وأزواجه امهاتهم
(نبی کی ازواج تمہاری مائیں ہیں۔ )
سے کیا مراد ہے؟؟
قتادہ نے کہا۔ مراد یہ ہے کہ نبی کی ازواج کا نکاح رسول خدا کی وفات کے بعد کسی سے بھی کرنا جائز نہیں جیسے کسی ماں سے نکاح نہیں کیا جاتا
حضرت عائشہ سے کسی عورت نے کہا اے امی جان تو انہوں نے کہا میں صرف تمہارے مردوں کی ماں ہو۔تمہاری ماں نہیں۔
تو یاد رہے یہاں ماں سے مراد وہی لی جائے جو روایات میں آئی ہے خود سے تفسیر بالرائے کر کے جہنم کمانے سے پرہیز کریں۔






روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے کہا: اے ماں! انھوں نے جواب دیا: میں تمہاری ماں نہیں ہوں، میں تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔ جو صحیح ہے۔
سنی ماخذ: الحکم القرآن، جلد 3، صفحہ 542



.
.
محمد بن سعد اپنی سند سے بیان کیا کہ مسروق نے کہا :
” ایک عورت نے عائشہ سے کہا : اے میری ماں۔ تو انہوں نے جواب دیا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں بلکہ میں صرف تمہارے مردوں میں ماں ہوں۔



اسی روایت کو ابوبکر بہیقی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
اس حدیث کو اس باب میں بیان کیا :
” باب ۵۴ – رسول اللہ ﷺ کی اس خصوصیت کے بارے میں کہ انکی بیویوں – ام المومنین کا نکاح انکی وفات کے بعد تمام لوگوں کے لے حرام ہے”۔
کتاب کے محقق اسلام منصور عبد الحمید نے اسکی سند کو “صحیح” کہا ہے۔




لہذا جناب عائشہ کے اس اثر سے انہوں نے خود اس لفظ ” ام المومنین” کی تشریح کردی کہ یہاں ماں سے مراد یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد انکا نکاح کسی بھی مرد سے حرام ہوگا جس طرح ایک مرد کا اپنی حقیقی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے۔ یہی فہم حافظ ابوبکر بہیقی نے بھی اس اثر سے لیا۔
.
.
.
*سوال ؛
*كيا بى بى عائشہ ام المومنين ہے ؟**
جواب :
قرآن كريم ميں ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے :
النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُم ۔ (سورة الأحزاب : آيت ۶ )
نبى مؤمنين كى جانوں پر اولويت ركھتے ہيں اور ان كى ازوج مؤمنين كى مائيں ہيں ۔
قرآن كريم كى آيت واضح طور پر بتا رہى ہے كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيوياں مؤمنين كى مائيں ہيں ۔ اس ليے اس حقيقت كا انكار نہيں كيا جا سكتا ۔ البتہ اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ ماں سے كوئى خطاء يا غلطى نہيں ہو سكتى يا اگر وہ كوئى خطاء كرے تو اولاد اس ميں ان كا ساتھ دے !! كيونكہ اسلام ہميشہ ضابطہ اور اصول پيش كرتا ہے جس پر افراد كو پركھا جاتا ہے ۔ اسلام نے والدين كى عزت و توقير كا حكم ديا ہے ليكن ان كى مطلقا اطاعت كا حكم نہيں ديا ۔ يہى وجہ ہے كہ ايسا ہوتا ہے كہ والدين مسلم ہو تو بچہ مشرك يا برعكس ۔ والدين كى اطاعت صرف ان امور ميں ہے جن ميں ان كى اطاعت اللہ كى اطاعت سے نہيں ٹكراتى ۔
امہات المؤمنين اگرچے مؤمنين كى مائيں ہيں ليكن حقيقى ماں كى طرف كسى صورت نہيں ہيں ۔ يہى وجہ ہے كہ ازواجِ رسول ص پر پردہ كرنا واجب تھا جبكہ اولاد سے كوئى ماں پردہ نہيں كرتى ۔ اگر نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيوياں حقيقى ماں ہوتيں تو تمام مسلمان ان سے ہاتھ ملا سكتے ، انہيں بے پردہ ديكھ سكتے ، ان سے گفتگو كر سكتے ۔۔۔ ليكن يہ سب امور شدت كے ساتھ اسى سورہ احزاب ميں حرام قرار ديئے گئے ہيں ۔ پس يہاں سے معلوم ہوا كہ انہيں مؤمنين كى مائيں كہنے كى كوئى اور وجہ ہے ۔
ازواجِ نبى صلى اللہ عليہ وآلہ كو مؤمنين كى مائيں كہنے كى وجوہات دو بيان كى گئى ہيں :
۱۔ ان سے نكاح نہيں ہو سكتا ۔
صرف نكاح كے پہلو سے ماں كى طرح ہيں كہ جيسے ماں سے اولاد نكاح نہيں كر سكتى اسى طرح مؤمنين رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيويوں سے نكاح نہيں كر سكتيں ۔ جبكہ ماں سے مربوط باقى فقہى امور ان ازواج پر جارى نہيں ہوتے ۔
۲۔ ان كا احترام كيا جائے جيساكہ ہر شخص اپنى ماں كى عزت كرتا ہے چاہے وہ خطا كار ہى كيوں نہ ہو ۔ ازواجِ نبى ص كا احترام نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى وجہ سے ہے ۔ لہذا ان كى خطاؤں سے صرفِ نظر كرتے ہوئے انہيں احترام دينا چاہيے ۔
روايات :
بصائر الدرجات ميں امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت منقول ہے جس ميں آپ عليہ السلام فرماتے ہيں :
وَ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى : النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ ، وَ هُوَ أَبٌ لَهُمْ ثُمَّ قَالَ : وَ لا تَنْكِحُوا ما نَكَحَ آباؤُكُمْ مِنَ النِّساء ۔ (بصائر الدرجات ، ج ۱ ، ص ۵۳۲ )
اور اللہ تبارك وتعالى فرماتا ہے : ’’ نبى مؤمنين كى جانوں پر واولويت ركھتے ہيں اور ان كى ازواج مؤمنين كى مائيں ہيں‘‘ ( امام ع فرماتے ہيں كہ اس آيت كا يہ مطلب ہوا كہ ) نبى ان مؤمنين كے باپ ہوئے ، پھر اللہ نے فرمايا : ’’ اور تم ان سے نكاح نہ كرو جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نكاح كيا ہے‘‘‘ ۔
اس روايت ميں واضح بيان ہوا كہ ازواج كو مؤمنين كى مائيں اس ليے كہا گيا ہے كہ كيونكہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم ان مؤمنين كے باپ ہيں اور باپ كى بيوى سے اولاد نكاح نہيں كر سكتى ۔ البتہ آپ ص كو باپ كہنا بھى حقيقى و نسبى باپ نہيں ہے بلكہ اولويت كے اعتبار سے ہے كہ جيسے باپ اپنى اولاد كا سرپرست ہوتا ہے اسى طرح نبى اكرم ص تمام مؤمنين كے سرپرست ہيں ۔ اگر نسبى باپ مراد ہوتا تو آپ ص امت كے كسى فرد سے شادى نہ كر سكتے اور تمام عورتوں پر آپ ص سے پردہ واجب نہ ہوتا ۔ جبكہ آپ ص سے پردہ كرنا عورتوں پر واجب تھا اور آپ ص شادى كا حق بھى ركھتے تھے ۔ لہذا ان آيات پر دقت كر كے مطلب لينا چاہيے كہ كس اعتبار سے باپ اور كس اعتبار سے ماں كہا جا رہا ہے ۔ فقہى نكتہ نظر سے ماں بچے پر كسى قسم كى اولويت نہيں ركھتى اسى ليے ازواج كو ماں كہا گيا ہے كہ اس سے نكاح نہيں ہو سكتا اور آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى حرمت كى قدر كرتے ہوئے ان كا احترام برقرار ركھنا چاہيے ۔
.
.
.
قُرآنِ مجید میں رسولؑ کی ازواج کے لیے یہ جو “ماں” کا لفظ آیا ہے کہ :
“پیغمبرؑ کی بیویاں آپ کے مائیں ہیں”
یہ فقط حُرمتِ نکاح کے لیے ہے ناکہ ان کی عصمت و احترام کے لیے اس کے بہت سارے ادلہ ہیں نیز ایک پورا واقعہ ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی اس کا شانِ نزول کیا ہے ہم مختصراً ایک حوالہ نقل کرتے ہیں:
تفسیرِ ابنِ وہب میں مؤلف عبداللہ بن وہب لیث بن سعد (٩٤ھ) کا قول نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں:
أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: لَئِنْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلامُ تَزَوَّجْتُ عَائِشَةَ؛ قَالَ: فَنَزَلَ الْقُرْآنُ: {وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عند الله عظيماً } (الاحزاب آیت ٥٣)
لیث بن سعد نے بیان کیا کہ طلحہ بن عبید اللہ نے کہا: اگر رسولؑ کی وفات ہوجائے تو میں عائشہ سے شادی کروں گا۔
تو قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی
( تمہارے لیئے جائز نہیں کہ تم رسولؑ کو اذیت دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے ان کے بعد کبھی بھی شادی کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت عظیم گناہ ہے)
حوالہ: [تفسیرِ ابنِ وھب جلد ٢ ص ١٦٥]
واضح ہوا کہ شادی کا ارادہ کرنے والا بھی ایک عشرة مبشرة کا ایک صحابی تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی اب اہلسنت عالم کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت فقط حُرمتِ نکاح کے لیے ہے
حافظ ابنِ ملقن کہتے ہیں:
“وَلَا يثبت إِلَّا تَحْرِيم نِّكَاح”
تو ان کے حوالے سے ان سے نکاح کے حرام ہونے کے علاوہ کچھ ثابت نہیں
حوالہ: [غاية السول في خصائص الرسول، ص ۲۵۰]
یہ دلائل اہلسنت کے منہج کے مطابق نقل کیئے گئے چونکہ ہمارے ہاں اکثریت اُنہی کی ہے اور کچھ شیعہ برادران بھی اُنہی سے متاثر ہوئے ہیں ورنہ شیعہ کے ہاں بھی یہ صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ “ماں” فقط حرمت نکاح کی وجہ سے ہے ایک قول شیعہ عالم کا بھی ملاحظہ فرمائیں علامہ طبرسیؒ فرماتے ہیں:
ولذلك صار المؤمنون إخوة؛ لأن النبي أبوهم في الدين، وأزواجه أمهاتهم في تحريم النكاح، كما قال: (ولا أن تنكحوا أزواجه من بعده أبدا) ولسن بأمهات لهم على الحقيقة، إذ لو كن كذلك لكانت بناتهن أخوات، فكان لا يحل للمؤمن من التزويج بهن
اور اس سبب مؤمنین آپس میں بھائی ہوئے کیونکہ نبیﷺوآلہ ان کے باپ ہیں دین میں اور ان کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں نکاح کے حرام ہونے میں، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے “اور تم ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح نہیں کر سکتے” اور یہ حقیقت میں ان کی مائیں نہیں ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ان کی بیٹیاں مؤمنین کی بہنیں ہوتیں تو کسی مؤمن کا ان (بیٹیوں) سے شادی کرنا حلال نہ ہوتا۔
حوالہ: [تفسيرِ مجمع البيان، جلد٨ ص ١٢٢]
ان دلائل کی روشنی میں ثابت ہوا “ماں” کا لفظ فقط نکاح نہ کرنے کی وجہ سے ہے جبکہ تعظیم فقط تقویٰ الہی کی بناء پر ہے جس پر قُرآن و حدیث شاہد ہیں
.
..
.
.


جب بھی قرآن اور اہلسنت کی معتبر کتابوں سے عائشہ اور حفصہ کے خلاف روایات سے استدال کرتے ہیں تو ہمارے مخالف اہل سنت اس کے جواب میں اکثر قرآن مجید کے سورہ احزاب کی آیت نمبر ٦ سے ہمیشہ ہمیں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں جو آیت کچھ یوں ہیں

اس آیت سے عائشہ اور حفصہ کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور واویلا کیا جاتا ہےکہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے یہ مومن نہیں کیونکہ قرآن نے نبی کی بیویوں کو مومن کی ماں کہا اور یہ لوگ ان کی گستاخیاں کرتے ہیں یہ مومن نہیں وغیرہ ۔
قارئین کرام قرآن کی یہ آیت اہل سنت کے ایک جنتی ستارے کے برے خیالات کی وجہ سے نازل ہوئی جو موصوف خیال کرتے تھے اگر نبی پاک ﷺ فوت ہوگئے تو میں ان سے شادی کرلو گا ۔ قرآن میں ان کو ماں صرف نکاح کی ممانعت کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسا سورہ احزاب کی اسی آیت کی تفسیر میں علمائے اہل سنت لکھتے ہیں :

حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٥٢٨ ]

حواله : [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن – جلد ١٩ – صفحه ١٦ ]

حواله : [ تفسیر قرآن العزیز ثمینین – جلد ٣ – صفحه ٣٨٧ ، ٣٨٨ ]

حواله : [ تفسیر القرآن – جلد ٣ – صفحه ٣٨ ]

حواله : [ تفسیر ابن عربی – جلد ٣ – صفحه ٥٤٢ ]

حواله : [ زاد المسير في علم التفسير – جلد ٦ – صفحه ٣٥٣ ]

حواله : [ الأم – جلد ٥ – صفحه ١٤١ ]

١) وہ ماں جو انسان کو پیدا کرے اس پر ماں کے تمام احکامات لاگو ہوتے ہیں
٢) ازواج پیامبراکرم جس میں احکام ماں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا ہے سوائے شادی کے
٣) رضائی ماں جو حقیقی ماں اور ام المؤمنين کے درمیان ہے یعنی دوسرے درجے پر ہے
حواله : [ خصائص الرسول (ص) – جلد ١ – صفحه ٢٥٠ ]

حوالہ : [ القرآن – جلد ٣ – صفحه ٥٤٢ ]

حواله : [ سنن الکبریٰ – جلد ٧ – صفحه ١٢٠ ]
: [ تفسیر الباب – جلد ١٥ – صفحه ٥٠٣ ، ٥٠٤ ]
: [ طبقہ الکبیر – جلد ١٠ – صفحه ٦٤ ]



حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]

حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]

حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]

حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]

حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ، ٦٠٥ ]

حوالہ : [ کنز العمال – الجزء الخامس – صفحہ ٧٤١ ، ٧٤٢ ]











.
.
..
.