وأزواجه امهاتهم

وأزواجه امهاتهم
(نبی کی ازواج تمہاری مائیں ہیں۔ )
سے کیا مراد ہے؟؟
قتادہ نے کہا۔ مراد یہ ہے کہ نبی کی ازواج کا نکاح رسول خدا کی وفات کے بعد کسی سے بھی کرنا جائز نہیں جیسے کسی ماں سے نکاح نہیں کیا جاتا
حضرت عائشہ سے کسی عورت نے کہا اے امی جان تو انہوں نے کہا میں صرف تمہارے مردوں کی ماں ہو۔تمہاری ماں نہیں۔
تو یاد رہے یہاں ماں سے مراد وہی لی جائے جو روایات میں آئی ہے خود سے تفسیر بالرائے کر کے جہنم کمانے سے پرہیز کریں۔
روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے کہا: اے ماں! انھوں نے جواب دیا: میں تمہاری ماں نہیں ہوں، میں تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔ جو صحیح ہے۔
سنی ماخذ: الحکم القرآن، جلد 3، صفحہ 542
.
.
محمد بن سعد اپنی سند سے بیان کیا کہ مسروق نے کہا :
” ایک عورت نے عائشہ سے کہا : اے میری ماں۔ تو انہوں نے جواب دیا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں بلکہ میں صرف تمہارے مردوں میں ماں ہوں۔
⛔طبقات الکبریٰ – ابن سعد // جلد ۱۰ // صفحہ ۵۰ // طبع دار ابن الجوزی قاھرہ مصر۔
اسی روایت کو ابوبکر بہیقی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
اس حدیث کو اس باب میں بیان کیا :
” باب ۵۴ – رسول اللہ ﷺ کی اس خصوصیت کے بارے میں کہ انکی بیویوں – ام المومنین کا نکاح انکی وفات کے بعد تمام لوگوں کے لے حرام ہے”۔
کتاب کے محقق اسلام منصور عبد الحمید نے اسکی سند کو “صحیح” کہا ہے۔
⛔سنن اکبریٰ – بہیقی // جلد ۷ // صفحہ ۱۱۹، ۱۲۰ // رقم ۱۳۴۲۲ // طبع دار حدیث قاھر مصر۔
لہذا جناب عائشہ کے اس اثر سے انہوں نے خود اس لفظ ” ام المومنین” کی تشریح کردی کہ یہاں ماں سے مراد یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد انکا نکاح کسی بھی مرد سے حرام ہوگا جس طرح ایک مرد کا اپنی حقیقی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے۔ یہی فہم حافظ ابوبکر بہیقی نے بھی اس اثر سے لیا۔
.
.
.
*سوال ؛
*كيا بى بى عائشہ ام المومنين ہے ؟**
جواب :
قرآن كريم ميں ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے :
النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُم‏ ۔ (سورة الأحزاب : آيت ۶ )
نبى مؤمنين كى جانوں پر اولويت ركھتے ہيں اور ان كى ازوج مؤمنين كى مائيں ہيں ۔
قرآن كريم كى آيت واضح طور پر بتا رہى ہے كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيوياں مؤمنين كى مائيں ہيں ۔ اس ليے اس حقيقت كا انكار نہيں كيا جا سكتا ۔ البتہ اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ ماں سے كوئى خطاء يا غلطى نہيں ہو سكتى يا اگر وہ كوئى خطاء كرے تو اولاد اس ميں ان كا ساتھ دے !! كيونكہ اسلام ہميشہ ضابطہ اور اصول پيش كرتا ہے جس پر افراد كو پركھا جاتا ہے ۔ اسلام نے والدين كى عزت و توقير كا حكم ديا ہے ليكن ان كى مطلقا اطاعت كا حكم نہيں ديا ۔ يہى وجہ ہے كہ ايسا ہوتا ہے كہ والدين مسلم ہو تو بچہ مشرك يا برعكس ۔ والدين كى اطاعت صرف ان امور ميں ہے جن ميں ان كى اطاعت اللہ كى اطاعت سے نہيں ٹكراتى ۔
امہات المؤمنين اگرچے مؤمنين كى مائيں ہيں ليكن حقيقى ماں كى طرف كسى صورت نہيں ہيں ۔ يہى وجہ ہے كہ ازواجِ رسول ص پر پردہ كرنا واجب تھا جبكہ اولاد سے كوئى ماں پردہ نہيں كرتى ۔ اگر نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيوياں حقيقى ماں ہوتيں تو تمام مسلمان ان سے ہاتھ ملا سكتے ، انہيں بے پردہ ديكھ سكتے ، ان سے گفتگو كر سكتے ۔۔۔ ليكن يہ سب امور شدت كے ساتھ اسى سورہ احزاب ميں حرام قرار ديئے گئے ہيں ۔ پس يہاں سے معلوم ہوا كہ انہيں مؤمنين كى مائيں كہنے كى كوئى اور وجہ ہے ۔
ازواجِ نبى صلى اللہ عليہ وآلہ كو مؤمنين كى مائيں كہنے كى وجوہات دو بيان كى گئى ہيں :
۱۔ ان سے نكاح نہيں ہو سكتا ۔
صرف نكاح كے پہلو سے ماں كى طرح ہيں كہ جيسے ماں سے اولاد نكاح نہيں كر سكتى اسى طرح مؤمنين رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى بيويوں سے نكاح نہيں كر سكتيں ۔ جبكہ ماں سے مربوط باقى فقہى امور ان ازواج پر جارى نہيں ہوتے ۔
۲۔ ان كا احترام كيا جائے جيساكہ ہر شخص اپنى ماں كى عزت كرتا ہے چاہے وہ خطا كار ہى كيوں نہ ہو ۔ ازواجِ نبى ص كا احترام نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى وجہ سے ہے ۔ لہذا ان كى خطاؤں سے صرفِ نظر كرتے ہوئے انہيں احترام دينا چاہيے ۔
روايات :
بصائر الدرجات ميں امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت منقول ہے جس ميں آپ عليہ السلام فرماتے ہيں :
وَ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى : النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ‏ ، وَ هُوَ أَبٌ لَهُمْ ثُمَّ قَالَ : وَ لا تَنْكِحُوا ما نَكَحَ آباؤُكُمْ مِنَ النِّساء ۔ (بصائر الدرجات ، ج ۱ ، ص ۵۳۲ )
اور اللہ تبارك وتعالى فرماتا ہے : ’’ نبى مؤمنين كى جانوں پر واولويت ركھتے ہيں اور ان كى ازواج مؤمنين كى مائيں ہيں‘‘ ( امام ع فرماتے ہيں كہ اس آيت كا يہ مطلب ہوا كہ ) نبى ان مؤمنين كے باپ ہوئے ، پھر اللہ نے فرمايا : ’’ اور تم ان سے نكاح نہ كرو جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نكاح كيا ہے‘‘‘ ۔
اس روايت ميں واضح بيان ہوا كہ ازواج كو مؤمنين كى مائيں اس ليے كہا گيا ہے كہ كيونكہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم ان مؤمنين كے باپ ہيں اور باپ كى بيوى سے اولاد نكاح نہيں كر سكتى ۔ البتہ آپ ص كو باپ كہنا بھى حقيقى و نسبى باپ نہيں ہے بلكہ اولويت كے اعتبار سے ہے كہ جيسے باپ اپنى اولاد كا سرپرست ہوتا ہے اسى طرح نبى اكرم ص تمام مؤمنين كے سرپرست ہيں ۔ اگر نسبى باپ مراد ہوتا تو آپ ص امت كے كسى فرد سے شادى نہ كر سكتے اور تمام عورتوں پر آپ ص سے پردہ واجب نہ ہوتا ۔ جبكہ آپ ص سے پردہ كرنا عورتوں پر واجب تھا اور آپ ص شادى كا حق بھى ركھتے تھے ۔ لہذا ان آيات پر دقت كر كے مطلب لينا چاہيے كہ كس اعتبار سے باپ اور كس اعتبار سے ماں كہا جا رہا ہے ۔ فقہى نكتہ نظر سے ماں بچے پر كسى قسم كى اولويت نہيں ركھتى اسى ليے ازواج كو ماں كہا گيا ہے كہ اس سے نكاح نہيں ہو سكتا اور آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى حرمت كى قدر كرتے ہوئے ان كا احترام برقرار ركھنا چاہيے ۔
.
.
.
قُرآنِ مجید میں رسولؑ کی ازواج کے لیے یہ جو “ماں” کا لفظ آیا ہے کہ :
“پیغمبرؑ کی بیویاں آپ کے مائیں ہیں”
یہ فقط حُرمتِ نکاح کے لیے ہے ناکہ ان کی عصمت و احترام کے لیے اس کے بہت سارے ادلہ ہیں نیز ایک پورا واقعہ ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی اس کا شانِ نزول کیا ہے ہم مختصراً ایک حوالہ نقل کرتے ہیں:
تفسیرِ ابنِ وہب میں مؤلف عبداللہ بن وہب لیث بن سعد (٩٤ھ) کا قول نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں:
أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: لَئِنْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلامُ تَزَوَّجْتُ عَائِشَةَ؛ قَالَ: فَنَزَلَ الْقُرْآنُ: {وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عند الله عظيماً } (الاحزاب آیت ٥٣)
لیث بن سعد نے بیان کیا کہ طلحہ بن عبید اللہ نے کہا: اگر رسولؑ کی وفات ہوجائے تو میں عائشہ سے شادی کروں گا۔
تو قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی
( تمہارے لیئے جائز نہیں کہ تم رسولؑ کو اذیت دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے ان کے بعد کبھی بھی شادی کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت عظیم گناہ ہے)
حوالہ: [تفسیرِ ابنِ وھب جلد ٢ ص ١٦٥]
واضح ہوا کہ شادی کا ارادہ کرنے والا بھی ایک عشرة مبشرة کا ایک صحابی تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی اب اہلسنت عالم کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت فقط حُرمتِ نکاح کے لیے ہے
حافظ ابنِ ملقن کہتے ہیں:
“وَلَا يثبت إِلَّا تَحْرِيم نِّكَاح”
تو ان کے حوالے سے ان سے نکاح کے حرام ہونے کے علاوہ کچھ ثابت نہیں
حوالہ: [غاية السول في خصائص الرسول، ص ۲۵۰]
یہ دلائل اہلسنت کے منہج کے مطابق نقل کیئے گئے چونکہ ہمارے ہاں اکثریت اُنہی کی ہے اور کچھ شیعہ برادران بھی اُنہی سے متاثر ہوئے ہیں ورنہ شیعہ کے ہاں بھی یہ صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ “ماں” فقط حرمت نکاح کی وجہ سے ہے ایک قول شیعہ عالم کا بھی ملاحظہ فرمائیں علامہ طبرسیؒ فرماتے ہیں:
ولذلك صار المؤمنون إخوة؛ لأن النبي أبوهم في الدين، وأزواجه أمهاتهم في تحريم النكاح، كما قال: (ولا أن تنكحوا أزواجه من بعده أبدا) ولسن بأمهات لهم على الحقيقة، إذ لو كن كذلك لكانت بناتهن أخوات، فكان لا يحل للمؤمن من التزويج بهن
اور اس سبب مؤمنین آپس میں بھائی ہوئے کیونکہ نبیﷺوآلہ ان کے باپ ہیں دین میں اور ان کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں نکاح کے حرام ہونے میں، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے “اور تم ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح نہیں کر سکتے” اور یہ حقیقت میں ان کی مائیں نہیں ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ان کی بیٹیاں مؤمنین کی بہنیں ہوتیں تو کسی مؤمن کا ان (بیٹیوں) سے شادی کرنا حلال نہ ہوتا۔
حوالہ: [تفسيرِ مجمع البيان، جلد٨ ص ١٢٢]
ان دلائل کی روشنی میں ثابت ہوا “ماں” کا لفظ فقط نکاح نہ کرنے کی وجہ سے ہے جبکہ تعظیم فقط تقویٰ الہی کی بناء پر ہے جس پر قُرآن و حدیث شاہد ہیں
.
..
.
.
✨ ازواج رسولﷺ مومنوں کی ماں کا حقیقی مطلب کیا ہے؟✨
جب بھی قرآن اور اہلسنت کی معتبر کتابوں سے عائشہ اور حفصہ کے خلاف روایات سے استدال کرتے ہیں تو ہمارے مخالف اہل سنت اس کے جواب میں اکثر قرآن مجید کے سورہ احزاب کی آیت نمبر ٦ سے ہمیشہ ہمیں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں جو آیت کچھ یوں ہیں
🎗️یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں ۔ (سورہ احزاب آیت ٦)
اس آیت سے عائشہ اور حفصہ کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور واویلا کیا جاتا ہےکہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے یہ مومن نہیں کیونکہ قرآن نے نبی کی بیویوں کو مومن کی ماں کہا اور یہ لوگ ان کی گستاخیاں کرتے ہیں یہ مومن نہیں وغیرہ ۔
قارئین کرام قرآن کی یہ آیت اہل سنت کے ایک جنتی ستارے کے برے خیالات کی وجہ سے نازل ہوئی جو موصوف خیال کرتے تھے اگر نبی پاک ﷺ فوت ہوگئے تو میں ان سے شادی کرلو گا ۔ قرآن میں ان کو ماں صرف نکاح کی ممانعت کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسا سورہ احزاب کی اسی آیت کی تفسیر میں علمائے اہل سنت لکھتے ہیں :
✍️ امام ابن ابی حاتم نے حضرت قتادہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ص کی ازواج مطہرات حرمت میں ان کی مائیں ہیں ۔ کسی مومن کے لیے یہ زیبا نہیں کہ وہ حضور کی ظاہری زندگی میں ازواج مطہرات سے شادی کرے جبکہ رسولِ خدا نے اسے طلاق دے دی ہو اور نہ ہی آپ کے وصال کے بعد اس سے شادی کر سکتا ہے ۔ یہ ازواج مطہرات مومنوں پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح ان کی مائیں حرام ہیں ۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٥٢٨ ]
✍️ طبرى نے لکھا ہے : اللہ کا یہ کہنا ” ازواج مومنین کی ماں ہے ” اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ماں سے نکاح کرنا حرام ہے اسی طرح ان سےبھی وفات رسول ﷺ کے بعد نکاح کرنا حرام ہے
حواله : [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن – جلد ١٩ – صفحه ١٦ ]
✍️ ابن ابی ثمینین نے کہا : ” رسول اللہ مومنوں کے ان سے زیادہ قریب ہیں۔” تفسیر مجاہد : ” اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کا باپ ہے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔” یہ ان سے نکاح کی ممانعت کا حوالہ ہے۔
حواله : [ تفسیر قرآن العزیز ثمینین – جلد ٣ – صفحه ٣٨٧ ، ٣٨٨ ]
✍️ سمرقندی نے کہا : اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں” یعنی ان کی ماؤں کی طرح ممانعت۔”
حواله : [ تفسیر القرآن – جلد ٣ – صفحه ٣٨ ]
✍️ ابن عربی نے کہا : روایت ہے کہ ایک عورت نے عائشہ سے کہا : اے ماں۔ اس نے کہا : “میں تمہاری ماں نہیں ہوں لیکن میں تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔” اور یہی صحیح رائے ہے۔
حواله : [ تفسیر ابن عربی – جلد ٣ – صفحه ٥٤٢ ]
✍️ مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے : ایک عورت نے عائشہ کو ماں کہا تو عائشہ نے جواب دیا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں بلکہ تمہارے مردوں کی ماں ہوں ، اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ماں کا معنی فقط اور فقط نکاح کا حرام ہونا ہے .
حواله : [ زاد المسير في علم التفسير – جلد ٦ – صفحه ٣٥٣ ]
✍️ محمد بن ادريس شافعى كتاب الأم میں لکھتے ہیں : نبی اکرم مومنین کے جان پر ان سے زیادہ حقدار ہیں اور آپ کی ازواج انکی ماں ہیں ۔ اور اللہ نے فرمایا :تم لوگوں کو حق نہیں پہونچتا ہے کہ آپ ص کو اذیت دیں اور نہ ازواج کو آپ کے بعد اپنی زوجیت میں لے کر آ جائیں” پس خداوند نے ازواج نبی کو آپ کے بعد دوسروں کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا ہے اور یہ حکم غیر ازواج نبی اکرم ص کے لئے نہیں ہے ۔۔۔ پس خدا کا یہ قول ” انکی مائیں ہیں ” تمام ماں کے احکام اور آثار کو شامل نہیں کرتا ہے بلکہ مرا د یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں ازواج نبی اکرم ص سے شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن انکی [ ازواج ] بیٹیوں سے نکاح کرنا حرام نہیں ہے اگر بیٹیاں ہوں جیسا کہ ماں کی حقیقی بیٹیوں یا رضائی بیٹیوں سے شادی کرنا جائز نہیں ہوتا ہے ۔
حواله : [ الأم – جلد ٥ – صفحه ١٤١ ]
✍️ ابن ملقن شافعى نے ماں کی اقسام اور ان کے احکام کے بارے میں لکھا ہے : ہمارے علماء نے کہا ہے کہ ماں کی تین اقسام ہے اور ہر ایک کے احکام مختلف ہیں :
١) وہ ماں جو انسان کو پیدا کرے اس پر ماں کے تمام احکامات لاگو ہوتے ہیں
٢) ازواج پیامبراکرم جس میں احکام ماں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا ہے سوائے شادی کے
٣) رضائی ماں جو حقیقی ماں اور ام المؤمنين کے درمیان ہے یعنی دوسرے درجے پر ہے
حواله : [ خصائص الرسول (ص) – جلد ١ – صفحه ٢٥٠ ]
✍️ ابن عربى مالكى نے «ام المؤمنين» کے معنی کے بارے میں لکھا ہے : عوام نے ام المومنین کے معنی کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں کی ماں ہیں یا فقط مردوں کی؟ کہا گیا ہے دونوں کی ماں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف مردوں کی ماں ہیں اس لئے مقصود ماں کی منزلت پر حرمت نکاح میں لایا جائے جہاں نکاح ممکن ہو اور عورتوں میں یہ بات قابل تصور نہیں ہے اسی وجہ سے مومنات اور ازواج کا ایک دوسرے سے پردہ واجب نہیں ہے اور یہ روایت کی گئی ہے کہ ایک عورت نے عائشہ کو ماں کہا تو عائشہ نے جواب دیا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں بلکہ فقط تمہارے مردوں کی ماں ہوں اور قول دوم صحیح ہے ۔
حوالہ : [ القرآن – جلد ٣ – صفحه ٥٤٢ ]
✍️ مسروق کہتے ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ سے کہا : اے ماں ! عائشہ نے کہا : میں تمہاری ماں نہیں ہوں، بلکہ میں تمہارے مردوں کی ماں ہوں۔ یہ نکاح کی ممانعت کے سلسلے میں زچگی کے حوالے سے ہے۔
حواله : [ سنن الکبریٰ – جلد ٧ – صفحه ١٢٠ ]
: [ تفسیر الباب – جلد ١٥ – صفحه ٥٠٣ ، ٥٠٤ ]
: [ طبقہ الکبیر – جلد ١٠ – صفحه ٦٤ ]
🔥طلحہ بن عبیداللہ کی حضرت عائشہ سے نکاح کی خواہش🔥
✍️ امام ابن ابی حاتم نے حضرت سدی سے روایت نقل کی ہے کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا کیا محمد ص ہماری چچا زاد بہنوں سے ہمیں پردہ کا حکم دیتے ہیں اور ہمارے بعد ہماری بیویوں سے شادیاں کرتے ہیں ۔ اگر کوئی واقعہ ہو گیا تو آپ کے بعد ہم بھی آپ کی بیویوں سے شادی کریں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]
✍️ امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر نے حضرت قتادہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا اگر نبی کریم کا وصال ہوگیا تو میں حضرت عائشہ صدیقہ سے شادی کروں گا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]
✍️ امام ابن سعد نے حضرت ابوبکر بن محمد بن عمر و حزم سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ کیونکہ اس نے یہ کہا تھا جب رسول اللہ کا وصال ہو گیا تو میں حضرت عائشہ سے شادی کروں گا۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]
✍️ امام بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک صحابی نے کہا اگر رسول الله کا وصال ہوگیا تو میں حضرت عائشہ سے شادی کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ]
✍️ امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہےکہ ایک آدمی حضور کی ازواج مطہرات کے پاس آیا، ان سے گفتگو کی جبکہ وہ ان کا چچازاد بھائی تھا ۔ نبی کریم نے فرمایا اس کے بعد یہاں نہ کھڑا ہونا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ وہ میری چچازاد بہن ہے، اللہ کی قسم ! میں نے اس سے کوئی نا پسندیدہ بات نہیں کی اور نہ اس نے مجھ سے ایسی کوئی بات کی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا میں اسے خوب جانتا ہوں کہ کوئی بھی اللہ تعالٰی سے بڑھ کر غیور نہیں ہے اور نہ ہی مجھ سے کوئی زیادہ غیرت والا ہے۔ تو وہ چلا گیا پھر اس نے کہا آپ مجھے اپنی چچازاد بہن کے ساتھ بات کرنے سے منع کرتے ہیں میں آپ کے بعد ضرور اس سے شادی کروں گا تو اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا ۔
حواله : [ تفسىیر در منثور – جلد ٥ – صفحه ٦٠٤ ، ٦٠٥ ]
✍️ جناب عمر نے کہا : اے زبیر بہر حال تیرا تو یہ حال ہے تو غصہ میں کافر بن جاتا ہے خوشی میں مومن ہوتا ہے ایک دن تو شیطان ہوتا ہے اور ایک دن انسان ۔۔ تیرا کیا خیال ہے جس دن تو شیطان ہوتا ہے اس دن خلیفہ کون بنےگا ؟ اور اے طلحہ! رسول اللہ ص کا انتقال ہوا تو وہ تجھ پر سرزنش کرتے ہوئے گئے ۔
حوالہ : [ کنز العمال – الجزء الخامس – صفحہ ٧٤١ ، ٧٤٢ ]
.
.
..
.