اس شبہ کا ہم قرآن و حدیث سے مدلل جواب پیش کرتے ہیں اور تمام صاحبانِ عقل کو ایک دعوت فکر دیتے ہیں
جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
.

ترجمہ: ” اور جب موسیٰ غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے کہا : تم نے میرے بعد میری کتنی بری نمائندگی کی ۔ کیا تم نے اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ اپنے رب کے حکم کا بھی انتظار نہیں ؟ اور ( یہ کہہ کر ) انہوں نے تختیاں پھینک دیں. اور اپنے بھائی ( ہارون علیہ۔السلام ) کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچنے لگے ۔ وہ بولے : اے میری ماں کے بیٹے ! یقین جانیے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا ، اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے ۔ اب آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے ، اور مجھے ان ظالم لوگوں میں شمار نہ کیجیے ۔
حوالہ : [ سورہ اعراف – آیت ١۵٠ ]
.
اب اگر غور کیا جائے تو بہت سے شبہات اس سے دور ھو جاتے ھیں کہ امت نے کسطرح حضرت ہارون ع کو مجبور کردیا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے بھی مجبور ھو گئے پھر حضرت موسیٰ ع کی مثال بھی ھمارے سامنے ھے انہوں نے بھی لوگوں کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے ایک ملک سے دوسرے کا سفر کیا یعنی بحالت مجبوری میں جیسا کہ قرآن مجید میں ھے :
.
” فَفَرَرۡتُ مِنۡکُمۡ لَمَّا خِفۡتُکُمۡ فَوَہَبَ لِیۡ رَبِّیۡ حُکۡمًا وَّ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ…..”
ترجمہ:”چنانچہ جب مجھے تم لوگوں سے خوف ہوا تو میں تمہارے پاس سے فرار ہوگیا ، پھر اللہ نے مجھے حکمت عطا فرمائی ، اور پیغمبروں میں شامل فرما دیا۔”
حوالہ : [ سورہ شعراء – آیت ٢١ ]
.
اب تمام شبہات قرآن مجید سے ہی دور ھوتے جا رھے ھیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتِ طیبہ کیسی رہی پھر ھمیں حضرت نوح علیہ السلام کی مثال ملتی ھے کہ جب امت نے انہیں بالکل مجبور اور بے بس کر دیا تو آپ ع یہ کہنے پر مجبور ھو گئے جیسا کہ کلامِ الٰہی میں ھے:
” فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ…..”
ترجمہ : ” اس پر انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ : میں بے بس ہوچکا ہوں ، اب آپ ہی بدلہ لیجیے۔”
حوالہ : [ سورہ قمر – آیت ١٠ ]
.
پھر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ھمارے سامنے حضرت لوط علیہ السلام کی مثال موجود ھے کہ ان کا بھی کوئی ساتھ دینے والا نہ رہا مطلب اتنے ساتھی ہی نہ رھے کہ وہ خود کو مضبوط کر سکیں بلکہ وہ بالکل بے بس ھو گئے جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
.
” قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ…..”
ترجمہ: “لوط نے کہا: کاش کہ میرے پاس تمہارے مقابلے میں کوئی طاقت ہوتی ، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا!”
حوالہ : [ سورہ ھود – آیت ٨٠ ]
.
تو واضح ھوا کہ امت کس طرح خداوند متعال کے برگزیدہ بندوں کو مغلوب کرتی ھے اور پھر انہی امثال میں سے ایک مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ھے جب لوگوں نے ان کی بات نہ مانی تو انہوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
.
وَ اَعۡتَزِلُکُمۡ وَ مَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا…..”
ترجمہ:”اور میں آپ لوگوں سے بھی الگ ہوتا ہوں، اور اللہ کو چھوڑ کر آپ لوگ جن جن کی عبادت کرتے ہیں، ان سے بھی، اور میں اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا ۔ مجھے پوری امید ہے کہ اپنے رب کو پکار کر میں نامراد نہیں رہوں گا ۔ “
حوالہ : [ سورہ مریم – آیت ۴٨ ]
.
اس کی بہت سی مثالیں ھیں پھر ایک اہم مثال جنابِ رسول خدا خاتم النبیین ص کی ھے جب لوگوں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے اور آپ ص کو مغلوب کرنے لگے تو الله تعالیٰ نے جنابِ رسول خدا ص کو ہجرت کا حکم دیا ان تمام نکات سے ھم واقف ھیں جس سے واضح ھو جاتا ھے کہ اوصیاء کا مغلوب ھونا تعجب خیز نہیں ھے بلکہ ھماری سوچ محدود ھے جو ھمیشہ ایک معترض کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتی ھے جبکہ حقائق بالکل واضح ھیں۔




قارئین محترم!
اب ھمارے سامنے ان انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتِ مقدسہ ھے جس اوللعزم انبیاء علیہم السلام بھی موجود ھیں اور ان نکات سے ہی تمام شبہات دور ھو جاتے ھیں کہ یہ امتیں بہت کچھ کر جاتی ھیں اور انبیاءکرام ع کو بھی مغلوب تک کر جاتی ھیں حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو بے دردی سے شہید کر دیتی ھیں اور ان کے سر تک کاٹ دیتی ھیں جیسا کہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا تو اب سوچنے کی بات ھے جب امتیں انبیاء کرام ع جیسی برگزیدہ ہستیوں کو مغلوب کرسکتی ھیں تو انبیاء کرام کے اوصیاء کو کیوں مغلوب نہیں کر سکتی ھیں؟ یعنی امیر المومنین مولا علی ع کے ساتھ کیا ایسا نہیں ھو سکتا یا ھوا نہیں؟ اب یہاں تک تو یہ شبہات قرآن مجید سے دور ھو گئے ھیں لیکن ھم اس کو اب مزید واضح کریں گے تا کہ کوئی شک و شبہ باقی ہی نہ رھے۔


حوالہ : [ مسند امام احمد – جلد ١ – حدیث نمبر: ۴۵١ ]
تبصرہ : نیز جب گھر کا محاصرہ کیا گیا پھر اندر داخل ھوگئے اور خلیفہ وقت کی بیوی نائلہ خاتون کو بھی ان کے سامنے مارا پیٹا گیا حتیٰ کہ ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دیں اس کے باوجود بھی خلیفہ وقت اتنے مغلوب ھو چکے تھے کہ کچھ بھی نہ کر سکے اب مقام تفکر ھے یہی بات ھم کہتے ھیں کہ مولا علی علیہ السلام کو بھی امت اور وعدوں نے مغلوب کر دیا اس لئے مزاحمت نہیں کر سکے۔

