کیا خدا جسم رکھتا ہے اور کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے ؟
مکتب اہل بیت ع کا اس بات پر اجماع ہے کہ خداوند عالم جسم میں محدود نہیں ہے اور اس کو دیکھنا بھی ممکن نہیں
شیخ صدوق رح جو تیسری صدی ہجری کے جید عالم دین ہیں وہ اپنی کتاب ” اعتقادات ” میں صفات توحید لکھتے ہوئے ایک جگہ ذات باری تعالیٰ سے متعلق لکھتے ہیں

پھر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ
” وہ ایسا لطیف خبیر ہے کہ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتی “





دیدار الہی سے متعلق آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین
ذعلب یمنی نے امام علی ع سے سوال کیا کہ:
یا امیر المومنینؑ ! کیا آپؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟
آپؑ نے فرمایا: کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں؟
اس نے کہا کہ آپؑ کیونکر دیکھتے ہیں؟
تو آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ:




أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ يَرْوِي عَنْكُمْ أَنَّ اللَّهَ جِسْمٌ صَمَدِيٌّ نُورِيٌّ مَعْرِفَتُهُ ضَرُورَةٌ يَمُنُّ بِهَا عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ فَقَالَ ع سُبْحَانَ مَنْ لَا يَعْلَمُ أَحَدٌ كَيْفَ هُوَ إِلَّا هُوَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ لَا يُحَدُّ وَ لَا يُحَسُّ وَ لَا يُجَسُّ وَ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ لَا الْحَوَاسُّ وَ لَا يُحِيطُ بِهِ شَيْءٌ وَ لَا جِسْمٌ وَ لَا صُورَةٌ وَ لَا تَخْطِيطٌ وَ لَا تَحْدِيدٌ .
علی بن حمزہ سے مروی ہے کہ میں امام جعفر صادق ع سے کہا کہ ہشام بن الحکم نے آپ حضرات سے یہ روایت کی ہے کہ خدا جسم ہے صمدی اور نورانی ہے اور اس کی معرفت ضروری ہے اپنی مخلوق میں جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے
امام علیہ السلام نے فرمایا :




حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الولید رضی الله عنه، قال: حدثنا محمد بن الحسن الصفار، عن سهل بن زیاد، عن حمزة بن محمد، قال: کتبت إلى أبی – الحسن علیه السلام: أسأله عن الجسم والصورة، فکتب علیه السلام: سبحان من لیس کمثله شئ لاجسم ولا صورة
حمزہ بن محمد نے کہا کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے خط کے ذریعے ( خدا ) کے جسم اور صورت کے بارے دریافت کیا ، تو امام ع نے تحریر فرمایا کہ




– مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ ع أَسْأَلُهُ كَيْفَ يَعْبُدُ الْعَبْدُ رَبَّهُ وَ هُوَ لَا يَرَاهُ فَوَقَّعَ ع يَا أَبَا يُوسُفَ جَلَّ سَيِّدِي وَ مَوْلَايَ وَ الْمُنْعِمُ عَلَيَّ وَ عَلَى آبَائِي أَنْ يُرَى قَالَ وَ سَأَلْتُهُ هَلْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ص رَبَّهُ فَوَقَّعَ ع إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَرَى رَسُولَهُ بِقَلْبِهِ مِنْ نُورِ عَظَمَتِهِ مَا أَحَبَّ
جناب یعقوب بن اسحق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں خط تحریر کیا اور عرض کیا:
بندہ اس رب کی کیسے عبادت کرتا ہے جس کو دیکھتا نہیں ؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا :
اے ابویوسف ! میرا سردار و مولا و رب اور میرے اور میرے آباؤ اجداد پر نعمتیں نازل کرنے والا اس سے بزرگ و برتر ہےکہ اس کو دیکھا جاسکے
ابویوسف : میں نے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ ص نے اپنے رب کو دیکھا ؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا :

(یعنی ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھا)



خدا کو جسم کی نسبت دینے کے ممانعت پر دیگر روایات
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْعَلاءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ ابي جعفر (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ إِيَّاكُمْ وَالتَّفَكُّرَ فِي الله وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تَنْظُرُوا إِلَى عَظَمَتِهِ فَانْظُرُوا إِلَى عَظِيمِ خَلْقِهِ.



حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ المُتَوَكِّل رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قالَ: حَدَّثَنا عَلِىِّ بْنِ إِبراهِيمِ بْنِ هاشِمٍ، عَنْ أَبيهِ، عَنِ الرَّيانِ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ عَلِىِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا، عَنْ أَبيهِ عَنْ آبائِهِ عَنْأَمِيرِ الْمُؤْمِنينَ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ قالَ: قالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: قالَ اللَّه جَلَّ جَلالُهُ: ما آمَنَ بي مَن فَسَّرَ بِرَأيِهِ كَلامِي، وَما عَرَفَنِي مِن شَبَّهَنِي بِخَلقِي، وَما عَلَى دِينِي مَنِ استَعمَلَ القِياسَ فِي دِينِي.



أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ يَرْوِي عَنْكُمْ أَنَّ الله جِسْمٌ صَمَدِيٌّ نُورِيٌّ مَعْرِفَتُهُ ضَرُورَةٌ يَمُنُّ بِهَا عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ فَقَالَ (عَلَيْهِ السَّلام) سُبْحَانَ مَنْ لا يَعْلَمُ أَحَدٌ كَيْفَ هُوَ إِلا هُوَ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ لا يُحَدُّ وَلا يُحَسُّ وَلا يُجَسُّ وَلا تُدْرِكُهُ الابْصَارُ وَلا الْحَوَاسُّ وَلا يُحِيطُ بِهِ شَيْءٌ وَلا جِسْمٌ وَلا صُورَةٌ وَلا تَخْطِيطٌ وَلا تَحْدِيدٌ.



ابن المتوكل، عن الحميري، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن حماد، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: كذب من زعم أن الله عز وجل من شئ، أو في شئ، أو علي شئ



ابن الوليد، عن الصفار، عن ابن معروف، عن علي بن مهزيار قال: كتبت إلى أبي جعفر الثاني عليه السلام: جعلت فداك اصلي خلف من يقول بالجسم، ومن يقول بقول يونس – يعني ابن عبد الرحمن؟ فكتب عليه السلام لا تصلوا خلفهم ولا تعطوهم من الزكاة وابرؤوا منهم، برأ الله منهم



شیخ صدوق کے شاگرد أبو القاسم علي بن محمد بن علي الخزاز القمي الرازي اپنے سلسلہ سند کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یونس بن ظبیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا:
اے فرزند رسول خدا ـــ میں مالک اور ان کے اصحاب کے پاس موجود تھا تو ان میں سے بعض کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعا لیٰ چہرہ رکھتا ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ ہاتھ رکھتا ہے اور انہوں نے اللہ تعا لیٰ کے اس قول سے احتجاج کیا:
جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ـــــ (حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت)
(سورۃ ص،آیت:۷۵)
اور ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ تیس سال کا جوان ہے تو آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
اے فرزند رسول خدا ـــ میں مالک اور ان کے اصحاب کے پاس موجود تھا تو ان میں سے بعض کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ تعا لیٰ چہرہ رکھتا ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ ہاتھ رکھتا ہے اور انہوں نے اللہ تعا لیٰ کے اس قول سے احتجاج کیا:
جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ـــــ (حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت)
(سورۃ ص،آیت:۷۵)
اور ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ تیس سال کا جوان ہے تو آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
.
آنحضرت تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے پھر یہ سننے کے بعد سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا:
اللهم عفوک عفوک ـــــ پھر فرمایا:
اے یونس جو شخص یہ کہتا ہے اللہ تعا لیٰ چہرہ رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ مخلوق کی طرح اللہ تعا لیٰ کے بھی اعضاء و جوارح ہیں تو وہ کافر ہے اور نہ ان کی گواہی قبول کی جائے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں کا ذبیحہ کھایا جائے اور اللہ تعا لیٰ ان باتوں سے بلند و بالا ہے جو اسے مخلوق سے تشبیہ دینے والے بیان کرتے ہیں۔
اور اللہ تعا لیٰ کے چہرے سے ان کے انبیاء اور ان کے اولیاء مراد ہیں اور اس کا یہ کہنا:
جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔
(سورۃ ص،آیت:۷۵)
تو اس کے ہاتھوں سے اس کی قدرت مراد ہے۔
(کفایة الأثر،صفحہ:۳۶۵،الشيخ أبو القاسم علي بن محمد بن علي الخزاز القمي الرازي)
امامیہ کا دین ( عقیدہ ) اللہ کی توحید کا اقرار کرنا ، اس سے تشبیہ کا انکار کرنا اور اللہ کو ہر اس شئ سے منزہ و مبرہ سمجھنا جو تشبیہ سے ملتی ہے۔

اسماعیل بن فضل سے نقل ہوئی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا روز قیامت خداوندعالم کا دیدار ہوسکتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوندعالم اس چیز سے پاک و پاکیزہ ہے اور بہت ہی پاک و پاکیزہ ہے:
.
” إنَّ الاٴَبصَار لا تُدرک إلاَّ ما لَہ لون والکیفیة والله خالق الاٴلوان والکیفیات“
.
حوالہ
تفسیرِ نور الثقلین ج اول ص 753


رؤیت باری تعالیٰ کی نفی احادیث معتبرہ کی روشنی میں

(1) الکافی: احمد بن ادریس سے جنہوں نے محمد بن عبد الجبار سے جنہوں نے صفوان بن یحیی سے روایت کی، کہا: محدث ابو قرّہ نے مجھ سے سوال کیا کہ امام رضاؑ کے پاس جاکر اس کیلئے ان کے پاس آنے کی اجازت طلب کروں۔ تو امامؑ نے اجازت دی، ابو قرہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے حلال و حرام اور احکام کے سوال کیئے حتی کہ اس کا سوال توحید تک آ پہنچا۔ تو ابو قرہ نے کہا: ہم نے روایت کیا ہے کہ الله نے رؤیت اور کلام دو نبیوں میں تقسیم کردیا ہے۔ تو اس نے کلام موسیؑ کو دیدیا، اور رؤیت محمد ﷺ کو دیدی۔ امامؑ نے فرمایا: تو وہ کون تھا جس نے الله سے جن و انس میں سے دو گرانقدر کو پہنچایا: ”نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے“۔ اور وہ علمی لحاظ سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ کیا وہ محمد ﷺ نہیں (جنہوں نے یہ پہنچایا)؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ امامؑ نے فرمایا: کوئی شخص کیسے تمام مخلوق کے پاس آتا ہے اور ان کو خبر دیتا ہے کہ وہ الله کی جانب سے آیا ہے اور کہ وہ ان کو الله کی طرف الله کے حکم سے بلا رہا ہے۔ تو وہ کہتا ہے: نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں، اور علمی لحاظ سے اس کا احاطہ نہیں ہو سکتا، اور اس جیسا کچھ نہیں، پھر وہ کہہ دے: میں نے اس (خدا) کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے، اور اس کو علمی لحاظ سے احاطہ کیا ہے، اور بشر کی صورت پر ہے؟ کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ زندیقوں نے بھی ان پر یہ الزام نہیں لگایا، کہ وہ الله کی جانب سے ایک چیز کے ساتھ آئیں پھر ایک اور جانب سے اس کے برخلاف بات لائیں۔ ابو قرہ نے کہا: الله کہتا ہے: ”اور آپ ﷺ نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا“۔ امام رضاؑ نے فرمایا: جو اس آیت کے بعد ہے اس پر دلیل ہے جو انہوں نے دیکھا، جدھر الله نے کہا: ”دل نے جھوٹ نہیں کہا جو کچھ آپ ﷺ نے دیکھا“۔ وہ کہہ رہا ہے کہ محمد ﷺ کے دل نے اس کو جھوٹ نہیں کہا جو ان کی آنکھوں نے دیکھا، پھر اس کی خبر دی جو انہوں نے دیکھا: ”آپ ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں“۔ پس الله کی نشانیاں غیر الله ہیں، اور الله پہلے ہی کہہ چکا ہے: ”اور وہ علمی لحاظ سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے“۔ تو جب نگاہیں اس کو دیکھ لیں، علم سے احاطہ کرلیا گیا، اور معرفت پا لی گئی۔ ابو قرہ نے کہا: کیا آپ روایات کو جھٹلاتے ہیں؟ امام رضاؑ نے فرمایا: جب روایات قرآن سے مخالف ہوں میں ان کو جھٹلاتا ہوں۔ اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس کا احاطہ علمی لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا، اور نہ نگاہیں اس کو پا سکتی ہیں، اور نہ اس جیسا کچھ ہے۔
(2) اور اس (احمد بن ادریس) سے جنہوں نے احمد بن اسحاق سے روایت کی، کہا: میں نے امام نقیؑ کو خط لکھا اور ان سے رؤیت کا پوچھا، اور جس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ امامؑ نے خط لکھا: رؤیت (دیکھنا) تب ممکن نہیں ہے جب جو دیکھنے والا ہو اور جس کو دیکھا جا رہا ہو ان کے درمیان ہواء نہ ہو۔ ایسی ہواء جس میں سے نگاہ گذر سکے۔ پس جب دیکھنے والے اور جس کو دیکھا جا رہا ہو ان کے درمیان ہواء نہ ہو، دیکھنا ممکن نہیں۔ اور اس میں (خدا و مخلوق کو) ملانا (لازم آتا) ہے۔ کیونکہ جب دیکھنے والا حالات کے سبب رؤیت میں اس کے برابر ہوگا جس کو دیکھا جاتا ہے، (خدا کو مخلوق سے) ملانا لازم آتا ہے۔ اور وہ تشبیہ ہے، کیونکہ اسباب ہمیشہ مسبب چیزوں سے متصل ہوتے ہیں۔
(3) اور احمد بن ادریس سے جنہوں نے محمد بن عبد الجبار سے جنہوں نے صفوان بن یحیی سے جنہوں نے عاصم بن حمید سے جنہوں نے امام صادقؑ سے روایت کی، عاصم نے کہا: میں نے امام صادقؑ سے اس کا ذکر کیا جو لوگ (خدا کو) دیکھنے کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ امامؑ نے فرمایا: سورج (خدا کی) کرسی کے نور کے ستر حصوں میں سے ایک حصے ہے، اور کرسی (خدا کے) عرش کے نور کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اور عرش (خدا کے) حجاب کے نور کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اور حجاب (خدا کے) ستر کے نور کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ تو اگر وہ (جو کہتے ہیں کہ خدا کو دیکھا جا سکتا ہے) سچے ہیں تو ان کو آنکھوں سے سورج کی طرف نگاہ کر لینے دو جس دن کوئی بادل نہ ہوں۔
(4) اور محمد بن یحیی سے جنہوں نے احمد بن محمد بن عیسی سے جنہوں نے ابن ابی نصر سے جنہوں نے امام رضاؑ سے روایت کی، فرمایا: رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب مجھے (شب معراج) آسمان کی طرف لجایا گیا، جبرئیلؑ مجھے ایسے مکان پر لیکر گئے جدھر انہوں نے ہرگز (از قبل) قدم نہیں رکھا تھا۔ امامؑ نے فرمایا: پھر آپ ﷺ کیلئے (وہ جگہ) ظاہر کی گئی اور الله نے آپ ﷺ کو اپنی عظمت کے نور سے جو چاہا دکھایا۔
(5) اور اس (محمد بن یحیی) سے جنہوں نے احمد بن محمد بن عیسی سے جنہوں نے ابن ابی نجران سے جنہوں نے عبد اللہ بن سنان سے جنہوں نے امام صادقؑ سے الله کے فرمان کے بارے میں روایت کی: ”نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں“۔ امامؑ نے فرمایا: (اس کا معنی ہے) خیال سے اس کا احاطہ کرنا، کیا تم نے اس کے فرمان کے طرف نہیں دیکھا: ”تمہیں تمہارے رب کی طرف سے بصیرتیں آ چکی ہیں“۔ اس سے مراد آنکھوں کی بصارت نہیں ہے۔ ”اب جو بصیرت سے کام لے گا خود اپنے لیئے فائدہ کرے گا“۔ اس سے مراد آنکھ سے دیکھنا نہیں ہے۔ ”اور جو اندھا رہے گا خود اپنا نقصان کرے گا“، اس سے مراد آنکھوں کی نابینی نہیں۔ اس سے اس کی مراد صرف خیال سے احاطہ کرنا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: فلاں شاعری میں بصیرت رکھتا ہے، فلاں فقہ میں بصیرت رکھتا ہے، فلاں درہموں میں بصیرت رکھتا ہے، اور فلاں کپڑوں میں بصیرت رکھتا ہے، الله اس سے زیادہ عظیم ہے کہ اس کو آنکھ سے دیکھا جائے۔
(6) اور اس (محمد بن یحیی) سے جنہوں نے احمد بن محمد سے جنہوں نے ابوہاشم جعفری سے جنہوں نے امام رضاؑ سے روایت کی، کہا: میں نے امامؑ سے الله کا سوال کیا، کیا وہ وصف کیا جا سکتا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ امامؑ نے فرمایا: کیا تم نے الله تعالی کا فرمان نہیں پڑھا: اس کو نگاہیں نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا سکتا ہے“؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ امامؑ نے فرمایا: تو تم نگاہوں کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ امامؑ نے فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: آنکھوں کی نگاہوں۔ امامؑ نے فرمایا: دلوں کے خیالات آنکھوں کی نگاہوں سے زیادہ بڑے ہیں، تو وہ ایسا ہے کہ اس کو خیالات نہیں پا سکتے جبکہ وہ خیالات کو پا لیتا ہے۔
(معجم الاحادیث المعتبرہ/ جلد 1 / کتاب التوحید/ باب 3/ صفحہ ۲۲۰)



