امام علی نے شیخین کی حکومت میں انکے خلاف خروج کیوں نہیں کیا ؟

جب بھی امام علیؑ کی خلافت کی بات آتی ہے تو اکثر اہل سنت یہ اعتراض کرتے ہے کہ اگر امام علیؑ کے نزدیک شیخین نے انکی خلافت غصب کی ہوتی تو ان پر لازم تھا کہ وہ الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر کرتے لیکن انکے دور میں ہمیں ایسا کوئی نص نہیں ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام علی ابن ابی طالبؑ نے انکے خلاف خروج کیا ہو :
.
اسکا جواب اہل سنت کے عالم ابن تیمیہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے اس طرح بیان کیا ہے :
.
وفي الفاعل الواحد والطائفة الواحدة يؤمر بمعروفها وينهى عن منكرها ويحمد محمودها ويذم مذمومها، بحيث لا يتضمن الأمر بمعروف فوات أكثر منه أو حصول منكر فوقه ولا يتضمن النهي عن المنكر حصول أنكر منه أو فوات معروف أرجح منه.
وإذا اشتبه الأمر استبان المؤمن حتى يتبين له الحق، فلا يقدم على الطاعة إلا بعلم ونية، وإذا تركها كان عاصيا فترك الأمر الواجب معصية، وفعل ما نهي عنه من الأمر معصية. وهذا باب واسع ولا حول ولا قوة إلا بالله.
ومن هذا الباب إقرار النبي ﷺ لعبد الله بن أبي وأمثاله من أئمة النفاق والفجور لما لهم من أعوان فإزالة منكره بنوع من عقابه مستلزمة إزالة معروف أكثر من ذلك بغضب قومه وحميتهم، وبنفور الناس إذا سمعوا أن محمدا يقتل أصحابه،…..
.
اور اگر یہ (برا ) کام ایک فرد یا ایک جماعت سر انجام دے تو انکو نیکی کا حکم دیا جائے گا اور ان کی برائی سے منع کیا جائے گا اور اچھے کام کو اچھا اور برے کام کا برا کہا جائے گا اس انداز سے کہ اچھائی کے حکم میں کسی بڑی اچھائی کا ضیاع نہ ہو یا اس سے بڑھ کر کسی برائی میں مبتلا نہ ہوں۔ اسی طرح برائی سے منع کرنے سے یہ خیال رہے کہ اس سے زیادہ برائی میں مبتلا نہ ہوں یا راجح اچھائی کے ضائع ہونے کا شائبہ نہ ہو۔
اور جب کسی معاملے میں شبہ پیدا ہوجائے تو غور کیا جائے تاکہ حق واضح شکل میں ظاہر ہوجائے اور کسی اطاعت والے کام کو علم و نیت کے بغیر نہ کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو گناہ گار ہوگا کیونکہ واجب کو چھوڈنا گناہ ہے اور ایسے حکم کو بجا لانا گناہ ہے جس سے منع کیا گیا ہو اور یہ ایک وسیع باب ہے۔ جس کی طاقت اللہ رب العالمین کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔
اس باب میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس جیسے دوسرے منافقوں اور فساق کے سرداروں کو چھوڈ دیا اس لئے کہ ان کے ساتھ انکے پیروکار بھی تھے۔ ان کے اندر برائی ختم کرنے کے لئے انکی قوم کے خلاف لڑائی کرنے کے مترادف تھا جسکی وجہ سے ایک بڑی اچھائی کا ازالہ لازم ہے۔ جس میں لوگ نفرت کی وجہ سے یہ کہتے کہ یہ کیسا نبی ہے جو اپنے صحابہ کو قتل کراتا ہے…..
.
⛔مجموع الفتاویٰ – ابن تیمیہ // جلد ۱۴ // صفحہ ۷۶ // طبع دار ابن حزم ریاض سعودیہ۔
ابن تیمیہ کے اس رسالے کا اردو ترجمہ ہوا ہے جسکو آپ وہاں بھی پڑھ سکھتے ہو۔
⛔اچھائئ کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا – ابن تیمیہ (ترجمہ رانا خالد مدنی) // صفحہ ۴۲، ۴۳ // طبع ادارہ اشاعت اسلام لاہور پاکستان۔
لہذا امام علی ابن ابی طالبؑ نے سنت نبی ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے اسلامی کی سلامتی کے لئے انکے خلاف خروج نہیں کیا کیونکہ اس وقت کچھ شہروں کے علاوہ باقی تمام عرب اسلام سے پھیر گئے تھے اور اس وقت پر خروج کرنے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور ایک برائی کو ختم کرنے کی صورت میں ایک عظیم اچھائی ضائع ہوتی۔
.
مولا امیر علیہ سلام نے تحکیم کے وقت بھی یہی فرمایا تھا۔۔۔