*تراویح نعم البدْعة*
.

عبد الرحمن نے کہا ہے کہ: میں ماہ رمضان کی ایک رات عمر ابن خطاب کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ مسجد میں بعض لوگ اکیلے اور بعض لوگ مل کر ایک جماعت کی صورت میں نماز پڑھ رہے ہیں، یہ دیکھ کر عمر نے کہا: اگر یہ سب لوگ جمع ہو کر ایک امام جماعت کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو زیادہ بہتر ہوتا، یہ کہہ کر ابی ابن کعب کو آگے کھڑا کر کے سب کو اس کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ چند دن کے بعد میں دوبارہ عمر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تمام لوگ ابی ابن کعب کے پیچھے کھڑے ہو کر با جماعت نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں، *اس پر عمر نے کہا کہ: یہ ایک اچھی بدعت ہے۔*


*علما اہل سنت کے اقرار
*
.









ابن وردی لکھتے ہیں:


دمیری اور قلقشندی لکھتے ہیں:



بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے:






مصنف: عبد الرحمن بن محمد بن عبد الرحمن العُلَيْمي الحنبلي، ابو الیمن، مجیر الدین (متوفی: 928ھ)
محقق: عدنان یونس عبد المجید نباتہ
ناشر: مكتبة دنديس – عمان
جزء: 1 صفحه: 260








لہٰذا، تراویح کا جماعت کے ساتھ پڑھنا سنتِ رسول ﷺ نہیں بلکہ بدعتِ عمر ہے!















سیوطی، جو کہ مخالفین کے اکابر علما میں سے ہیں، عمر کے اس قول کی وضاحت کرتے ہیں جو اس نے لوگوں کو رمضان میں نفل نماز باجماعت پڑھنے کے لیے جمع کرنے کے بعد کہا: “یہ کتنی اچھی بدعت ہے”۔
صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ عمر نے تراویح کے بارے میں کہا:







.
.
سعودی عالم حسن بن عبدالحمید بخاری جب بخاری کی اس روایت پر پہنچتا ہے جو کہتی ہے: “یہ ایک اچھی بدعت ہے”، تو وہ عمر کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے:


اور آگے لکھتا ہے:


صفحہ: 9، مصنف: حسن بن عبدالحمید بخاری ، مترجم: مجموعه موحدین






جلد: 16 صفحہ: 1 فتویٰ نمبر: 94
فیصلہ آپ پر چھوڑا!


اہل سنت کے اکــثر لوگ تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضــرت عـــمر کا یہ عـــمل بدعت حسنہ ہیں اس بدعت میں ثواب ہے حالانکہ اس کے مقابلے میں مســـلم شــریف میں ایک روایت ہے جس میں رســـول خــدا کی حدیــــث ہے جـــس میں موجود ہے ہر بدعت گـــمراھی ہے (کل بدعـة ضلالة) موجود ہے 

.






قارئــــین کرام: آپ نے غور کیا مــسلم شریف کی حدیث میں واضع نقل ہوئا ہر بـــدعت گــــمراہی ہے بلکہ امور ميں سے بدترین امور بدعت ہے ( یـــعنی جو چیز شریعت میں نہ ہو اس کو شریعت کے قوانــین میں داخل کرنا )
اس کے عـــلاوہ ہم آپ کو اہل ســـــنت کے بڑے فقیہ محدث مفتـــــی ابــــن عثیمین کا حوالہ دیتے ہیں اس نے صراحت سے لکھا ہے “بدعــــت کو حســــنہ کہنا رســــول (ص) کے حدیث کی تکذیب اور خــــلاف نص ہے”
.
قارئـــین کرام مفتی محمد ابن صالح العـثیمین سے سائـــل کا ســـوال 

يقول: هل هناك بدعة حسنة وبدعة سيئة؟
ترجــــمہ :سائــــل نے امام ابن عثـــمین سے سوال کیا.

اس کا جواب فضلیة الشیخ امام ابن عثــیـمین اس طرح دیتے ہیں 





ایک اور جگہ پر مـــفتی ابن عثـــیـمین سے ســـائل نے سوال کیا



فضیلة الشیخ ابن عثــــیمین کا جواب



مزیـــد عبـارات اسکـــین پیج پر دیــکھ سکــتے ہیں
اس کے عــــلاوہ امام ابن باز سے ســوال کیا گیا
کیا بدعت کے مختلف اقســام ہیں جیسے حـــسنة. ســیئة.
واجـــــب. حــــرام ؟؟؟؟؟
اس کے جواب میں امام ابن باز لکھتے ہیں



قارئــــین کرام: آپ نے غور کیا اہل سنـــت کے علماء اور مفتیان کے نزدیک کوئی بدعت حــــسنہ نہیں ہے

ہر بدعت ضلالت ہے چاہے اچھی ہو یا بری


جیسا کہ اہل سنت بلکہ اہل حدیث کے عالم زكريا بن غلام قادر پاكستاني نے اپنی مشہور ومعروف کتاب: من أصول الفقه على منهج أهل الحديث میں لکھتے ہیں 



علامہ صاحب آگے لکھتا ہے


جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتا تھا





.
بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کا تصور
.
عربی زبان میں “بدعت” کا مطلب نئی اور بے سابقہ چیز ہوتا ہے۔ شریعت میں قانون سازی صرف اللہ کا اختیار ہے، اور کوئی دوسرا اس میں ترمیم یا اضافہ نہیں کر سکتا۔
مثال کے طور پر:
اگر کوئی اذان میں الفاظ کم یا زیادہ کرے،
نماز کی رکعات میں کمی یا زیادتی کرے،
زکوٰۃ کے نصاب میں رد و بدل کرے،
تو یہ سب بدعت ہوں گی۔ یعنی دین میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی بدعت ہے۔ لیکن اگر کوئی نیا عمل دین سے متعلق نہ ہو، تو وہ بدعت نہیں بلکہ ایک عام ایجاد ہو سکتی ہے، جو جائز یا ناجائز ہو سکتی ہے۔
کیا بدعت کی دو اقسام ہیں؟
فقہاء، چاہے اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، اکثر بدعت کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:


یہ تقسیم شیعہ اور تمام سنی علماء نے قبول کی

اگر بدعت کو لغوی معنی میں لیا جائے (یعنی ہر نئی چیز، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا نہ ہو)، تو یہ دو طرح کی ہو سکتی ہے:


لیکن اگر بدعت کو شریعت کے تناظر میں دیکھیں تو شیعہ کے نزدیک بدعت صرف ایک ہی قسم کی ہوتی ہے:


عمر بن خطاب اور بدعتِ حسنہ؟
عمر بن خطاب نے نمازِ تراویح کو جماعت میں شروع کروایا، جبکہ نبی کریمﷺ نے اسے کبھی جماعت میں ادا نہیں کیا اور بعض روایات کے مطابق اس سے منع بھی فرمایا۔ جب عمر نے دیکھا کہ لوگ الگ الگ تراویح پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کر دیا اور کہا:
“یہ ایک اچھی بدعت ہے (بدعة حسنة)”
اسی بنیاد پر بعض اہل سنت علماء یہ دلیل دیتے ہیں کہ بدعتِ حسنہ بھی موجود ہے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے:






ابن ماجشون امام مالک سے روایت کرتے ہیں:

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:



اس کا مطلب یہ ہے کہ:
جو چیز نبی کریم ﷺ کے زمانے میں دین کا حصہ نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔
اگر کوئی یہ کہے کہ بدعتِ حسنہ بھی ہوتی ہے، تو وہ دراصل قرآن کے اس واضح حکم کا انکار کر رہا ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔
نمازِ تراویح کی جماعت کا مسئلہ بھی اسی اصول پر آتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے خود اسے جماعت کے ساتھ فرض نہیں کیا اور بعض روایات کے مطابق اس سے منع بھی کیا، تو پھر عمر بن خطاب کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس کا حکم جاری کریں؟


رسول اللہ ﷺ نے تراویح کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں پڑھا اور نہ ہی صحابہ کو اس کا حکم دیا۔

“یہ ایک اچھی بدعت ہے (بدعة حسنة)۔”






.
.
.
قارئین کرام: اب وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں تراویح کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، ہم پہلے وہ روایت پیش کرتے ہیں پہر اہل سنت بلکہ اہل حدیث کے عالم سے سوال کرتے ہیں کیا اِس حدیث سے ہم کسي بدعت کو
بدعت حسنہ
کہہ سکتے ہیں؟


پہلےآپ مسلم شریف کی حدیث کو ملاحضہ فرمائیں





ہم اب اہل سنت کے بڑے عالم زکریا بن غلام قادر سے سوال کرتے ہیں
وہ سوال عربي ميں دیکھ سکتے ہیں کسی سائل نے سوال کیا یہ بطور احتجاج علامہ صاحب سوال کو نقل کرتے ہیں 






علامہ زکریا بن غلام قادر کا جواب شروع ملاحضہ کریں 




قارئین کرام آپ نے دیکھا اہل سنت کے منہج مطابق کوئی بدعت حسن نہیں ہےبس فقط اپنے خلیفہ کو بچانے کے واسطے سب بہانے تراشتے ہیں


رسول اللّہﷺ نے فرمایا:










.
اور رسول الله (ص) نے قیام (نفل نماز) پر لوگوں کو جمع نہیں فرمایا تھا۔
مسند احمد کی حدیث

(1) إسناده صحيح على شرط مسلم







.
.
.
ابی بن کعب کے اعتراف کے مطابق نماز تراویح ایک بدعت ہے
.










رسول اللہ ص کے زمانے میں تراویح نہیں پڑھی جاتی تھی

واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تراویح نہیں پڑھی جاتی تھی۔





قاضی ابوالحسن علی بن الحسین بن محمد السغدی (متوفی 461 ہجری)، جو کہ حنفی مسلک کے علما میں سے ہیں اور شمس الأئمہ سرخسی کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، نماز تراویح کے بارے میں کہتے ہیں:






.
.
.
سرخسی شافعی نے کتاب “المبسوط” میں تراویح پر گفتگو کرتے ہوئے، رکعات کی تعداد کا ذکر کیا اور امام شافعی کا قول نقل کرنے کے بعد ایک دلچسپ بات کہی:




.
.
.


امام کسائی حنفی (م 587ھ) لکھتے ہیں:

سوال:








.
..
.



کیا تم قرآن پڑھ لیتے ہو؟


کیا تم *گد ھے* کی طرح خاموش رہو گے ؟
*جاو گھر میں پڑھو*۔




حدیث کا متن:
ابو بکرہ نے روایت کی، کہا: ہم سے مؤمل نے بیان کیا، کہا: ہم سے سفیان نے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے روایت کی کہ
ایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا:
“کیا میں رمضان میں امام کے پیچھے نماز پڑھوں؟”
انہوں نے جواب دیا:
“کیا تم قرآن پڑھنا جانتے ہو؟”
اس نے کہا: “ہاں”
(……

حذف شدہ عبارت ……)



پھر ابن عمر نے کہا: “اپنے گھر میں نماز پڑھو”
(شرح معانی الآثار، ج1، ص351، ط عالم الکتب)
یہ معاملہ اتنا واضح تھا کہ اہل سنت کو روایت میں تحریف پر مجبور ہونا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ابن عمر کے بیان میں کوئی اشکال نہیں تھا، تو روایت میں تحریف کیوں کی گئی؟
لہٰذا، یہ تحریف اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر نے تراویح پڑھنے والوں کو گدھے سے تشبیہ دی تھی، نہ کہ صرف یہ کہا تھا کہ جو قرآن پڑھنا جانتا ہو، وہ اکیلے نماز پڑھے۔
یہی بات ثابت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تراویح جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی، کیونکہ خود ابن عمر حافظ قرآن تھے۔
اب ہمت ہے تو تراویح پڑھ کر صحابی کے قول کا انکار کر کے دکھاؤ!


اگر یہ تراویح اتنی عظیم عبادت اور نعمت ہے تع یقینا عبداللہ بن عمر قابل مذمت ہیں اس کو ترک کرنے کی وجہ سے اور اسکو انجام دینے والے کو گد ھا کہنا کیا یہ ط ع ن نہیں دوسرے اصحاب پر؟؟
نافع کہتے ہیں: کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کے مہینے میں جماعت کے امام کے پیچھے نماز (تراویح) نہیں پڑھتے تھے۔
فَمِنْ ذَلِکَ مَا حَدَّثَنَا فَهْدٌ، قَالَ: ثنا أَبُو نُعَیْمٍ، قَالَ: ثنا سُفْیَانُ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ، نَافِرِ عَنْ اللهِ اَنْهُمَا أَنَّهُ کَانَ لَا یُصَلِّی خَلْفَ الْإِمَامِ فِی رَمَضَانَ۔





** عترتِ رسول (ص) کے نزدیک نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے **
** عترتِ رسول (ص) کے نزدیک نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے **
اہل سنت کے قاضی شوکانی لکھتے ہیں :


مزید لکھتے ہیں :



مصنف : محمد بن علي شوکاني
الجزء : الخامس ، الصفحة : ١٧٢،١٧٣

البانی نے اپنی کتاب سلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں شوکانی کو “امام” کا لقب دیا ہے، ان کے قول کو معیار قرار دیا ہے، اور انہیں سلفی علما میں شمار کیا ہے۔ نیز، ان کے اقوال کی حجیت کو احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، اور ابن کثیر کے برابر قرار دیا ہے:



اسی طرح، امام ذہبی تصریح کرتے ہیں کہ کسی عالم کی رائے اس کے مخصوص فن میں حجت ہوتی ہے:

سیبویہ نحو کے امام تھے، مگر حدیث نہیں جانتے تھے۔
وکیع حدیث کے امام تھے، مگر عربی زبان پر عبور نہ تھا۔
ابو نواس شعر میں ماہر تھے، مگر دوسرے علوم میں نہیں۔
عبد الرحمن بن مہدی حدیث میں امام تھے، مگر طب کا علم نہ رکھتے تھے۔
محمد بن حسن فقیہ تھے، مگر قراءت سے ناواقف تھے۔
حفص قراءت کے امام تھے، مگر حدیث میں ضعیف تھے۔








قفاری، جو ایک وهابی عالم ہے، کہتا ہے:















نماز تراویح سِرے سے کوئی نماز ہی نہیں ہے بلکہ نماز تہجد کا دوسرا نام نماز تراویح ہے
.
اہل سنت مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب ”العرف الشذی” شرح ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں:






.
.
.
کیا تراویح مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟
.
مفسرین عمریہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:




نماز عید
نماز کسوف (گرہن کی نماز)
نماز استسقاء (بارش کی نماز)

مزید لکھتے ہیں:







نتیجہ:
یہ حدیث واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ تراویح کی نماز مسجد میں پڑھنے کے بجائے گھر میں پڑھنا افضل ہے۔
بعض علماء کا یہ کہنا کہ تراویح مسجد میں افضل ہے، حدیث کے خلاف ہے۔
۔
اہل سنت محدث لکھتے ہیں کہ






اولاً، شرعاً نافلہ نماز مسجد میں نہیں پڑھنی چاہیے۔
ثانیاً، رسول اللہ کے عمومی حکم کے مطابق تمام نفل نمازیں، بشمول تراویح، گھر میں پڑھنی چاہئیں۔
ثالثاً، مسجد میں تراویح پڑھنا رسول اللہ کی ہدایت اور سنت سے متصادم ہے۔
رابعاً، تراویح انفرادی طور پر پڑھی جانی چاہیے، نہ کہ جماعت کے ساتھ۔
خامساً، جماعت کے ساتھ پڑھنا عمر بن خطاب کی سنت ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔







.
.
.

مالکی فقہ کی کتابوں میں، مالک بن انس نے المدونة الكبرى میں تصریح کی ہے کہ عمر اور عثمان نے کبھی تراویح کی نماز نہیں پڑھی:








نماز تراويح کــي حقيقت اہل سنـــت کے آئـــمه ومحدثــــین کی نــــظر میں ؟
تحریر: سیف نجفی
قارئــــین کرام: آج ہـم اہل ســــنت کے ایک مایہ ناز فـقیہ و محدث کی زبانی تراویـــح کی حقیقت بتاتے ہیں
امام بدر الدیـــــنی العــــینی تراویح نــــماز حقیقت کے بارے میں لکھتا ہے
روى الطحاوي عن نافع ” عن ابن عمر أنه كان لا يصلي خلف الإمام في شهر رمضان ” وأخرج ابـن أبي شيبة أيضا في مصنفه ” عن ابن عمر أنه كان لا يقوم مع الناس في شهر رمضان قال وكان القاسم وسالم لا يقومان مع الناس
ترجمہ: طحاوی نے نافع سے اور نافع نے عبداللہ ابن عمــر سے روایت کی ہے وہ امام کے پـیچھے نماز تراویح نہیں پـڑھتے تھے اس طــرح مصنف ابن شیـــبہ نے اپنی کتاب (المصنف )میں بھی فرمایا عــــبد اللہ بن عـــــمر لوگــوں کـے ساتھ نماز تراویح مل کر نہیں پڑھتے تھے (یعنی جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے) اس طرح امام قــاسم اور سالم بھی لوگوں کے ساتھ نماز تروایح نہیں پڑھتے تھے ( یــعنی جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے)
امام عـــینی اس سے بھی مزید آگے لکھــتے ہیں
وذهب مالك والشافعي وربيعة إلى أن صلاته في بيته أفضل من صلاته مع الإمام وهو قول إبراهيم والحسن البصري والأسود وعلقمة وقال أبو عمر اختلفوا في الأفضل من القيام مع الناس أو الانفراد في شهر رمضان فقال مالك والشافعي صلاة المنفرد في بيته أفضل وقال مالك وكان ربيعة وغير واحد من علمائنا ينصرفون ولا يقومون مع الناس وقال مالك
ترجـمہ: امام عینی لکھتا ہے. امام شافعی ، امام مالــک، امام ربیعه بھی اس طرف گئے یعـــنی نماز تـراویح کو فرادی پڑھنا افضل سمجھتے تھے مسجد میں پڑھنے سے
یہ قول ابراھـــیم. حــسن البصری،اسود علقمہ سے نقل کیا ہے اور اخـتلاف ہے نمـاز تراویح گھر میں پڑھـنا افضل ہے یا مســجد میـں جـماعت کے ساتھ لیکن امــام مالـــک امام شافعی اس کے عــلاوہ کافی علماء اس طـرف گئے نماز (نافلہ فرادی) گھر میں پڑھنا افضل ہے مسجد میں جماعــت کے ساتھ پڑھنے سے
امـــام بدر الـــدین العــــینی آگے فرماتے ہیں
أنا أفعل ذلك وما قام رسول الله – صلى الله عليه وسلم إلا في بيته
ترجمہ امام عـــینی کہتا ہے
میں خـــود رمضان المبارک کے اس بابرکت صلات النافلہ کو گھر میں پڑھنا افضل سمجھتا ہوں، مسجد میں جماعـــت کے ساتھ پڑھنے سے.
اس کے بارے امام بدر الدینی عیـــنی دلیل دیتے فرماتے ہیں
ما قام رسول الله – صلى الله عليه وسلم إلا في بيته
ترجمہ: وہ اس لئے کیوں کے نـــبی اکـــرم (ص) خود یہ نماز گھر میں فرادی پڑھتے تھے ( یعنی میں تاسی رسول ص کرتے گھر میں پڑھنا افضل سمجھتا ہوں چہ جائیکہ حضرت عــمر کی سنت پر عمل کروں )
امام بدر الدین عـــینی لکھتا ہے اس پر فقط میں عــمل پیرا نہیں ہوں بلکہ بزرگ محدثـــین بھی اس طرف مائل ہوئے جیسے امام طحاوی کیوں کے اس نے روایت کی ہے ابن عــمر سے . امام سالم سے. امام قاســم سے .امام نافع. سے یہ سب بزرگان جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے
اور امام ترمذی نے امام شافعی سے نقل کیا انسان اس نماز کو فـــرادی پڑھے جب کہ وہ پڑہ ســـکتا ہو
تحـــریر: ســــیف نـــجفی

اسلامی پرینک


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدعت سے سختی سے منع فرمایا، مسلم نے جناب جابر بن عبداللہ علیہما الرحمہ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا




اور نسائی نے بھی با سند صحیح روایت کی ہے




اور اگر بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم مدینہ منورہ میں انجام دی جائے تو اس کا شدید گناہ ہے،
بخاری نے انس بن مالک و امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام سے روایت کی ہے




امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا



.
مگر ان تمام تحذيرات کے بعد بھی عمر نے کچھ توجہ نہیں کی اور اللہ سبحانہ تعالی کے مبارک مہینہ میں بدعت انجام دی
.
نوافل رمضان المبارک کے متعلق بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں زید بن ثابت سے روایات نقل کی ہیں



.



ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺑﻮﺭﯾﺌﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺠﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻗﺘﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﻟﻮﮒ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﺮ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﭘﺮ ﮐﻨﮑﺮﯾﺎﮞ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﺼﮧ کی حالت میں ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ” ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﻮ ﮔﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻮ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﺽ ﮐﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ “





.
~روایات سے اخذ ہونے والے نتائج ~
۞١۞ بغیر اجازت کے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے لگے
۞٢۞جب آپ گھر سے باہر تشریف نہیں لائے تو کمال بیشرمی کا ثبوت دیتے دروازے پر کنکریاں مارنے لگے
۞٣۞ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کا یہ عمل اتنا ناگوار گزرا کہ ان پر غضبناک ہوئے
۞٤۞ صحابہ کی دلی کیفیت بھی آشکار کر دی کہ اگر تم پر یہ نماز واجب کر دی جائے تو تم ادا نہیں کروگے
۞٥۞ واجب نماز کے سوا نوافل گھر میں ادا کرنی چاہیے
.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو مسجد میں نوافل با جماعت ادا کرنے سے روکا
مگر کچھ ہی دنوں میں صحابہ نے سب کچھ بھلا دیا اور دوبارہ “وہی بدعت” انجام دینی شروع کر دی
.
بخاری نے اپنی صحیح میں عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت نقل کی ہے


ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ( ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ) ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ،” ﯾﮧ بدعت اچھی ﮨﮯ”


چاہئے تو یہ تھا کہ عمر بن خطاب حاکم وقت ہونے کے سبب صحابہ کو مسجد سے نکال پھینکتا اور کہتا کہ یہ اللہ کے گھر میں یہ کیا بدعت انجام دیتے ہو مگر اس کے برعکس عمر نے ان کی اس بدعت کو لوگوں میں عام کر دیا،
اہل سنت سے سوال تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے عمر کی بدعت کو کیوں اپنا شعار بنا لیا ہے؟
جو روایات بدعتی کے متعلق و بالخصوص مدینہ منورہ میں بدعت انجام دینے کے متعلق ائیں ہیں ان سے عمر بن خطاب کو کیسے بچا سکتے ہو

.




کیا رسول اکرم (ص) نے بدعتی شخص کو گمراہ اور جہنمی قرار نہیں دیا؟


تو جب نماز تراویح نہ تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی اور نہ ہی حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں .تو پھر ہمیں اس قدر اس پر اصرار کرکے بدعت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ نماز تراویح حضرت عمر (رض) کی بدعات میں سے ہے اور پیغمبر (ص) کے زمانے میں اس کا مسلمانوں کے درمیان نام و نشان تک نہ تھا جیسا کہ ہمارے جید علمائ نے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے :





کہ یہ حضرت عمر (رض) کے اجتہاد کانتیجہ ہے .

*نماز تراویح کا اجمالی جائزہ اور مروجہ بیس رکعات تراویح کی حقیقت ۔*
ہم اس مضمون میں نماز شب ( تراویح ) اور مروجہ بیس رکعات تراویح کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں فقط صحیح بخاری کی روایات کی روشنی میں کلام کیا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں۔
*رمضان میں کوئی اضافی نماز سنت نہیں ۔*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معمول ثابت ہے کہ آپ سال کے بارہ مہینے نماز شب ( تہجد ) ادا کیا کرتے تھے، اور دیگر مہینوں کی طرح ماہ رمضان میں بھی حسب معمول آنحضرت نے اسیطرح نماز شب کا اہتمام فرمایا جیساکہ غیر رمضان میں اہتمام کیا۔
چنانچہ امام بخاری نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( تراویح یا تہجد کی نماز ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ *تو انہوں نے بتایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔*
روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں ۔


حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت نے ماہ رمضان میں کسی اضافی نماز کا اہتمام نہیں کیا بلکہ رمضان میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے دیگر ایام کی طرح حسب معمول صرف صلاة الیل ( تہجد ) ہی پڑھا کرتے تھے۔
*رسول اللہ نے باجماعت نماز شب کا اہتمام ترک کردیا تھا ۔*
امام بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت نقل کری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ رمضان کی نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں نماز شب پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔
چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا
اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے اس رات بھی نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکی۔
چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھیں۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ اما بعد : تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ ۔
روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں :


صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے ماہ رمضان میں صحابہ کرام کو تین مرتبہ باجماعت صلاة اليل پڑھائی لیکن پھر آنحضرت نے امت کی سہولت کی خاطر یہ خیال کیا کہ اسطرح روزانہ نماز شب کے باجماعت اہتمام سے کہیں مسلمان اپنے اوپر اس نماز شب کو لازم نہ کرلیں اور پھر اس کی ادائیگی سے عاجز آجائیں تو اس خوف سے آنحضرت نے باجماعت نماز شب کو ترک کردیا جس کی بنیاد پر صحابہ کرام کا عمل بھی خلافت دوئم کے زمانہ تک یہی تھا کہ باجماعت نماز شب کا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔
*مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح کی حقیقت ۔*
صحیح اور مرفوع روایات اس بات پر شاھد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں نماز شب کی گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے اور خلافت دوئم کے زمانہ تک صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھا کہ فرادی ہوکر ( متفرق طور پر الگ الگ ) نماز شب ادا کیا کرتے تھے *لیکن جب حضرت عمر کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مسلمانوں کو بیس رکعات تراویح پر ایک امام کے پیچھے جمع کردیا اور ساتھ ہی حضرت عمر نے اپنے اس عمل کو بذات خود ایک ” اچھی بدعت ” کے عنوان سے تعبیر بھی کیا۔*
چنانچہ امام بخاری نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت نقل کری ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر حضرت ابی بن کعب کو ان کا امام بنادیا۔ عبد الرحمان بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ( تراویح ) پڑھ رہے ہیں یہ دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا کیا ہی اچھا نیا طریقہ ( بد عت ) ہے ۔ روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں ۔


*بد عت کا حکم 

اب جبکہ تراویح کا بدعت ہونا خود تراویح کے شارع کی زبان سے ہی ثابت ہے تو ضروی معلوم ہوتا ہے کہ اس بدعت پر عمل اور عدم عمل کے حوالہ سے بھی کسی صحیح اور مرفوع حدیث کیطرف رجوع کیا جائے چنانچہ امام بخاری اور مسلم نے صحیحین میں ایک متفق علیہ روایت حضرت عائشہ سے نقل کری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جو شخص بھی دین میں کوئی ایسا نیا عمل ایجاد کرے جس کا دین ( قرآن و سنت ) سے کوئی تعلق نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے۔



*نماز تراویح کی وجہ تسمیہ 

مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح گوکہ بدعت حسنہ ہے لیکن تمام اچھائیوں کے باوجود مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح بدعت کے حکم کی روشنی میں بہرحال ایک مردود عمل ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب آخر میں نماز تراویح کی وجہ تسمیہ بیان کیئے دیتے ہیں کہ کس وجہ سے ماہ رمضان میں صلاة الليل کو نماز تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا۔
حافظ ابن حجر نے تراویح کی وجہ تسمیہ ان الفاظ میں بیان کری ہے ۔


حافظ فرماتے ہیں : تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح اسلیئے کہا گیا، کیونکہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔
مفہوم حافظ کے کلام کا یہ ہے کہ تراویح میں لوگ چونکہ طویل قرآت کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو تھکن کا احساس ہوا کرتا تھا چنانچہ لوگوں نے اس تھکن کو دور کرنے کے لیئے کچھ رکعات کے بعد آرام کی غرض سے وقفہ کرنا شروع کردیا جس کو ترویحہ کہاجاتا ہے پھر اسی مناسبت سے بعد میں اس نماز کو صلاة التراویح کے نام سے موسوم کردیا گیا و گرنہ احادیث مرفوعہ کا ذخیرہ تراویح نام کی کسی بھی چڑیا کے ذکر سے بالکل خالی ہے ۔

یعنی رسول اللہ(ص) ماہ رمضان میں عبادت کی ترغیب کرتے تھے اور فرماتے تھے “جو شخص بھی رمضان کے مہینے میں ایمان کی بدولت اللہ کے لئے (عبادت) کے لئے قیام کرے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں”۔ پھر آپ(ص) کا وصال ہوا اور اسی طرح سے یہ امر جاری رہا (یعنی نافلہ کو فرادی پڑھنا)، ابو بکر کی خلافت میں بھی ایسا ہی رہا اور خلیفۂ دوّم عمر کے دور میں بھی۔

گویا رسول اللہ(ص) کی سنّت تھی کہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو خود پڑھتے تھے اور جماعت سے منع فرمایا ہے۔ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی رسم خلیفۂ دوّم حضرت عمر بن خطاب نے شروع کی۔

راوی کہتا ہے کہ عمر بن الخطاب کے ساتھ رمضان کی کسی رات مسجد میں آیا، لوگوں کو ہم نے متفرّق دیکھا، ہر شخص خود نماز پڑھ رہا تھا، یا ایک قلیل جماعت کسی ایک شخص کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھی۔ عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہوں تو میری نگاہ میں بہتر ہے۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا اور سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ اگلی رات کو میں دوبارہ ان کے ساتھ باہر نکلا، لوگ ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ خلیفۂ دوّم عمر نے کہا کہ “یہ کتنی بہترین بدعت ہے۔”

خلیفۂ دوّم نے اس سلسلے کو شروع کیا اور اہل سنّت آج تک ان کی اس سنّت پر عمل کرتے ہیں جبکہ شیعیانِ علی رسول اللہ(ص) کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔






.
.
.
کیا آپ جانتے ہیں کہ عمریہ فقہ میں اگر اہل سنت میں سے کوئی شخص نماز تراویح نہ پڑھے تو اسے قتل کر دینا چاہیے اور اس کے جان، مال اور ناموس کو غارت کر دینا چاہیے؟
حساب لگائیں کہ کتنی خطرناک بدعت ہے،
اگر یہ فقہ نافذ ہو جائے تو آدھے سے زیادہ تو خود عمری ہی ڑگڑے جائیں گے
ہم اپنے ساتھ ان معصوم اہل سنت کا کے لئے بھی اس بدعت کے خلاف لڑ رہے ہیں جو یہ بدعت انجام نہیں دیتے
یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بعض اہل سنت کی فقہی کتابوں کے مطابق، اگر کسی شہر کے لوگ تراویح پڑھنے سے انکار کر دیں، تو وہاں کا امام اور حاکمِ شرع ان کے خلاف قتال کرے گا تاکہ “سنت عمری” ختم نہ ہو!
عبدالحق دہلوی، جو عمریہ کے بزرگوں میں سے ہیں، کہتے ہیں:


اللّه ہمیں اس سے محفوظ رکھے

.
.
.


اہل سنت میں ایک بدعت جس پر وہ عمل کرتے ہیں، وہ باجماعت نمازِ تراویح ہے۔ وہ خود ہی اس بارے میں الجھن کا شکار ہیں اور نہیں جانتے کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔ جب کوئی طریقہ سنت پر نہ ہو اور شیخین کی بدعت کی پیروی کی جا رہی ہو، تو اختلاف اور گمراہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔
اس دوران البانی، جو ان کے بڑے علماء میں سے ہے، پر الزام ہے کہ وہ غلط اور بے بنیاد باتیں کرتا تھا۔


مصنف: اسماعیل بن محمد الانصاری
یاد رہے اسی البانی کے بارے خود ہی لکھتے ہیں
شیخ عبدالعزیز بن باز نے کہا:
“میں نے آسمان کے نیچے محمد ناصر الدین البانی جیسا حدیث کا عالم عصرِ حاضر میں نہیں دیکھا۔”
شیخ مقبل بن ہادی الوادعی نے کہا:
“ہم اب بھی شیخ کی کتابوں کی وجہ سے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔”
اور انہوں نے یہ بھی کہا:
“شیخ ناصر الدین اور ان کے علم پر صرف وہی شخص تنقید کرتا ہے جو بدعتی اور خواہشات کا پیروکار ہو، کیونکہ یہی لوگ اہلِ سنت سے بغض رکھتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کرتے ہیں۔”
اسکے علاوہ
آج تک فیصلہ نہیں ہو پایا کہ تراویح آخر کتنی رکعت ہے؟ 20 رکعت، 36 رکعت، 41 رکعت، 39 رکعت، 11 رکعت، بے حد، 1000 رکعت؟
سعودی عالم ڈاکٹر حسن لکھتے ہیں

اگر طبیعت ٹھیک نہ ہو تو مختصر پڑھ لو، یا بالکل نہ پڑھو، نہ 20 رکعت، نہ 30 رکعت!

مصنف: حسن بن عبدالحمید بخاری
امام سیوطی اپنی کتاب “المصابیح فی صلاة التراویح” میں لکھتے ہیں:

“مجھ سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے تراویح پڑھی؟ اور کیا یہ وہی 20 رکعتی نماز ہے جو آج کل رائج ہے؟
میں جواب دیتا ہوں: نہیں! اور مجھے اس بارے میں کوئی روایت قائل نہیں کر سکی۔
رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے، وہ صرف رمضان میں قیامِ لیل (رات کا قیام) ہے، وہ بھی بغیر کسی مخصوص تعداد کے۔
نبی اکرم ﷺ سے 20 رکعات پڑھنا ثابت نہیں، بلکہ آپ ﷺ نے چند راتوں میں قیام کیا، لیکن چوتھی رات اس خوف سے چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے۔
کچھ لوگ ایک حدیث سے تراویح کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وہ حدیث قابلِ استدلال نہیں، اور میں اس کے ضعف کو ثابت کروں گا۔”

ابن باز، وہابی علما میں سے، نماز تراویح کے بارے میں کہتے ہیں:



او پہلے خود تے فیصلہ کر لو کہ کنی رکعت پڑھنی اے ، سانوں فیر دس لینا 








.
.
.
سعودی عالم ڈاکٹر حسن بخاری کے نزدیک باجماعت تراویح ایک کمائی کا زریعہ ہے بعض کے نزدیک
لکھتے ہیں


اب سمجھ آئی کہ ایک چیز جو سنت رسول ﷺ ثابت نہیں تو کچھ لوگ اتنی شدت کیوں دکھاتے ہیں کیوں کہ یہ روزی روٹی کا زریعہ ہے انکی 



.
.
.
اب عمریوں سے کچھ سوالات:
باجماعت نماز تراویح اگر سنت تھی تو حضرت عمر نے اسے “بدعت” کیوں کہا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پیچھے جماعت بنا کر نماز پڑھنے پر ناراضگی کیوں ظاہر کی؟
کیوں لوگوں کو نفل نمازیں اپنے گھروں میں پڑھنے کا حکم دیا؟
اگر یہ کام سنتِ الٰہی تھا، تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد میں آ کر پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟
یہاں تک کہ لوگ کنکریاں لے کر رسول ﷺ کے گھر پر مارنے کیلئے پہنچ گئے
کیوں لوگوں کو مسجد سے باہر نکالا؟
کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس عمل سے یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ انہیں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے پر کوئی رضا نہیں تھی۔
اگر مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کو مسجد سے باہر کیوں نکالا اور فرمایا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روایت میں کہا گیا ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہزار گنا بہتر ہے؟
اگر تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت ہے تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی اقامت مسجد میں کیوں نہیں کی اور کیوں یہ حکم نہیں دیا کہ اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں اور کیوں اپنے ماننے والوں کو کہا کہ اپنے گھروں میں جاؤ اور فرداً نماز پڑھو؟ اور کیوں وہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھا پائے؟










