عثمان کا سنتِ رسولﷺ وآلہ کی مخالفت کرنا اور مولا علی علیہ السلام کا سنت پر قائم رہنا
صحیح مسلم میں ہے :
( ایک مرتبہ ) مقام عسفان پر حضرت علی علیہ السلام اور عثمان اکھٹے ہوئے ۔ عثمان حج تمتع سے یا ( حج کے مہینوں میں ) عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے ان سے پوچھا : آپ اس معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور تم اس سے منع کررہے ہو؟
عثمان نے جواب دیا : آپ اپنی رائے کی بجائے ہمیں ہماری رائے پر چھوڑ دیں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا : ( آپ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف حکم دے رہے ہیں) میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ جب حضرت علیہ السلام نے یہ ( اصرار ) دیکھا توحج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پکارنا شروع کر دیا
حوالہ: [صحیح مسلم حدیث نمبر ٢٩٦٤]

.
مروان سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے حج تمتع اور حج قرآن سے منع فرمایا، تو سیدنا علیؑ نے فرمایا: میں حج اور عمرے کا اکٹھا تلبیہ پکارتا ہوں، حضرت عثمان نے کہا: کیا آپ یہ کرتے ہیں جبکہ میں اس سے منع کرتا ہوں،
حضرت علیؑ نے فرمایا: میں کسی شخص کیوجہ سے
رسول اللہﷺ کی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔
سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباسؓ کیساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ سے ڈررہے ہیں,(انھوں نے لبیک کہنے سے منع کررکھا ہے)
تو ابن عباسؓ اپنے خیمے سے باہر نکلے اور کہا: “لبیک، اللھم لبیک، لبیک” (افسوس کی بات ہے) علی علیہ السلام کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔

سنن نسائی جلد سوم (صحیح الاسناد)
علی ع کے بغض کی وجہ سے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک کر دیا گیا

*مسلمانوں کے خلیفہ ثالث عثمان بن عفان نے رسول خدا(ص) کے بھائی مولا کائنات خلیفہ راشد علی ابن ابی طالب۴ کا گمراہ اور گمراہ کرنے والے کہا*
.
عثمان بن عفان نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے منع کیا اور حج تک عمرہ تمتع سے منع کیا پس اسکے بارے میں علی (ع.س) نے اپنی جگہ سے آواز بلند کی تو فورا عثمان منبر سے *اترا اور ایک چیز کو اٹہایا* علی علیہ السلام کی طرف چلنے لگا. طلحہ اور زبیر اٹہے اور انکو روکنے لگے تو وہ ان سے چہڑا کر علی علیہ السلام کی طرف چلنے لگا قریب تہا کہ وہ اپنی انگلی علی علیہ السلام کی آنکھہ پے رکہی اور کہا *آپ یقینا گمراہ ہو اور دوسروں کو بہی گمراہ کرتے ہو.* اور علی علیہ السلام نے اس کو کچھہ بہی جواب نہ دیا
عثمان بن عفان کا حجِ تمتع سے انکار اور جنابِ امیر المومنینؑ کی سنتِ رسولؑ پر ثابت قدمی
اہل سنت کے امام بخاری (المتوفی ۲۵۶ھ) نے اپنی سند کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا ﵄، وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا رَأَى عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا: لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ ﷺ لِقَوْلِ أَحَدٍ.
مروان بن حکم نے بیان کیا کہ عثمان بن عفان اور علی ابن ابی طالبؑ کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے روکتے تھے لیکن علیؑ نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا «لبيك بعمرة وحجة» اور کہا کہ میں کسی ایک شخص کے قول کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا.
دوسری سند کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: «اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ ﵄، وَهُمَا بِعُسْفَانَ، فِي الْمُتْعَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا».
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان اور علی ابن ابی طالبؑ عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو علیؑ نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں؟ اس پر عثمان نے کہا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو۔ یہ دیکھ کر علی نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔
صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۲۵۴، ۲۵۵ // رقم ۱۵۶۳، ۱۵۶۹ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
دوسری روایت کو امام مسلم بن حجاج نیساپوری (المتوفی ۲۶۱ھ) نے بھی اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
صحیح مسلم – مسلم بن حجاج // صفحہ ۵۱۹ // رقم ۲۹۶۳ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
امام احمد بن حنبل (المتوفی ۲۴۱ھ) نے اپنی سند کے دونوں روایات نقل کی ہے۔
کتاب کے محقق شعيب الأرناؤوط نے ان دونوں روایات پر یوں حکم لگایا : إسناده صحيح على شرط البخاريّ۔
مسند احمد – احمد بن حنبل // جلد ۲ // صفحہ ۱۳۶، ۱۳۷، ۳۵۳ // رقم ۷۳۳، ۱۱۳۹ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
امام شمس الدین ذھبی (المتوفی ۷۴۸ھ) نے اسکو نقل کرنے کے بعد یوں لکھا :
وَفِيْهِ أَن مَذْهَب الإِمَام عَلِيّ كَانَ يَرَى مخالفة ولي الأَمْر لأَجْل متَابعَة السُّنَّة، وَهَذَا حسن لِمَنْ قَوِيَ، وَلَمْ يُؤْذِهِ إِمَامه، فَإِنْ آذَاهُ، فَلَهُ ترك السّنَّة، وَلَيْسَ لَهُ ترك الْفَرْض، إلَّا أَنْ يَخَافَ السَّيْفَ
یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام علی کا مذہب سنت پر عمل کرنے کے لیے اولیٰ امر (حاکم) کی مخالفت کرنا تھا۔ یہ عمل اس کے لیے ٹھیک ہے جس میں اس کی طاقت ہو اور حاکم کی طرف سے اس کے لیے نقصان کا اندیشہ نہ ہو اور اگر حاکم اسے نقصان پہنچائے تو وہ سنت کو چھوڑ سکتا ہے لیکن فرض کو ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ (حکمران کی) تلوار سے ڈرتا ہو (تو فرض بھی چھوڑ سکتا ہے)۔
سیر اعلام النبلاء – ذھبی // جلد ۱۵ // صفحہ ۵۳۳ // طبع المکتبہ التوفقیہ قاہرہ مصر۔
ثابت ہوا کہ امام علیؑ نے ان کی خلفاء کی ہر مقام پر مخالفت کی ہے۔
.
.
حج کا دن بھی مولا علی کے بغض سے نہ بچ سکا
مولا علی کے کھلے دشمن معاویہ نے مولا علی کے بغض میں رسول ﷺ کی سنت لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کو چھوڑ دیا ۔

مولا علی حج کے موقع پر رسول ﷺ کی سنت لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ کو ادا کرتے تھے مگر معاویہ مولا علی کے بغض میں اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ انہوں نے آپ کے بغض میں دوران حج لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ پڑھنے پر پابندی لگا دی ۔

رسول ﷺ نے مولا علی کو فرمایا تھا ۔

عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا “اس سے اناج اور نباتات اگائے” اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔
الحديث رقم 117 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325.
معاویہ کے خوف سے حج کے دنوں میں لوگوں نے لبیک اللھم لبیک (تلبیہ ) کہنا چھوڑ دیا تھا
سنن نسائی حدیث 3006
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ:” مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟ قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ:” لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ”.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ سے ڈر رہے ہیں، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما (یہ سن کر) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا: «لبيك اللہم لبيك لبيك» (افسوس کی بات ہے) علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
( یہ روایت سنن نسائی اردو ترجمہ میں 3011 نمبر پر موجود ہے، مترجم مولانا خورشید حسن قاسمی ، اردو بازار لاہور ) اور اسلام 360 ایپ میں 3009 نمبر یہ روایت موجود ہے ) مفتی فضل ہمدرد ، خادم الثقلین !


*مولا علی (ع) کے بغض میں معاویہ کا سنتِ محمدیؐ (لبيك اللهم لبيك) کو ترک کرنا*


*جو مولاعلیؑ کے بُغض میں نماز سے بسم اللہ نکال دیں، حج سے تلبیہ نکال دیں، ان معاویہ کے ماننے والوں کو کلمے، اذان، نماز میں ممبر پہ نامِ علیؑ کیسے گوارہ ہوگا؟؟*

*جو بھی جہاں بھی ذکرِ مولاعلیؑ سے روکے وہی معاویہ کا ماننے والا ہے*

*حضرت سعید ابن جبیر بیان کرتے ھیں کہ میں حضرت ابن عباس کے ساتھ عرفات میں تھا وہ فرمانے لگے: کیا وجہ ھے کہ لوگوں کو لبیک پکارتے نہیں سنتا؟*

*میں نے کہا: وہ معاویہ سے ڈرتے ھیں۔*

*حضرت ابن عباس اپنے خیمے سے نکلے اور بلند آواز سے پکارا “لبيك اللهم لبيك” بے شک ان لوگوں نے حضرت علی (ع) کے بغض میں سنت (تلبیہ) کو ترک کیا ہے۔*

صحیح ابن خزیمہ / جلد 3 / کتاب مناسك / صفحہ : 568 / حدیث : 2830 / طبع : دارالعلم ممبئ
کتاب کے محقق ” ڈاکٹر محمد مصطفے اعظمی ” اس حدیث کے زیل میں لکھتے ھیں : صحیح سند

یہ حدیث سنن نسائی میں بھی نقل ھوئی ھیں
سنن نسائی / جلد 4 / کتاب مناسک الحج / باب التلبیہ بعرفہ / صفحہ : 628 / حدیث : 3009 / طبع دارالعلم ممبئ
کتاب کے محقق شیخ زبیر علی ذائی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا : حسن
اس حدیث کو علامہ البانی نے بھی صحیح کہا ھیں اپنی کتاب صحیح سنن نسائی
بعض لوگ معاویہ کی محبت میں اندھے ہو کر خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ پر اعتراض کر شروع ہو جاتے ہیں اس کا جواب
وقال أبو حاتم(( يكتب حديثه ))
وقال بن عدي ((لم أجد في حديثه أنكر مما ذكرته ولعلها توهم منه أو حملا على حفظه هو من المكثرين وهو عندي إن شاء الله لا بأس به ))
وقال الآجري عن أبي داود ((صدوق ولكنه يتشيع ))
وقال عثمان الدارمي عن بن معين(( ما به بأس ))
وقال العجلي ((ثقة فيه قليل تشيع وكان كثير الحديث ))
وقال صالح بن محمد جزرة(( ثقة في الحديث إلا أنه كان متهماً بالغلو ))
وقال بن شاهين في الثقات قال عثمان بن أبي شيبة هو(( ثقة صدوق ))
وذكره بن حبان في الثقات
ووثقه الدارقطني