حضرتِ عائـشہ کا یـتیم بچوں کـو ادب سیکھنا

حضرتِ عائشہ کا یتیم بچوں کے ساتھ سلوک
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺوآلہ کو ارشاد فرماتا ہے:
فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿۹﴾
پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر ۔
[سورة الضحى آیت نمبر ٩ ترجمہ جوناگڑھی]
قرآن مجید فرقان حمید کی صریح آیت میں ارشادِ الہی ہے کہ “یتیموں سے پر سختی نہ کرو”
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ عائشہ بنتِ ابی بکر کا کیا عمل تھا
امام بخاری اپنی کتاب “صحيح الأدب المفرد” میں ایک باب قائم کرتے ہیں:
بَابُ أَدَبِ الْيَتِيمِ
یتیم کو ادب سکھانے کا بیان
اب دیکھئے عائشہ بنتِ ابی بکر کیسے ادب سکھاتی ہیں: بخاری نقل کرتے ہیں:
حدثنا مسلم، قال‏:‏ حدثنا شعبة، عن شميسة العتكية قالت‏:‏ ذكر ادب اليتيم عند عائشة رضي الله عنها، فقالت‏:‏ إني لاضرب اليتيم حتى ينبسط‏.‏
شمیسہ عتکیہ بیان کرتی ہیں: کہ عائشہ کے پاس یتیم کو ادب سکھانے کا ذکر کیا گیا تو آپ (عائشہ بنتِ ابی بکر) نے فرمایا: بیشک! “میں یتیم کو یتیم کو مارتی ہوں یہاں تک وہ زمین پر دراز ہوجاتا ہے”
اس روایت کے بارے میں اہلِ حدیث کے عالم “ناصر الدین البانی” کہتے ہیں:
صحیح الاسناد
یعنی اس روایت کی سند صحیح ہے
حوالہ: [صحيح الأدب المفرد ص ١٠٢ اردو، عربی ٧٦]
ماشاء اللہ: دیکھا آپ نے کسی طرح “امی” صاحبہ نے بچوں کو ادب سکھایا؟
نتائج: اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں یتیم پر سختی کرنے ممانعت فرمائی ہے ثابت ہوا عائشہ بنتِ ابی بکر نے خلافِ قرآن کام کیا
قارئین: اس پر مزید کلام کیا جاسکتا ہے لیکن ہم بات کو مختصر کرکے فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں
خاکسار : عبداللہ صدیقی
.
.
محمد بن اسماعیل نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ شمیسہ عتکیہ کہتی ہے کہ عائشہ کے سامنے یتیم کو ادب سکھانے کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا : میں یتیم کو اتنا مارتی ہوں یہاں تک وہ لوٹ جاتا یے (ادب سیکھتا ہے)۔
کتاب کے محقق ناصر الدین البانی نے روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
⛔صحیح الادب المفرد للبخاری – ناصر الدین البانی // صفحہ ۵۲ // رقم ۱۰۵ // طبع دار العلم ممبئ ھندوستان۔
ابوبکر بن ابی دنیا نے بھی اپنی کتاب العیال میں دو اثر نقل کئے ہیں اپنی اسانید سے :
اپنی سند سے نقل کیا یے کہ ایک عورت جو فرادیس سے تھی کہتی ہے کہ میں نے عائشہ سے کہا کہ میرے پاس دو یتیم ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ انہوں نے کہا : جہاں تک لڑکے کا تعلق ہے تو اسکو مارنا نہیں چاھئے اور لڑکی کو دو پھتروں کے بیچ میں رکھ کر دبانا چاھئے۔
اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ خولۃ کہتی یے کہ میں نے عائشہ سے یتیم کو مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسکی گردن توڈ ڈالو کیونکہ یتیم ایک سانپ سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسکی گردن توڈ دی جائے۔
⛔کتاب العیال – ابن ابی دنیا // جلد ۷ // صفحہ ۱۳۹ // رقم ۶۳۱، ۶۳۲ // طبع مکتبہ العصریہ بیروت لبنان۔