امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے

مولا علی علیہ السلام کا “دعویٰ سلوني ” صحیح الاسناد احادیث کی روشنی میں
.
سب نے مولا علی علیہ السلام کا يه فرمان سنا ہوا ہے که آپ علیہ السلام نے فرمایا
سلوني سلوني قبل أن تفقدوني
ترجمه: “مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ مجھے کھو دو”.
اسکے متعلق اہل سنت اور اہل تشیع میں صحیح الإسناد احادیث موجود ہیں۔ ہم بطور نمونہ اہلسنت کی کتابوں سے دو صحیح السند احادیث پیش کرتے ہیں:
(١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، ثنا بَسَّامُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الصَّيْرَفِيُّ، ثنا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: «سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي» قَالَ: فَقَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا {الذَّارِيَاتِ ذَرُوًا} [الذاريات: ١] قَالَ: «الرِّيَاحُ» قَالَ: فَمَا {الْحَامِلَاتِ وِقْرًا} قَالَ: «السَّحَابُ» . قَالَ: فَمَا {الْجَارِيَاتِ يُسْرًا} قَالَ: «السُّفُنُ» . قَالَ: فَمَا {الْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا} قَالَ: «الْمَلَائِكَةُ» . قَالَ: فَمَنِ {الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ} [إبراهيم: ٢٨] قَالَ: «مُنَافِقُو قُرَيْشٍ»
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “
ترجمه: “ہمیں خبر دی ابو الحسن علی بن محمد بن عقبہ نے، کہا ہم سے بیان کیا الحسن بن علی بن عفان نے، جنہوں نے محمد بن عبید الطنافسی سے اور انہوں نے بسام بن عبد الرحمان الصیرفی سے اور انہوں نے ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ میں نے امیر المومنین علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کو منبر کے اوپر فرماتے ہوئے سنا، سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي، یعنی مجھ سے سوال کرلو اس سے قبل کے مجھ سے سوال نہ کرسکو اور کبھی بھی میرے بعد مجھ جیسے سے سوال نہیں کرسکو گے۔ اسی وقت ابن کواء کھڑا ہوا اور کہا: یا امیر المومنین !
(الذَّارِيَاتِ ذَرُوًا) کیا ہے؟
حضرت نے فرمایا:
ہوائیں۔ اس نے کہا:
(الْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: بادل۔
اس نے کہا: (الْجَارِيَاتِ يُسْرًا) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کشتیاں۔ اس نے کہا:
(الْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا) کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: ملائکہ۔
اس نے کہا: جن لوگوں نے خدا کی نعمت کو کفر میں تبدیل کی ہے اور اپنی قوم کو بدبختی اور جہنم کی طرف لے گئے ہیں وہ کون ہیں؟
آپ نے فرمایا:
منافقین قریش۔”
(المستدرك للحاكم، رقم الحديث: 3736)
حاکم نیشاپوری نے کہا که:
یہ حدیث صحیح الإسناد ہے اور بخاری اور مسلم نے روایت نہیں کی۔
ذہبی نے تلخیص میں کہا که:
حدیث صحیح ہے۔
(٢) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: أُرَاهُ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: سَلُونِي، إِلَّا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
ترجمه: “ہم سے عبد الله نے بیان کیا، انہوں عثمان بن ابی شعبہ سے روایت کی جنہوں نے سفیان سے اور انہوں نے یحیی بن سعید سے جنہوں نے سعید سے جنہوں کہا که
نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے علاوہ جس نے کہا ہو سلوني، یعنی مجھ سے پوچھو۔
وصی الله بن محمد عباس نے کہا که:
سند صحیح ہے
(فضائل الصحابة، رقم الحديث: 1098)
ابو اشبال زھیری نے کہا که:
سند صحیح ہے
(جامع بيان العلم وفضله، رقم الحديث: 725)
.
.
.
مولا علی علیہ السلام کے وہ اوصاف جو آپکو دیگر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ممتاز بناتے ہیں ان میں ایک یہ صفت بھی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں جس کی تصریحات ہمیں صحابہ و تابعین سے موصول ہوئی ہیں ۔
امام الحافظ ابو عبداللہ الحاکم نیشاپوری م405ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَحَدَّثَنَا بِشَرْحِ، هَذَا الْحَدِيثِ الشَّيْخُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادِ السَّرِيُّ، ثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ بِمَكَّةَ، ثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ فِي السُّوقِ إِذْ بَلَغْتُ أَحْجَارَ الزَّيْتِ، فَرَأَيْتُ قَوْمًا مُجْتَمِعِينَ عَلَى فَارِسٍ قَدْ رَكِبَ دَابَّةً، وَهُوَ يَشْتِمُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَالنَّاسُ وُقُوفٌ حَوَالَيْهِ إِذْ أَقْبَلَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» فَقَالُوا: رَجُلُ يَشْتِمُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَتَقَدَّمَ سَعْدٌ فَأَفْرَجُوا لَهُ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «يَا هَذَا، عَلَامَ تَشْتُمُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ أَلَمْ يَكُنْ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ؟ أَلَمْ يَكُنْ أَوَّلَ مَنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَمْ يَكُنْ أَزْهَدَ النَّاسِ؟ #أَلَمْ_يَكُنْ_أَعْلَمَ_النَّاسِ؟» وَذَكَرَ حَتَّى قَالَ: «أَلَمْ يَكُنْ خَتَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَتِهِ؟ أَلَمْ يَكُنْ صَاحِبَ رَايَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَوَاتِهِ؟» ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا يَشْتِمُ وَلِيًّا مِنْ أَوْلِيَائِكَ، فَلَا تُفَرِّقْ هَذَا الْجَمْعَ حَتَّى تُرِيَهُمْ قُدْرَتَكَ» . قَالَ قَيْسٌ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا حَتَّى سَاخَتْ بِهِ دَابَّتُهُ فَرَمَتْهُ عَلَى هَامَتِهِ فِي تِلْكَ الْأَحْجَارِ، فَانْفَلَقَ دِمَاغُهُ وَمَاتَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] – على شرط البخاري ومسلم
ترجمہ : قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ میں تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں بازار میں جارہا تھا میں مقام احجار الزیت پر پہنچا میں نے دیکھا کہ ایک شخص سواری پر سوار تھا، کافی سارے لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے وہ شخص سیدنا علی علیہ السلام کو #گالیاں دے رہا تھا اسی اثناء میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے اور وہ بھی وہیں کھڑے ہو گئے ۔
لوگوں سے پوچھا: کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک آدمی سیدنا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو گالیاں دے رہا ہے، حضرت سعد آگے بڑھے ، لوگوں نے ان کو راستہ دے دیا، حضرت سعد اس آدمی کے قریب آگئے ، اور فرمایا: ارے تم علی ابن ابی طالب کو گالیاں کیوں دے رہو؟ کیا وہ سب سے پہلے مسلمان نہیں ہوئے تھے ؟ کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب سے پہلے شخص نہیں تھے؟ کیا وہ سب سے زیادہ دنیا سے بے رغبت نہیں تھے؟
#کیا_وہ_سب_سے_زیادہ_علم_رکھنے_والے_نہیں_تھے؟ اس کے علاوہ بھی حضرت سعد نے حضرت علی کے کافی فضائل گنوائے حتی کہ یہ بھی کہا: کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے داماد نہیں تھے ؟ کیا وہ غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے علمبر دار نہیں تھے اس کے بعد حضرت سعد نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ بلند کر کے یوں دعا مانگی
” اے اللہ! یہ شخص تیرے ایک #ولی_کو_گالی دے رہا ہے، یا اللہ یہ مجمع ختم ہونے سے پہلے تو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا دے ( اور لوگ تیرے ولی کو گالی دینے والے کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ) حضرت قیس کہتے ہیں: خدا کی قسم! ہم ابھی وہاں سے ہٹے نہیں تھے کہ اس کی سواری بدک گئی، اس سواری نے اس آدمی کو سر کے بل پتھروں میں گرا دیا جس کی وجہ سے اس کی #کھوپڑی کھل گئی اور اس کا #بھیجا باہر آ گیا اور وہ وہیں پر عبرتناک #موت مر گیا۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین نے اس کو نقل نہیں کیا۔
ایسا ہی امام ذھبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں فرمایا
(كتاب المستدرك على الصحيحين – ط العلمية رقم الحدیث 6121 وسندہ صحیح)
حافظ ابو الحسن ابن مغازلی مالکی م483ھ رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے :
وقال: حدثنا محمد بن القاسم، حدثنا محمد بن الحسين، حدثنا جندل بن والق الثعلي، حدثنا عمر بن طلحة عن أسباط بن نصر عن السدي قال: كنت غلاماً بالمدينة ألعب عند أحجار الزيت فجاء راكبٌ على بعير فجعل يسب علياً! وجعل الناس يجتمعون حوله، فأقبل سعد بن أبي وقاص فرفع يده وقال: اللهم إن كان يذكر عبداً صالحاً فأر الناس به خزياً، فنفر به بعيره فاندقت عنقه. أبعده الله وأسحقه!.
( كتاب مناقب علي لابن المغازلي رقم الحدیث 109 وسندہ حسن )
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بھی عبرت ہے جنہوں نے اپنا دن رات کا یہ شیوہ بنا رکھا ہے کہ مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی نہ کسی طرح سے تنقیص کی جائے وہیں اس حدیث پاک میں بزبان صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا علی علیہ السلام کے اعلم الناس ہونے کی تصریح بھی موجود ہے ۔
امام الحافظ ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: كَانَ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَعْلَمَ مِنْ عَلِيٍّ؟ قَالَ: «لَا , وَاللَّهُ أَعْلَمَهُ»
(كتاب المصنف – ابن أبي شيبة – ت الحوت 6/371 وسندہ صحیح)
عبدالملک بن ابی سلیمان کہتے ہیں میں نے عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ میں علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی ہے ؟؟ تو امام عطاء نے جواب دیا نہیں (ان سے بڑا کوئی عالم نہیں) اور اللہ بہتر جانتا ہے ۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں فقیہ ملت امام اعظم امام ابو حنیفہ م150ھ رحمہ اللہ نے فرمایا :
«ما رأيت أفضل من عطاء»
میں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل کوئی دیکھا ہی نہیں ہے ۔
( كتاب الكامل في ضعفاء الرجال 8/237 وسندہ صحیح )
امام الحافظ ابو عبداللہ الحاکم نیشاپوری م405ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، ثنا بَسَّامُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الصَّيْرَفِيُّ، ثنا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: «سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي» قَالَ: فَقَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا الذَّارِيَاتِ ذَرُوًا قَالَ: «الرِّيَاحُ» قَالَ: فَمَا {الْحَامِلَاتِ وِقْرًا} قَالَ: «السَّحَابُ» . قَالَ: فَمَا الْجَارِيَاتِ يُسْرًا قَالَ: «السُّفُنُ» . قَالَ: فَمَا الْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا قَالَ: «الْمَلَائِكَةُ» . قَالَ: فَمَنِ الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ قَالَ: «مُنَافِقُو قُرَيْشٍ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “
صحابی رسول سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھا آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا «مجھ سے پوچھ لو اس سے قبل کے تم مجھ سے پوچھ نا سکو اور میرے بعد مجھ جیسا کوئی آدمی تمہیں نہیں ملے گا جس سے تم سوال کر سکو» راوی کہتے ہیں ابن الکواء کھڑا ہوا اور بولا اے امیر المؤمنین ”قسم انکی جو بکھیر کر اڑانے والیاں ہیں“ (القرآن) اس سے مراد کیا ہے ؟؟ مولا علی نے فرمایا “ہوائیں“ پھر ابن الکواء نے کہا ”بوجھ اٹھانے والیاں“ اس سے کیا مراد ہے ؟؟ آپ نے فرمایا ”بادل“ پھر سوال کیا ”نرم چلنے والیاں“ سے کیا مراد ہے ؟؟ فرمایا ”کشتیاں“ پھر سوال کیا ”حکم سے بانٹنے والیاں“ سے کیا مراد ہے فرمایا “فرشتے” پھر سوال کیا وہ کون ہیں جنکے بارے میں باری تعالیٰ نے فرمایا : جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر لا اتارا آپ نے فرمایا وہ قریش کے منافقین ہیں ۔
امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ۔ تلخیص میں امام ذھبی نے بھی اسے صحیح کہا ۔
( كتاب المستدرك على الصحيحين – ط العلمية 2/506 وسندہ صحیح )
( كتاب المستدرك على الصحيحين – ط العلمية 2/383 وسندہ صحیح )
( كتاب تفسير عبد الرزاق 3/234 وسندہ صحیح )
«سلوني» یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ جو شخص أعلم الناس نہیں وہ یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا اور یہ بھی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی خصوصیت ہے کہ اپ کے سوا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے کسی نے یہ دعوی نہیں کیا ملاحظہ فرمائیں :
امام المغرب حافظ ابن عبدالبر اندلسی م463ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ، نا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: ” مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُ: سَلُونِي غَيْرَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ “
سید التابعین سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا صحابہ کرام میں سے کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ مجھ سے پوچھ لو سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ۔
( كتاب جامع بيان العلم وفضله 1/463 وسندہ صحیح )
امام الحافظ محمد بن سلیمان الباغندی م283ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ فُلَيْتٍ , عَنْ جَسْرَةَ، قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ صَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَتْ: «مَنْ يَأْمُرُكُمْ بِصَوْمِهِ»؟ قَالُوا: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ: «هُوَ أَعْلَمُ مَنْ بَقِيَ بِالسُّنَّةِ»
جسرة بنت دجاجہ کہتی ہیں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس عاشور کے روزے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کون تمہیں اس کو رکھنے کا حکم دیتا ہے تو کہا گیا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام آپ نے فرمایا وہ سنت کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔
( كتاب أمالي الباغندي ص47 وسندہ حسن )
امام الحافظ ابو الحسن دارقطنی م385ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنا القاضي الحُسَين بن إسماعيل , حَدَّثَنا حُمَيد بن الرَّبيع , حَدَّثَنا يَحْيى بن يمان , عن سُفْيان , عن جَخْدَب , عن عَطَاء , عن عائشة قالت: عَليّ بن أبي طالب أعلمُ النَّاسِ بالسُنَّة.
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا علی بن ابی طالب علیہ السلام سنت کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔
( كتاب المؤتلف والمختلف للدارقطني 1/526 وسندہ حسن في المتابعات )
اللہ تعالی امیر المؤمنین مولا علی بن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
.
.
.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
خود فرماتے ہیں کہ جب کوئی بات ، کوئی فتویٰ حضرت علی علیہ السلام سے ثابت ہو جاتا تو ہم کسی دوسری طرف رجوع نہیں کرتے تھے ۔ لہذا
.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی ثابت ہو گیا کہ قرآن مجید کی تفسیر و تاویل پر یا علمی جہت کی کسی بھی قسم پر جب حضرت علی علیہ السلام سے کوئی بات ثابت ہوجاتی تو وہی آخری اور صحیح ترین رائے اور حکم ہوتا ۔
.
اس روایت کی روشنی میں ثابت ہو رہا ہے کہ تمام مفسرین صحابہ کرام میں سے حضرت علی علیہ السلام کو قرآن پاک کی تفسیر و تاویل میں رسول اللہﷺ کے بعد سب سے اعلیٰ و افضل مقام حاصل ہے لہذا ثابت ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام تفسیر و تاویلِ قرآن میں مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور باقی تمام صحابہ پر برتری و افضلیت
حاصل ہے ۔ جبتکہ اس روایت کو کسی دوسری روایت جو اس سے زیادہ قوی اور مضبوط ہو اس سے رد نہیں کر دیا جاتا ۔ اب فرمان ابنِ عباس
رضی اللہ عنہ پڑھیے :
.
قَالَ: وَحَدَّثَنَا فُضَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ،
قَالَ: حَدَّثَنَا شُرَيْكٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَانَا الثَّبْتُ عَنْ عَلِيٍّ لَمْ نَعْدِلْ بِهِ.
.
سعید بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
” سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی سے کوئی بات ثابت ہو جاتی تو ہم کسی دوسرے کی جانب رجوع نہ کرتے ۔ “
.
نام کتاب : الاستيعاب في معرفه الاصحاب
ابن عبد البر جلد : 3 صفحه : 1104
لنک :
********
الإصابة في تمييز الصحابہ جلد 4 صفحہ 467
ابن حجر العسقلاني
تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد/ 20صفحہ /486
جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی
تہذیب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال جلد6
صفحہ470
شمس الدين محمد بن أحمد الذهبي
********
عقيدة أهل السنة في الصحابة الكرام ،صفحہ/283
المؤلف: ناصر الشيخ
مولیٰ علیہ السلام مفسرین صحابہ کے صدر المفسرین کیوں ہیں ؟
اسلیے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
خلفاء میں سب سے زیا دہ تفسیری روایا ت حضرت علیؑ ـسے نقل ہوئی ہیں
”اج ہمارے درمیان جو حدیثی اور تفسیری منابع ہیں وہ ، وہ سب نہیں ہیں جو حضرت علیؑ نے بیان کیاہے بلکہ اس بحر عظیم کا ایک قطرہ ہے جو ہم تک
پہنچ پا یا ہے ۔ “
انساب الاشراف، ج ٢، ص ٢٩٩
**********
امام سیوطی حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان لکھتے ہیں کہ :
وَأَخْرَجَ أَبُو نُعَيْمٍ فِي الْحِلْيَةِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ مَا مِنْهَا حَرْفٌ إِلَّا وَلَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ وَإِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عِنْدَهُ مِنْهُ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
” بےشک قرآن سات حروف پر اترا ہے اور ان میں سے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور سیدنا علیؑ ایسے عالم ہیں جن کے پاس ظاہرو باطن کا علم ہے۔ “
الإتقان في علوم القرآن
[السيوطي]
لنک :
**********
امام سیوطی نے الاتقان میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشاد نقل کیا ہے:
وَأَخْرَجَ أَيْضًا مِنْ طَرِيقِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ نُصَيْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْمَسِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَقَدْ عَلِمْتُ فِيمَ أُنْزِلَتْ وَأَيْنَ أُنْزِلَتْ إِنَّ رَبِّي وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُولًا ولسانا سؤلا
كتاب الإتقان في علوم القرآن
[السيوطي]
ترجمہ:
’’اللہ کی قسم! جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی؟ میرے رب نے مجھے بہت سمجھنے والا دل اور بہت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ہے۔‘‘
لنک :
**********
ایک اور روایت لکھتے ہیں کہ :
” آپؓ نے برسرمنبر فرمایا:
’’سلونی، فواللّٰہ لاتسألون عن شیء إلا أخبرتکم وسلونی عن کتاب اللّٰہ ، فواللّٰہ ما من آیۃ إلا وأنا أعلم أَ بِلیلٍ نزلت أم بنہار ، أم فی سہل أم فی جبل ۔ “
ترجمہ:
’’مجھ سے سوال کرو، پس اللہ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں پوچھو، پس اللہ کی قسم! قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہ ہو کہ وہ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت، میدان میں اتری تھی یا پہاڑ پر۔‘‘
اھل علم حضرات مولی علیؑ کے اس * اللہ کی قسم * پر غور فرمائیں کہ آپ نے فرمایا :
” اللہ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا ۔ “
یقناً اس میں قرآنِ عظیم کی ہرآیت بلکہ ہر لفظ کے ظاہر و باطن کے معنی بھی شامل ہیں ۔
لنک :
**********
خلفائے ثلاثہ
اور تمام مفسرین صحابہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے یوں ان الفاظ میں دعویٰ کیا ہو کہ مجھے قرآن کی ہر آیت کا علم ہے کہ وہ کس لیے نازل ہوئی ۔ اسی لیے
الامام
أبي عبد الله محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي
تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن
میں لکھتے ہیں کہ :
قال ابن عطية
” وكان جلة من السلف كثير عددهم يفسرون القران وهم أبقوا على المسلمين في ذلك رضي الله عنهم، فأما صدر المفسرين والمؤيد فيهم فعلي بن أبي طالب رضي الله عنه، ويتلوه عبد الله بن عباس وهو تجرد للامر وكمله، وتبعه العلماء عليه كمجاهد وسعيد بن جبير وغيرهما، والمحفوظ عنه في ذلك أكثر من المحفوظ على على “. وقال ابن عباس: ما اخذت من تفسير القران لعن علي بن أبي طالب.
الامام القرطبي اپنی
تفسير القرطبي الجامع لأحكام القرآن میں لکھتے ہیں کہ :
” ابنِ عطیہ نے کہا :
سلف صالحین میں بہت سی تعداد ہے جنہوں نے قرآن کی تفسیر کی وہ اس سلسلہ میں مسلمانوں پر رحمت و مہربانی کرنے والے تھے ۔ مفسرین کے صدر اور مددگار حضرت سیدنا علیؑ تھے ۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس تھے ۔ ۔۔۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : میں نے تفسیرِ قرآن سے متلق جو کچھ سیکھا حضرت علیؑ سے سیکھا۔ “
تفسير القرطبي (الجامع لأحكام القرآن) ج1 ، ص 27
أبي عبد الله محمد بن أحمد/الأنصاري القرطبي
لنک :
**********
محمد حسين الذهبي رحمہ اللہ اپنی تفسیر
التفسير والمفسرون میں لکھتے ہیں ۔ :
” ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب کوئی بات حضرت علیؑ سے ثابت ہو جاتی ہے تو ہم کسی دوسری طرف رجوع نہیں کرتے ۔ اور میں نے تفسیر میں جو سیکھا حضرت علیؑ سے سیکھا ۔
” عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
بےشک قرآن سات حروف پر اترا ہے اور ان میں سے ہر حرف کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور سیدنا علیؑ ایسے عالم ہیں جن کے پاس ظاہرو باطن کا علم ہے ۔ اور سیدنا علیؑ مفسرین صحابہ کرام کے صدر المفسرین اور اُن کے مؤید و مددگار ہیں ۔ “
التفسير والمفسرون
محمد حسين الذهبي رحمہ اللہ
لنک :
**********
ابن عطية الأندلسي اپنی تفسیر المحرر الوجيز میں
لکھتے ہیں کہ :
” حضرت علیؑ مفسرین صحابہ کے صدر المفسرین اور مؤید و مددگار ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی تفسیر قرآن میں سیکھا وہ حضرت علیؑ سے سیکھا ۔ “
المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز – ابن عطية الأندلسي – ج ١ – الصفحة ٤١
لنک :
**********
قاضی بیضاوی رحمہ اللہ
نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں فن تفسیر میں ایک ایسی کتاب تصنیف کروں جو اُن خالص اقوال پر مشتمل ہو :
جو مجھے اکابر صحابہ سے پہنچے ہیں :
اس پر محی الدین شیخ زادہ لکھتے ہیں کہ :
” انہوں نے اعظم صحابہ سے سیدنا علی ، ابن عباس ،ابن مسعود ، ابن عمر ، ابن العاص ، ابن زبیر ، ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کو مراد لیا ہے ۔ اور اِن سب کے صدر سیدنا علیؑ ہیں حتیٰ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی تفسیر قرآن میں لیا ہے وہ حضرت علیؑ سے لیا ہے ۔
حاشیہ محی الدین شیخ زادہ
حاشیہ شیخ زادہ علی التفسیر البیضاوی
تفسیر بیضاوی کی عربی شرح
المؤلف
محمد بن مصلح الدين مصطفیٰ القوجوی الحنفی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ المتوفی 951 ھ
لنک :
**********
اسی طرح محمد عبد الرؤوف المناوي نے فیض القدیر میں لکھا ۔
فيض القدير شرح الجامع الصغير
المؤلف: محمد عبد الرؤوف المناوي
لنک :
**********
.
.
مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو قیامت تک کا غیبی علم عطا فرمایا گیا ۔
————-
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل
رقم الحديث : 980
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، نا قُتَيْبَةُ ، نا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : ” لا يَزَالُ النَّاسُ يَنْتَقِصُونَ حَتَّى لا يَقُولَ أَحَدٌ : اللَّهُ اللَّهُ ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ ضَرَبَ يَعْسُوبُ الدِّينِ بِذَنَبِهِ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْثًا يَتَجَمَّعُونَ عَلَى أَطْرَافِ الأَرْضِ ، كَمَا تَتَجَمَّعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ ، وَاللَّهِ إِنِّي لأَعْلَمُ اسْمَ أَمِيرِهِمْ ، وَمَنَاخَ رِكَابِهِمْ ” .
ترجمہ : حارث بن سوید سے روایت ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا : لوگ (دین کے معاملات میں ) مسلسل کوتاہی برتنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اللہ اللہ کرنے والا کوئی رہ ہی نہیں جائے گا جب یہ صورت حال ہو جائے گی تو دین کا سرکردہ شخص اپنی غلطیوں کے باعث ڈنگ مارے گا ۔ جب یہ ہو گا تو وہ ایک لشکر بھیجے گا اور لوگ زمین کے اطراف پر اس طرح جمع ہو جائیں گے جس طرح موسم خزاں کا بادل جمع ہوتا ہے ۔ اللہ کی قسم ! یقیناً میں اُن کے امیر کا نام بھی جانتا ہوں اور اُن کے ٹہرنے کی جگہ کو بھی جانتا ہوں ۔
( اِسنادہ صحیح )
———–
نبی کریم ﷺ وآلہ نے حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا:
“کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ میں نے تمہاری شادی اس شخص سے کی ہے جو میری امت میں اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے ہے، علم میں سب زیادہ ہے اور بردباری کے حوالے سے سب سے بڑا ہے”.
اس کے رجال ثقہ ہیں۔
(مجمع الزوائد/ جلد 9 / صفحہ 745)
مـــولا عــــــلی (ع) دعـــــوی ســـــلونی مصـادر اہل ســـــنت ســـے صحیـــح الاســـــناد کے ساتھ
روایــــــت اس طــــرح ہے
أناه أَبُو الْحُسَیْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ رَوْحٍ , وَأَبُو عَلِیٍّ الْحَسَنُ بْنُ فَهْدٍ النَّهْرَوَانِیَّانِ بِهَا , قَالَا: أنا أَبُو الْحُسَیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِیمَ بْنِ سَلَمَةَ الْکُهَیْلِیُّ بِالْکُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْحَضْرَمِیُّ , نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِیمَ الْمَرْوَزِیُّ , نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , نا مَعْمَرٌ , عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی دُبَیٍّ , عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ , قَالَ: شَهِدْتُ عَلِیًّا , وَهُوَ یَخْطُبُ , وَهُوَ یَقُولُ: «سَلُونِی , وَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْءٍ یَکُونُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ إِلَّا حَدَّثْتُکُمْ بِهِ»
تـــرجـــمه: ابــوطفــیل کہتا ہے میـں نے حضــرت عـــلی (ع) کو دیـــکھا وہ خــــطـبہ دے رہے تھـــے وہ فرمـــارہے تھـــے اللہ کی قـــسم قـــیامت تـــک جــس چیـز کے بارے ســـوال یــــعنی پوچھنا چاھتے ہو وہ ســــب کچھ آپ کو بتا دوں گا
الفقیه و المتفقه.ج2 ص351.ط دار ابن الجوزی
اس طـــرح ایـــک اور روایــــت ہے اس ســـند کے ســـاتھ
بِإِسْنَادِهِ , قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: «سَلُونِی عَنْ کِتَابِ اللَّهِ , فَوَاللَّهِ , مَا مِنْ آیَةٍ إِلَّا أَنِّی أَعْلَمُ أَبِلَیْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ , أَمْ فِی سَهْلٍ أَمْ فِی جَبَلٍ»
ترجـــمہ: راوی کہتا ہے حضــرت عـــلی (ع) کو فـــرماتے سـنا
مجھ سے کــــتاب اللہ کے بارے پوچھو اللہ کی قـــسم ایسی
کــوئی آیـــت نہیں سواء اس کو میں جانـــتا نہ ہوں،
میـــں یہ بـــتا ســـکتا ہوں یہ آیـــت رات کو نازل ہوئـــی یہ دن کو نازل ہـــوئـــی یہ صحـــرہ میں نازل ہوئی یہ جــــبل پر
الفقیه و المتفقه.ج2 ص352.ط دار ابن الجوزی
تـــیســری روایـــت
وأنا ابْنُ رَوْحٍ , وَابْنُ فَهْدٍ قَالَا: أنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِیمَ الْکُهَیْلِیُّ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِیُّ , نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَةَ , نا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ , عَنْ یَحْیَى بْنِ سَعِیدٍ , قَالَ: أُرَاهُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ , قَالَ: ” لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: سَلُونِی إِلَّا عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ السَّلَامُ “
ترجــمہ:ســعید بن مســـیب کہتا ہے نــــبی اکـــرم (ص) کـــے
صحـــابہ میں ســـــلونـــی ســـــلونی کا دعـــوی کـــسی نے نہیں کیــــا ســـوائے حضرت عـــلی ابن ابــــی طـــالب عـــلیہ السلام کے
الفقیه و المتفقه.ج2 ص352.ط دار ابن الجوزی
اب ســــوال پیــــدا ہوتا ہے دنــــیا ایـــسے عظــــــیم عالـــــم وفقیہ علوم القـــران کے وارث کو چھـــوڑ کر کیــوں ایســـے بنـــدوں کے پیچھے پڑ گئے جــــس نے دس سال سورة بقـــرہ کو پڑھنے میں صرف کئے
ســــیف نــــجفی