توحید اہل سنت کی احادیث کی کتب سے

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

توحید اہل سنت کی احادیث کی کتب سے

.

کتب اہل سنت میں اللّه تعالیٰ کے متعلق ایسی ایسی توہین آمیز روایات ملتی ہیں کہ پڑھے والا حیران رہ جائے

.

نظریہ تجسیم:
اللہ تعالیٰ کے جسم اور جسمانی ہونے کے سلسلے میں آپ درج ذیل مطالب کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں:
٭ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اپنا قدم جہنم میں ڈال دے گا۔ (صحیح بخاری ۲: ۳۳ طبع مصر ح ۴۴۷۲۔ صحیح مسلم ۱: ۱۷۲ طبع لکھنو۔)
سعودی عرب کے ایک سکول میں استاد نے شاگرد سے پوچھا: بِمَ تعرف ربک؟ یعنی تم اپنے رب کو کس چیز سے پہچانتے ہو ؟ شاگرد بولا: برجلہ المحروق یعنی اس کے جلے ہوئے پاؤں سے۔
٭ امام الحنابلہ ابن تیمیۃ کا کہنا ہے: خدا عرش سے آسمان دنیا پر اسی طرح اترتا ہے جس طرح ہم اترتے ہیں۔ پھر خود زینے سے اتر کر کہا: اس طرح!! (رحلۃ ابن بطوطۃ ۱: ۴۳ باب بعض المشاہد والمزارات (مکتبۃ الشاملۃ))
٭ خد اکی آنکھیں دکھنے لگیں تو ملائکہ نے اللہ کی عیادت کی۔ طوفان نوح پر خدا اس قدر رویا کہ آنکھیں سوجھ گئیں۔ عرش پر خدا بیٹھتا ہے تو اس کے بوجھ سے عرش چرچرا تا ہے اور عرش کے چاروں طر ف سے خدا کا جسم چار انگل باہر لٹکتا رہتا ہے۔ (منہاج السنۃ ۱: ۲۳۸ طبع مصر)
٭ اللہ کی داڑھی اور علامت مردو زن کے بارے میں نہ پوچھو۔ باقی جس عضو کے بارے میں جوچاہو پوچھو۔ (الشہرستانی: الملل و النحل ۱: ۴۸ طبع بمبئی)
٭ علمائے سلف ان لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اللہ کہاں ہے اور اللہ کے لیے جگہ کا تعین نہیں کرتے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ جو شخص یہ نہیں کہتا کہ اللہ زمین میں نہیں، آسمان میں ہے، وہ کافر ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص۹۶)
٭ انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم (ص) نے بارش کو اپنے جسم پر لینے کے لیے لباس ہٹا دیا تو سوال ہونے پر فرمایا: لانہ حدیث العہد بربہ ۔ یہ ابھی اپنے رب کے پاس سے آ رہی ہے۔ (الدارمی الرد علی الجہمیۃ ص ۲۰)
مولانا شبلی نعمانی ان نظریات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عقائد میں جس طرح درجہ بدرجہ تغیر ہوتا جاتا ہے، اسے ہم ایک خاص مسئلے کی مثال میں پیش کرتے ہیں:
پہلا درجہ: خد اجسمانی ہے۔ عرش پر متمکن ہے۔اس کے ہاتھ منہ ہیں۔ خد انے آنحضرت (ص) کے دوش پر ہاتھ رکھ دیا تو آنحضرت کو (ص) ہاتھوں کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔
دوسرا درجہ: خدا جسمانی ہے۔ اس کے ہاتھ، منہ اور پنڈلی ہیں۔ لیکن یہ سب چیزیں ایسی نہیں جیسی ہماری ہیں۔ (علم الکلام صفحہ ۱۵ طبع اعظم گڑھ)
اللہ کے جسم اور جسمانی ہونے پر علمائے سلف کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ فرمائیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے پر بہت سے دلائل قائم کیے گئے ہیں۔
۱۔ کتاب السنۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل امام الحنابلۃ۔ طبع دار ابن القیم السعودیۃ۔
۲۔ کتاب الابانۃ ۔ تالیف: ابو الحسن اشعری امام الاشاعرہ ۔ طبع حیدر آباد دکن۔
۳۔ الرد علی الجھمیۃ ۔ تالیف: امام احمد بن حنبل اامام الحنابلۃ۔ طبع دار الوعی حلب۔ شام۔
۴۔ خلق افعال العباد ۔ تالیف: محمد بن اسماعیل مؤلف صحیح بخاری۔
۵۔ کتاب العرش والعلو ۔ تالیف: الحافظ شمس الدین الذہبی، امام الحدیث۔،مطبع فاروقی دہلی۔ ہندوستان
۶۔ کتاب الرد علی الجہمیۃ ۔ تالیف: الامام عثمان بن سعید الدارمی طبع بریل لیدن۔
۷۔ کتاب التوحید ۔ تالیف: الامام ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ۔ طبع ریاض۔ سعودی عرب۔
۸۔ اجتماع الجیوش الاسلامیۃ ۔ تالیف:ابن قیم الجوزیہ۔ طبع مکتبہ ابن تیمیہ۔ قاہرہ۔ مصر۔
۹۔ الشریعۃ ۔ تالیف: ابوبکر محمد بن الحسین الاجری الشافعی۔ طبع دار السلام۔ ریاض۔ سعودی عرب۔
۱۰۔ السنۃ ۔ تالیف: احمد بن محمد الخلال البغدادی، شیخ الحنابلۃ۔ طبع دمشق۔ شام
۱۱۔ مناھج الدولۃ ۔ تالیف: الحکیم ابن رشد۔
ان کتابوں میں اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل موجود ہیں اور ان کے مؤلفین میں سے بعض ائمۂ مذاہب ہیں۔ بعض امام الحدیث ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی کتب اور بیسیوں روایات موجود ہیں۔ (ان کے علاوہ درج ذیل کتب بھی اللہ کے جسمانی ہونے پر دلائل سے پُر ہیں: ۱۔ ابو یعلی۔ نقص التاویلات ۲۔ ابو نصر۔ الابانۃ ۳۔عسال۔ السنۃ ۴۔ ابو بکر عاصم۔ السنۃ ۵۔ طبرانی السنۃ ۶۔حرب السیرجانی۔الجامع ۷۔حکم بن معبد خزاعی۔الصفات۔)

.

ہم یہاں چند انکی معتبر کتب کی چند روایات آپ کے سامنے رکھتے مختصر ترجمے کے ساتھ پیش کرتے ہیں

انشاء اللّه بعد میں اس موضوع پر مزید لکھا جائے گا

.

.

خدا ایک نوجوان کی صورت ہے

علامہ ذھبی کی بھی پڑھ لیجئے 👇🏼

جب اللہ کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس سے چوں چوں کی آواز آتی ہے ۔
امام الموحدین ابن تیمیہ حرانی کا خدا کی توحید کے متعلق عقیدہ , لکھتے ہیں :
« كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله رأيت ربي في صورة أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء»

« قتادہ کی صحیح روایت میں ہے کہ عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا، ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میں نے اپنے خدا کو سبز باغ میں دیکھا، بغیر داڑھی والے (نوجوان) آدمی کی صورت میں جس کے لمبے گھنگھریالے بال تھے »

📚[بیان تلبیس الجہمیہ الجز سابع صفحہ 290]

امام ابن عدی اس روایت کو یوں نقل کرتے ہیں
أخبرني الحسن بن سفيان ، ثنا : محمد بن رافع ، ثنا : أسود بن عامر ، ثنا : حماد بن سلمة ، عن قتادة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال : قال رسول الله (ص) : رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء.
(الكامل في ضعفاء الرجال جلد 3 صفحہ 260-261 و سندہ صحیح)
راویوں کے مختصراً حال دیکھ لیں
(1)الحسن بن سفيان
ابن ابی حاتم رازی، ابن حبان ، حاکم نیشاپوری اور ذھبی وغیرہ نے اس کی توثیق کی ہے
(2)محمد بن رافع بن سابور
امام مسلم ، بخاری امام نسائی ابو زرعہ الرزای ذھبی اور ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے اسکو ثقہ کہا ہے
(3)اﻷﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ
علی مدینی احمد بن حنبل ابو حاتم رازی یحیی بن معین ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے اس عدالت و وثاقت کو تسلیم کیا ہے
(4) حماد بن سلمہ ( کسی تعارف کا محتاج نہیں)
(5)قتادہ ( کسی تعارف کا محتاج نہیں)
(6)عکرمہ مولیٰ ابن عباس ( کسی تعارف کا محتاج نہیں)
(7) حضرت عبد اللہ بن عباس ( صحابی رسول)
—————————————–
لہٰذا اسکی سند بالکل صحیح ہے۔
اگر کوئی اعتراض کریں کی حماد کا حافظہ تھوڑا خراب ہو گیا تھا آخری عمر میں تو اس پر تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے کی حماد کی یہ روایت محفوظ ہے ہم مختصر اس بحث کا حل کر دیتے ہیں۔ اس روایت کو حماد کے قدیم اور سب سے اہم شاگرد عفان بن مسلم نے بھی حماد سے تحقیق کرکے سنی ہوئی ہے۔
چنانچہ خطیب بغدادی اپنی سند سے یہ روایت یوں لکھتے ہیں
ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺷﺠﺎﻉ اﻟﻌﻮﻓﻲ ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺳﻠﻢ اﻟﺠﻴﻠﻲ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﻔﺺ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻓﻴﺮﻭﺯ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﻛﻴﺴﺎﻥ ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﻗﺎﻝ ﺭﺃﻳﺖ ﺭﺑﻲ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻓﻲ ﺻﻮﺭﺓ ﺷﺎﺏ ﺃﻣﺮﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﺣﻠﺔ ﺧﻀﺮاء
اس روایت کو نقل کرکے عفان مزید نقل کرتے ہیں:
ﻗﺎﻝ ﻋﻔﺎﻥ ﻓﺴﻤﻌﺖ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻘﺎﻝ ﺩﻋﻮﻩ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻭﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﺒﻴﺖ ﻏﻴﺮﻱ ﻭﻏﻴﺮ ﺁﺧﺮ.
عفان کہتے ہے میں نے حماد سے سنا جب یہ حدیث کے بارے میں سوال ہوا تو حماد نے کہا: یہ حدیث مجھے قتادہ نے سنائی ہے اور اس وقت گھر میں میرے اور قتادہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
(تاریخ بغداد جلد 11 صفحہ 214)
—————————————–
لہٰذا حماد کا اس حدیث پر پورا ضبط موجود تھا اور روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
—————————————–
اب ہم علل کے آئمہ سے اس روایت کی صحت پر اجماع نقل کرتے ہیں:
سیوطی امان طبرانی کی کتاب السنہ سے علل کے امام ابوزرعہ رازی کا قول یوں نقل کرتے ہیں :
ﻗﺎﻝ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻲ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺻﺪﻗﺔ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺯﺭﻋﺔ اﻟﺮاﺯﻱ ﻳﻘﻮﻝ ﺣﺪﻳﺚ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻓﻲ اﻟﺮﺅﻳﺔ ﺻﺤﻴﺢ ﺭﻭاﻩ ﺷﺎﺫاﻥ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﻴﺴﺎﻥ ﻭﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻮﻳﺪ ﻻ ﻳﻨﻜﺮﻩ ﺇﻻ ﻣﻌﺘﺰﻟﻲ۔
طبرانی کہتے ہے میں نے ابو بکر بن صدیقہ (ثقة) سے سنا انھونے ابو زرعة الرازي سے سنا وہ کہتے ہیں : اس حدیث ابن عباس کے بارے میں کی یہ صحیح ہے اسکو شاذان ، ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻛﻴﺴﺎﻥ, (الاسود ابن عامر اور عفان بن مسلم) اور ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻮﻳﺪ نے حماد بن سلمہ سے یہ روایت نقل کی
(یعنی شاذان یہاں منفرد نہیں بلکہ چار اور شاگردوں نے بھی حماد سے یہ روایت سنی)
پھر آگے کہتے ہیں
“اور اس حدیث کا کوئی منکر نہیں سوائے معتزلہ کے”
(اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة جلد 1 صفحہ 33)
ابو زرعہ الرزای کا یہ قول امام ضیاء الدین مقدسی حنبلی نے اپنی سند سے کتاب الأحاديث المختارة میں درج کیا
(الأحاديث المختارة جلد 12 صفحہ 234-235)
________________________________
ابو زرعة الرازي نے سارے محدثین کا اجماع نقل کر دیا کی یہ سارے اس روایات کو صحیح مانتے تھی اور اسکے منکر سوائے معتزلہ کے کوئی نہیں تھا اہل سنت میں
اور علل کے امام ابوزرعہ رازی کی اس گواہی سے یہ بھی ثابت ہوا کی قتادہ نے اس روایت میں کوئی تدلیس نہیں کی✅
________________________________
احمد بن حنبل نے بھی اس روایت کا دفاع کیا ہے:
182 – ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻤﺮﻭﺫﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺮﻯء ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺷﺎﺫاﻥ: ﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﺇﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺃﻯ ﺭﺑﻪ.
ﻗﻠﺖ: ﺇﻧﻬﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ: ﻣﺎ ﺭﻭاﻩ ﻏﻴﺮ ﺷﺎﺫاﻥ؟.
ﻓﻘﺎﻝ: ﺑﻠﻰ؛ ﻗﺪ ﻛﺘﺒﺘﻪ، ﻋﻦ ﻋﻔﺎﻥ.
أبو بكر المروزي کہتا ہے : احمد بن حنبل پر قرات کی گئی حدیث شاذان کی انھونے حماد سے اُنہیں قتادہ سے انھوں نے عكرمة سے انھونے ابن عبّاس سے۔۔۔۔
مروزی کہتے ہے: یہ لوگوں کا کہنا ہے کی اس روایت کو شاذان کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا (یعنی حماد سے). احمد نے جواب دیا کی عفان سے میں نے کتابت کی ہے اس روایت کی۔
(یعنی عفان بن مسلم نے بھی بیان کیا ہے)
دوسرا دفاع:
ﻗﻠﺖ: ﺇﻧﻬﻢ ﻳﻘﻮﻟﻮﻥ: ﺇﻥ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ.
ﻗﺎﻝ: ﻫﺬا ﻻ ﻳﺪﺭﻱ اﻟﺬﻱ ﻗﺎﻝ! ﻭﻏﻀﺐ، ﻭﺃﺧﺮﺝ ﺇﻟﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻓﻴﻪ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻤﺎ ﺳﻤﻊ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﻣﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻓﺈﺫا ﺳﺘﺔ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ: “ﺳﻤﻌﺖ ﻋﻜﺮﻣﺔ”.
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﻗﺪ ﺫﻫﺐ ﻣﻦ ﻳﺤﺴﻦ ﻫﺬا، ﻭﻋﺠﺐ ﻣﻦ ﻗﻮﻡ ﻳﺘﻜﻠﻤﻮﻥ ﺑﻐﻴﺮ ﻋﻠﻢ، ﻭﻋﺠﺐ ﻣﻦ ﻗﻮﻝ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ!
مروزی کہتے ہے میں نے احمد سے کہا: یہ لوگ کہتے ہیں کی قتادہ نے عکرمہ سے نہیں سنا ہے۔ احمد غضبناک ہو گئے جواب دیا : یہ بات کہنے والا نہیں جانتا وہ کیا بول رہا ہے۔پھر اپنی کتاب نکال کر قتادہ کی عكرمة سے سماع پر ۶ احادیث ذکر کیں اور حیرانگی کا اظہار کیا کہ لوگ بغیر علم کے کلام کرتے ہیں اور تعجب کیا ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ قتادہ نے عکرمہ سے نہیں سنا
(المنتخب من العلل للخلال صفحہ 284)
احمد بن حنبل کے اس دفاع کے قول کو امام ابو یعلیٰ ابن الفراء اپنی سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد لکھا
وهذا من أَحْمَد تصحيح لحديث ابن عباس وتثبيت له
“یہ احمد بن حنبل کی طرف سے ابن عباس کی اس روایت کی تصحیح اور سچائی پر مہر ہے”
(إبطال التأويلات لأخبار الصفات جلد 1 صفحہ 140)
اور علل کے امام ابن عدی
کہتے ہیں دیدار خدا کی روایت کو بیان کرنے میں حماد بن سلمہ منفرد نہیں کہ اس کی وجہ سے روایت کا انکار کر دیا جائے
(الكامل في ضعفاء الرجال جلد 3 صفحہ 261)
مزید امام طبرانی، ابن تیمیہ حرانی ابو حسن بن بشار اور اور ابو یعلیٰ ابن الفراء وغیرہ نے بھی اس روایت کو صحیح مانا ہے
—————————————–
لہٰذا یہ روایت سند اور متن کے اعتبار سے اہل سنت کے نزدیک بل اجماع صحیح ہے۔
اس کے اور بھی بہت سی اسناد و طریق ہیں

أَتَدْرِي مَا اللَّهُ ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ

کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے ( آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا ) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے

قَالَ أبو داود:‏‏‏‏ وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ، ‏‏‏‏‏‏ووَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ
ابو داؤد کہتے ہیں احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے، اس پر ان کی موافقت ایک جماعت نے کی ہے، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں

جنت اور جہنم والے اعمال اللّہ تعالیٰ کرواتا ہے

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا(واذ اخذ ربک)۔۔۔۔
بے شک اللّہ تعالیٰ نے پیدا کیا آدمؑ کو پھر پھیرا انکی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ اور نکالی اولاد اور فرمایا یہ جنت کیلئے ہے اور یہ جنت کے کام ہی کرینگے پھر نکالی دوزخ والی اولاد اور کہا کہ یہ دوزخ والے کام ہی کرینگے
تب عرض کی ایک شخص نے یا رسول اللّہ ﷺ جب دوزخی اور جنتی وہیں سے مقرر ہوگئے تو عمل کی کیا حاجت ہے؟

فرمایا:
کہ اللّہ تعالٰی جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کیلئے تو اسے جنت والے کاموں میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے
اور جب کسی کو دوزخ کیلئے پیدا کرتا ہے تو دوزخ والے کاموں میں لگادیتا ہے یہاں تک کہ اسکا خاتمہ دوزخ والے کاموں پر ہوتا ہے پھر داخل کردیتا ہے اسے دوزخ میں۔۔۔الخ

📚مسند امام احمد بن حنبل جز اول
📚جامع ترمذی جلد دوم

حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
.
ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے پروردگار کو ضرور دیکھیں گے پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الہی نصیب ہوگا جیسا متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے رسول اللہ نے نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو بایں طور دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دو پہر کے وقت دیکھا جاتا ہے ۔ اللہ کو دیکھنے میں کوئی دقت یا مشقت محسوس نہیں ہوگی
.
مجموع الفتاوى ، ص : 485 ، ج 6
حوالہ 📚۔ توحید از بخاری اردو ص 308
اہل سنت کے امام عبداللہ بن احمد بن حنبل (المتوفی ۲۹۰ ہجری) نے اس طرح نقل کیا ہے :
.
حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، نا بَقِيَّةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ كَعْبٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُجَامِعَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهُ أَوْ زَوْجَتَهُ فِي السَّفِينَةِ، وَيَقُولُ إِنَّهَا تَجْرِي عَلَى كَفِّ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ.
.
شریح بن عبید نے کعب الاحبار سے روایت کیا ہے کہ وہ مرد کا لونڈی یا بیوی کے ساتھ کشتی میں مباشرت کرنے کو مکرہ سمجھتے اور کہا کرتے کہ یہ رحمان (خدا) کی ہتھیلی پر چلتی ہے۔
⛔️کتاب السنۃ – عبداللہ بن احمد بن حنبل // جلد ۲ // صفحہ ۴۴۱ // رقم ۹۹۴ // طبع دار ابن الجوزی ریاض سعودیہ۔
✍️کتاب کے محقق نے اس عجیب اثر کو یہودی اسرائیلیات میں شامل کیا کیونکہ کعب الاحبار سابقہ یہودی تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا تھا، لیکن اہل سنت کے یہاں انکے خدا کے لئے ہتھیلی کا عقیدہ ثابت ہے جیسا کہ سلفی علماء نے اقرار کیا ہے۔
.
معاصر عالم علوي بن عبد القادر السَّقَّاف نے اپنی کتاب میں یوں لکھا :
الْكَفُّ
صفةٌ ذاتيةٌ خبريةٌ ثابتةٌ لله عَزَّ وجَلَّ بالأحاديث الصحيحة الثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہتھیلی
یہ ذاتی و خبری صفت اللہ کے لئے ثابت ہے ان احادیث سے جو نبی ﷺ سے مروی ہے۔
(اسکے بعد انہوں نے صحیح احادیث نقل کی ہے جس سے اس صفت کو اللہ کے لئے ثابت کیا ہے)۔
⛔️صفات الله عز وجل الواردة في الكتاب والسنة – علوي بن عبد القادر السَّقَّاف // صفحہ ۳۲۳ // طبع دار ابن عفان بیروت لبنان۔
اہلِ جنت کی مہمانی کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے روٹی بنائے گا
ابوسعید خدری سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ سے الٹی پلٹی کردے گا جیسے کوئی تم میں سے
سفر میں اپنی روٹی کو الٹتا ہے…
پھر ایک یہودی آیا تو اس نے بھی ویسا ہی کہا جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا۔ آپؐ اس کی بات سن کر مسکرا دیے۔
اس نے کہا میں بتاوں سالن کیا ہوگا, آپؐ نے فرمایا ہاں
وہ بولا سالن بالام اور نون ہوگا، صحابہؓ نے پوچھا بالام اور نون کیا ہے؟
وہ بولا بیل اور مچھلی جن کے کلیجے کے ٹکڑے سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے.
[📒صحیح مسلم صفات المنا__فقین]
.

اللّه مسکرائے گا

اللّه حیران ہوگا

اللّه نے آدم کو اپنی صورت میں پیدا کیا

اللّه کے 2 ہاتھ ہیں

اللّه کی پانچ انگلیاں ہیں

اللّه کے ہاتھ کی پانچ یا چھ انگلیاں ہیں

اللہ کے دو پاؤں ہیں اور ایک پاؤں جہنم میں ڈالے گا

اللّه کے 2 چہرے ہیں ، ایک صورت کے علاوہ دوسری صورت میں سامنے آئے گا

اللہ اپنی پنڈلی کھولے گا

اللّه آسمان پر اترتا چھڑتا ہے

اللّه کی آنکھیں اور کان ہیں

اللّه ایک آنکھ سے کانا نہیں ہے

لوگ اللّه کو چاند کی طرح دیکھیں گے

جس طرح چاند دیکھائی دیتا ہے۔ ویسے ہی اللہ دیکھائی دے گا۔

شاہ ولی الله محدث دہلوی صاحب اپنی اعتقادی کتاب “العقیدة الحسنة” میں عقیدہ رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں لکھتے ہیں:
.
“دوسرا معنیٰ رؤیت کا یہ ہے کہ الله تعالیٰ مختلف صورتوں میں ان کے سامنے متمثل ہو جیسا کہ سنت اور احادیث میں مذکور ہے پس وہ لوگ باری تعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے ساتھ شکل، صورت، رنگ اور آمنے سامنے کی طرح دیکھیں گے، جیسا کہ خواب میں واقعہ ہوتا ہے جس کی خبر نبی کریم ﷺ وآلہ دی ہے۔
.
جہاں آپ ﷺ وآلہ نے فرمایا:
“میں نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا ہے”.
اسی طرح لوگ قیامت میں اس کو عیناً یعنی بلکل ظاہری آنکھوں سے دیکھیں گے جس طرح دنیا میں خواب کے اندر دیکھتے ہیں”.
(العقیدة الحسنة / صفحہ 81)
“صفات کا ظاہری معنی اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے
.
شاہ ولی الله محدث دہلوی صاحب فرماتے ہیں:
“تاویل متشابہات اور بیانِ حقیقتِ صفات باری تعالیٰ میں متکلمین کا غلو ،میرا (شاہ ولی الله) کا طریقہ نہیں، ان امور اور مسائل میں میرا مذہب و طریقہ وہی ہے جو امام مالک، سفیان ثوری ،عبداللہ بن مبارک اور جملہ متقدمین کا ہے کہ متشابہات کو ان کے ظاہر پر رکھا جائے اور ان کی تاویل میں غور و حوض نہ کیا جائے “
(الفوز الکبیر فی اصول التفسیر/ صفحہ 96)
.
شاہ ولی الله محدث دہلوی کے بیان سے معلوم ہوا کہ اہلسنت والجماعت کا مذہب صفات کا ظاہری معنی لینا ہے، اور یہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرما رہے ہیں کہ میرا مذہب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہلسنت والجماعت قرآن مجید کی ان آیات (متشابہات) جن میں الله تعالیٰ کے اعضاء (ہاتھ، چہرہ، پاؤں وغیرہ) کا ذکر ہوا ہے بغیر کسی تاویل کے ان کے ظاہری معنی کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ رؤیت باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
جبکہ شیعہ اس کے برعکس ان آیات متشابہات کی تفسیر و تاویل کے لئے راسخون فی العلم (اہلبیت علیھم السلام) کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان آیات کے ظاہری معنی کی جو تفسیر و تاویل اہلبیت علیہم السلام نے کی ہے اسی کو تسلیم کرتے ہیں۔

رسول اللّه ص نے اللّه کو دیکھا

اللّه کو دیکھا جائے گا یہ روایات صحیح ہیں

نیک و بد اللّه کو ظاہر میں دیکھے گے

منافق بھی اللّه کو ظاہر میں دیکھے گے

لوگ اللّه کو ظاہر میں دیکھیں گے

اہل سنت کو تو معلوم ہے کہ اللہ کہاں ہے لیکن اسكے عرش کو پکڑنے والے فرشتے کو معلوم ہی نہیں اللہ کہاں ہے

اہل سنت محدث ابویعلی موصلی (المتوفی ۳۰۷ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :

حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا إسحاق بن منصور ، حدثنا إسرائيل ، عن معاوية بن إسحاق ، عن سعيد المقبري ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « أذن لي أن أحدث عن ملك قد مرقت رجلاه الأرض السابعة ، والعرش على منكبه ، وهو يقول : سبحانك أين كنت ؟ وأين تكون !

ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں ایک فرشتے کے بارے میں بتاؤں جسکی ٹانگیں ساتھوں زمینوں پر اور عرش اسکے کندوں پر اور وہ یوں کہتا ہے : پاک ہے تو (اللہ)۔ تم کہاں ہو اور تم کہاں ہونگے!

📚 مسند ابویعلی موصلی – ابویعلی موصلی // جلد ۵ // صفحہ ۵۰۳ – ۵۰۴ // رقم ۶۵۸۸ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

نور الدین ھیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) نے اس روایت کو نقل کرنے کے بود یوں لکھا :

اسکو ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح بخاری کے راوی ہے۔

📚 مجمع الزوائد – نور الدین ھیثمی // جلد ۸ // صفحہ ۱۷۳ // رقم ۱۳۳۸۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

عجیب صورتحال ہے کہ ہمارے سلفی برادران کو تو معلوم ہے کہ اللہ کا مکان کہاں ہے لیکن اس فرشتے کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اللہ کہاں ہے جو عرش کو تھامے ہوا ہے۔