بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
توحید اہل سنت کی احادیث کی کتب سے
.
کتب اہل سنت میں اللّه تعالیٰ کے متعلق ایسی ایسی توہین آمیز روایات ملتی ہیں کہ پڑھے والا حیران رہ جائے
.
نظریہ تجسیم:
اللہ تعالیٰ کے جسم اور جسمانی ہونے کے سلسلے میں آپ درج ذیل مطالب کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں:
٭ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اپنا قدم جہنم میں ڈال دے گا۔ (صحیح بخاری ۲: ۳۳ طبع مصر ح ۴۴۷۲۔ صحیح مسلم ۱: ۱۷۲ طبع لکھنو۔)
سعودی عرب کے ایک سکول میں استاد نے شاگرد سے پوچھا: بِمَ تعرف ربک؟ یعنی تم اپنے رب کو کس چیز سے پہچانتے ہو ؟ شاگرد بولا: برجلہ المحروق یعنی اس کے جلے ہوئے پاؤں سے۔
٭ امام الحنابلہ ابن تیمیۃ کا کہنا ہے: خدا عرش سے آسمان دنیا پر اسی طرح اترتا ہے جس طرح ہم اترتے ہیں۔ پھر خود زینے سے اتر کر کہا: اس طرح!! (رحلۃ ابن بطوطۃ ۱: ۴۳ باب بعض المشاہد والمزارات (مکتبۃ الشاملۃ))
٭ خد اکی آنکھیں دکھنے لگیں تو ملائکہ نے اللہ کی عیادت کی۔ طوفان نوح پر خدا اس قدر رویا کہ آنکھیں سوجھ گئیں۔ عرش پر خدا بیٹھتا ہے تو اس کے بوجھ سے عرش چرچرا تا ہے اور عرش کے چاروں طر ف سے خدا کا جسم چار انگل باہر لٹکتا رہتا ہے۔ (منہاج السنۃ ۱: ۲۳۸ طبع مصر)
٭ اللہ کی داڑھی اور علامت مردو زن کے بارے میں نہ پوچھو۔ باقی جس عضو کے بارے میں جوچاہو پوچھو۔ (الشہرستانی: الملل و النحل ۱: ۴۸ طبع بمبئی)
٭ علمائے سلف ان لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اللہ کہاں ہے اور اللہ کے لیے جگہ کا تعین نہیں کرتے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ جو شخص یہ نہیں کہتا کہ اللہ زمین میں نہیں، آسمان میں ہے، وہ کافر ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم (ص) نے بارش کو اپنے جسم پر لینے کے لیے لباس ہٹا دیا تو سوال ہونے پر فرمایا: لانہ حدیث العہد بربہ ۔ یہ ابھی اپنے رب کے پاس سے آ رہی ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص ۲۰)
مولانا شبلی نعمانی ان نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عقائد میں جس طرح درجہ بدرجہ تغیر ہوتا جاتا ہے، اسے ہم ایک خاص مسئلے کی مثال میں پیش کرتے ہیں:
پہلا درجہ: خد اجسمانی ہے۔ عرش پر متمکن ہے۔اس کے ہاتھ منہ ہیں۔ خد انے آنحضرت (ص) کے دوش پر ہاتھ رکھ دیا تو آنحضرت کو (ص) ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔
دوسرا درجہ: خدا جسمانی ہے۔ اس کے ہاتھ، منہ اور پنڈلی ہیں۔ لیکن یہ سب چیزیں ایسی نہیں جیسی ہماری ہیں۔ (علم الکلام صفحہ ۱۵ طبع اعظم گڑھ)
اللہ کے جسم اور جسمانی ہونے پر علمائے سلف کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ فرمائیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے پر بہت سے دلائل قائم کیے گئے ہیں۔
۱۔ کتاب السنۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل امام الحنابلۃ۔ طبع دار ابن القیم السعودیۃ۔
۲۔ کتاب الابانۃ ۔ تالیف: ابو الحسن اشعری امام الاشاعرہ ۔ طبع حیدر آباد دکن۔
۳۔ الرد علی الجھمیۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل اامام الحنابلۃ۔ طبع دار الوعی حلب۔ شام۔
۴۔ خلق افعال العباد ۔ تالیف: محمد بن اسماعیل مؤلف صحیح بخاری۔
۵۔ کتاب العرش والعلو ۔ تالیف: الحافظ شمس الدین الذہبی، امام الحدیث۔،مطبع فاروقی دہلی۔ ہندوستان
۶۔ کتاب الرد علی الجہمیۃ ۔ تالیف: الامام عثمان بن سعید الدارمی طبع بریل لیدن۔
۷۔ کتاب التوحید ۔ تالیف: الامام ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ۔ طبع ریاض۔ سعودی عرب۔
۸۔ اجتماع الجیوش الاسلامیۃ ۔ تالیف:ابن قیم الجوزیہ۔ طبع مکتبہ ابن تیمیہ۔ قاہرہ۔ مصر۔
۹۔ الشریعۃ ۔ تالیف: ابوبکر محمد بن الحسین الاجری الشافعی۔ طبع دار السلام۔ ریاض۔ سعودی عرب۔
۱۰۔ السنۃ ۔ تالیف: احمد بن محمد الخلال البغدادی، شیخ الحنابلۃ۔ طبع دمشق۔ شام
۱۱۔ مناھج الدولۃ ۔ تالیف: الحکیم ابن رشد۔
ان کتابوں میں اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل موجود ہیں اور ان کے مؤلفین میں سے بعض ائمۂ مذاہب ہیں۔ بعض امام الحدیث ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی کتب اور بیسیوں روایات موجود ہیں۔ (ان کے علاوہ درج ذیل کتب بھی اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل سے پُر ہیں: ۱۔ ابو یعلی۔ نقص التاویلات ۲۔ ابو نصر۔ الابانۃ ۳۔عسال۔ السنۃ ۴۔ ابو بکر عاصم۔ السنۃ ۵۔ طبرانی السنۃ ۶۔حرب السیرجانی۔الجامع ۷۔حکم بن معبد خزاعی۔الصفات۔)
.
ہم یہاں چند انکی معتبر کتب کی چند روایات آپ کے سامنے رکھتے مختصر ترجمے کے ساتھ پیش کرتے ہیں
انشاء اللّه بعد میں اس موضوع پر مزید لکھا جائے گا
.
.
خدا ایک نوجوان کی صورت ہے
علامہ ذھبی کی بھی پڑھ لیجئے 👇🏼


« قتادہ کی صحیح روایت میں ہے کہ عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا، ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں نے اپنے خدا کو سبز باغ میں دیکھا، بغیر داڑھی والے (نوجوان) آدمی کی صورت میں جس کے لمبے گھنگھریالے بال تھے »
[بیان تلبیس الجہمیہ الجز سابع صفحہ 290]















أَتَدْرِي مَا اللَّهُ ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا، وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ، وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ
کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے ( آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا ) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے


جنت اور جہنم والے اعمال اللّہ تعالیٰ کرواتا ہے
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا(واذ اخذ ربک)۔۔۔۔
بے شک اللّہ تعالیٰ نے پیدا کیا آدمؑ کو پھر پھیرا انکی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ اور نکالی اولاد اور فرمایا یہ جنت کیلئے ہے اور یہ جنت کے کام ہی کرینگے پھر نکالی دوزخ والی اولاد اور کہا کہ یہ دوزخ والے کام ہی کرینگے
تب عرض کی ایک شخص نے یا رسول اللّہ ﷺ جب دوزخی اور جنتی وہیں سے مقرر ہوگئے تو عمل کی کیا حاجت ہے؟
فرمایا:
کہ اللّہ تعالٰی جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کیلئے تو اسے جنت والے کاموں میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے
اور جب کسی کو دوزخ کیلئے پیدا کرتا ہے تو دوزخ والے کاموں میں لگادیتا ہے یہاں تک کہ اسکا خاتمہ دوزخ والے کاموں پر ہوتا ہے پھر داخل کردیتا ہے اسے دوزخ میں۔۔۔الخ
📚مسند امام احمد بن حنبل جز اول
📚جامع ترمذی جلد دوم














اللّه مسکرائے گا
اللّه حیران ہوگا
اللّه نے آدم کو اپنی صورت میں پیدا کیا
اللّه کے 2 ہاتھ ہیں
اللّه کی پانچ انگلیاں ہیں
اللّه کے ہاتھ کی پانچ یا چھ انگلیاں ہیں
اللہ کے دو پاؤں ہیں اور ایک پاؤں جہنم میں ڈالے گا
اللّه کے 2 چہرے ہیں ، ایک صورت کے علاوہ دوسری صورت میں سامنے آئے گا
اللہ اپنی پنڈلی کھولے گا
اللّه آسمان پر اترتا چھڑتا ہے
اللّه کی آنکھیں اور کان ہیں
اللّه ایک آنکھ سے کانا نہیں ہے
لوگ اللّه کو چاند کی طرح دیکھیں گے
جس طرح چاند دیکھائی دیتا ہے۔ ویسے ہی اللہ دیکھائی دے گا۔



رسول اللّه ص نے اللّه کو دیکھا
اللّه کو دیکھا جائے گا یہ روایات صحیح ہیں
نیک و بد اللّه کو ظاہر میں دیکھے گے
منافق بھی اللّه کو ظاہر میں دیکھے گے
لوگ اللّه کو ظاہر میں دیکھیں گے
اہل سنت کو تو معلوم ہے کہ اللہ کہاں ہے لیکن اسكے عرش کو پکڑنے والے فرشتے کو معلوم ہی نہیں اللہ کہاں ہے
اہل سنت محدث ابویعلی موصلی (المتوفی ۳۰۷ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا إسحاق بن منصور ، حدثنا إسرائيل ، عن معاوية بن إسحاق ، عن سعيد المقبري ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « أذن لي أن أحدث عن ملك قد مرقت رجلاه الأرض السابعة ، والعرش على منكبه ، وهو يقول : سبحانك أين كنت ؟ وأين تكون !
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں ایک فرشتے کے بارے میں بتاؤں جسکی ٹانگیں ساتھوں زمینوں پر اور عرش اسکے کندوں پر اور وہ یوں کہتا ہے : پاک ہے تو (اللہ)۔ تم کہاں ہو اور تم کہاں ہونگے!
📚 مسند ابویعلی موصلی – ابویعلی موصلی // جلد ۵ // صفحہ ۵۰۳ – ۵۰۴ // رقم ۶۵۸۸ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
نور الدین ھیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) نے اس روایت کو نقل کرنے کے بود یوں لکھا :
اسکو ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح بخاری کے راوی ہے۔
📚 مجمع الزوائد – نور الدین ھیثمی // جلد ۸ // صفحہ ۱۷۳ // رقم ۱۳۳۸۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
عجیب صورتحال ہے کہ ہمارے سلفی برادران کو تو معلوم ہے کہ اللہ کا مکان کہاں ہے لیکن اس فرشتے کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اللہ کہاں ہے جو عرش کو تھامے ہوا ہے۔