أبوبکر کا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله کو جلانا اور رسول صلی اللہ علیه وآله سے حدیث نقل کرنے سے منع کرنا!
علامہ شمس الدین ذھبی نے اپنی کتاب تذکرة الحفاظ میں لکھا ھے:

أن الصدیق جمع الناس بعد وفاة نبیهم فقال إنکم تحدثون عن رسول الله (ص) أحادیث تختلفون فیها والناس بعدکم أشد اختلافا فلا تحدثوا عن رسول الله شیئا فمن سألکم فقولوا بیننا وبینکم کتاب الله فاستحلوا حلاله وحرموا حرامه
رسول اللہ ص کی وفات کے بعد أبوبکر نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا:: تم لوگ پیغمبر صلی اللہ علیه وسلّم سے روایات نقل کرتے ہو کہ جن میں اختلاف رکھتے ھو،اور تمہارے بعد لوگ زیادہ اختلاف کریں گے. رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلّم سے کچھ نقل نا کرو اور جو آپ سے سوال کرے تو کھیں: ہمارے اور آپ کے درمیان کتاب خدا ہے. حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کرو.

تذکرة الحفاظ.ج1 ص2.ط دار الکتب العلمیة
ڈاکٹر صبحي صالح اپنی کتاب علوم الحديث میں امر قطعی و مسلم لکھتے ہیں :

إنّ ابابكر جمع احاديث النبي في كتاب فبلغ عددها خمس مائة حديث ثمّ دعا بنار فأحرقها.
جب ابوبکر نے خلافت ھاتھ میں لی تمام احادیث رسول اللہ ص کو جمع کیا بعد میں آتش منگوائی اور تمام (قریب 500)کو آگ لگادی.

علوم الحديث و مصطلحه ، الدکتور صبحی الصالح، صفحه 30

فناشد الناس أن يأتوه بها فلما أتوه بها أمر بتحريقها
أبوبکر لوگوں کو کھتا ہے کہ جس کے پاس بھی حدیث ہے ہمارے پاس لے آئے اور أبوبکر بعد میں حکم دیتے ہیں کہ سب کو آگ لگادو!

عنوان الكتاب: سير أعلام النبلاء – السيرة النبوية – سيرة الخلفاء الراشدين جلد 5 صفحه 59
ایک دوسری جگه پہ شمس الدین ذھبی لکھتے ہیں:
عائشہ نے اپنے والد ابوبکر کی بات یوں نقل کی ہے:
.

قالت عائشة جمع أبي الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وکانت خمسمائة حديث فبات ليلته يتقلب کثيرا قالت فغمني فقلت أتتقلب لشکوى أو لشيء بلغک فلما أصبح قال أي بنية هلمي الأحاديث التي عندک فجئته بها فدعا بنار فحرقها
عائشہ کہتی ہیں: میرے والد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ حدیثیں جمع کی تھیں جن کی تعداد پانچ سو تھی۔ ایک رات وہ اپنے بستر پر بڑی بے چینی سے کروٹ پہ کروٹ بدل رہے تھے۔ عائشہ کہتی ہیں میں اس بات سے پریشان ہوئی اور عرض کی کیا آپ کو کسی چیز کی شکایت ہے یا آپ کو کوئی [بری] خبر ملی ہے؟ پھر صبح کو میرے والد نے مجھے آواز دی اور کہا: بیٹی! جو حدیثیں تمہارے پاس ہیں انھیں جلدی سے لے آو۔ میں انھیں لے آئی۔ پھر انھوں نے آگ منگواکر انھیں جلاڈالا۔

تذکرة الحفاظ، ج 1، ص 5.

نوٹ: میں اس پر اپنا کوئی حکم لاگو نھی کرتا اور نا ھی اھلسنت سے التماس کریں گے کہ اس پر حکم لگائیں.
لیکن ھم حکم لیں گے اھلسنت کے اس خلیفه سے جس کے بارے رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اگر میرے بعد نبی ھوتا تو عمر ھوتاـ

.
حضرت عمر کی گواھی که جو فقط قرآن کھے وہ احمق ہے
.

وَأخرج سعید بن مَنْصُور عَن عمرَان بن حُصَیْن أَنهم کَانُوا یتذاکرون الحَدِیث فَقَالَ رجل دَعونَا من هَذَا وجیؤونا بِکِتَاب الله فَقَالَ عمر: إِنَّک أَحمَق أتجد فِی کتاب الله الصَّلَاة مفسرة، أتجد فِی کتاب الله الصّیام مُفَسرًا، إِن الْقُرْآن أحکم ذَلِک وَالسّنة تفسره.
اور سعید بن منصور نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے کہ: حدیث کے بارے میں صحبت کر رھے تھے، ایک شخص نے کھا حدیث کو چھوڑو اور قرآن سے استدلال لے آؤ. پھر عمر بن الخطاب نے کھا: تم احمق ھو ! کیا قرآن میں نماز کا تفسیر ہوا ہے پیدا کرسکتے ہو؟کیا قرآن میں روزہ کا تفسیر ہوا ہے لے کے آسکتے ہو؟ اسی طرح قرآن نے حکم کیا ہے اور سنت اس کی تفسیر کرتی ہے.

مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة،ص42 ط المنیریة

کوئی تبصرہ نہیں کرتے ہم، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنه نے تبصرہ کردیا ہے
