[٢/١٢٦٧] علل الشرائع و عيون أخبار الرضا عليه السلام: عن الهمداني عن علي عن أبيه عن الهروي قال: قلت لأبي الحسن الرضا عليه السلام يا ابن رسول اللَّه ما تقول في حديث روي عن الصادق عليه السلام أنه قال: إذ اخرج القائم ق—تل ذراري ق—–تلة الحسين عليه السلام بفعال آبائهم؟ قال عليه السلام: هو كذلك فقلت: و قول اللَّه، «وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى»، ما معناه؟ قال: صدق اللَّه في جميع أقواله، و لكن ذراري ق—–تلة الحسين يرضون بفعال آبائهم، و يفتخرون بها، و من رضي شيئا كان كمن أتاه، ولو أن رجلا ق——تل بالمشرق فرضي بق——-تله رجل بالمغرب لكان الراضي عند اللَّه شريك القا—-تل و إنّما يقت——لهم القائم عليه السلام إذ اخرج لرضاهم بفعل آبائهم قال: قلت له: بأي شي يبدء القائم منكم إذا قام؟ قال: يبدء ببني شيبة فيق——-طع أيديهم لأنهم سر—-اق بيت اللَّه
.
راوی کہتا ہے میں نے امام الرضا ع سے کہا آپ امام جعفر ع کی اس حدیث کے متعلق کیا کہتے ہیں کہ جب امام قائم ع ظہور فرمائیں گے تو قا—–تلینِ امام حسین ع کے کرتوتوں کی سزا ان کی ذریت کو دیں گے ۔ امام الرضا ع نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے ۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا مگر اللہ تو کہتا ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والے کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، پھر اس کا کیا مطلب ہوا ، امام ع نے فرمایا اللہ سچ کہتا ہے ، بات یہ ہے کہ امام حسین کے قا——تلین کی ذریت اپنے اجداد کے اس عمل پر راضی ہے اور فخر کرتی ہے ۔ تو جو شخص کسی دوسرے کے کئے کام پر راضی و خوش ہوگا تو گویا ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود یہ کام کیا ہو ۔ یوں سمجھو کہ اگر ایک شخص مشرق میں کسی کو ق—–تل کرے اور مغرب میں موجود شخص اس ق——تل پر خوش ہو تو وہ بھی اس ق——تل میں شریک ہے ۔ لہذا جب امام قائم ع ظہور کریں گے تو ان کی ذریت کو ان کے اجداد کے کرتوتوں کے بدلے ق——تل کریں گے کیوں کہ وہ اپنے اجداد کے کرتوتوں پر خوش و راضی ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ جب امام ظہور کریں گے تو شروع کس سے کریں گے فرمایا وہ بنو شیبہ سے شروع کریں گے اور ان کے ہاتھ ق——-طع کریں گے کیوں کہ یہ خانہ کعبہ کے چو—-ر ہیں ۔

