کیا عمر بن خطاب کے اسلام لانے سے مسلمانوں کے دل سے خوف ختم هوا

قارئین آج هم ان روایات کی کہ جن میں ذکر هوا هے کہ عمر بن خطاب نے جب اسلام قبول کیا تب مسلمانوں کے دلوں سے مکہ میں ک ف ا ر کا خوف ختم هوا وغیرہ پر بحث کریں گے اور اس کے متن کو ضعیف و منگهڑت ثابت کریں گے کہ ان روایات کی کوئی اصل نهیں هے ۔۔
.
بحث کو شروع کرنے سے پہلے یہ ذکر کرتا چلوں کہ علي ؑ و اولاد علي ؑ کے مخالفین نے ہمیشہ ان کے جیسے فضائل/عدالت/شجاعت و دیگر اپنے بزرگان کی شان میں گهڑی هیں، اس سے پہلے بهی میں نے عثمان بن عفان کا نکاح بحکم خدا طے پانے کے سلسلے میں اس چیز کو ثابت بهی کیا تها کہ یہ سب امیر المومنین ؑ کی دشمنی میں گهڑی گئی هیں اس لیئے هم اس بحث کو دوبارہ نهیں دہرائیں گے تو یہاں پر بهی مخالفین نے امیرالمومنین علي ابن ابی طالب ؑ کی شجاعت کے مقابل اپنے بزرگوں کی شجاعت کو گهڑا هے ( جیسا کہ هم آئندہ ذکر بهی کریں گے ) اسلام ہمیشہ ابو طالب ؑ و اولاد ابو طالب ؑ کی ہی وجہ سے باعث عزت رہا هے اور رھے گا کیونکہ اسلام کے دشمن نے جب بهی اسلام پر حملہ کیا چاہے مکہ میں ک ف ا ر کا رسول الله ﷺوآله پر حملہ آور کی کوشش ہو، چاہے وہ جنگ بدر ہو، چاہے وہ جنگ خندق ہو، چاہے وہ جنگ خیبر ہو و دیگر ہو ہمیشہ ابو طالب ؑ و اولاد ابو طالب ؑ نے اس اسلام کی حفاظت کی اور اس پر هونے والے حملے کو اپنے اوپر لیا هے اس لیئے علامه ابن ابي الحدید کو بهی لکهنا پڑا :
.
ولولا أبو طالب وابنه * لما مثل الدين شخصا فقاما فذاك بمكة آوى وحامى * وهذا بيثرب جس الحماما
اگر ابو طالب ؑ اور ان کا بیٹا علي علیه السلام رسول الله ﷺوآله کی پشت پناہی کے لیئے اٹھ کهڑے نہ هوتے تو دین اسلام بار آور نہ هو پاتا ۔
ابو طالب علیهم السلام نے مکہ میں پناہ دی اور حمایت کی اور ان کے بیٹے علي ؑ نے مدینہ میں اسلام کی خاطر آخری دم تک جہاد کیا ۔۔
شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ١٤ – الصفحة ٨٤
.
تو قارئین اب هم موضوع کی طرف چلتے هیں اهل سنت کی کتب میں ایسی کئی روایات پائی جاتی هیں جو اس چیز پر دلالت کرتی هیں کہ اسلام کو عزت بهی ملی تو عمر بن خطاب کی وجہ سے ملی، مسلمانوں کے اندر سے مکہ میں ک ف ا ر کا خوف بهی ختم هوا تو عمر بن خطاب کے اسلام لانے کے بعد هوا الخ ہم یہ روایات ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ” القول الصواب فی مناقب عمر بن الخطاب ” سے پیش کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
.
عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔
.
أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428.
.
عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير.
.
’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘
.
الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.
.
اس روایت کو امام هیثمي مجمع الزوائد میں نقل کرنے کے بعد لکهتے هیں :
” ورجاله رجال الصحيح إلا أن القاسم لم يدرك جده ابن مسعود “
.
اور اس سند کے رجال (راویان) صحیح (صحیحین) کے رجال هیں سوائے یہ کہ قاسم جو ہیں اس نے اپنے جد عبدالله بن مسعود کا زمانہ نهیں پایا (یعنی سند میں ضعف پایا جاتا هے) ۔۔۔
مجمع الزوائد – الهيثمي – ج ٩ – الصفحة ٦٢
.
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ.
.
’’حضرت عمر بن الخطاب اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور ک ف ا ر مکہ آپ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا اس آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر نے فرمایا عاص بن وائل سہمی ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65.
.
امام هیثمي اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکهتے هیں :
رواه البزار والطبراني باختصار ورجاله ثقات الا أن ابن إسحاق مدلس.
اس روایت کو البزار اور طبراني نے لکها اور اس سند کے رجال ثقات میں سے ہیں لیکن ابن اسحاق کے کہ یہ مدلس هے ۔۔
مجمع الزوائد – الهيثمي – ج ٩ – الصفحة ٦٥
.
قارئین هم فقط انهیں روایات پر اکتفا کرتے هیں کیونکہ اگر مزید روایات کو شامل کیا جائے تو تحریر بہت طویل هو جائے گی اس لیئے طوالت کے خوف سے هم اب ان روایات کے متون پر کلام کریں گے اور دیکهیں گے کہ حقیقت کیا هے کیا واقعی عمر بن خطاب اتنے دلیر و بہادر تهے کہ مسلمانوں کے دلوں سے ک ف ا ر کا خوف ختم هو گیا تها ؟؟
.
قارئین اگر ہم عمر بن خطاب کی شجاعت کے حوالے سے جہاد فی سبیل الله کو دیکهیں تو کتب حدیث و تاریخ میں همیں ان کا کردار پہلے ذکر کی گئی روایات سے برعکس نظر آئے گا۔ جہاد فی سبیل الله میں ان کے کردار کو بیان کرنے سے پہلے هم کتاب صحیح بخاری سے وہ روایت نقل کرنا چاہتے هیں کہ جس میں ذکر هوا هے کہ اسلام لانے کے بعد عمر بن خطاب صاحب کی کیا حالت تهی ملاحظہ فرمائیں :
.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے دادا زید بن عبداللہ بن عمرو نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ عمر ابن خطاب ( اسلام لانے کے بعد قریش سے ) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ عاص نے عمر سے کہا کیا بات ہے؟ عمر ابن خطاب نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ عاص نے کہا ”تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر ابن خطاب نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھر گیا ہے۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بےدین ہو گیا ہے۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر 3864
.
پس قارئین آپ دیکھ سکتے هیں کہ صحیح بخاری کے مطابق جب عمر ابن خطاب صاحب اسلام لائے تو ان کی حالت یہ تهی کہ وہ ک ف ا رِ مکہ سے گهبرائے هوئے تهے اور گهر میں ہی بیٹھ گئے تو اس کے بعد ایک آدمی انهیں امان دیتا هے تب ہی ان کی حالت میں کچھ بہتری آتی هے پس جو روایت شروع میں ھم ذکر کر آئے تهے جس میں ذکر تها کہ جب حضرت اسلام لائے تو وہ چغل خور کے پاس گئے وغیرہ روایت سند کے لحاظ سے بهی ضعیف هے بالفرض اگر کوئی روایت صحیح السند بهی هو تو بهی اس روایت کا متن صحیح بخاری کی اصح روایت سے ٹکراتا هے پس اس روایت کو ترک کیا جائے گا ۔۔۔
.
اب هم جہاد فی سبیل الله یعنی غزوات میں عمر ابن خطاب صاحب کی شجاعت و کردار کو پیش کرتے هیں تاکہ هم جان سکیں کہ واقعی ان کے اسلام لانے کے بعد اسلام کو عزت ملی اور مسلمانوں کے دلوں سے خوف ختم هوا تها ؟؟؟
.
// جنگِ احد //
تو اس سلسلے میں هم سب سے پہلے جنگ احد کے میدان کی طرف جاتے هیں اور دیکهتے هیں کہ ان کا اس میدان میں کیا کردار رہا هے :
محمد ابن جریز الطبري اپنی کتاب تفسیر میں روایت نقل کرتے هیں :
.
حدثنا أبو هشام الرفاعي، قال: ثنا أبو بكر بن عياش، قال: ثنا عاصم بن كليب، عن أبيه، قال: خطب عمر يوم الجمعة، فقرأ آل عمران، وكان يعجبه إذا خطب أن يقرأها، فلما انتهى إلى قوله: * (إن الذين تولوا منكم يوم التقى الجمعان) * قال: لما كان يوم أحد هزمناهم، ففررت حتى صعدت الجبل، فلقد رأيتني أنزو كأنني أروى،،،، الخ
.
مفهوم : راوی کلیب بیان کرتا هے کہ عمر بن خطاب نے جمعه کے روز خطبه دیا اور اس کے آخر میں فرمایا : جب جنگ احد میں ک ف ا ر نے مسلمانوں کو شکست دی تو میں بهاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس وقت میری حالت یہ تهی کہ پہاڑی بکری کی طرح کودتا پهرتا تها ،،، الخ
جامع البيان – إبن جرير الطبري – ج ٤ – الصفحة ١٩٣
.
اسی طرح امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور میں اس روایت کو نقل کیا هے :
أخرج ابن جرير عن كليب قال خطب عمر يوم الجمعة فقرأ آل عمران وكان يعجبه إذا خطب ان يقرأها فلما انتهى إلى قوله ان الذين تولوا منكم يوم التقى الجمعان قال لما كان يوم أحد هزمناهم ففررت حتى صعدت الجبل ،،، الخ
الدر المنثور – جلال الدين السيوطي – ج ٢ – الصفحة ٨٨
.
علامه سیوطي نے اپنی اس کتاب کے خطبه میں لکها هے کہ
الحمد لله الذي أحيا بمن شاء مآثر الآثار بعد الدثور ووفق لتفسير كتابه العزيز بما وصل إلينا بالاسناد العالي من الخبر المأثور ،،، الخ
المختصر میں نے اپنی تفسیر میں وہی روایات نقل کی هیں جو عالی الاسناد هیں ۔۔
الدر المنثور – جلال الدين السيوطي – ج ١ – الصفحة ٢
.
اس کے علاوہ امام فخر الدین رازي نے بهی اپنی تفسیر میں لکها هے کہ :
ومن المنهزمین عمر، الا أنه لم یکن فی أوائل المنهزمین ولم یبعد، بل ثبت على الجبل إلى ،،، الخ
مفهوم : احد کی جنگ میں بهاگنے والوں میں عمر ابن خطاب بهی تهے مگر وہ ابتداء میں نهیں بهاگے تهے اور دور نهیں گئے بلکہ فرار هو کر پہاڑی پر رکے رهے ،،، الخ
تفسیر الکبیر – الفخر الرازي ، ج ٩ ، ص ٥٢
.
// جنگِ خیبر //
یہ وہ جنگ هے جو ٣٩ دن تک جاری رہی چالیسویں دن رسول الله ﷺوآله نے امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ میں علم تهما کر بهیجا اور امیرالمومنین ؑ کامیاب ہو کر واپس پلٹے المختصر اس جنگ میں بهی جو کردار عمر ابن خطاب کا رہا هے وہ کسی سے چهپا نهیں هے روایات میں ملتا هے کہ حضرت جب واپس فرار هو کر آئے تو رسول الله ﷺوآله سے کہا کہ لشکر نے ساتھ نہ دیا اور لشکر نے کہا کہ ہمارا سردار ہی نہ رُکے ملاحظہ فرمائیں :
.
* (أخبرنا) أبو العباس محمد بن أحمد المحبوبي بمرو ثنا سعيد بن مسعود ثنا عبد الله بن موسى ثنا نعيم بن حكيم عن أبي موسى الحنفي عن علي رضي الله عنه قال سار النبي صلى الله عليه وآله إلى خيبر فلما اتاها (بعث عمر رضى الله تعالى عنه وبعث معه الناس إلى مدينتهم أو قصرهم فقاتلوهم فلم يلبثوا ان هزموا عمر وأصحابه فجاؤوا يجبنونه ويجبنهم فسار النبي صلى الله عليه وآله الحديث * هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه *
.
مفهوم : نبی کریم ﷺوآله نے خیبر میں عمر کو ان کی طرف بهیجا لیکن کچھ نہ هو سکا پھر جنگ میں یوں فرار هوئے کہ ان کے سپاہی ان کو بزدل گردانتے اور یہ اپنے سپاہیوں کو کوستے ۔۔۔ الخ
المستدرك – الحاكم النيسابوري – ج ٣ – الصفحة ٣٧
.
اسی طرح اور بهی مثالیں دی جا سکتی هیں تو قارئین جو شخص غزوات میں مسلمانوں کے دلوں سے ک ف ا ر کا خوف ختم نهیں کر سکا الٹا لشکر نے رسول الله ﷺوآله کے سامنے انهیں بزدل تک کہہ دیا تو اس شخص کے اسلام قبول کرنے سے کیسے مسلمانوں کے دلوں سے خوف ختم هوا یہ سرا سر گهڑی هوئی روایات هیں جن کا نہ سر ہے نہ پیر هے ۔۔۔
.
اب ہم آخر میں مزید صلح حدیبیه سے قبل ایک نظارہ قارئین کو دیکهاتے هیں ۔۔
.
مورخین نے لکها کہ حدیبیہ کے مقام پر رسول الله ﷺوآله نے عمر بن خطاب سے فرمایا :
تمهیں مکہ جانا چاہیئے تاکہ انهیں سمجهاؤ کہ هم جنگ کے ارادے سے نهیں آئے بلکہ عمرہ کرنے آئے هیں ۔۔
تو حضرت نے فرمایا :
.
يا رسول الله، إني أخاف قريشا على نفسي، وليس بمكة من بنى عدى ابن كعب أحد يمنعني، وقد عرفت قريش عداوتي إياها، وغلظتي عليها،
یا رسول الله ﷺوآله مجھ کو قریش سے 👈 اپنی جان کا خوف هے 👉 کیونکہ وہ میری عداوت کے حال سے واقف هیں کہ میں جس قدر ان پر سختی کرتا هوں اور میری قوم بنی عدی میں سے کوئی بهی وہاں نهیں جو مجهے بچا لے ۔۔۔
.
السيرة النبوية – ابن هشام الحميري – ج ٣ – الصفحة ٧٨٠
تاريخ الطبري – الطبري – ج ٢ – الصفحة ٢٧٨
السيرة الحلبية – الحلبي – ج ٢ – الصفحة ٧٠٠
الثقات – ابن حبان – ج ١ – الصفحة ٢٩٨
البداية والنهاية – ابن كثير – ج ٤ – الصفحة ١٩١
مسند احمد – الإمام احمد بن حنبل – ج ٤ – الصفحة ٣٢٤
لیجیئے قارئین جنکے اپنے اندر سے خوف ختم نهیں هوا ان کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں سے خاک خوف ختم هوا هوگا ۔۔
قارئین ان روایات پر جتنا بهی کلام کیا جائے اتنا ہی ان روایات کا منگهڑت و جعلی هونا ثابت هوتا جائے گا ۔۔۔