* حضورﷺ کےغلام صحابی مدھم کا جہنمی ہونا۔صحیح بخاری *
.

اہلسنّت کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے سارے اصحاب جنتی ہیں کوئی صحابی جہنمی نہیں ہےانکایہ عقیدہ چند مخصوص اصحاب کو بچانےکےلیے بنایا گیا ہےتاکہ کچھ ظالم غاصب اصحاب کو اسی عقیدہ کی آڑ میں بچایا جائے جبکہ حضور ﷺ نے خود اپنی حیات میں کتنے ہی اصحاب کو جہنمی کہا ہے مگر یہ لوگ حضورﷺ کے اس فرمان کو ہی بدل دیتے ہیں ۔۔ آج ہم حضور ﷺ کہ ایک غلام صحابی کے جہنمی ہونے کا حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ثابت کرتے ہیں۔
.

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي ثَوْرٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَالِمٌ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : افْتَتَحْنَا خَيْبَرَوَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًاوَلَا فِضَّةًإِنَّمَاغَنِمْنَاالْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ ، ثُمَّانْصَرَفْنَامَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ : مِدْعَمٌ أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْجَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌحَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ الْعَبْدَ،فَقَالَ النَّاسُ : هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :بَلَى،وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا ، فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ فَقَالَ : هَذَا شَيْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ ..
.
جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسولﷺ کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریمؐ کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آکر انکے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں‘اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلےمال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا۔
حوالہ : [ بخاری شریف – حدیث ۴٢٣۴ ]
.

اہلسنت جب یہ روایت دیکھتے ہیں تو فوراً اسکی صحابیت کا انکار کر دیتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو صحابی تھا ہی نہیں ۔۔ صرف یہی نہیں بلکہ جلیل القدر صحابی جو ان کے پسندیدہ اصحاب کے خلاف ہو یا ان کے ہاتھوں شہید ہوا ہو تو ان شہید ہونےوالےصحابہ کو بھی اصحاب کی فہرست سے نکالنے میں دیر نہیں کرتے ہیں ۔۔ اس صحابی کرکرة کی صحابیت ثابت کرنے کے لیے ہم اہلسنت کے علماء الرجال اور جرح و تعدیل کے آئمہ اور علماء سے دیکھیں گئے کہ انہوں نے اس کرکرة نامی شخص کو صحابی مانا ہے۔
.

ابن اثیر الجزری اہل سنت کے ماہر علم الرجال و محدث ، جن کے مطابق مدھم صحابی رسول تھے۔
حوالہ : [ أسد الغابة في معرفة الصحابة- ج٦- ص١٦١ ]
.

اہلسنت عالم حافظ ابن حجر عسقلانی کے مطابق بھی مدھم صحابی رسول تھے۔
حوالہ : [ الإصابة في تمييز الصحابة – ج۵ – ص٣٩١ – رجال ٧٨۵٨ ]
.

اہلسنت عالم الشیخ ولی الدین ابی عبداللہ الخطیب نے بھی مدھم کی صحابیت کی تصدیق ہےاور ان کا احادیث کا مجموعہ تو اکثر سنی علماء نے بھی پڑھا ہوگا جس کا نام ہے مشکوٰۃ شریف۔۔۔
حوالہ : [ ثامنا الاءکمال فی اسماء الرجال – ص ٩٨ – رجال ٨١۵ ]
.

فارغ التحصیل جامعۃ العلوم الاسلامیہ ، علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی والوں نے بھی مدھم کو صحابی مانا ہے ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں!
.

دارالعلوم دیوبند انڈیا کےمفتی صہیب احمد قاسمی مدھم کی صحابیت کا اعلان فرمارہے ہیں ۔۔ ان کی دلیل بھی مدھم کا غلام ہونا اور غزوہ میں شرکت کرنا ہے
.

شمس الدین ذہبی کی معروف کتاب تجرید اسما الصحابہ جس میں وہ جید اصحاب رسول جناب مدھم کا تذکرہ کرتے ہیں۔
حوالہ : [ کتاب تجرید اسما الصحابہ – رجال نمبر ٣٢٣ – ص ٢٩ ]
.
ویسے تو کتاب کا نام ہی ان کی صحابیت پر دلیل ہے لیکن بہرحال شک کے ازالے کے لئے اہلسنت عالم کا موقف بھی آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں
.

ان کتب سے متعلق ان کی تحقیق ہے کہ امام الرجال و جرح و تعدیل شمس الدین ذہبی نے تجرید اسما الصحابہ میں ابن اثیر کی غلطیاں درست کیں اور جو صحابہ نہیں تھے انکے نام نکال دیے ۔۔۔ابن حجر عسقلانی انکے بھی بعد کے امام الرجال، و جرح و تعدیل کے سنی امام ہیں۔۔ ان کے بارے میں سنی علما کا ماننا ہے کہ انہوں نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ نامی کتاب ٣٨ سے۴٠ سال کی تحقیق کےبعد مرتب کی تھی اور یہ کتاب علم الحدیث میں صحت حدیث میں ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔
حوالہ : [ سیر الصحابہ – حصہ اول – جلد ۵ – صحفہ ١۵ ]
.

امام الرجال محدث ابن عبدالبرکی شہرہ آفاق کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں وہ جید صحابی رسول مدعم کا ترجمہ بیان کر رہے ہیں اور ان کی صحابیت پر صحیح بخاری کی اسی حدیث کو دلیل بنا رہے ہیں جو ہم نے پیش کی ہے۔
حوالہ : [ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب – ص ١۴٦٨ – رجال ٢۵٣٨ ]