قارئین: جب ہم کسی ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جو ہمارے نزدیک تو وہ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ہوتا ہے لیکن اہل سنت کے نزدیک وہ شخص بڑی فضیلت کا حامل ہوتا ہے
.
اہل سنت چاہتے ہیں ہم (شیعہ) ان کا نام بڑے احترام سے لیں یعنی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ حضرت، رضی اللہ\ رحمتہ اللہ وغیرہ استعمال کیا جائے
.
جواب : پاک وہند میں یہ عجیب جاہلانہ سوچ ہے کہ اگر صحابہ یا صحابیات کے لیے کسی نے “حضرت” یا “رضی اللہ” وغیرہ استعمال نہ کیا تو اُسے توہین تصور کیا جائے گا
.
مثلاً اگر یوں کہا جائے کہ:
.
عائشہ نے کہا، عمر نے کہا، ابوبکر نے کہا تو فوراً گستاخی یا بے ادبی کا فتویٰ لگادیتے ہیں، جبکہ یہ بات سرے سے غلط ہے
اولاً : تو لفظ “حضرت” اردو اور فارسی زبان میں تشریفی طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں تو یہ محاورے کے طور پر بھی رائج نہیں، یعنی اس کی اصل نہ رسولﷺ وآلہ سے ثابت ہے نہ صحابہ سے، تو جو چیز نہ رسولﷺ وآلہ سے ثابت ہے نہ صحابہ سے، کیا ایسی چیز کا شیعوں سے مطالبہ کرنا درست ہے؟
.
ثانیاً: “رضی اللہ” ہے
.
اہل سنت پہلے ان کلمات کے معنیٰ سمجھ لیں پہر بعد میں ہم سے مطالبہ کریں
.
“رضی اللہ عنہ ” کا مطلب ہے اللہ اُن سے راضی ہوگیا جبکہ ہمارے نزدیک سارے صحابہ سے اللہ راضی نہیں اور نا ہی اللہ کے رسولﷺوآلہ سارے صحابی سے راضی ہیں
.
تو ہم کیسے سارے صحابہ کے لیے یہ کلمات (رضی اللہ) استعمال کریں؟
.
ثالثاً: یہ کلمات اہل سنت کی فقہ کے مطابق بھی واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں
جیسے فقہ حنفی کی مشہور و معتبر کتاب
“رَدُ المُختار علی الدر المُختار شرح تنویر الابصار” میں ہے:
“ویستحب الترضي للصحابة”
صحابہ پر ترضی مستحب ہے
حوالہ: [ رَدُ المُختار علی الدر المُختار شرح تنویر الابصار جلد ١٠ ص ٤٨٥]


اس طرح نووی شافعی کہتے ہیں:
(فرع) يستحب الترضي والترحم على الصحابة والتابعين فمن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار فيقال رضي الله عنه أو رحمة الله عليه أو رحمه الله ونحو ذلك
فرع : صحابہ اور تابعین پر “رحمة اللہ علیہ” اور “رضي اللہ عنہ” کہنا مستحب ہے الخ..
حوالہ: [المجموع شرح المھذب جلد ٧ ص ٢١٢ ]


ثابت ہوا یہ دعائی کلمات اہل سنت کی فقہ کے مطابق بھی مستحب ہیں واجب \فرض نہیں تو کیا اب بھی اہل سنت کا ہم سے یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے رضی اللہ وغیرہ لگائیں ؟
.
رابعاً: سنی محدثین نے اپنی کتب میں متعدد مقامات پر صحابہ کے نام کو بغیر لقب کے استعمال کیا ہے کچھ مثالیں صحیحین سے پیشِ خدمت ہیں:
.
۞١۞ ابوبکر کے لیے
فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ
حوالہ: [صحیح بخاری حدیث ٤٤٦]
.
۞٢۞ ابوبکر و عمر عثمان کے لیے
وَأَبُو بَكْرٍ وعُمَرُ وعُثْمَانُ
حوالہ:[ صحیح بخاری حدیث ١٦٥٥]
.
۞٣۞عائشہ کے لیے
أَنَّ عَائِشَةَ
حوالہ: [صحیح مسلم حدیث ٢٩٧]
.
اب کیا اہل سنت اپنے محدثین پر بھی وہی فتویٰ لگائیں گے جو ہم شیعوں پر لگاتے ہیں؟
.
لہذا شیعوں پر فتویٰ لگانے سے پہلے اپنی کتب کا مطالعہ کریں تاکہ بعد میں شرمندگی نہ ہو
خاکسار: عبداللہ الإمامي