ابوبکر و عمر کا رسولﷺ کے سامنے آوازیں اونچی کرنا


ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں:
دو بہت اچھے شخص تباہ ہونے والے تھے یعنی ابوبکر صدیقؓ اور عمر بن خطابؓ_

ہوا یہ کہ جب بنی تمیم کے سوار(٩ھ) میں رسولﷺ کے پاس آئے،
(انھوں نے یہ درخواست کی کہ کوئی ان کا سرادر مقرر فرمادیں)

تو ان دونوں صاحبوں میں سے ایک(یعنی حضرت عمر) نے کہا کہ اقرع بن حابس کو سردار کیجیے_ جو بنی مجاشع کے خاندان میں سے تھا(یہ بنی تمیم کی ایک شاخ ہے)
اور دوسرے( یعنی ابوبکر صدیق) نے کسی اور کیلئے کہا، نافع بن عمر نے کہا مجھ کو اسکا نام یاد نہی رہا_خیر ابوبکر صدیق عمر سے کہنے لگے تم یہ چاہتے ہو کہ مجھ سے اختلاف کرو(تم کو تو مصلحت اور انصاف سے غرض نہیں)




حضرت عمر کہنے لگے نہیں میں اختلاف نہیں کرنا چاہتا دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں اس وقت اللّہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)

اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔.

یہ اہل سنت کی معتبر کتاب ہے وہ لوگ جو اس کتاب کو قران کے بعد صحیح ترین کتاب سمجھتے ہیں ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں کہ (ابوبکر و عمر) جنکو رسول اللہ ص کی تعظیم کرنے کا نہیں پتہ اورنبی پاک ص کے سامنے اپنی آوازوں کو اس قدر بلند کر رہے ہیں کہ انکی مزمت خود اللہ پاک فرما رہا ہے۔۔ایسے افراد بھلا رسول اللہ ص کے جانشین کیسے ہو سکتے ہیں۔۔

افسوس جن کی مزمت میں قرآن کی آیتیں آ رہی ہیں رسول ص کی امت نے انکو ہی اپنا پہلا دوسرا خلیفہ بنا لیا
