[١/٨٨٤] الخصال: عن الهمداني عن علي عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبدالله ﷺ قال: كان اصحاب رسول اللہ ﷺ اثني عشر ألفاً، ثمانية الآف من المدينة وألفان من أهل مكة والفان من الطلقاء لم يرفيهم قدري ولا مرجئي ولا حروري.ولا معتزلي ولا صاحب رأي كانوا يبكون الليل والنهار ويقولون اقبض ارواحنا من قبل ان نأكل خبز الخمير.
امام صادق ع نے فرمایا: رسول خدا کے اصحاب بارہ ہزار مرد تھے جن میں سے آٹھ ہزار مدینہ کے تھے، دو ہزار مکہ کے اور دو ہزار طالقاء کے کہ نہ ان میں کوئی قدری تھا ،نہ ہی کوئی مر//جی ، نہ خار////////جی ، نہ معتزلی اور نہ ہی کوئی صاحب قیاس،بلکہ وہ رات اور دن میں گریہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ قبل اس ہے ہم خمیری روٹی کھائیں ہماری روحیں قبض کر لے ۔
.
[٢/٨٨٥] فروع الكافي: عن علي عن أبيه ومحمد بن يحيى عن أحمد بن محمد جميعاً عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي قال: سألت أبا عبدالله ال عن الخيط الأبيض من الخيط الأسود؟ فقال: بياض النهار من سواد الليل، قال: وكان بلال يؤذن للنبي ﷺ وابن أم مكتوم وكان اعمي يؤذن بليل ويؤذن بلال حـيـن يطلع الفجر فقال النبي ﷺ: اذا سمعتهم صوت بلال فدعوا الطعام والشراب فقد اصبحتم.
امام جعفر ع نے فرمایا کہ رسول ص کے دو مؤذن تھے بلال رض ابن ام مکتوم رض ، یہ نابینا تھے اور رات میں اذان دیتے تھے اور بلال رض صبح نمودار ہونے پر ، رسول ص نے فرمایا کہ جب بلال رض کی اذان سنو تو کھانا پینا چھوڑ دو (کیون کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ) کیوں کہ صبح ہوجاتی ہے ۔
.
[٣/٨٨٦] خصال الصدوق: عن أبيه عن سعد عـن اليقطيني عـن الجـعفـري عـن الرضا عن آبائه ان رسول اللہ ﷺ کان یحب اربع قبائل كان يحب الأنصار و عـبد القيس واسلم وبني تميم وكان يبغض بني امية وبني حنيف وثقيف وبني هذيل، وكان يقول: لم تلدني امي بكرية ولا ثقفية وكان يقول فـي كـل حـي نـجيب الا فـي بني امية.
امام الرضا ع اپنے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ص چار قبائل کو دوست رکھتے تھے۔(۱)انصار (۲) عبد القیس (۳) اسلم (۴) بنوتمیم اور بنوامیہ حنیف ،ثقیف اور بنو ہذیل کو دش//////منی رکھتے تھے۔ آپ ص نے فرمایا کہ میری والدہ بنو بکر اور ثقیف سے نہیں تھیں ۔ بنوامیہ کے علاوہ قبیلہ میں شریف لوگ موجود ہیں ۔
.
[۸۸۷/٥] روضة الكافي: عن محمد بن يحيى عن احمد بن محمد بن عيسى عن سليمان الجعفري قال: سمعت أبا الحسـن يـقـول فـي قـول الله تبارك وتعالى: إذ يبيتون ما لا يرضى من القول، قال: يعني فلانا وفلانا وابا عبيدة بن الجراح.
امام الرضا ع نے اللہ کے اس ارشاد (یہ لوگ لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے اور اللہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ لوگ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں میں رات کو تدبیریں سوچتے ہیں اور اللہ ان کی تمام حرکات پر احاطہ رکھتا ہے) امام ع نے فرمایا کہ یہ فلاں و فلاں (حضرت ابوبکر و عمر ) اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔
.
[۷/۸۸۸] رجال الكشي: عن حمدويه بن نصير عن أبي الحسين بن نوح عن صفوان عن ابن بكير عن زرارة قال: سمعت أبا عبدالله ال يقول: ادرك سلمان العلم الاول والعلم الآخر وهو بحر لا ينزح وهو منا أهل البيت، فبلغ من علمه انه مر برجل في رهط فقال له: تب الى الله عزوجل من الذي عملت به في بطن بيتك البارحة.قال: ثم مضى، فقال له القوم لقد رماك سلمان بأمر فما دفعته عن نفسك، قال إنه أخبرني بأمر مـا اطـلـع عـليه إلا الله وأنا.
امام جعفر ع نے فرمایا کہ سلمان ع کو اول و آخر کا علم تھا۔ وہ (علم کا) سمندر تھا جو کبھی خشک نہیں ہو سکتا۔ وہ ہم اہلبیت میں سے تھا ۔
.
[۸/۸۸۹] الكافي: عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد بن عيسى عن ابن محبوب عن هشام بن سالم عن أبي بصير قال: سمعت أباجعفر يقول: كان على عهد رسـولاللہ ﷺ مؤمن فقیر شديد الحاجة من أهل الصـفـه وكـان مـلازما لرسـول اللـه عـنـد مواقيت الصلاة كلها لا يفقده في شيء منها وكان رسول اللہ ﷺ يرق له وينظر الى حاجته وغربته………الخ.
امام باقر ع نے فرمایا کہ رسول ص کے زمانے میں ایک مومن(صحابی) غریب آدمی تھا جو تمام نمازوں کے اوقات میں رسول ص کے قریب رہتا تھا اور کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑتا تھا ۔ آپ ص کو اس سے بہت ہمدردی تھی اور اپ ص نے اس سے کہا اے سعد !اگر میرے پاس کوئی مال آئے گا تو میں تمہیں خود کفیل بناؤں گا ۔ آپ ص کو اس طرح کا کوئی موقع نہ ملا تو آپ ص اداس ہوگئے ، اللہ نے جبرائیل ع کو آپ ص کے پاس بھیجا اور جبرائیل ع نے آپ ص سے کہا اللہ جانتا ہے کہ آپ اس شخص کی وجہ سے اداس ہیں۔ کیا آپ اس کو مال دار بنانا چاہتے ہیں ؟ آپ ص نے فرمایا ہاں ، تو جبرائیل ع نے آپ ص کو دو درہم دیے اور کہا کہ کہ یہ اس صحابی کو دے دیں اور اس سے کہیں کہ ان سے کاروبار کرے ۔ آپ ص نے مسجد میں اس صحابی کو ڈھونڈا ، وہ آپ ص کے لئے نماز کا انتظار کر رہا تھا ۔ آپ ص نے اس سے کہا کیا تمہیں تجارت آتی ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس کی تجارت کروں۔ آپ ص نے اسے دو درہم دیے اور کہا کہ ان سے تجارت کرو ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق کی تلاش میں نکلو۔ مجھے آپ کی حالت کی فکر تھی، سعد نے جو ایک درہم میں خریدا وہ دو درہم میں بیچا اور جو دو درہم میں خریدا وہ چار درہم میں بیچا اور دنیاوی چیزیں اس کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ اس کے اثاثے بڑھتے گئے اور اس کا کاروبار بڑا ہو گیا۔ مسجد کے دروازے پر اسے ایک جگہ ملی جہاں بیٹھ کر وہ تجارت کرتے تھے۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو آپ ص نماز کے لیے نکلے، لیکن سعد رضی اللہ عنہ بغیر وضو کے اور بغیر تیاری کے دنیاوی کاموں میں مصروف تھے۔ جیسا کہ اس نے تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے کیا تھا۔ حضور نبی اکرم ص نے پوچھا اے سعد، دنیا کی چیزوں نے آپ کو نماز سے دور رکھا ہے، اس نے کہا: میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں اپنے اثاثے ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اس آدمی سے اجرت لینا ہے اور اس آدمی کو مجھے ادا کرنا ہے۔‘‘ امام نے کہا رسول اللہ ﷺ سعد کے بارے میں اس کی غربت سے زیادہ غمگین ہونے لگے۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے محمد ص اللہ تعالیٰ نے سعد کے بارے میں آپ کے جذبات کو دیکھا ہے۔ اس کی حالتوں میں سے تمہیں کون پسند ہے: یہ حالت یا اس سے پہلے کی حالت؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جبرائیل! جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: دنیا کی محبت اور اس کا سرمایہ آزمائش ہے اور آخرت سے منحرف ہو جاتی ہے۔ آپ کو سعد سے اپنے دو درہم واپس کرنے کے لیے کہنا چاہیے جو آپ نے انھیں دیا تھا۔ اس کی حالت اس طرح بدل جائے گی جو اس سے پہلے تھی، امام نے کہا: اے اللہ کے رسول ص سعد کے پاس سے گزرے۔ اور پوچھا کہ کیا تم وہ دو درہم واپس نہیں کرنا چاہتے جو میں نے تمہیں دیے تھے؟سعد نے جواب دیا: ہاں، میں دو سو درہم دے سکتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں صرف دو درہم چاہتا ہوں ۔ سعد نے دو درہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے۔ امام ع نے فرمایا کہ دنیا کی چیزیں سعد سے ہٹ گئیں یہاں تک کہ جو کچھ اس نے جمع کیا تھا وہ ختم ہو گیا اور وہ اس حالت پر واپس آ گیا جس سے پہلے تھا۔
.
[٩/٨٩۰] أصول الكافي: عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد ابن عيسى عن ابن محبوب عن مالك بن عطية عن ضريس الكناسي عـن أبـي جـعـفـر قـال: مـر رسـول اللہ ﷺ برجل يغرس غرساً في حائط له فوقف له فقال: ألا أدلك على غرس أثبت أصـلاً وأسرع ايناعاً وأطيب ثمراً وأبقى؟ قال: بلى فدلني يا رسول اللہ ﷺ فقال: اذا أصبحت و أمسيت فقل سبحان الله والحمدلله ولا اله إلا الله والله اكبر فان لك ان قلته بكل تسبيحة عشر شجرات في الجنة من انواع الفاكهة وهن من الباقيات الصالحات، قال: فقال الرجل:فاني اشهدك يا رسول الله إن حائطي هذه صـدقة مقبوضة على فقراء المسلمين أه أهـل الصدقه، فأنزل الله عزوجل آیا (آیات خ) من القرآن: فأما من أعطى واثق * وصدقبالحسنى * فسنيسره لليسرى.
امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ایک شخص کی طرف سے گذرے جو اپنے باغ میں درخت لگا رہا تھا کھڑے ہو گئے اور اس سے فرمایا کیا میں تجھے ایک ایسا درخت بتاؤ جس کی جڑ مضبوط ہو جلدی سے پھل لے آئے اس کا ثمر خوش ذایقہ اور دیر پا ہوں اس نے کہا یا رسول (ص) اللہ ضرور بتلائیں فرمایا صبح و شام کہا کرو سبحان اللہ و الحمد للہ لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اگر تو ایسا کہے گا تو ہر صبح کے بدلے تجھے جنت میں ایسے درخت ملیں گے جن کے پھل مختلف ذائقوں کو ہوں اور وہ تیرے لئے باقیات الصالحات سے ہوں گے امام نے فرمایا اس شخص نے کہا یا رسول (ص) اللہ میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ میرا باغ آج سے صدقہ مقبوضہ ہے فطرہ مسلمان پر جو مستحق صدقہ ہوں خدا نے یہ آیت نازل کی جس نے راہ خدا میں دیا اس نے تقویٰ اختیار کیا اور اچھا صدقہ دیا جلدی اس کو مستطیع بنادیں گے ۔
.
[۱۱/۸۹۲] معانی الاخبار: عن ابن المتوكل عن الحميري عن ابن عيسى عن ابـن محبوب عن الثمالي قال: سمعت أباجعفر يقول: قال رسول اللہ ﷺ ومعاوية يكتب بين يديه وأهوى بيده الى خاصرته بالسيف: من ادرك يوماً أميراً فليبقر خاصرته بالسيف فرآه رجل ممن سمع من رسول اللہ ﷺ يوماً وهو يخطب بالشام على الناس فـاخـترط سيفه ثم مشى اليه فحال الناس بينه وبينه، فقالوا یا عبدالله مالك فقال: سمعت رسول اللہ ﷺ يقول من أدرك هذا يوماً أميراً فليبقر خاصرته بالسيف، قال فـقالوا أتـدري مـن استعمله؟ قال: لا. قالوا: امير المؤمنين عمر، فقال الرجـل: سمع (سمعا) وطـاعة لأميرالمؤمنين.
امام باقر ع نے فرمایا کہ رسول ص نے کہا جبکہ معاویہ آپ کے پاس تحریر میں مشغول تھا اور آپ نے اپنے دست مبارک کو تلو/////ار کے ساتھ لمبا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جوشخص اس کو کسی دن (مسلمانوں کا امیر پائے تو اسے چاہیے کہ اس کے پہلو کو تلو//////ار سے شگا/////فتہ کر دے۔ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے رسول اللہ سے یہ سنا تھا ایک شخص نے معاویہ کو شام میں لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تو اپنی تلو////ار کو برہنہ کیا اور معاویہ کی طرف چل پڑا تو لوگ اس کے اور معاویہ کے درمیان حائل ہو گئے اور اس کو کہنے لگے: اے اللہ کے بندے! تجھے کیا ہوا ہے؟
اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جوشخص اس(معاویہ) کو کسی دن مسلمانوں کا امیر بنے ہوۓ پاۓ تو تلو/////ار سے اس کے پہلو کو شگا///////فتہ کردے۔کسی نے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ کس نے اس کو اس کام کے لیے عامل بنایا ہے؟ اس شخص نے کہا: نہیں، لوگوں نے کہا:امیر المومنین عمر بن خطاب نے،اس شخص نے کہا:اگر ایساہی ہے تو میں نے سنا اور میں نے امیرالمومنین عمر حق میں اطاعت کی ۔
.
[۱۲/۸۹۳] اصول الكافي: عن علي عن أبيه عن ابن محبوب :الخثعمي عن أبي عبدالله ﷺ قال: إن أباذر أتى رسول اللہ ﷺ ومعه جبرئيل في صورة دحية الكلبي وقد استخلاه رسول اللہ ﷺ فلما رأهما انصرف عنهما ولم يقطع كلامهما فقال جبرئيل: يا محمد هذا أبوذر قد مر بنا ولم يسلم علينا أما لو سلم لرددنـا عـلـيـه يـا محمد ان له دعاء يدعو به معروفا عند أهل السماء فاسأله اذا عرجت الى السماء.
فرمایا حضرت ابو عبد اللہ (ع) نے کہ ابوذر ایک روز رسول خدا (ص) کے پاس آئے تو دیکھا کہ وحیہ کلبی کی صورت میں جبرئیل حضرت کے پاس ہیں اور آنحضرت (ع) ان سے خلوت میں باتیں کر رہے ہیں یہ دیکھ کر وہ لوٹ گئے اور ان دونوں کا قطع کلام نہ چاہا۔ جبرئیل نے کہا کہ ابوذر تم نے ہم پر سلام کیوں نہ کیا تھا جب تم ادہر سے گزرے تھے انھوں نے کہا میں نے گمان کیا کہ جو آپ کے پاس بیٹھے ہیں وہ وحیہ کلبی ہیں آپ ان سے کسی معاملہ میں خفیہ بات چیت کر رہے ہیں فرمایا ابوذر و جبرئیل تھے انھوں نے کہا اگر ابوذر سلام کرتے تو ہم جواب سلام دیتے یہ سن کر ابوذر سلام نہ کرنے پر شرمندہ ہوئے۔ حضرت نے فرمایا وہ دعا کیا ہے جو تم کیا کرتے ہوجبرئیل نے خبر دی ہے کہ جو دعا تم کرتے ہو وہ اہل آسمان میں مشہور ہو گئی ہے انھوں نے کہا یا رسول اللہ (ص) میں یہ دعا کرتا ہوں۔یا اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں امن و ایمان اور تیرے نبی کی تصدیق کا اور تمام بلاؤں سے عافیت کی اور ان بلاؤں پر شکر کا اور شریر لوگوں سے الگ رہنے کی۔
.
[۱۳/۰] روضة الكافي: عن حميد بن زياد عن الحسن بن محمد بن سماعة عـن محمد بن ايوب وعن علي عن أبيه جميعا عن البزنطي عن ابان ابن عثمان عن أبي بصير عن أبي عبدالله ﷺ قال: اتي ابوذر رسول اللہ ﷺ فقال يا رسـول الله انـي قـدا جـتويت المدينة أفتاذن لي أن أخرج أنا وابن أخي الى مزينة فنكون بها؟ فقال: إني أخشي أن تغير عليك خيل من العرب فيقتل ابن اخيك فتاتيني شعثاً، فتقوم بين يدي متكئاً على عصاك فتقول قتل ابن أخي وأخذ السـرح فـقـال: يـا رسـول الله بـل لا يكون إلا خيراً ان شاءالله، فاذن له رسول اللہ ﷺ فخرج هو وابن أخيه وامراته..
.
امام جعفر ع نے فرمایا ابوذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ کو ناپسند کرنے لگا ہوں۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیں گے کہ میں اور میرے بھائی کا بیٹا مزینہ کی طرف نکلیں، کیونکہ ہم وہاں سے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ تم پر عرب کے گھڑ سوار حملہ کر دیں تو وہ تمہارے بھائی کے بیٹے کو ک////تل کر دیں گے اور تم مارے پیٹتے ہوئے میرے پاس آؤ گے اور اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے میرے سامنے کھڑے ہو جاؤ گے۔ تم کہو گے کہ میرے بھائی کا بیٹا ما////را گیا اور مویشی لے گئے۔ آپ رض نے عرض کیا یا رسول اللہ (عزوجل) لیکن کچھ نہیں ہوگا سوائے خیر کے، ان شاء اللہ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ وہ اور ان کے بھائی کا بیٹا اور ان کی بیوی باہر نکلے۔ لیکن جلد ہی قبیلہ فزارت کے گھڑ سواروں نے، جن میں عیینہ بن حسن بھی تھا، ان پر حم///لہ کر دیا، مویشی لے گئے، ان کے بھائی کے بیٹے کو ک//////تل کر دیا، اور ان کی بیوی کو لے لیا جو کہ قبیلہ کی تھی۔ اور ابوذر (رض) سخت مشکل میں آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکے، بری طرح زخمی ہوئے اور اپنی عصا پر ٹیک لگائے اور کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح تھے۔ مویشی لے گئے اور میرے بھائی کا بیٹا ما///را جا رہا ہے اور میں اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رہا ہوں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے درمیان پکارا۔ چنانچہ وہ تلاش میں نکلے، اور مویشی لوٹا دیے، اور مشرق/////کوں کی ایک تعداد کو ما/////ر ڈالا۔
.
رجال کشی :حمدويه، عن يعقوب بن يزيد، عن ابن أبي عمير، عن الحسين بن عثمان، عن ذريح قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: كان علي بن الحسين عليهما السلام يقول: إني أكره للرجل أن يعافى في الدنيا و لا يصيبه شيء من المصائب، ثم ذكر أن أبا سعيد الخدري كان مستقيما نزع ثلاثة أيام فغسله أهله ثم حمل إلى مصلاه فمات فيه
.
ذریح کا بیان ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادقؑ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام علی بن الحسینؑ کہا کرتے تھے : میں ناپسند کرتا ہوں کسی کے لئے بھی کہ وہ اس دنیا میں عافیت میں ہو اور مصائب سے محفوظ رہے۔ پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابو سعید الخدریؓ صاحب استقامت تھے۔ وہ تین دن کے لئے بیمار ہوگئے۔ انکے خاندان والوں نے انکو غسل دیا اور پھر انکو جائے نماز پر رکھ دیا اور وہ وہیں فوت ہوگئے۔ (ابو سعید ع امامت علی کی طرف لوٹ آئے تھے ).
.
کتاب سلیم :علی بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَلَمْ يُكَذَّبْ
.
امام باقر ع نے فرمایا کہ جابر بن عبداللہ رضہ اللہ عنہ نے مجھے رسول ص کی احادیث سنائی اور جابر ع رسول ص پر جھوٹ نہیں باندھتے تھے ۔
.
الکافی : حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (عَلَيْهِما الْسَّلام) قَالَ لَمَّا مَاتَتْ رُقَيَّةُ ابْنَةُ رَسُولِ الله (صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ رَسُولُ الله (صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) الْحَقِي بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَأَصْحَابِهِ
.
امام باقر ع نے فرمایا کہ جب رقیہ بنت رسول ع کا انتقال ہوا تو رسول اللہ نے دعا کی یا اللہ اس کو ہمارے نیک لوگوں سے ملادے عثمان بن معظون اور اس کے اصحاب کے ساتھ اور فاطمہ علیہا السلام رورہی تھیں اور رسول اللہ قبر پر کپڑا ڈالے ہوئے فرما رہے تھے۔ یا اللہ میں اس کی کمزوریوں کو جانتا ہوں اس کو فشار قبر سے پناہ دے
.
رجال کشی : حمدويه و إبراهيم ابنا نصير، عن أيوب، عن صفوان، عن معاوية بن عمار و غير واحد، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: كان عمار بن ياسر و محمد بن أبي بكر لا يرضيان أن يعصي الله عز و جل۔
.
امام جعفر ع نے فرمایا کہ عمار بن یاسر ع اور محمد بن ابی بکر ع اس بات کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اللہ کی نافرمانی کی جائے۔
.
فروع الکافی: علی بن محمد عن محمد بن عیسی عن یونس عن معاویہ بن وھب عن ابی عبداللہ ع قال:
.
(اس حدیث کے ضمن میں جس میں عربی کا رسول ص کو گھوڑا بیچنے اور پھر انکار کرنے کا ذکر ہے ) روایت ہے کہ خزیمہ ع آگے بڑھے اور لوگوں کو اپنے ہاتھ سے ہٹایا تو رسول ص نے فرمایا کہ اے خزیمہ ع تیری گواہی دو مردوں کے برابر ہے ۔
.
رجال کشی :محمد بن قولويه و الحسين بن الحسن بن بندار القميان، عن سعد بن عبد الله بن أبي خلف القمي، عن الحسن بن موسى الخشاب و محمد بن عيسى بن عبيد، عن علي بن أسباط، عن عبد الله بن سنان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: … محمد بن أبي بكر رحمة الله عليه أتته النجابة من قبل أمه أسماء بنت عميس۔
.
امام جعفر ع نے فرمایا کہ اللہ محمد بن ابی بکر ع پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ ان کی نجات ان کی والدہ اسماء بنت امیہ کی(تربیت کی) وجہ سے تھی۔
.
الخصال : حدثنا أبي رضي الله عنه قال: حدثنا سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد ابن عيسى، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر البزنطي، عن عاصم بن حميد، عن أبي بصير، عن أبي جعفر عليه السلام قال: سمعته يقول: رحم الله الأخوات من أهل الجنة فسماهن: أسماء بنت عميس الخثعمية وكانت تحت جعفر بن أبي طالب عليه السلام، وسلمى بنت عميس الخثعمية وكانت تحت حمزة، وخمس من بني هلال: ميمونة بنت الحارث كانت تحت النبي صلى الله عليه وآله، وأم الفضل عند العباس اسمها هند، والغميصاء أم خالد بن الوليد، وعزة كانت في ثقيف الحجاج بن غلاظ، وحميدة ولم يكن له۔
.
امام باقر ع نے فرمایا کہ خدا جنت کی بہنوں پر رحمت نازل کرے اور پھر آپ نے ان کے نام لیے: اسماء بنت عمیس خثعمیہ ؛ ان کا نکاح حضرت جعفر ابن ابی طالب سے ہوا تھا ، سلمی بن عمیس خثعمیہ ان کا نکاح حضر حمزہ سے ہوا تھا اور دیگر پانچ خواتین بنی بلال کی ہیں، میمونہ بنت حارث ان کا نکاح نبی سے ہوا تھا ، ام الفضل؛ ان کا نکاح جناب عباس رسول خدا کے چچا سے ہوا تھا اوران کا نام ہند تھا، غمیصا ام خالد بن الوليد ، عزوہ جوقبیلہ ثقیف سے تھیں اور حجاج ابن غلاظ کے نکاح میں تھیں ،اور حمیدہ کہ
.
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔
معجم احادیث معتبرہ بسند صحیح :
.
امام باقر ع فرماتے ہیں کہ امام حسن ع نے حضرت اسامہ بن زید ع کو سرخ یمنی سرخ یمنی چادر میں کفن دیا ۔
.
رجال کشی : ، عن محمد بن الحسن، عن محمد بن الحسن الصفار، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن عبد الرحمن بن أبي نجران، عن صفوان بن مهران الجمال، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: علي ابن أبي طالب ثم سكت، ثم قال: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال علي بن أبي طالب ثم سكت، ثم قال: إن الله أمرني بحب أربعة، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: علي بن أبي طالب، والمقداد بن أسود، وأبو ذر الغفاري، وسلمان الفارسي
.
امام جعفر ع سے روایت ہے کہ رسول ص نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔ پھر آپ ص خاموش رہے ۔ آپ ص نے پھر کہا: اللہ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون ہیں؟ آپ ص نے جواب دیا: علی بن ابی طالب، مقداد بن اسود، ابوذر غفاری، سلمان فارسی۔
.
رجال کشی : أبو عبد الله محمد بن إبراهيم، قال حدثني علي بن محمد بن يزيد القمي، قال حدثني عبد الله بن محمد بن عيسى، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال كان بلال عبدا صالحا
.
امام جعفر ع نے فرمایا کہ بلال رض نیک صحابی/آدمی تھے ۔
.
[١٥/٨٩٥] العيون: بالاسانيد الثلاثة عن الرضا عن آبائه قال: قال رسول اللہ ﷺ ان الله أمرني بحت اربعة: علي وسلمان وأبي ذر والمقداد بن الأسود.
تین اسانید سے امام الرضا ع سے مروی ہے کہ رسول ص نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے 4 لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا
علی بن ابی طالب ع , سلمان ، مقداد ، ابوذر . علیہم السلام ۔
.
[١٤/٨٩٤] امالي الصدوق: عن أبيه وابن الوليد وابن مسرور جميعاً عن ابن عامر عن عمه عن ابن أبي عمير عن مرازم بن حكيم عن أبي بصير، قال: قال ابو عبداللہ ﷺ لرجـل من أصحابه: ألا أخبرك كيف كان – سبب اسلام سلمان وأبي ذر رحمة الله عليهما؟ فقال الرجل وأخطأ اما اسلام سلمان فقد علمت فأخبرني كيف كان سبب اسلام أبي ذر؟ فقال أبو عبدالله الصادق اليا: إن أباذر (رحمة الله عليه). كان في بطن مر يرعى غنماً له اذ جـاء ذئب عن يمين غنمه فهش أبوذر بعصاه عليه، فجاء الذئب عن يسار غنمه فهش أبـوذر………..الخ.
.
امام صادق نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا کیا میں تجھے ابوذر و سلمان کے اسلام لانے کا سب بتاؤں اس شخص نے کہا میں سلمان کے اسلام لانے کے سبب سے تو آگاہ ہوں آپ مجھے ابوذر کے اسلام لانے کی وجہ بتائیں ۔امام صادق نے فرمایا کہ ابوذر مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ایک مقام ابو بطن مرکہ میں اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے ایک مرتبہ اچانک ایک بھیڑیا یا دائیں طرف سے نمودار ہوا اور ان کی بکریوں پر جھپٹا ابوذر نے اپنے عصاء کی مدد سے اسے بھگا دیا پھر وہ بائیں طرف سے ریوڑ پر حملہ آور ہوا ابوذر نے اپنا عصا اسے مارا اور کہا بخدا میں نے تجھ سے زیادہ خب//////////یث کوئی بھیڑیا نہیں دیکھا تو وہ بھیڑیا با اعجازت آنخضرت گویا ہوا (بولا )اور کہا واللہ اہل مکہ مجھ سے بدتر ہیں خداوند عالم نے ان کی طرف ایک پیغمبر بھیجا اور وہ اسے دروغ سے نسبت دیتے ہیں یہ بات ابوذر کے دل میں اثر کر گئی وہ گھر واپس آۓ اوراپنی ہمیشرہ سے کہا کہ مجھے کچھ کھانا ، ایک لوٹا اور عصالا دو ، یہ چیز میں لے کر وہ پیدل مکہ کی جانب روانہ ہو گئے اور مکہ جا پہنچے وہاں دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت براجمان ہے وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور سنا کہ وہ لوگ جناب رسول خدا کو برا کہہ رہے ہیں ابوذر نے دل میں سوچا کہ جیسا بھیڑیے نے کہا تھا خدا کی قسم ویسے ہی حالات ہیں اور یہ لوگ اسی روش پر ہیں پھر جب دن کا اختتام ہونے لگا تو ابو طالب تشریف لاۓ وہ لوگ جناب ابوطالب کو دیکھ کر کہنے لگے کہ خاموش ہو جاؤ ان کے چچا آگئے ہیں، جب وہ ان کے قریب آگئے تو ان لوگوں نے جناب ابو طالب کی تعظیم کی ، جناب ابو طالب نہایت بےمثال خطیب تھے پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ منتشر ہو گئے اور جناب ابو طالب بھی رخصت ہونے لگے تو ابوذر بھی ان کے ہمراہ ہو لیے انہوں نے ابوذر سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں مجھ سے کوئی حاجت
یا کوئی کام ہے جو پیچھے پیچھے آر ہے ہو ابوذر نے عرض کیا کہ میں اس پیغمبر سے ملاقات کرنا چاہتا
ہوں جو آپ کے درمیان مبعوث ہوا ہے تا کہ ان پر ایمان لاؤں اور ان کی تصدیق کروں اور جس بات کا وہ حکم دے میں اس پر عمل کروں ۔ جناب ابوطالب نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور کیا اس اقرار کے بعد اس پر کار بند بھی رہوگے ابوذر نے عرض کیا جی ہاں پھر کہا’’اشهدان لااله الا الله واشهد ان محمد رسـول اللـه ‘‘ جناب ابوطالب نے فرمایا تم کل اسی وقت اس جگہ میرے پاس آجانا ابوذر دوسرے روز بھی وہیں اس مقام پر انہیں لوگوں کی جماعت میں آکر بیٹھ گئے وہ لوگ اس دن بھی حسب سابق جناب رسول خدا کی برائیاں کر رہے تھے مگر جناب ابوطالب کو دیکھا تو وہ لوگ خاموش ہو گئے جناب ابو طالب ان لوگوں کے درمیان ایک امتیازی مقام رکھتے تھے پھر کافی دیر کے بعد جب وہ لوگ منتشر ہونے لگے اور جناب ابوطالب نے دریافت کیا کہ کیا تمہاری کوئی حاجت ہے تو ابوذر نے روز سابق کی طرح اپنا مدعا بیان کیا جناب ابوطالب نے گذشتہ دن کی طرح پھر کہا کیا تم اسکی رسالت کا اقرار کرتے ہوتو ابوذر نے کہا اشهـدان لااله الا الله واشهد ان محمد رسول الله ‘‘جناب ابوطالب نے فرمایا درست ہے میں بھی اسی کا اقرار کرتا ہوں ۔ پھر وہ ابوذر کو لے کر ایک گھر میں گئے جس میں جناب جعفر بن ابی طالب موجود تھے ابوذر نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اورفرمایا کیا کوئی کام ہے ابوذر نے کہا جو پیغمبر تمہارے درمیان معبوث ہوا ہے میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں جناب جعفر نے کہا ان سے کیا کام ہے ابو ذر نے کہا میں ان پر ایمان لانا چاہتا ہوں ان کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں اور ان کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتا ہوں ، یہ سن کر جناب جعفر نے انہیں شہادتین کی تلقین کی ابوذر نے شہادت دی پھر انہیں ایک اور گھر میں لے جایا گیا جہاں جناب حمزہ بن عبدالمطلب تھے انہوں نے بھی ابوذر سے شہادتین کا اقرار لیا اور پھر انہیں لے کر جناب علی بن ابی طالب کے پاس آگئے ابوذر نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور پھر مدعا معلوم کر کے اسی طرح شہادتین کا اقرار لیا اور پھر انہیں لے کر جناب رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو گئے جناب رسول خدا ص کی ہستی
نور پر نور تھی ابوذر سے جناب رسول خدا نے شہادتین کا اقرارلیا اورفرمایا میں رسول خدا ہوں ،اے
ابوذر تم اپنے وطن واپس جاؤ وہاں تمہارے چچا کا بیٹا انتقال کر گیا ہے اسکے مال کے تم ہی وارث
ہو اسکا مال حاصل کرو اور وہیں رہو اور جب تک میں اعلان نبوت نہ کر دوں تم وہیں رہنا ابوذر واپس
چلے گئے اور جیسا جناب رسول خدا نے ارشادفرمایا تھا ویسے ہی ان کے چچا کے بیٹے کا وہاں انتقال
ہو گیا تھا اور ابوذر ان کے وارث مظہر ائے گئے تھے جناب ابوذر کے ہاتھ ان کا مال کثیر آیا وہ اس وقت تک وہیں رہے اور پھر جب اعلان نبوت ہوا تو ابوذر جناب رسول خدا کے پاس تشریف لے آۓ۔



















