عمر تیمم کا انکار کرنے والا تھا
صحیح مسلم ہے:
أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَاءً فَقَالَ: لَا تُصَلِّ
ایک آدمی عمر کے پاس آیا اور پوچھا : میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا ۔ تو انہوں نے جواب دیا : ٰ*نماز نہ پڑھ “*
حوالہ: [صحیح مسلم حدیث ٨٢٠]
.
مجید کی صریح آیت اور رسول اسلام کا واضح دستور اس بارے میں موجود ہے کہ جب انسان مجنب ہو جائے اور پانی کا حاصل کرنا ممکن نہ ہو، یا پانی کا استعمال ضرر رساں ہو، تو ان مقامات پر انسان کے اوپر واجب ہے کہ وہ تمیم کرکے اپنی عبادت بجالائے جب تک کہ عذر زائل نہ ہو جائے لیکن جب یہ قضیہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو بجائے اس کے کہ آپ اس صورت میں حکم تیمم بیان کرتے جو قرآن وحدیث شریف میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے ، آپ نے فوراً” لا تصل” کا علی الاعلان حکم صادر فرمادیا یعنی نماز نہ پڑھے !! اتفاقا عمار یا سر اس وقت موجود تھے لہذا آپ نے خلیفہ وقت پر اعتراض کیا اور فرمایا : ایسی صورت میں تیمم کر کے انسان اپنی عبادت بجالائے گا اور یہ بات روایات نبوی سے ثابت ہے، لیکن خلیفہ صاحب کو عمار یاسر کی بات پر اطمینان نہ ہوا اور الٹے عمار یا سر کو تہدید کرنے لگے ! جس کی وجہ سے عمار یا سر کو یہ کہنا پڑا کہ اگر خلیفہ صاحب مصلحت نہیں سمجھتے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں !! مذکورہ روایات ملاحضہ فرمائیں
.
عبد الرحمن بن ابری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے جنابت ہوئی اور پانی نہ ملا آپ نے فرمایا: نماز نہ پڑھنا۔ عمار نے کہا: اے امیر المومنین! تم کو یاد نہیں، جب میں اور آپ لشکر کے ایک ٹکڑے میں تھے پھر ہم کو جنابت ہوئی اور پانی نہ ملا، آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں مٹی میں لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ رسول اللہ ص نے فرمایا: تجھے کافی تھا اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارنا پھر ان کو پھونکنا پھر مسح کرنا منہ اور دونوں پہنچوں پر ۔” حضرت عمر نے کہا: اللہ سے ڈر اے عمار! (یعنی سوچ سمجھ کر حدیث بیان کر) عمار رض نے کہا: اگر آپ کہیں تو میں یہ حدیث بیان نہیں کروں گا ( اگر اس کے چھپانے میں کچھ مصلحت ہو اس لیے کہ خلیفہ کی اطاعت واجب ہے ) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے کہا: تمہاری روایت کا بوجھ تمہارے ہی اوپر ہے۔



مذکورہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں منقول ہے، لیکن امام بخاری نے اپنے شدید تعصب کی بنا پر اس روایت میں کاٹ چھانٹ فرمادی ہے اس روایت میں حضرت عمر کا جواب ( لا تصل ) کو حذف کر دیا ہے: ملاحضہ فرمائیں
.

(راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں:) میں نے (اپنے شیخ ابو وائل ) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود اسی وجہ سے تیمیم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابو وائل نے
جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے۔




.
اب دیکھیں امام بخاری نے کیا جادو کیا ہے
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں نے پیالے میں دودھ پیا اور پھر میں نے وہ پیالہ عمر بن خطاب کو دے دیا ۔ صحابہ نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے ؟ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا اس سے مراد علم ہے ۔

.
𝐔𝐦𝐚𝐫 𝐛𝐢𝐧 𝐤𝐡𝐚𝐭𝐭𝐚𝐛 𝐬𝐚𝐢𝐝:𝐀𝐥𝐥 𝐩𝐞𝐨𝐩𝐥𝐞 𝐚𝐫𝐞 𝐦𝐨𝐫𝐞 𝐤𝐧𝐨𝐰𝐥𝐞𝐝𝐠𝐞𝐚𝐛𝐥𝐞 𝐭𝐡𝐚𝐧 𝐔𝐦𝐚𝐫, 𝐞𝐯𝐞𝐧 𝐰𝐨𝐦𝐞𝐧.



مسلم بن حجاج نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ سعید بن عبد الرحمن بن ابزیٰ نے اپنے والد سے روایت کی کہ ایک آدمی عمر بن خطاب کے پاس آیا اور پوچھا : میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا ۔ تو انہوں نے جواب دیا : نماز نہ پڑھ ۔ اس پر حضرت عمارؓ نے کہا : امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں ، جب میں اور آپ ایک فوجی دستے میں تھے تو ہم جنبی ہو گئے اور پانی نہ ملا تو آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا اور نماز پڑھ لی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتے ، پھر ان میں پھونک مار کر ان دونوں سے اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کا مسح کر لیتے ۔ ‘ عمر نے کہا : اے عمارؓ ! اللہ سے ڈرو ۔ ( عمارؓ نے ) جواب دیا : اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہ واقعہ بیان نہیں کرتا ۔




اب اسی روایت کو بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کی لیکن انہوں نے اس میں کچھ حذف کیا
پہلا یہ کہ عمر نے آدمی سے کہا کہ نماز مٹ پڑھو۔
دوسرا یہ کہ عمر نے عمار پر تہمت لگائی۔۔


