عن الاعمش عن ابراھیم عن علقمة عن عبداللہ بن مسعود
المعجم الکبیر للطبرانی ج 10 ص 76 رقم 10006
ابن شاھین نے بھی یحیی بن عیسی والے طریق کو اپنی کتاب میں نقل کیا ھے
#3حدثنا محمد بن الحسین بن حمید بن الربیع ثنا محمد بن عبید بن عتبہ ثناء عبداللہ بن سالم القزاز ثناء یحیی بن عیسی الرملی عن الاعمش عن ابراھیم عن علقمة عن عبداللہ بن مسعود
شرح مذاھب اھل السنة فضیلة علی ابن ابی طالب ج1 ص 145 ح 103
#4ابو نعیم الاصبھانی حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء میں یحیی بن عیسی الرملی کے طریق سے روایت لاتے ہیں
روایت کچھ یوں ھے
حدثنا ابو الھیثم احمد بن محمد بن غوث الھمدانی قال ثنا الحسن بن حباش قال ثنا ھارون بن حاتم ثناء یحیی بن عیسی الرملی عن الاعمش عن ابراھیم عن علقمة عن عبداللہ ۔۔۔
حلیة الاولیاء ج 5 ص 58
ان چاروں روایات میں ایک چیز مشترک ھے اور وہ ھے کہ یحیی بن عیسی الرملی سے جناب عبداللہ بن مسعود تک ایک ہی طریق ھے
یحیی بن عیسی الرملی کے طریق سے اس روایت کو نقل کرنے والے محدثین
جو روایت مستدرک میں ھے
1 عبدالباقی بن قانع 2 صالح بن مقاتل بن صالح 3 محمد بن عبد بن عتبہ 4 عبداللہ بن محمد بن سالم
مستدرک کے 4
طبرانی کی روایت
1 محمد بن عثمان بن شیبہ
2 احمد بن بدیل الیامی
طبرانی کے 2
شرح مذاھب اھل السنة
1 محمد بن الحسین بن حمید بن الربیع 2 محمد بن عبد بن عتبہ 3 عبداللہ بن سالم القزاز
شرح مذاھب کے 3
اس میں محمد بن عبید بن عتبہ مستدرک کے طریق میں بھی شامل ھے
حلیة الاولیاء میں
1 ابو الھیثم احمد بن محمد بن غوث الھمدانی 2 الحسن بن حباش 3 ھارون بن حاتم
حلیة الاولیاء کے تین
ان چار روایات کے ٹوٹل راوی جو کہ یحیی بن عیسی الرملی کے طریق سے روایت نقل کرتے ہیں وہ 12 ہیں عبد بن عتیبہ کا ذکر دو مرتبہ آیا ھے اس لیے اگر ان کو ایک روایت میں بھی شمار کریں تو یہ 11 رواة بنتے ہیں جو کہ یحیی بن عیسی الرملی عن االاعمش عن ابراھیم عن علقمة عن عبداللہ کے طریق سے روایت نقل کرتے ہیں اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ صرف اس طریق کے یہ 11 رواة کسی ضعیف یا موضوع روایت کو روایت کریں
ان چار روایات میں سے ہم معجم الکبیر طبرانی کی سند پر بات کرتے ہیں
اس کے بعد اس کی متابعت بھی پش کریں گے
(1) طبرانی کے شیخ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ
حافظ ذھبی ان کے بارے سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں
الامام الحافظ المسند ابو جعفر العبسی الکوفی
قال صالح جزرة ثقہ وکان من اوعیة العلم و عن عبدان قال لا بأس بہ
یہ امام حافظ حدیث تھے
صالح جزرة کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں ذھبی کہتے ہیں یہ علم کا برتن تھے عبدان کہتے ہیں ان میں حرج نہیں ھے
سیر اعلام النبلاء ج 14 ص 21
ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
خطیب بغدادی فرماتے ہیں
وکان کثیر الحدیث
خطیب بغدادی مزید سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں اخبرنی محمد بن علی المقرئ اخبرنا ابو مسلم عبدالرحمن محمد بن عبداللہ ابن مہران قال و سئل ابی علی صالح بن ۔محمد عن محمد بن عثمان ابن شیبہ فقال ثقہ
ابو علی صالح بن محمد کہتے ہیں یہ ثقہ ہیں
قال ابن عدی لم أرلہ حدیثا منکرا فأذکروہ
ابن عدی کہتے ہیں میں نے ان کی کوئ منکر روایت نہیں دیکھی
قال سئل عبدان عن ابی عثمان بن ابی شیبہ فقال ما علمنا الا خیرا
عبدان سے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کے۔متعلق سوال ہوا تو کہا میں ان میں سواۓ خیر کے کچھ نہیں جانتا
تاریخ بغداد لخطیب بغدادی
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ پر جرح کا جواب
محمد بن عثمان پر طحاوی حنفی جرح کرتے ہوۓ کہتا ھے کہ جمہور نے اس کو ضعیف کہا ھے جبکہ کچھ نے اس کی توثیق بھی کی ھے اور عبداللہ بن احمد نے انکو کذاب کہا ھے
ہم کہتے ہیں کہ جب ان کی توثیق بھی کچھ علماء نے کر رکھی ھے تو پھر لفظ جمہور تو ختم ہو گیا کیونکہ ان کی توثیق کرنے والوں میں ذھبی سمیت متعدد علماء جرح و تعدیل ہیں
الشیخ محمد بن خلیفہ التمیمی فی مقدمة تحقیقة الکتاب عرش وقال فی خاتمہ بحثہ و فی نظری ان أعدل الاقوال و أرجھا ھوما قالہ ابن عدی و مسلمة بن قاسم من أنہ لا باس بہ اما من حیث علوم الرجال وفنون الجرح و التعدیل فھو من أئمة ھذا الشان کما أطلق علیہ ذالک الذھبی والسخاوی وکفاہ فخرا فی ھذا أنہ تلمیذ الامامین من آئمہ الجرح و التعدیل و ھما بن معین و ابن المدینی
شیخ محمد بن خلیفہ التمیمی نے اپنی کتاب عرش کے مقدمے میں ان کے تعارف پر بحث کی ھے اور اس تحقیق کے اختتام پر کہا ھے
میرے خیال میں سب سے خوبصورت بات ابن عدی اور مسلمة بن القاسم نے کی ھے کہ ان میں کوئ حرج نہیں ھے یہ حدیث اور اس کی روایت کے معاملے میں جرح و تعدیل کے فن کے آئمہ میں سے ہیں
اور ان کے فخر کے لیے یہ بھی کافی ھے کہ وہ جرح وتعدیل کے دو امآموں یعنی علی بن المدینی
اور ابن معین کے خصوصی تلامذہ میں سے ہیں
ذھبی نے ان کی تالیفات کا بھی ذکر کیا ھے
(1 )محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کے علی بن المدینی سے سوالات”: سات صفحات پر مشتمل ایک چھوٹا رسالہ ھے جس کے جوابات پر مشتمل ہے کہ علی بن المدینی ان سوالات کا جواب دیا جو محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے ان سے پوچھے تھے۔
یہ رسالہ موفق بن عبداللہ نے مرتب کیا اور اس کی تدوین
عبدالقادر، ریاض کی علمی لائبریری سے شائع ہوئ
(2-) محمد بن عثمان کے اپنے شیوخ کے ایک گروہ سے سوالات
الجرح والتعدیل: یہ بھی ایک چھوٹے سائز کا رسالہ ہے جو کہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے، اور یہ وہ سوالات ہیں، جن میں اس نے اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے، جیسے علی بن المدینی، یحییٰ بن معین سے پوچھا۔ جس میں، ان کے والد، عثمان بن ابی شیبہ، کے بارے میں جرح و تعدیل کے سولات بیان کیے ہیں
اس لیے جب ابن عدی نے ان کے بارے میں کہہ دیا کہ مجھے ان کی کوئ حدیث منکر نہیں ملی تو عبداللہ بن احمد بن حنبل کی جرح بلا سبب ھے
ہم۔کہتے ہیں اگر ان کی تضعیف نے جمہور نے کی ھے تو ان کی توثیق کرنے والے کیا جمہور میں شامل نہیں ھے
اور کیا ایک عبداللہ بن احمد بن حنبل کے کذاب کہنے سے وہ کذاب ہو جائیں گے جب کہ عبداللہ آنکو کذاب کہنے میں خود منفرد ہیں
__________________________________________________
یہ احمد بن بدیل بن قریش بن بدیل بن الحارث ہیں
قال ابن ابی حاتم محلہ الصدق
ابن حاتم کہتے ہیں یہ سچے ہیں
جرح و تعدیل ج 2 ص 93
قال ابن حبان مستقیم الحدیث
ابن حبان کہتے ہیں یہ حدیث میں استقامت ہر ہیں
الثقات ج 8 ص 93
خطیب بغدادی ھو من افضل العلم والفضل
یہ علم و فضل میں افضل تھے
اکمال تہذیب الکمال ج 1 ص 26
ذھبی کان عابدا
ذھبی کہتے ہیں یہ عابد اوف زاھد تھے الکاشف ج 2 ص 9
نسائ لابأس بہ
نسائ کہتے ہیں ان میں حرج نہیں ھے
تہذیب تہذیب ج 1 ص 17
قال المزی من اھل العلم والفضل ولی قضاة الکوفہ
تہذیب الکمال ج 1 ص 270
__________________________________________________
قال العجلی ثقہ کان فیہ تشیع
عجلی کہتے ہیں ثقہ ہیں ان میں تشیع پائ جاتی ھے
یحیی بن عیسی الرملی
بخاری کی کتاب الادب المفرد
امام مسلم کی کتاب صحیح مسلم ابو داود کی سنن ترمزی کی سنن اور سنن ابن ماجہ کے متفق علیہ راوی ہیں
یعنی کتب صحیحین کی چار معتبر کتب میں احادیثکے راوی ہیں
تہذیب کمال ج31 ص 498
تاریخ الدوری ج 2 ص 681
رجال صحیح مسلم لابن منجویہ ص 196
الثقات العجلی ص 58
جرح و تعدیل ج 9 رقم 739
الکاشف ج 3 رقم 6331
یحیی بن عیسی الرملی پر جرح کے جواب کے لیے اتنا ہی کافی ھے کہ وہ کتب صحیحین کے راوی ہیں اور رجال مسلم میں سے ہیں
__________________________________________________
یہ بھی ثقہ ہیں ان کی روایات تمام کتب صحیحین میں نقل ہیں
ذھبی کہتے الامام شیخ الاسلام شیخ المقربین والمحدثین ابو محمد الاسدی الکاہلی ھو علامة السلام
یہ شیخ السلام شیخ المحدثین الحافظ ہیں اسلام کے علماء میں سے ہیں
حدثنا عبدالرحمن قال سمعت ابی یقول الاعمش ثقہ یحتج حدیثہ
عبدالرحمن کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے کہا اعمش ثقہ ہیں ان کی حدیث سے احتجاج کیا جاۓ گا
جرح و تعدیل ج 4 ص 146
ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ھے
الثقات ج 4 ص 302
ذھبی الحافظ احد الاعلام
الکاشف ج 2 ص 535
الاعمش کے عنعنہ کا جواب یہ ھے کہ اس روایت میں سماع کی تصریح موجود ھے کیونکہ ابراہیم بن یزید النخعی اعمش کے شیوخ میں سے ہیں
__________________________________________________
الامام الحافظ فقیہ العراق ابو عمران ابراھیم بن یزید بن قیس بن الاسود بن عمرو بن ربیعہ بن ذھل
وکان مفتی اھل الکوفہ ھو الشعبی فی زمانہا کان رجل صالحا فقیھا
یہ صالح فقیہ اھل کوفہ کے مفتی تھے امام حافظ الحدیث اپنے زمانے کے شعبی تھے صحاح ستہ کے متفق علیہ راوی تھے
سیر اعلام النبلاء ج 3 ص 521
اکمال تہذیب الکمال ج 1 ص 237
__________________________________________________
فقیہ الکوفہ و عالمھا و مقرنھا الامام الحافظ مجتہد الکبیر ابو شبل علقمة بن قیس
یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں
یہ عمر عثمان اور علی ؑ سلیمان ابی الدرداء سے روایت کرتے ہیں
سیر اعلام النبلاء ج 7 ص 540
__________________________________________________
ذکرہ المتابعات
1 منصور بن ابی الاسود
2 عاصم بن عمرو البجلی
3 عبید اللہ بن موسی العبسی
4 سفیان الثوری
__________________________________________________
(1 منصور بن اي الاسود )
:ذكر متابعته ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
وقال السيوطي في الآلئ ” قلت له متابع عن الاعمش قال الشيرازي في الالقاب انبانا ابو علي زاهر بن احمد حدثنا ابو عبد الله محمد بن مخلد حدثنا احمد بن الحجاج بن الصلت حدثنا محمد بن مبارك استوية حدثنا منصور بن ابي الاسود عن الاعمش به . ” انتهى كلام السيوطي
وذكر متابعة منصور هذا ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
ومنصور هذا من رجال ابو داود والنسائي والترمذي
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع “
وقال في تهذيب التهذيب ج4 ص155
” قال ابن ابي خيثمة عن ابن معين ثقة وقال ابراهيم بن الجنيد عن ابن معين : لابأس به كان من الشيعة الكبار وقال ابو حاتم : يكتب حديثه وقال النسائي : ليس به بأس وذكره ابن حبان في الثقات
قلت : وذكره ابن سعد في الطبقة السادسة من اهل الكوفة وقال : كان تاجرا كثير الحديث ” انتهى
فالرجل ثقة بالاتفاق فالمتابعة تامة
(2- عاصم بن عمرو البجلي )
روى متابعته في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
حدثنا محمد بن الحسن بن محمد بن الحسين بن ابي الحسين ، ثنا احمد بن جعفر بن اصرم ثنا علي بن المثنى ثنا عاصم بن عمر البجلي
عن الاعمش عن ابراهيم عن علقمة عن عبد الله قال : قال رسول الله (ص) النظر الى وجه علي عبادة ” وذكرها السيوطي في اللآلئ
قال ابن حجر في التقريب : صدوق رمي بالتشيع
وقال الذهبي في الميزان ج2 ص 256 : لا بأس به ان شاء الله ، وهو من قدماء شيوخ سفيان “
وقال ابن حجر في تهذيب التهذيب ج2 ص259
” قال يحيى بن معين كان كوفيا قدم الشام وقال ابو حاتم : صدوق يحول من كتاب الضعفاء – يعني الذي للبخاري – وذكره ابن حبان في الثقات وروى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل صلاة الرجل في بيته قلت : قال البخاري لم يثبت حديثه
وذكره العقيلي في الضعفاء ” انتهى
فالرجل ثقة ولاعبرة بضعيفهما لانه جرح غير مفسر
على كل حال : الرجل يصلح للمتابعات
(3- وتابعه عبيد الله بن موسى)
( من رجال الستة )
قال ابو نعيم في فضائل الخلفاء ج1 ص67 رقم 38
بعد ان روى الحديث عن عاصم بن عمرو البجلي عن الاعمش عن ابراهيم قال :
” ورواه عبيد الله بن موسى ومنصور بن ابي الاسود ويحيى بن عيسى الرملي عن الاعمش مثله ” انتهى
والرجل من رجال الستة البخاري ومسلم والترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجة
(4- متابعة الثوري )
الظاهر والله العالم
بقرينة الراوي والمروي
انه سفيان الثوري وهو من رجال الستة
وهذه المتابعة اخرجها ابن عساكر في تاريخه ج42 ص352
” وروي عن الاعمش عن ابي وائل عن عبد الله أخبرناه أبو الحسين الخطيب وأبو الحسن المقدسي قالا أنا أبو عبد الله بن أبي الحديد أنا مسدد بن علي نا إسماعيل بن القاسم الحلبي نا أبو أحمد العباس بن الفضل بن جعفر المكي نا أبو بكر محمد بن هارون بن حسان المعروف بابن البرقي نا حماد بن المبارك نا أبو نعيم نا الثوري عن الأعمش عن أبي وائل عن عبد الله بن مسعود عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال النظر إلى وجه علي بن أبي طالب عبادة “
فالذين رووه عن الاعمش هم
1- يحيى بن عيسى الرملي
2- منصور بن ابي الاسود
3- عاصم بن عمرو البجلي
4- عبيد الله بن موسى
5- الثوري سفيان
__________________________________________________
1منصور بن ابی الاسود
ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس روایت کی متابعت منصور بن ابی الاسود کی روایت سے کیا ھے
سیوطی الآلی میں اعمش کی متابعت کا ذکر کیا ھے
شیرازی نے القاب میں
آبو علی زاھر بن احمد حدثنا ابو عبداللہ محمد بن ۔خلد حدثنا احمد بن الحجاج بن الصلت حدثنا محمد بن مبارک استویة حدثنا منصور بن الاسوش عن الاعمش کا ذکر کیا ھے اور سیوطی نے آخری کلام نقل کیا ھے
ابو نعیم نےفضائل الخلفاء میں منصور کی متابعت کا ذکر کیا ھے
ج 1 ص 67 رقم 38
منصور رجال ابو داود نسائ اور ترمذی میں سے ھے
ابن حجر تقریب التہذیب میں کہتے ہیں صدوق ہیں شیعیت کی طرف مائل تھے
تقریب التہذیب ج 4 ص 155
ابن ابی خثیمہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ ابن معین کہتے ہیں ثقہ ہیں
پھر کہتے ہیں یہ کبار شیعہ ہیں ان میں حرج نہیں ھے
ابو حاتم کہتے ہیں ان کی حدیث لکھی جاۓ گی نسائ کہتے ہیں ان میں حرج نہیں ھے ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ھے
ابن سعد نے ان کا ذکر اہل کوفہ ساتویں طبقہ میں کیا ھے کہتے ہیں یہ تاجر تھے کثرت سے حدیث بیان کرتے تھے
آخری بات یہ ھے کہ یہ شخص ثقہ ھے بالاتفاق اور ان کی متابعت مکمل ھے
__________________________________________________
2 عاصم بن عمرو البجلی یہ بھی فضائل الخلفاء ج 1 ص 67 رقم 38 میں متابعت میں روایت کرتے ہیں
محمد بن الحسن بن محمد بن الحسین بن ابی الحسین نے حدیث بیان کی احمد بن جعفر بن اصرم سے انہوں نے علی بن المثنی سے وہ عاصم بن عمرو البجلی سے وہ اعمش سے وہ ابراہیم النخعی سے وہ علقمہ سے وہ عبداللہ بن مسعود سے کہ علی ؑ کا چہرہ دیکھنا عبادت ھے
اس کا ذکر سیوطی نے الآلؠ میں کیا ھے
ابن حجر کہتے ہیں صدوق ھے شیعت کی طرف مائل تھے
ذھبی میران الاعتدال میں کہتے ہیں ان شاء اللہ ان میں حرج نہیں ھے یہ سفیان الثوری کے کے متقدم شیوخ میں سے تھے
ابن معین کہتے ہیں یہ کوفی تھے شام چلے گئے تھے ابو حاتم کہتے ییں صدوق ہیں بخاری نے ان کا ذکر ضعفاء میں کیا ھے جبکہ ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ھے
ابن ماجہ نے ان سے ایک حدیث فضل صلاة میں لی ھے جبکہ بخاری کہتے ہیں کہ یہ حدیث ثابت نہیں ھے عقیلی نے ان کا ذکر ضعفاء میں کیا ھے
آخری کلام یہ ھے کہ یہ ثقہ ہیں ان کا ضعف نقصان دہ نہیں ھے کیونکہ ان پر جرح غیر مفسر ھے
یہ متابعت میں صحیح ھے
__________________________________________________
3 عبیداللہ بن موسی کی متابعت ھے جو کہ رجال صحیحین میں سے ہیں
ابو نعیم فضائل الخلفاء ج 1 ص 67 رقم 38 میں فرماتے ہیں یہ حدیث روایت کرتے ہیں عاصم بن عمرو البجلی عن الاعمش عن ابراھیم کے طریق سے اور کہتے ہیں اس کے راوی ہیں عبید اللہ بن موسی منصور بن ابی الاسود اور یحیی بن عیسی الرملی اعمش کے طریق کی مثل
آخری کلام یہ ھے یہ صحیحین کے رجال میں سے ہیں
ان کی روایات بخاری و مسلم ترمذی ابو داود اور نسائ اور ابن ماجہ میں ہیں
__________________________________________________
4 اس روایت کی متابعت کا ذکر ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں کیا ھے
جو کہ سفیان الثوری سے ھے
سفیان الثوری بھی رجال ستہ میں سے ہیں
اس کی سند یہ ھے
آخبرناہ ابو الحسین الخطیب وابو الحسن المقدسی قالا انا ابو عبداللہ ابن ابی الحدید انا مسدد بن علی نا اسماعیل بن القاسم الحلبی نا ابو احمد العباس بن الفضل بن جعفر المکی نا ابو بکر محمد بن ھارون بن حسان المعروف بابن البرقی نا حماد بن المبارک نا ابو نعیم نا الثوری عن الاعمش عن ابی وائل عن عبداللہ ابن مسعود عن النبی ﷺ قال النظر الی وجہ علی بن ابی طالب عبادة
جو اعمش کے طریق سے روایت کرتے ہیں 1 یحیی بن عیسی الرملی
2 منصور بن ابی الاسود
3 عاصم بن عمرو البجلی
4 عبید اللہ بن موسی العبسی
5 الثوری یعنی سفیان
اوپر ہم نے جو روایات لگائ تھی ان میں یحیی بن عیسی الرملی روایات کرنے والوں کا ذکر کیا تھا
اور متابعت میں اعمش سے روایت کرنے والوں کا ذکر کیا ھے
یہ روایت بالکل صحیح ھے اس پر ضعیف کی جرح کرنا بھی جہالت ھے اس کے اور بھی طرق ہیں جن پر بعد میں گفتگو کریں گے اگر وقت نے اجازت دی تو
سید ساجد بخاری النقوی
.
.
.
حافظ ذھبی نے مستدرک کی تلخیص میں بہت زیادہ تعصب سے کام لیا ھے اور مولا علی ؑ کی شان می وارد کئ روایات پر محض اپنے تعصب کی وجہ سے جرح کر دی ھے
حافظ ذھبی سے تلخیص مستدرک میں کئ مقامات پر خطاء وارد ہوئ ھے
مثال کے طور پر ہم نے اس سے پہلے جو تحریر لکھی تھی جس میں النظر إلی وجہ علی عبادہ کی 11 روایات میں صرف 4 روایات پر کلام کیا تھا جس کو بارہ رواة نے صرف ترمزی ابن ماجہ مسلم کے راوی یحیی بن عیسی رملی سے اس روایت کو نقل کیاتھا
ذھبی کا اس روایت کو بلا سبب موضوع کہنا تعصب مبنی تھا
حافظ ذھبی کامستدرک کے حوالے سے نقد بعض مقامات پرکھلی ناصبیت ھے اس کا دوسرا ثبوت ملاحظہ ہو ایک جگہ حاکم نے ایک حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اس پر ذہبی نے نقد کرتے ہوۓ لکھا ہے
عبدالرحمن لم یسمع من ابیہ و عبد الرحمن و من بعدہ سوا بحجتہ:
عبدالرحمن نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا تھا اور عبد الرحمن اور ان کے مابعد کے راوی حجت نہیں جبکہ ابن حجر جن کا مقام و مرتبہ ذھبی کے لیول جتنا ہی ھے انہوں نے تقریب التہذیب میں عبدالرحمن کو ثقہ اورکبار تابعین میں بشمار کیا ھے ان کا انتقال 79 ھ کو ہوا انہوں نے اپنے والد سے سماع کیا ہے لیکن کم ابن حجر نے بالکل بھی انکار نہیں کیا ھے کہ سماع ثابت ہی نہیں ھے
اس طرح ان کے بیٹے قاسم کے ترجمہ میں لکھا ھے کہ وہ ثقہ و عابد اور طبقہ رابعہ میں سے ہیں اس لیے ذھبی کا ان لوگوں کو مطلقا عدم حجت قرار دینا کیسے صحیح ھو سکتا ھے
المستدرک مع تلخیص ج 1 ص 509