علاماتِ ظہور امام مہدی عج (کتب شیعہ)
*سید خراسانی کا خروج اور ملتان تک وسیع حکومت*
.

احادیث میں إمام مھدی ع کے chapters میں آج کے دور سے متعلق ہر طرح سے predictions موجود ہیں جس میں جنابِ رسول خدا اور آئمه اطهار ع نے قیامت تک رونما ہونے والے حالات و واقعات بیان کئے۔ انہی علائم میں سے کچھ کو ہم زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ جن میں ایک سید خراسانی کی شخصیت اور اس کا خروج و قیام ہے۔ روایات کے مطابق سید خراسانی کا خروج امام مھدی ع کے ظہور سے پہلے ہو گا اور یہ مختلف ممالک میں اپنے حمایتی افراد پیدا کرتا جائے گا ، ظالموں کو شکست دیتا جائے گا ، طاقت حاصل کرتا جائے گا اور امام مہدی ع کے لئے راہ ہموار کرتا جائے گا نیز یہ بھی بیان ہوا ہے کہ سید خراسانی سے پہلے ایک اور ایرانی سید ایران کے اندر اسلامی حکومت قائم کرے گا لہذٰا سید خراسانی کے خروج سے پہلے ضروری ہے کہ ایران میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو جو کہ سید خراسانی کے خروج سے پہلے ایک powerful argument کی حیثیت رکھے جو روایات میں بیان ہوا ہے۔ ایران میں یہ اسلامی حکومت امام خمینی رح کا انقلاب تھا جس کی prediction پہ متعدد احادیث موجود ہیں جو کہ سید خراسانی کے قیام کے لئے ایک first step کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر سید خراسانی مختلف ممالک میں اپنی حکومت کو وسعت دے کر اپنے حمایت یافتہ افراد پیدا کرے گا یہ اسلحہ اور نظریات دونوں کے تحت ہو گا یعنی مختلف dimensions ہوں گی حتٰی کہ احادیث کے مطابق ملتان تک اس کی حکومت قائم ہو گی جیسا کہ شیخ یعقوب الکلینی رح کے شاگرد ابن ابی زینب النعمانی رح (المتوفی 360ھ) نے اپنی کتاب الغيبة للنعماني میں اور علامہ باقر مجلسي رح (المتوفی 1111ھ) نے اپنی کتاب بحار الأنوار میں روایت کو نقل کیا ہے جس میں ملتان تک سید خراسانی کی حکومت کا ذکر ہے ملاحظہ فرمائیں:

ترجمة: “امام جعفر الصادق ع سے روایت ہے انہوں نے اپنے والد سے سنا اور اپنے جد امیرالمؤمنین ع نے کچھ ایسی باتیں بیان کیں جو ان کے بعد سے لے کر قیامت قائم ہونے تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں۔ اس پر امام حسین ع نے دریافت کیا۔ اے امیرالمؤمنین! اللہ تعالٰی کب اس زمین کو ظالموں سے پاک کرے گا؟ آپ ع نے فرمایا: اس وقت تک یہ زمین پاک نہیں ہو گی جب تک محترم خون نہ بہا دیا جائے پھر آپ ع نے بنی امیہ اور بنی عباس کا تفصیل سے ذکر فرمایا۔ *اس کے بعد فرمایا جب ایک خراسان سے قیام کرنے والا قیام کرے اور کوفہ و ملتان پر غلبہ حاصل کر لے اور جزیرہ کاوان سے گزر جائے۔”*
*[الغيبة للنعماني ، الصفحة 283 // بحار الأنوار مجلسي ، (ط – بيروت) ، ج 52 ، ص: 235]*
روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سید خراسانی اپنی سلطنت کو وسعت دے گا اب یہ کس طرح ہو گا فی الحال یہ اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے جس طرح انقلاب سے لے کر آج کے دور تک ایران کھل کر مظلومین جہاں کی حمایت کر رہا ہے حق واضح ہوتا جا رہا ہے اور نام نہاد عرب مسلمانوں کی منافقت و خیانت کا پردہ چاک ہوتا جا رہا ہے اور مختلف ممالک عراق ، یمن ، شام ، لبنان ، فلسطین وغیرہ انقلاب اسلامی کے حمایتی بنتے جا رہے ہیں۔ اب تو اس کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جا رہا ہے حتیٰ کہ پوری دنیا سے لوگ اس کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی شک نہیں یہ انقلاب مزید استحکام کی طرف جا رہا ہے اور نام نہاد کلمہ گو مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ لشکر سفیانی جنم دے رہا ہے جس کا روایات میں ذکر ہے کہ لشکر سفیانی شام و عراق اور مختلف علاقوں میں قتل و غارت کرے گا پھر ایرانی اس کو شکست دیں گے جیسا کہ روایت میں ہے:

ترجمة:”امام محمد باقر ع سے روایت ہے خراسان جو سیاہ جھنڈے اٹھیں گے وہ کوفہ کی طرف آئیں گے (وہاں پہ مقیم ہوں گے) جب امام مھدی ع ظہور فرمائیں گے تو یہ بیعت کے لئے وفد آپ ع کی طرف روانہ کریں گے۔”
*[الغيبة للشيخ الطوسي ، الصفحة 488 // الملاحم و الفتن سید ابن طاؤس ، الصفحة 33 // بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج52، ص: 217]*
لہذٰا سید خراسانی کا خروج علائم حتمیہ میں سے ہے اگرچہ حتمی علامات کے different figures روایات میں موجود ہیں لیکن پانچ مشہور حتمی علامات ہیں جن میں:
(1) خروج سفیانی
(2) خروج خراسانی و یمانی
(3) آسمانی نداء
(4) نفس زکیہ کا قتل
(5) مقام بیداء میں زمین کا دھنسنا
جیسا کہ الغيبة للنعماني اور بحار الأنوار کی ایک روایت میں موجود ہے:

ترجمة:”امام جعفر الصادق ع سے روایت ہے کہ اس أمر سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گی ، ان میں پہلی ماہ رمضان میں ایک نداء کا سنائی دینا ، خروج سفیانی و خروج خراسانی ہوگا و نفس زکیہ کا قتل ہو گا اور بیداء میں زمین دھنس جائے گی۔”
*[الغيبة للنعماني ، باب: 16 ، الصفحة 301 // بحار الأنوار (ط – بيروت) ، ج 52 ، ح 48 ، ص: 119]*
پس سید خراسانی کا خروج حتمی ہے اور اس کے ہاتھوں ظالموں و جابروں کا برا انجام بھی حتمی ہے اسی لئے اس کی حرکت اور خروج کی آئمہ معصومین ع نے بشارت دی ہے جیسا کہ امام باقر ع کی روایت ہے:

ترجمة:”معروف کا بیان ہے کہ میں جب بھی امام محمد باقر ع کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ع کو یہی فرماتے ہوئے سنا: خراسان خراسان ، سجستان سجستان ، گویا آپ ع اس کی بشارت دیا کرتے تھے۔”
*[الغيبة للنعماني الصفحة 282 // بحار الأنوار مجلسي ، (ط – بيروت) ، ج 52 ، ص : 244]*
[نوٹ: ہم جتنے بھی نکات پیش کرتے ہیں وہ روایات کا خلاصہ ہوتا ہے جن میں اکثر روایات ہم نقل کئے بغیر فائل میں موجود سکین میں پیش کر دیتے ہیں لہذٰا وہاں سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔]
.
*سید خراسانی کے دائیں ہاتھ میں نشانی ہو گی؟*
سید خراسانی کی شخصیت کے متعلق روایات میں متعدد علامات بیان ہوئی ہیں۔ جن میں ان کا ہاشمی ہونا ، حسنی یا حسینی سید ہونا ، نورانی چہرہ ہونا اور ان کے دائیں ہاتھ میں نشانی ہونا۔ اب یہاں پہ دائیں ہاتھ کی نشانی کیا ہو گی اور کس نوعیت کی ہو گی؟ ایک روایت جسے نعیم بن حماد (المتوفی 228ھ) نے اپنی کتاب الفتن میں اور سید ابن طاؤس نے اپنی کتاب الملاحم و الفتن میں نقل کیا ہے:
*عن أبي جعفر ع قال: يخرج شاب من بني هاشم بكفه اليمنى خال ، من خراسان برايات سود ، بين يديه شعيب بن صالح، يقاتل أصحاب السفياني ، فيهزمهم.*
اس پہ ہم چند نکات پیش کرتے ہیں:




(1) ایرانی انقلاب
(2) سید خراسانی کا قیام
(3) شعیب بن صالح کا قیام
پہلا مرحلہ امام خمینی رح کے قیام سے پورا ہو چکا ہے۔ اب دوسرا مرحلہ سید خراسانی کا ہے اگر رہبر معظم سید خراسانی ہیں تو پھر تیسرا مرحلہ شعیب بن صالح (تہرانی) کا باقی ہے جو اس عالمی جنگ میں سید خراسانی کا کمانڈر ہو گا جس (جنگ) میں ایران داخل ہو چکا ہو گا اگر رہبر معظم سید خراسانی نہیں ہیں تو دو پھر دو مراحل باقی ہیں۔ پس ابھی احتمالات ہی دیئے جا سکتے ہیں۔ رہی ہاتھ کی نشانی والی بات تو اگر اس سے مراد ہاتھ میں تل ہے تو رہبر کے ہاتھ میں متعدد نشان نظر آتے ہیں اگر ہاتھ میں کوئی اور علامت ہے تو وہ بھی رہبر کے ہاتھ میں ہے جو ان کا ہاتھ دھماکے میں زخمی ہو گیا تھا اور ابھی تک واضح نشانی موجود ہے۔
نتیجہ: پس خال کا ظاہری مطلب تل کی نشانی ہی ہے لیکن اگر اس کو symbolic language کے طور پر دیکھیں گے تو پھر وہی معنی مراد لینے ہوں گے جو اوپر بیان کئے پس ہم احتمال دے سکتے ہیں لیکن مکمل تطبیق نہیں کر سکتے۔
.
*سید یمانی کا خروج اور یمنی انقلاب*
.
امام مھدی ع کے ظہور سے قبل ایک یمنی سید کا قیام و خروج حتمی نشانیوں میں سے ایک ہے جس میں یمن میں اسلامی انقلاب کا برپا ہونا اور وہاں ایک سید کا طاقت حاصل کرنا ہے۔ روایات کے مطابق جس طرح سید خراسانی کے قیام سے پہلے تمہیدی طور ایرانی انقلاب ضروری ہے اسی طرح خروج یمانی کے متعلق بھی ہے کہ اس سے پہلے ایک اور یمنی اس کے لئے تمہیدی طور پر راہ ہموار کرے گا پھر اس سید یمانی کا خروج ہو گا۔ لہذٰا سید خراسانی ، شعیب بن صالح (تہرانی) اور سید یمانی کے خروج کا پہلا مرحلہ ایرانی انقلاب تھا جو پورا ہو چکا ہے اب اگلا مرحلہ ان شخصیات کے قیام کا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا تھا روایات میں چند علامتیں مشترک بیان ہوئی ہیں جن میں:
(1) خروج سفیانی
(2) خروج یمانی و خراسانی
(3) ندائے آسمانی
(4) نفس زکیہ کا قتل
(5) مقام بیداء میں زمین کا دھنس جانا
علامہ مجلسي رح اپنی کتاب بحار الأنوار میں شیخ صدوق کی کتاب اکمال الدین سے روایت نقل کرتے ہیں:

ترجمة:”امام صادق ع نے فرمایا: القائم ع کے قیام سے قبل پانچ علامتیں حتمی طور پر ظاہر ہوں گی۔ خروج یمانی ، خروج سفیانی ، ندائے آسمانی ، نفس زکیہ کا قتل اور مقام بیداء میں زمین کا دھنسنا۔”
*[بحار الأنوار مجلسي (ط – بيروت) ، ج 52 ، ص: 204]*
[روایات میں بعض مشترک علامات ہیں جن میں کہیں پہ یمانی کا ذکر ہے تو کہیں پہ مختلف طرح سے خراسانی کا اور کہیں پہ دونوں کا ساتھ موجود ہے لہذٰا یہ دونوں ایک ہی پوائنٹ میں شامل علائم حتمیہ میں سے ہیں۔]

متعدد احادیث کے مطابق سید خراسانی ، سید یمانی اور سفیانی کا خروج ایک ہی سال ، ایک ہی مہینہ میں اور ایک ہی دن میں ہو گا جس سے واضح ہوتا ہے ان تینوں کا زمانہ ایک ہی ہے جس میں ان کی جنگیں ہوں گی۔

ترجمة:”امام جعفر الصادق ع نے فرمایا: خراسانی ، سفیانی اور یمانی کا خروج ایک ہی سال ، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن میں ہو گا۔ ان میں یمانی کا جھنڈا ہدایت کا پرچم ہو گا وہ حق کی طرف ہدایت کرے گا۔”
*[بحار الأنوار مجلسي (ط – بيروت) ، ج 52 ، الصفحة 210]*
ایک اور روایت جس میں سید یمانی کے پرچم کی خاصیت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یہ پرچم ہدایت کا پرچم ہو گا اور لوگوں کے لئے اس میں شامل ہونا واجب ہے کیونکہ یہ پرچم بھی خراسانی کے پرچم کی طرح امام مھدی ع کا پرچم ہی ہو گا اور اسی مقصد کی طرف دعوت دے گا۔ ملاحظہ فرمائیں ایک روایت جو حضرت ابوبصیر سے مروی ہے کہ امام جعفر الصادق ع نے فرمایا:

ترجمة:” سفیانی ، یمانی اور خراسانی کے خروج کا سال ، مہینہ اور دن ایک ہو گا وہ ریڑھ کے مہروں کی مانند منظم ہو کر پے در پے آئیں گے ان میں سے ہر ایک کی جنگی صورت دوسرے سے مختلف ہو گی اس کے لئے ہلاکت ہو کہ جو ان کے مقابلے میں آئے۔ ان میں یمانی کا پرچم ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو گا (گویا) وہ ہدایت کا پرچم ہو گا وہ لوگوں کو تمہارے إمام کی طرف بلائے گا۔ جس وقت یمانی خروج کریں گے تو تمام لوگوں پر حتیٰ کہ مسلمانوں پر بھی اسلحہ کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دیں گے لہذٰا جب وہ خروج کریں تو اس لشکر میں شامل ہو جانا بلاشبہ اس کا پرچم ہدایت کا پرچم ہے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اس کے لشکر میں شامل ہونے سے گریز کرے جو بھی ایسا کرے گا وہ جہنمی ہے کیونکہ وہ صرف حق اور صراط مستقیم کی طرف ہی دعوت دیں گے۔”
*[الغيبة للنعماني ، الصفحة 264 // بحار الأنوار مجلسي (ط – بيروت) ، ج 52 ، ص: 232]*
اب اس روایت میں اور دیگر روایات میں سید یمانی کے پرچم کو سب سے زیادہ ہدایت والا پرچم قرار دیا گیا ہے اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں:


اسی لئے سید خراسانی کے پاس زیادہ اتھارٹی ہے جبکہ سید یمانی اس وقت کی اپنی طاقتور تحریک کے ساتھ قیام کرے گا جس کو ایرانیوں کی بھی سپورٹ حاصل ہو گی اور یہ درحقیقت اسی ہدف کو لے کر حرکت میں آئے گا جو ہدف ایرانیوں کا تھا اور لوگوں کو حق کی طرف دعوت دیتا جائے گا اور مضبوط ترین ہوتا جائے گا اور پاور حاصل کرنے کے بعد پھر خراسانی و یمانی مل کر سفیانی اور عالمی طاقتوں کا مقابلہ کریں گے۔

.
*لشکر سفیانی کا خروج اور فتنہ و فساد برپا ہونا*
امام مھدی ع کے ظہور سے قبل دو طرح کی علامات ظاہر ہونی ہیں جن میں ایک غیر حتمی علامات ہیں جو کہ جنرل علامات کی کیٹیگری میں آتی ہیں جبکہ دوسری حتمی علامات ہیں جن کا وقوع پذیر ہونا لازم ہے یقینی و حتمی ہے یعنی یہ نشانیاں ہر صورت میں پوری ہوں گی۔ انہی میں سے ایک لشکر سفیانی کا خروج بھی ہے جو کہ حتمی ہے اور امام جعفر الصادق ع کا فرمان بھی ہے:

ترجمة:”امام جعفر الصادق ع نے فرمایا: سفیانی کا خروج بلاشبہ حتمی أمر ہے اور اس کا خروج ماہ رجب میں ہو گا۔”
*[بحار الأنوار مجلسي (ط – بيروت)، ج 52 ، ص: 204]*
__________________________________

سفیانی کے متعلق روایات میں تفصیل بیان ہوئی ہے کہ اس کا تعلق خاندانِ بنی امیہ سے ہو گا جو شام میں قیام کرے گا اور پھر لوگوں کا قتل عام کرے گا۔ اصل میں سفیانی ایک character کا نام ہے جس کا مقصد خدا کی راہ میں قدم اٹھانے والوں کے راستے میں رکاوٹ بننا ہے۔ اور لشکر سفیانی کلمہ گو مسلمانوں کا لشکر ہو گا جو نام نہاد مسلمان ہوں گے لیکن ان کا کردار یہودیوں جیسا ہو گا اس کے لشکر میں یہود و روم بھی ہوں گے کیونکہ یہ لشکر خراسانی و یمانی کا مقابلہ کرنے کے لئے یہودیوں اور روم سے گٹھ جوڑ کرے گا یعنی درحقیقت یہ دجالی لشکر کا حصہ بنے گا کیونکہ یہ ان کے مقصد کے لئے کام کرے گا۔ روایات کے مطابق سفیانی شام میں خروج کرے گا بعض میں اردن اور شام کا سرحدی علاقہ ملتا ہے اور یہ شام اور اردن پہ غلبہ حاصل کرے گا۔ اس کے خروج سے قبل شام میں لوگوں کا آپس میں شدید اختلاف ہو گا جیسا کہ امیرالمؤمنین ع کی روایت ہے:

ترجمة:”امام محمد باقر ع سے روایت ہے کہ جب امیرالمؤمنین ع سے اس فرمان الٰہی کی تفسیر معلوم کی گئی تو آپ ع نے فرمایا: تین نشانیوں کے پورا ہونے تک امام مھدی ع کے ظہور کا انتظار کرو۔ پوچھا گیا وہ نشانیاں کون سی ہیں؟ تو آپ ع نے فرمایا:
(1) اہل شام کا آپس میں اختلاف
(2) خراسان سے سیاہ جھنڈوں کا بلند ہونا
(3) ماہ رمضان میں خوف کی نشانی کا ظاہر ہونا
*[الغيبة للنعماني الصفحة 260 // بحار الأنوار مجلسي ، ج 52 ، الصفحة 229]*
___________________________________

روایات کے مطابق سفیانی کے خروج سے قبل مغربی افواج شام میں ہوں گی جن کے اپنے اپنے مقاصد ہوں گے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پھر ان کے درمیان سرزمین شام پر جنگیں ہوں گی جن میں دو گروہ آپس میں لڑیں گے پھر سفیانی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں کو شکست دے کر شام میں غلبہ حاصل کر لے گا بعض روایات کے مطابق یہ روس سے بھی جنگ کرے گا۔ پھر ان جنگوں کی وجہ سے جو مغربی افواج کی مداخلت کی وجہ سے ہوں گی شام کی معیشت بری طرح damage ہو چکی ہو گی اور قحط کا سماں ہو گا جیسا کہ امام باقر ع کی روایت سے اس کا استدلال ہوتا ہے:

ترجمة:”جابر بن جعفی سے روایت ہے کہ میں نے امام محمد باقر ع سے اللہ تعالٰی کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا: و لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ ، تو آپ ع نے فرمایا ایک بھوک عام ہے اور ایک بھوک (قحط) خاص ہے بہرحال وہ خاص بھوک کوفہ میں ہو گی اور یہ بھوک اللہ تعالٰی آل محمد کے دشمنوں پہ ڈالے گا جس سے وہ ہلاک ہو جائیں گے۔ لیکن عام بھوک شام میں ہو گی ان کو ایسی بھوک و قحط کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی مثال نہ ملے گی۔ بہرحال بھوک و قحط قائم ع کے ظھور سے پہلے ہو گی اور خوف و ڈر قائم ع کے ظھور کے بعد ہو گا۔”
*[بحار الأنوار مجلسي ، ج 52 ، الصفحة 229]*
___________________________________

شام میں غلبہ حاصل کرنے کے بعد سفیانی خراسانی کی طرف پیش قدمی کرے گا اور عراق پہ چڑھائی کرے گا جہاں ساٹھ ہزار لوگوں کا قتل عام کرے گا اور پھر لشکر خراسانی جن کے ساتھ لشکر یمانی بھی ہو گا یعنی ایرانی و یمنی عراق آ کر سفیانی کی فوج کو شکست دیں گے (عراق میں بھی سفیانی کے خلاف مزاحمتی گروہ ہوں گے) پھر یہ وہاں سے فرار ہو گا اس کی فوج بکھر چکی ہو گی اب کچھ روایات میں ہے کہ وہ پھر مسلح ہو کر فلسطین کی طرف پیش قدمی کرے گا جہاں اس کو شکست سے دو چار ہونا پڑے گا پھر امام مھدی ع سے جنگ کے لئے سفیانی مکہ و مدینہ کا رخ کرے گا جہاں (خسف البیداء) مکہ و مدینہ کے درمیان سرزمین میں شگاف ہو گا جس میں یہ اور اس کا لشکر دھنس جائے گا۔

جب ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ وہ سفیانی جو آخر میں خروج کرے گا اس سے پہلے بھی سفیانی ہوں گے جو اس کی راہ ہموار کریں گے یعنی اس کی تحریک کی بنیاد رکھیں گے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے واضح کیا کہ سفیانی لشکر میں یہودی بھی ہوں گے جو خراسانی اور یمانی کے مقابل سفیانی کا ساتھ دیں گے۔ آج اگر ہم حالات دیکھیں تو بلاشبہ سفیانی کی تحریک شروع ہے اس کا character واضح ہے ، آج عرب ممالک کی حالت ہمارے سامنے ہے سعودی عرب ، اردن ، امارات ، قطر وغیرہ حتیٰ کہ ترکی جو ڈراموں اور موویز سے لوگوں کے زہن خراب کر رہا ہے اور بڑا ہیرو بنتا ہے ان سب کی منافقت اور یہود نوازی اور یہودیوں سے ان کی دوستی سب واضح ہے جو فلسطین ، ایران اور یمن کے مقابل یہودیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں یہی تو نشانیاں ہیں جو تیزی سے تکمیل کی طرف جا رہی ہیں بس امام مھدی ع کے ظہور کا انتظار ہے ورنہ لشکر خراسانی بھی واضح ہے یمانی بھی اور سفیانی بھی۔ اور ان سب کی آپسی جنگیں بھی واضح ہیں۔ پس لوگ صحیح راستے کا انتخاب کریں کہیں ان نام نہاد مسلمانوں کی بدولت ہم یہودیوں کے ساتھ تو نہیں ٹھہرے۔ پس قوی و معتبر احتمال ہے کہ تینوں لشکر بن چکے ہیں بس ان کے آخری مراحل پورے ہونے ہیں۔
.
*دجال کا خروج اور اس کا فتنہ*
دجال کا فتنہ اور دجالی گروہ کا خروج حتمی نشانیوں میں سے ہے جس کے متعلق روایات میں تفصیل بیان ہوئی ہے۔ احادیث کے میں ہے کہ: *”حضرت آدم ع کی پیدائش سے لے کر روز آخر تک دجال سے بڑا فتنہ کوئی نہ ہو گا۔”* ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ہر امت میں دجال کا تصور موجود رہا ہے۔ دجال کے متعلق شیعه منابع میں کم روایات ہیں تقریباً 8 یا 10 تک ہیں جبکہ أھل سنت منابع میں بہت زیادہ روایات ہیں۔ دجال کا مطلب وہ شخص ہے جو دوسروں کو دھوکہ و فریب دیتا ہے گمراہ کرتا ہے لہذٰا دجال ایک مکمل character کا نام ہے یعنی ایک ایسا گروہ اور ان کا لیڈر ہو گا جو لوگوں کو مختلف ذرائع سے فریب دے کر انہیں اپنے ساتھ ملائے گا یعنی لوگوں کی نظر میں وہ super power کی حیثیت رکھتا ہو گا۔ اب وہ ذرائع جن کے تحت یہ لوگوں کو فریب دے گا وہ مختلف ہوں گے۔ یعنی اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو گی ، جدید ترین ٹیکنالوجی ہو گی ، جدید ترین ویپنز ہوں گے وغیرہ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب امام مھدی ع ظہور فرمائیں گے تو پھر وہی پہلا تلواروں والا زمانہ ہو گا گھڑ سواری کا زمانہ ہو گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا زمانہ ہو گا اور امام مھدی ع کے پاس بھی جدید ترین ٹیکنالوجی ہو گی کیونکہ روایات کے مطابق ایرانی و یمانی یا جو دوسرے گروہ ہیں وہ اپنا سب کچھ ، ٹیکنالوجی ویپنز سمیت امام مھدی ع کے حوالے کریں گے یعنی یہ امام مھدی ع کے لئے قوت فراہم کریں گے۔ لہذٰا ضروری ہے کہ جو ملک امام مھدی ع کا ساتھ دے گا وہ خود مختار ہو وہاں شریعت اسلامی یعنی اسلامی حکومت کا نفاذ ہو وہ ملک IMF کا مقروض نہ ہو اور اسی خودمختاری کی حالت میں وہ ترقی کے منازل طے کرے پھر وہ اس قابل ہو کے یہود و نصارٰی کا مقابلہ کر سکے تب امام مھدی ع کا ظہور ہو گا۔ یہ بھی ذہن میں رہے جس طرح ہم امام مھدی ع کے ظہور کا انتظار اور ان کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں اسی طرح یہودی بھی دجال کے خروج کے انتظار میں ہیں اور اس کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں جس کو ہم Agents of Dajjal and Freemasonry کے ٹائٹل میں الگ سے بیان کریں گے۔
____________________________________

اس تحریر میں ہم طوالت کے خوف سے احادیث نقل نہیں کریں گے بلکہ احادیث کا خلاصہ اور نتیجہ مختلف نکات میں پیش کریں گے تا کہ بآسانی بات اور نتیجہ پہنچایا جا سکے۔ کمال الدین و تمام النعمہ میں امام علی عليه السلام کی ایک طویل روایت ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:
*”دجال کی ایک آنکھ ہو گی جو اس کی پیشانی پر ہو گی جو کہ ستارہ صبح کی طرح چمک رہی ہو گی اس پہ کافر لکھا ہو گا جس کو عالم و جاہل سب پڑھ لے گا اور اس کی جو سواری (خچر) ہے وہ سفید ہو گی اور اس کا ایک قدم ایک میل کے برابر ہو گا۔ وہ سمندروں میں گھس جائے گا اس کے ساتھ ساتھ سورج چلے گا۔ جب وہ خروج کرے گا تو شدید قحط ہو گا۔ (اپنے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرے گا)۔ اس کے بعد وہ خدائی دعویٰ کرے گا اور جب وہ اپنے ساتھیوں کو بلائے گا تو ساری دنیا میں اس کی آواز سنی جائے گی۔”*
آخرالزماں کے متعلق جو احادیث بیان ہوئی ہیں ان میں اکثر symbolic language استعمال ہوئی ہے۔ کیونکہ اس وقت اسی زمانے کے حساب سے جناب رسول خدا اور آئمه أھل بیت ع نے احوال بیان کئے لیکن ان میں بیشمار مطالب پنہاں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کے لحاظ سے آشکار ہوتے ہیں۔ اس روایت میں بھی ساری علامتی چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ جس کی وضاحت آیت اللہ العظمیٰ ناصر المکارم الشیرازی نے اپنے رسالہ “فلسفہء انتظار” میں انتہائی أحسن انداز میں بیان کی ہے۔ اس روایت کی تشریح کو ہم نکات میں پیش کر رہے ہیں۔





*[نوٹ: بعض محققین نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ دجال ابلیس ہی ہے کیونکہ ابلیس بھی ایک بری صفت کا نام ہے یہ دھوکہ و فریب دینے میں بروں میں سب کا استاد ہے حتیٰ کہ یہودیوں کا باقاعدہ ایک فرقہ ہے جو ابلیس کو اپنی مدد کے لئے پکارتے ہے اور پھر خدا نے بھی اپنی حجت تمام کرنی ہے لہذٰا ہو سکتا ہے ابلیس بذاتِ خود اپنے شیطان صفت لوگوں کو ساتھ ملا کر اپنی پوری قوت و طاقت سے امام مھدی ع کے مقابل میدان میں وارد ہو۔]*
_____________________________________

جس طرح امام مھدی ع کے انصار موجود ہیں اسی طرح دجال کے انصار بھی موجود ہیں۔ آخری زمانے کی جنگ سب سے بڑی جنگ ہو گی جس میں دو گروہ ہوں گے:


آج یہ سارے لشکر بن چکے ہیں بس امام مھدی ع کے ظہور کا انتظار ہے۔ پھر ان کی آپس میں سب سے بڑی جنگ ہو گی جس میں فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو گا ، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کا صفایا ہو گا اور امام مھدی ع فاتح ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے۔
خدا ہمیں بھی امام مہدی ع کے انصار میں شمار کرے اور ہم سب کو جلد وہ دن دکھائے آمین۔
.

































































*سید خراسانی در روایاتِ أھل سنت*
.
کتب اھل سنت اور شیعہ میں امام مھدی ع کے ظہور سے قبل مختلف لشکر کا ذکر موجود ہے جن میں مرکزی کردار ایک ایرانی لشکر کے سربراہ سید خراسانی کا ہے روایات کے مطابق امام مھدی ع کے لشکر کی کمانڈ انہی کے ہاتھ میں ہو گی باقی لشکر انہی کی حمایت میں ہوں گے جیسے سید یمانی کا لشکر اور شعیب بن صالح (تہرانی) سب انہی کے حمایت یافتہ ہوں گے باقی لوگ گروہ در گروہ ان میں شامل ہوتے جائیں گے نیز روایات میں سید یمانی کے پرچم کو ہدایت کا پرچم کہا گیا ہے کیونکہ یہ ظھور امام کے قریبی دور میں ہو گا اور یمن میں مثالی انقلاب برپا ہو گا پھر ایرانی اور یمنی کا گٹھ جوڑ ہو گا یہ مل کر لشکر سفیانی جو کہ ایک کلمہ گو نام نہاد مسلمانوں کا لشکر ہو گا اور دجالی لشکر کا حمایت یافتہ ہو گا ان کے ساتھ ان کی مختلف مقامات پہ لڑائیاں ہوں گی اور سید خراسانی کے کمانڈر شعیب بن صالح ان کے تعاقب میں نکلیں گے اور انہیں شکست دیتے ہوئے امام مھدی ع کی جا کر بیعت کریں گے اور پھر مزید معرکوں کا تسلسل ہو گا۔ مسند احمد ، جامع ترمذی ، البدایہ والنہایہ کی روایت کے مطابق لشکر خراسانی کو کوئی بھی نہیں روک پائے گا اور یہ فلسطین بیت المقدس میں اپنا پرچم نصب کریں گے۔
*[نوٹ: روایات میں خراسان کی بہت فضیلت و اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ہارون الرشید کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں امین اور مامون کے درمیان خلافت کے معاملے میں نزاع پیدا ہوا امین مارا گیا اور مامون نے بغداد کی بجائے خراسان کو مرکز بنایا۔ اب مامون کے لئے امام رضا علیہ السلام کا وجود سب سے بڑا خطرہ تھا اس نے امام ع کو مدینہ سے خراسان بلوایا یوں خراسان أھل بیت ع کے چاہنے والوں کا مرکز بنتا گیا اور نشیب و فراز کے باوجود آج بھی یہ تشیع کے ایک مرکزی علاقے کی حیثیت رکھتا ہے۔]*
______________________________________














