تراویح ایک بدعت

*تراویح نعم البدْعة*

.

📜 عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ القَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَ النَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ، *قَالَ عُمَرُ: «نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ،*
عبد الرحمن نے کہا ہے کہ: میں ماہ رمضان کی ایک رات عمر ابن خطاب کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ مسجد میں بعض لوگ اکیلے اور بعض لوگ مل کر ایک جماعت کی صورت میں نماز پڑھ رہے ہیں، یہ دیکھ کر عمر نے کہا: اگر یہ سب لوگ جمع ہو کر ایک امام جماعت کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو زیادہ بہتر ہوتا، یہ کہہ کر ابی ابن کعب کو آگے کھڑا کر کے سب کو اس کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ چند دن کے بعد میں دوبارہ عمر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تمام لوگ ابی ابن کعب کے پیچھے کھڑے ہو کر با جماعت نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں، *اس پر عمر نے کہا کہ: یہ ایک اچھی بدعت ہے۔*
📚 صحیح بخاری، ج 3، ص 45، ح 2010، باب فضل من قام رمضان

*علما اہل سنت کے اقرار 👇🏼*

.

1️⃣ تراویح حضرت عمرؓ نے شروع کروائی
2️⃣ تراویح پہلی بار با جماعت 14 ہجری میں پڑھی گیئی
3️⃣ تراویح حضرت عمرؓ کی بد عت ہے۔
📜 وهو أول من سن قيام شهر رمضان وجمع الناس علي ذلك وكتب به إلي البلدان وذلك في شهر رمضان سنة أربع عشرة وجعل للناس بالمدينة قارئين قرئا يصلي بالرجال وقارئا يصلي بالنساء .
📄 (عمر بن خطاب) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رمضان المبارک کی رات کی نماز تراویح کی مثال قائم کی اور اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور مختلف خطوں کو اس کے بارے میں ہدایات دیں۔ اس نے لوگوں کے لیے قرآن پڑھنے والے مقرر کیے جو مردوں اور عورتوں کے لیے نماز تراویح کی امامت کرتے تھے۔
📚 کتاب الطبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 281
📚 تاریخ الخلفاء صفحہ 137
📚 امدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جلد 6 صفحہ 125
📚 تاریخ الطبری، جلد 4، صفحہ 209
ابن وردی لکھتے ہیں:
📜 “سب سے پہلے جس نے لوگوں کو تراویح کے لیے ایک امام پر جمع کیا، وہ عمر تھا۔”
📚 (تاریخ ابن وردی، ج 1، ص 142)
دمیری اور قلقشندی لکھتے ہیں:
📜 “سب سے پہلے جس نے رمضان میں لوگوں کو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے جمع کیا، وہ عمر تھا۔”
📚 (حیاة الحیوان الکبری، ج 1، ص 481)
📚 (مآثر الإنافة في معالم الخلافة، ج 1، ص 92؛ ج 3، ص 337)
بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے:
📜 “صحابی سائب بن یزید کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب کے زمانے میں لوگ رمضان میں 20 رکعات نماز پڑھتے تھے۔”
📖 (الحاوی للفتاوی، کتاب الصلاة، المصابیح فی صلاة التراویح)
📢 مجیر الدین العلیمی (جو کہ 927ھ میں وفات پا گئے) اہل سنت کے علماء میں سے ہیں، کہتے ہیں:
📜 “وَكَانَ عمر… وَهُوَ أول من جمع النَّاس لصَلَاة التَّرَاوِيح”
📃 “عمر بن خطاب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لوگوں کو نماز تراویح کے لیے جمع کیا۔”
📚 الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل
مصنف: عبد الرحمن بن محمد بن عبد الرحمن العُلَيْمي الحنبلي، ابو الیمن، مجیر الدین (متوفی: 928ھ)
محقق: عدنان یونس عبد المجید نباتہ
ناشر: مكتبة دنديس – عمان
جزء: 1 صفحه: 260
📢 بدالرحمن بن خالد احمد البکری نے اپنے کتاب میں جو عمر کی سیرت پر لکھی ہے، صفحہ 126 پر کہتے ہیں:
📜 “عمر نے اس سال میں رمضان میں جماعت کے ساتھ قیام کی سنت کو قائم کیا اور اس کے نفاذ کے لیے مختلف جگہوں پر خطوط لکھے اور ابو بن کعب اور تمیم داری کو نفل نماز میں لوگوں کی امامت کرنے کا حکم دیا،”
👈 “پھر ان سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عمل نہیں کیا تھا،”
❓ تو عمر نے جواب دیا: “اگر یہ بدعت ہے، تو یہ کتنی اچھی بدعت ہے!”
❓ کیا عمریہ کے پاس بدعت تراویح کے لیے کوئی مضبوط، مفصل، واضح، اور براہ راست دلیل ہے؟
💡 نتیجہ:
🔹 تراویح کو جماعت سے پڑھنے کی بنیاد عمر نے رکھی، نہ کہ رسول اللہ ﷺ نے۔
🔹 اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی شرعی سنت نہیں بلکہ ایک نئی ایجاد (بدعت) تھی۔
لہٰذا، تراویح کا جماعت کے ساتھ پڑھنا سنتِ رسول ﷺ نہیں بلکہ بدعتِ عمر ہے!
سیوطی، جو کہ مخالفین کے اکابر علما میں سے ہیں، عمر کے اس قول کی وضاحت کرتے ہیں جو اس نے لوگوں کو رمضان میں نفل نماز باجماعت پڑھنے کے لیے جمع کرنے کے بعد کہا: “یہ کتنی اچھی بدعت ہے”۔
صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ عمر نے تراویح کے بارے میں کہا:
📜 “نعم البدعة هذه، والتی ینامون عنها افضل…”
📃 یہ کتنی اچھی بدعت ہے، حالانکہ وہ نماز جسے لوگ چھوڑ کر سوتے ہیں، اس سے بہتر ہے۔
👈👈 اور یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ یہ نماز رسول اللہؐ کے زمانے میں نہیں تھی۔
📜عمر کا یہ قول بالکل واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ نماز تراویح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی۔
📚 المصابیح فی صلاة التراویح، ص 23، ط دار عمار
.
.
سعودی عالم حسن بن عبدالحمید بخاری جب بخاری کی اس روایت پر پہنچتا ہے جو کہتی ہے: “یہ ایک اچھی بدعت ہے”، تو وہ عمر کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے:
📜 “عمر کا کلام وحی ہے” 😳
اور آگے لکھتا ہے:
📜 یہ عمر کی سنت ہے جو آج تک قائم ہے، اور لوگ سنتِ عمر بن خطاب پر عمل کرنے کے لیے ہر وقت اور ہر جگہ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
📚 “نامہ‌ای به امام تراویح (احکام، تذکرات و لطایف)”
صفحہ: 9، مصنف: حسن بن عبدالحمید بخاری ، مترجم: مجموعه موحدین
🛍 صالح فوزان بدعت کو “اچھی بدعت” اور “بری بدعت” میں تقسیم کرنے کے بارے میں کہتا ہے:
🔏 جو شخص بدعت کو دو اقسام (اچھی اور بری) میں تقسیم کرتا ہے، اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ تمام بدعتیں بُری ہیں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
👈🏾 “تمام بدعتیں گمراہی ہیں، اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے” 👉🏾
📗📔 کتاب: المنتقی من فتاوی الفوزان
جلد: 16 صفحہ: 1 فتویٰ نمبر: 94
فیصلہ آپ پر چھوڑا!
اہل سنت کے اکــثر لوگ تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضــرت عـــمر کا یہ عـــمل بدعت حسنہ ہیں اس بدعت میں ثواب ہے حالانکہ اس کے مقابلے میں مســـلم شــریف میں ایک روایت ہے جس میں رســـول خــدا کی حدیــــث ہے جـــس میں موجود ہے ہر بدعت گـــمراھی ہے (کل بدعـة ضلالة) موجود ہے 👇
.
📜 وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ: «صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ»، وَيَقُولُ: بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ، وَالْوُسْطَى، وَيَقُولُ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى ، مُحَمَّدٍ ، ، وَشَرُّ الْأُمُور ،ِ ، مُحْدَثَاتُهَا ، 👈🏻وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ 👉🏻 ثُمَّ يَقُولُ: « أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِه ِ، مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ».
📝 سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانے ہوتے تھے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ زیادہ ہو جاتا گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے کہ صبح شام آیا اور فرماتے تھے: ”میں اور قیامت یوں بھیجا گیا ہوں۔“ اور اپنے کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملاتے اور کہتے: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ» ”اللہ کی حمد کے بعد، جانو کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور ہر چال سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ہے۔ اور سب کاموں سے برے، نئے کام (یعــنی بدعت) ہیں اور ہر بدعــــت گمراہی ہے، پھر فرماتے کہ میں ہر مؤمن کا دوست ہوں اس کی جان سے زیادہ پھر جو مؤمن مر کر مال چھوڑ جائے وہ اس کے گھر والوں کا ہے اور جو قرض یا بچے چھوڑے ان کی پرورش میری طرف سے ہے اور ان کا خرچ مجھ پر ہے
📚 صحيح مسلم ج2 ص592
قارئــــین کرام: آپ نے غور کیا مــسلم شریف کی حدیث میں واضع نقل ہوئا ہر بـــدعت گــــمراہی ہے بلکہ امور ميں سے بدترین امور بدعت ہے ( یـــعنی جو چیز شریعت میں نہ ہو اس کو شریعت کے قوانــین میں داخل کرنا )
اس کے عـــلاوہ ہم آپ کو اہل ســـــنت کے بڑے فقیہ محدث مفتـــــی ابــــن عثیمین کا حوالہ دیتے ہیں اس نے صراحت سے لکھا ہے “بدعــــت کو حســــنہ کہنا رســــول (ص) کے حدیث کی تکذیب اور خــــلاف نص ہے”
.
قارئـــین کرام مفتی محمد ابن صالح العـثیمین سے سائـــل کا ســـوال 👇
يقول: هل هناك بدعة حسنة وبدعة سيئة؟
ترجــــمہ :سائــــل نے امام ابن عثـــمین سے سوال کیا.
❓کیا بدعت کے دو قســــم ہیں ایک بدعت حســــنہ اور ایــــک بدعت سیئة؟
اس کا جواب فضلیة الشیخ امام ابن عثــیـمین اس طرح دیتے ہیں 👇
📜 فأجاب رحمه الله تعالى: أعوذ بالله! أبداً ما فيه بدعة حسنة، وقد قال أعلم الخلق بالشريعة وأفصح الخلق بالنطق وأنصح الخلق للخلق قال: (كل بدعة ضلالة) ولم يستثن شيئاً
📝 ترجـــمہ: فضلیة الشیخ امام ابن عثــیـمین جواب دیتے ہیں اللہ تبارک ســـے پناہ مانگتا ہوں کوئــــی بدعــــت حـــــسنه نہیں ہے. کیوں کے مخلوق خداوندی میں نــــبی اکـــرم (ص) سب سے زیادہ شریعت کو جاننے والے تھے اور وہ ســــب سے زیادہ فصیح النطق تھے جب اس (نـــبی ص) نے فرمایا کل بدعة ضلالة تو اس میں کوئــــی گنجائــــــش نہیں ہے کے ہم کسی کو استثناء کرتے بدعت کو بدعت حســـنہ سے تعــبیر کریں
📚 حـــوالہ: فتاوی نور علی الدرب جلد 1ص512
ایک اور جگہ پر مـــفتی ابن عثـــیـمین سے ســـائل نے سوال کیا
❓عــــلماء کہتے ہیں بدعت کے پانچ اقســـام ہیں کیا یہ ٹھیک ہے آپ کی رائے کیا ہے؟ ســـائل کا ســـوال 👇
❓ ســـوال: تقسيم العلماء الكبار للبدعة إلى خمسة أقسام والرسول الكريم صلى الله عليه وسلم يقول: (كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار) . ما رأيكم في هذا يا فضيلة الشيخ؟
فضیلة الشیخ ابن عثــــیمین کا جواب
📜 كل هذه التقاسيم التي قسمها بعض أهل العلم مخالفة للنص
📝 تـــرجمہ: ابن عثـــیمین کہتے ہیں یہ تــــمام تقــــسیم جو بعض اہل عـــلم نےتقــــسیم بندی کی ہے وہ نص کے خــــلاف ہیں جـــیسے نص رسول موجود ہے صلى الله عليه وسلم يقول: كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار
📚 حـــوالہ : فتاوی نور علی جلد الدرب :جلد 1
مزیـــد عبـارات اسکـــین پیج پر دیــکھ سکــتے ہیں
اس کے عــــلاوہ امام ابن باز سے ســوال کیا گیا
کیا بدعت کے مختلف اقســام ہیں جیسے حـــسنة. ســیئة.
واجـــــب. حــــرام ؟؟؟؟؟
اس کے جواب میں امام ابن باز لکھتے ہیں
✅ یہ تقــــسیم بندی بلکل غـــلط ہے
📜 قال ابن باز ، ثم القـول بأن البدعـــة تـنقــسم إلى حـسنـة وسيئة .وإلى محرمة وواجبة ، قول بلا دليل وقد رد ذلك أهل العلم واليقين وبينوا خطأ هذا التقسيم،
📚 فتاوى نور على الدرب ج1 ص325
قارئــــین کرام: آپ نے غور کیا اہل سنـــت کے علماء اور مفتیان کے نزدیک کوئی بدعت حــــسنہ نہیں ہے 

ہر بدعت ضلالت ہے چاہے اچھی ہو یا بری

جیسا کہ اہل سنت بلکہ اہل حدیث کے عالم زكريا بن غلام قادر پاكستاني نے اپنی مشہور ومعروف کتاب: من أصول الفقه على منهج أهل الحديث میں لکھتے ہیں 👇
📜 ليس في الشرع بدعة حسنة بل كل بدعة هي ضلالة:
📝 یعنی شریعت مقدسہ میں کوئی بدعت حسنہ نہیں ہے بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے
علامہ صاحب آگے لکھتا ہے
📜 وهذا ما فهمه الصحابة فقد قال عبد الله بن عمر: كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة.
📝 لکھتا ہے یہی فھم صحابہ کا ہے ( صحابہ کرام بدعت کو مخلتف معناوں میں استعمال نہ کرتے تھے جیسا کہ آج کل کے ناصبی کہتے ہیں یہاں بدعت سے مراد بدعت لغوی ہے اصطلاحی نہیں) بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ ہر بدعت کو گمراہی سمجھتے تھے،
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتا تھا
📜 قال عبد الله بن عمر: كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة.
📝 ہر بدعت ضلالة ( گمراہی) ہے اگرچہ انسان اس میں اچھائی کیوں نہ دیکھ لیں
📚 حوالہ: من أصول الفقه على منهج أهل الحديث ص195
.
بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کا تصور
.
عربی زبان میں “بدعت” کا مطلب نئی اور بے سابقہ چیز ہوتا ہے۔ شریعت میں قانون سازی صرف اللہ کا اختیار ہے، اور کوئی دوسرا اس میں ترمیم یا اضافہ نہیں کر سکتا۔
مثال کے طور پر:
اگر کوئی اذان میں الفاظ کم یا زیادہ کرے،
نماز کی رکعات میں کمی یا زیادتی کرے،
زکوٰۃ کے نصاب میں رد و بدل کرے،
تو یہ سب بدعت ہوں گی۔ یعنی دین میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی بدعت ہے۔ لیکن اگر کوئی نیا عمل دین سے متعلق نہ ہو، تو وہ بدعت نہیں بلکہ ایک عام ایجاد ہو سکتی ہے، جو جائز یا ناجائز ہو سکتی ہے۔
کیا بدعت کی دو اقسام ہیں؟
فقہاء، چاہے اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع، اکثر بدعت کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
1️⃣ بدعتِ حسنہ (اچھی بدعت)
2️⃣ بدعتِ سیئہ (بری بدعت)
یہ تقسیم شیعہ اور تمام سنی علماء نے قبول کی
❓لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تقسیم شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں؟
اگر بدعت کو لغوی معنی میں لیا جائے (یعنی ہر نئی چیز، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا نہ ہو)، تو یہ دو طرح کی ہو سکتی ہے:
✅ مثبت بدعت: جیسے ایجادات، مثلاً ایئر کنڈیشنر، جو انسان کے فائدے کے لیے ہے۔
❌ منفی بدعت: جیسے جوہری ہتھیار، جو نقصان دہ ہیں۔
لیکن اگر بدعت کو شریعت کے تناظر میں دیکھیں تو شیعہ کے نزدیک بدعت صرف ایک ہی قسم کی ہوتی ہے:
🔴 بدعتِ سیئہ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے، کیونکہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
📜 “کیا اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے، یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو؟” (یونس: 59)
عمر بن خطاب اور بدعتِ حسنہ؟
عمر بن خطاب نے نمازِ تراویح کو جماعت میں شروع کروایا، جبکہ نبی کریمﷺ نے اسے کبھی جماعت میں ادا نہیں کیا اور بعض روایات کے مطابق اس سے منع بھی فرمایا۔ جب عمر نے دیکھا کہ لوگ الگ الگ تراویح پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کر دیا اور کہا:
“یہ ایک اچھی بدعت ہے (بدعة حسنة)”
اسی بنیاد پر بعض اہل سنت علماء یہ دلیل دیتے ہیں کہ بدعتِ حسنہ بھی موجود ہے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے:
1️⃣ اگر نبی کریم ﷺ نے تراویح کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھا، تو کیا وہ اس کی حکمت سے لاعلم تھے؟
2️⃣ کیا عمر بن خطاب کو نبی سے زیادہ دین کا فہم تھا؟
🔸 نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم کے مطابق دین سکھاتے تھے، اور اگر تراویح باجماعت پڑھنا کوئی سنت ہوتی، تو آپ ﷺ خود اس کا حکم دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تقسیم (بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ) صرف عمر کی بدعات کو جائز بنانے کے لیے کی گئی، تاکہ دین میں کیے گئے اضافے کو “اچھی بدعت” کے تحت قبول کر لیا جائے۔
📌 خلاصہ: اگر دین میں کوئی چیز موجود ہو، تو وہ سنت ہے، اور اگر وہ دین میں نہیں تھی اور بعد میں شامل کی گئی، تو وہ بدعتِ سیئہ ہے، نہ کہ بدعتِ حسنہ۔
🔴 بدعت اور دین کی تکمیل 🔴
ابن ماجشون امام مالک سے روایت کرتے ہیں:
📜 “میں نے امام مالک کو یہ کہتے سنا: جو شخص اسلام میں کوئی نئی بدعت ایجاد کرے اور اسے اچھا سمجھے، اس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے اپنی رسالت میں خیانت کی ہے۔”
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
📜 ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ (المائدة: 3)
📃 “آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”
📚 الاعتصام، امام شاطبی، ج1، ص62
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
جو چیز نبی کریم ﷺ کے زمانے میں دین کا حصہ نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔
اگر کوئی یہ کہے کہ بدعتِ حسنہ بھی ہوتی ہے، تو وہ دراصل قرآن کے اس واضح حکم کا انکار کر رہا ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔
نمازِ تراویح کی جماعت کا مسئلہ بھی اسی اصول پر آتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے خود اسے جماعت کے ساتھ فرض نہیں کیا اور بعض روایات کے مطابق اس سے منع بھی کیا، تو پھر عمر بن خطاب کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس کا حکم جاری کریں؟
🔴 عمر بن خطاب اور بدعتِ تراویح 🔴
رسول اللہ ﷺ نے تراویح کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں پڑھا اور نہ ہی صحابہ کو اس کا حکم دیا۔
❌ عمر بن خطاب نے اسے ایک اجتماعی عبادت بنا دیا اور کہا:
“یہ ایک اچھی بدعت ہے (بدعة حسنة)۔”
📌 یہی وہ نکتہ ہے جہاں بدعتِ حسنہ کی گمراہی کا آغاز ہوا۔
💠 امام مالک کے اس قول کا خلاصہ:
1️⃣ جو تراویح کو بدعتِ حسنہ سمجھتا ہے، وہ دین میں نبی کریم ﷺ کی رسالت کو نامکمل قرار دے رہا ہے (نعوذ باللہ)۔
2️⃣ جب اللہ فرما چکا کہ دین مکمل ہو چکا، تو اب اس میں اضافہ کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت ہے۔
3️⃣ جو لوگ عمر بن خطاب کی اس بدعت کی حمایت کرتے ہیں، وہ دراصل دین میں نئے اضافے کو جائز سمجھ رہے ہیں، جو سراسر با/طل اور مرد/ود ہے۔
.
.
.
قارئین کرام: اب وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں تراویح کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، ہم پہلے وہ روایت پیش کرتے ہیں پہر اہل سنت بلکہ اہل حدیث کے عالم سے سوال کرتے ہیں کیا اِس حدیث سے ہم کسي بدعت کو ‼ بدعت حسنہ ‼ کہہ سکتے ہیں؟
پہلےآپ مسلم شریف کی حدیث کو ملاحضہ فرمائیں
📜 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا، بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ
📝 ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اسلام میں اچھی بات نکالے پھر لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو اس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی
📚 حوالہ: صحيح مسلم/كِتَاب الْعِلْمِ
ہم اب اہل سنت کے بڑے عالم زکریا بن غلام قادر سے سوال کرتے ہیں
وہ سوال عربي ميں دیکھ سکتے ہیں کسی سائل نے سوال کیا یہ بطور احتجاج علامہ صاحب سوال کو نقل کرتے ہیں 👇
📜 ويحتج من يقول بالبدعة الحسنة بحديث: “من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة”.
📝 اے علامہ زکریا بن غلام قادر کیا ہم بدعت حسنہ کو اِس حدیث سے ثابت کرسکتے ہیں ؟❓جو مسلم شریف یا اور کتابوں میں موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اسلام میں اچھی بات نکالے پھر لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو اس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا
❌ سوال ختم ❌
علامہ زکریا بن غلام قادر کا جواب شروع ملاحضہ کریں 👇
📜 والجواب:أن هذا الحديث لا حجة فيه،
📝 جواب میں لکھتا ہے یہ حدیث اس مورد میں دلیل نہیں ہے یعنی اس حدیث کے ذریعے آپ بدعت حسنہ کو ثابت نہیں کر سکتے ہیں
📚 حوالہ من أصول الفقه على منهج أهل الحديث ص 196
قارئین کرام آپ نے دیکھا اہل سنت کے منہج مطابق کوئی بدعت حسن نہیں ہےبس فقط اپنے خلیفہ کو بچانے کے واسطے سب بہانے تراشتے ہیں
رسول اللّہﷺ نے فرمایا:
📜 ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جائے گی، جو کوئی بدعت نکالے اس پر اللّہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لع//نت پڑے۔
📚صحیح بخاری کتاب المناسک
📜 عبداللّہ ابن عمر کہتے ہیں ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسکو اچھا(بدعت حسنہ) تصور کریں۔
📚السنہ ابی عبداللہ محمد بن نصر المروزی واسنادہ صحیح
.

✅ اور رسول الله (ص) نے قیام (نفل نماز) پر لوگوں کو جمع نہیں فرمایا تھا۔

مسند احمد کی حدیث
📜 7881 – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ النَّاسَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، وَيَقُولُ: ” مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”. وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى الْقِيَامِ (1)
(1) إسناده صحيح على شرط مسلم
📝 حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: رسول الله (ص) لوگوں کو رمضان کے قیام (نفل نماز) کی ترغیب دیتے تھے اور آپ (ص) فرماتے: “جس نے رمضان کا قیام (نفل نماز) ایمان (کی حالت میں) اور اجر طلب کرتے ہوئے کیا، اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔” اور رسول الله (ص) نے قیام (نفل نماز) پر لوگوں کو جمع نہیں فرمایا تھا۔
💯 محقق، شعیب ارنووط نے “اس حدیث کی سند کو مسلم کی شرط پر صحیح” قرار دیا ہے۔
📚 مسند احمد (عربی)، جلد نمبر 13، صفحہ نمبر 264، حدیث نمبر 7881
.
.
.
ابی بن کعب کے اعتراف کے مطابق نماز تراویح ایک بدعت ہے
.
📜 عمر بن خطاب نے حکم دیا کہ ابی بن کعب لوگوں کو (جماعت کے ساتھ) نماز پڑھائیں۔ ابی بن کعب نے کہا: “یہ (نماز) ایسی چیز ہے جو پہلے موجود نہیں تھی۔” عمر نے جواب دیا: “میں جانتا ہوں!”
📚 الاحادیث المختارة، ج 3، ص 367، حدیث 1161، تحقیق: ڈاکٹر عبدالملک بن عبداللہ بن دہیش
❓ اہل سنت کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے تراویح پڑھی تھی، تو سوال یہ ہے: اگر یہ نماز رسول اللہؐ کے زمانے میں تھی، تو ابی بن کعب نے واضح الفاظ میں کیوں کہا کہ یہ نماز اس وقت نہیں تھی اور یہ ایک بدعت ہے؟
❓ اگر یہ نماز رسول اللہؐ کے زمانے میں رائج تھی اور خود نبیؐ نے اسے پڑھا تھا، تو عمر نے صحیح بخاری میں کیوں کہا: “نعم البدعة” (یہ کتنی اچھی بدعت ہے)؟
❓ کیا عمر کو سنت رسولؐ کا علم نہیں تھا؟ کیا وہ سنت نبویؐ سے جاہل تھے؟ یا پھر عمر بن خطاب نے جھوٹ بولا؟
❓ وہ نماز جو رسول اللہؐ کے زمانے میں تھی اور جسے خود نبیؐ نے پڑھا، وہ بدعت کیسے ہو سکتی ہے؟
❓ تو کیا تم لوگ جھوٹ بول رہے ہو کہ سنت رسول ﷺ تھی؟ اور جبکہ یہ الفاظ نعم البدعة خود ثابت کرتے ہیں کہ تراویح دراصل عمر کی ایجاد کردہ بدعت ہے
❓ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر سنت سے جاہل تھے ؟
❓ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز بیک وقت سنت بھی ہو اور بدعت بھی؟**

رسول اللہ ص کے زمانے میں تراویح نہیں پڑھی جاتی تھی

📜 صحیح بخاری میں یہ بات ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بارے میں کہا کہ یہ اچھی بدعت ہے اور سونا بہتر ہے اور تراویح (جماعت کے ساتھ) نہ پڑھو۔
واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تراویح نہیں پڑھی جاتی تھی۔
📚 المصابیح فی صلاۃ التراویح از امام السیوطی، ص 22,23
🔴 رسول خدا ص نے کبھی بھی نماز تراویح نہیں پڑھی، حتیٰ کہ انکی حیات مبارک میں ان کے اصحاب نے بھی نماز تراویح نہیں پڑھی۔ 🔴
قاضی ابوالحسن علی بن الحسین بن محمد السغدی (متوفی 461 ہجری)، جو کہ حنفی مسلک کے علما میں سے ہیں اور شمس الأئمہ سرخسی کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، نماز تراویح کے بارے میں کہتے ہیں:
📜 والسادس صلاة التراويح وانها عشرون ركعة في كل ليلة من شهر رمضان في كل ركعتين يسلم وكان رسول الله صلی الله علیه وسلم يصليها في حياته وحده وكذلك اصحابه حتى كان زمان عمر فجعل للناس امامين في شهر رمضان
📃 نماز تراویح: یہ نماز ہر رات بیس رکعات پر مشتمل ہے، جس میں ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ میں اسے تنہا (فرادا) پڑھتے تھے، اور اسی طرح ان کے اصحاب بھی (فرادا) پڑھتے رہے، یہاں تک کہ عمر کے زمانے میں، انہوں نے رمضان میں اس نماز کے لیے دو امام مقرر کر دیے۔
📚 نام کتاب : النتف في الفتاوى نویسنده : علي بن الحسين بن محمد السغدي أبو الحسن جلد : 1 صفحه : 106
.
.
.
سرخسی شافعی نے کتاب “المبسوط” میں تراویح پر گفتگو کرتے ہوئے، رکعات کی تعداد کا ذکر کیا اور امام شافعی کا قول نقل کرنے کے بعد ایک دلچسپ بات کہی:
📜 “پس رمضان میں نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کا قول، پوری امت کے خلاف ہے، اور یہ باطل ہے۔”
📚 المبسوط، جلد 2، صفحہ 144 ناشر: دار المعرفہ – بیروت
❓ اب اس حقیقت کے پیش نظر، کیا اب بھی تراویح کو سنتِ رسول ﷺ کہا جا سکتا ہے؟
.
.
.
🔴 اہل سنت کے علماء کا اعتراف:
✅ نمازِ تراویح سنتِ رسول ﷺ نہیں، بلکہ سنتِ صحابہ ہے!
امام کسائی حنفی (م 587ھ) لکھتے ہیں:
📜 “تراویح سنت ہے، مگر یہ سنتِ رسول ﷺ نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اسے ہمیشہ نہیں پڑھا، بلکہ صرف چند راتوں میں پڑھا اور پھر چھوڑ دیا۔ لیکن صحابہ نے اسے جاری رکھا، اس لیے یہ سنتِ صحابہ بنی!”
📚 بدائع الصنائع، ج 1، ص 288
online link
سوال:
❓ کیا دین اسلام میں سنت بنانے کا اختیار صحابہ کو تھا؟
❓ کیا نبی اکرم ﷺ کے عمل کو چھوڑ کر صحابہ کی بدعت کو اپنانا جائز ہے؟
💡 نتیجہ:
✅ یہ خود اہل سنت کے علماء کا اعتراف ہے کہ تراویح سنتِ رسول ﷺ نہیں بلکہ سنتِ صحابی ہے!
✅ لہٰذا، جو تراویح کو “سنتِ مؤکدہ” یا “سنتِ رسول ﷺ” کہتا ہے، وہ خود اپنے علماء کے بیانات کی مخالفت کر رہا ہے۔
🔴 پس، جو لوگ سنتِ رسول ﷺ کے بجائے سنتِ صحابی پر عمل کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن اس کا جواب دیں گے!
.
..
.
1⃣ راوی کہتا ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ
👈کیا میں امام کے پیچھے رمضان میں نماز پڑھوں؟ { یعنی کیا میں جماعت کے ساتھ پڑھوں۔ یعنی تراویح)
👈 عبداللہ بن عمر نے کہا کہ
کیا تم قرآن پڑھ لیتے ہو؟
👈 پوچھنے والے نے جواب دیا کہ ہاں۔
👈 عبداللہ بن عمر نے کہا کہ
کیا تم *گد ھے* کی طرح خاموش رہو گے ؟
*جاو گھر میں پڑھو*۔
📚اہل سنت کی کتاب۔ مصنف عبدالرزاق جلد 4 ص 264
🔴 *نوٹ*: حضرت عمر کی اس بدعت پر عمل کرنے والے سنی ذرا سوچیں کہ عمر کی اس بدعت سے لوگوں کو روکنے والا ان کا اپنا بیٹا ہے❗
2⃣ ثانیاً، چونکہ عبارت “أَفَتُنْصِتُ كَأَنَّكَ حِمَارٌ؟” (کیا تم گدھے کی طرح خاموش رہو گے؟) مخالفین کے لیے تلخ اور سخت تھی، اس لیے یہ عبارت “شرح معانی الآثار” طحاوی کی روایت سے حذف کر دی گئی۔
حدیث کا متن:
ابو بکرہ نے روایت کی، کہا: ہم سے مؤمل نے بیان کیا، کہا: ہم سے سفیان نے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے روایت کی کہ
ایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا:
“کیا میں رمضان میں امام کے پیچھے نماز پڑھوں؟”
انہوں نے جواب دیا:
“کیا تم قرآن پڑھنا جانتے ہو؟”
اس نے کہا: “ہاں”
(……✂️✂️✂️ حذف شدہ عبارت ……)
پھر ابن عمر نے کہا: “اپنے گھر میں نماز پڑھو”
(شرح معانی الآثار، ج1، ص351، ط عالم الکتب)
یہ معاملہ اتنا واضح تھا کہ اہل سنت کو روایت میں تحریف پر مجبور ہونا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ابن عمر کے بیان میں کوئی اشکال نہیں تھا، تو روایت میں تحریف کیوں کی گئی؟
لہٰذا، یہ تحریف اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عمر نے تراویح پڑھنے والوں کو گدھے سے تشبیہ دی تھی، نہ کہ صرف یہ کہا تھا کہ جو قرآن پڑھنا جانتا ہو، وہ اکیلے نماز پڑھے۔
یہی بات ثابت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تراویح جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی، کیونکہ خود ابن عمر حافظ قرآن تھے۔
اب ہمت ہے تو تراویح پڑھ کر صحابی کے قول کا انکار کر کے دکھاؤ!
اگر یہ تراویح اتنی عظیم عبادت اور نعمت ہے تع یقینا عبداللہ بن عمر قابل مذمت ہیں اس کو ترک کرنے کی وجہ سے اور اسکو انجام دینے والے کو گد ھا کہنا کیا یہ ط ع ن نہیں دوسرے اصحاب پر؟؟
نافع کہتے ہیں: کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کے مہینے میں جماعت کے امام کے پیچھے نماز (تراویح) نہیں پڑھتے تھے۔
فَمِنْ ذَلِکَ مَا حَدَّثَنَا فَهْدٌ، قَالَ: ثنا أَبُو نُعَیْمٍ، قَالَ: ثنا سُفْیَانُ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ، عَنْ، نَافِرِ عَنْ اللهِ اَنْهُمَا أَنَّهُ کَانَ لَا یُصَلِّی خَلْفَ الْإِمَامِ فِی رَمَضَانَ۔
📚 شرح معانی الاثار ،جلد 1،کتاب الصلاۃ، نمبر 2060، صفحہ 351

** عترتِ رسول (ص) کے نزدیک نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے **

** عترتِ رسول (ص) کے نزدیک نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے **
اہل سنت کے قاضی شوکانی لکھتے ہیں :
📜 ” العترة ان التجمع في التراويح بدعة “
📝 العترة (یعنی اهل بیت رسول ؑ) کے نزدیک (نماز) تراویح جماعت کے ساتھ پڑهنا بدعت ہے ۔
مزید لکھتے ہیں :
📜 مالك و ابو يوسف وبعض الشافعية وغيرهم الافضل فرادى في البيت لقول رسول الله افضل الصلاة المرء في بيتة الا المكتوبة ۔۔۔۔
📝 امام مالك ، ابو یوسف اور بعض اصحاب شافعی کا یہ نظریہ ہے کہ نماز تراویح کو بھی دوسرے نوافل کی طرح گهر میں تنہا پڑهنا (بغیر جماعت کے) کے افضل ہے کیونکہ رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل وہی نماز ہے جو اپنی گھروں میں ادا کی جائے ۔
📚 اسم الکتاب : نیل الاوطار
مصنف : محمد بن علي شوکاني
الجزء : الخامس ، الصفحة : ١٧٢،١٧٣
✅ فقہ میں شوکانی کے اقوال کی حجیت کے بارے میں
البانی نے اپنی کتاب سلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں شوکانی کو “امام” کا لقب دیا ہے، ان کے قول کو معیار قرار دیا ہے، اور انہیں سلفی علما میں شمار کیا ہے۔ نیز، ان کے اقوال کی حجیت کو احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، اور ابن کثیر کے برابر قرار دیا ہے:
🔷 “لیکن وہ (یعنی ایک شخص) اپنے علم سے مغرور اور اپنی ذات پر نازاں ہے، اور سلف کے ان ائمہ کو کوئی حیثیت نہیں دیتا جن کی رائے اس کے نظریے کے خلاف ہے، جیسے امام احمد، ابن تیمیہ، ابن قیم، طبری، ابن کثیر، قرطبی، اور امام شوکانی۔”
📚 السلسلة الصحیحة، ج 6، ص 999
💠 عالم کے اقوال کے قبول ہونے کے بارے میں
اسی طرح، امام ذہبی تصریح کرتے ہیں کہ کسی عالم کی رائے اس کے مخصوص فن میں حجت ہوتی ہے:
🔹 “بہت سے ائمہ ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایک فن میں ماہر ہوتے ہیں، لیکن دوسرے علوم میں کمزور ہوتے ہیں۔ مثلاً:
سیبویہ نحو کے امام تھے، مگر حدیث نہیں جانتے تھے۔
وکیع حدیث کے امام تھے، مگر عربی زبان پر عبور نہ تھا۔
ابو نواس شعر میں ماہر تھے، مگر دوسرے علوم میں نہیں۔
عبد الرحمن بن مہدی حدیث میں امام تھے، مگر طب کا علم نہ رکھتے تھے۔
محمد بن حسن فقیہ تھے، مگر قراءت سے ناواقف تھے۔
حفص قراءت کے امام تھے، مگر حدیث میں ضعیف تھے۔
👈 ہر جنگ کے لیے ایک مخصوص ماہر کی ضرورت ہوتی ہے!👉
📚 تذکرة الحفاظ، ج 3، ص 1031
📝 اور معلم یمانی تصریح کرتا ہے کہ تصدیق، تکذیب پر مقدم ہوتی ہے:
🔸 “تصدیق مبہم تکذیب پر مقدم ہوتی ہے۔”
📚 التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الاباطیل، ج 2، ص 561
♦️ جب علامہ شوکانی تصدیق کرتے ہیں کہ اہلِ بیتؑ نے تراویح نہیں پڑھی، تو ان کا کلام خود اہلِ سنت کے اصولوں کے مطابق حجت ہے۔ لہٰذا، آپ لوگوں کے اعتراضات اور احتمالات کی کوئی حیثیت نہیں۔
✅ آپ کے اپنے اصول کے مطابق، اقرار سب سے مضبوط دلیل ہے!
قفاری، جو ایک وهابی عالم ہے، کہتا ہے:
🌀 “یہ ان (شیعوں) کا اعتراف ہے، جو باطنی تاویلات کے ماہر ہیں، کہ قرآن میں اس بدعت (تراویح) کا ذکر نہیں۔ اور یہی اعتراف ان کے دعوے کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔
👈 اقرار سب سے بڑی دلیل ہے، اور وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھروں کو گرا رہے ہیں!”👉
📚 أصول مذهب الشيعة الإمامية الإثني عشرية، ناصر بن عبد الله بن علی القفاری، ج 2، ص 458
🔰 لہٰذا، چونکہ شوکانی نے اہلِ سنت کے اندر تراویح کے فرادیٰ پڑھنے پر اجماع نقل کیا اور اسے رد نہیں کیا، تو یہ اس مسئلے کی شہرت اور تصدیق کی دلیل ہے۔
📌 نتیجہ:
🔹 اہلِ سنت کے علما کے مطابق، شوکانی کے اقوال ان کے لیے حجت ہیں۔
🔹 یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ اہلِ سنت کے اندر اختلافات میں، کئی علما نے شوکانی کے قول کو ترجیح دی ہے۔
🔹 اب کچھ ناتجربہ کار مولوی بے شرمی کے ساتھ اہلِ سنت کے اپنے علما کے اقوال کو رد کر رہے ہیں!
⁉️ سوال یہ ہے کہ اگر اہلِ سنت کے علما نے اجماع کیا ہے کہ رمضان کے نوافل فرادیٰ پڑھنے چاہئیں اور یہ کہ اہلِ بیتؑ تراویح کو بدعت سمجھتے تھے، تو پھر تم “جماعتِ عمری” اس اجماع پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
⁉️ اگر تم اہلِ بیتؑ کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، تو ان کے عمل کے خلاف تراویح کیوں پڑھتے ہو؟
⁉️ جبکہ نہ رسول اللہﷺ، نہ اہلِ بیتؑ، نہ خلفا میں سے کسی نے تراویح پڑھی، تو تم یہ بدعت کیوں اپنائے ہوئے ہو؟

نماز تراویح سِرے سے کوئی نماز ہی نہیں ہے بلکہ نماز تہجد کا دوسرا نام نماز تراویح ہے

.

اہل سنت مولانا انور شاہ کاشمیری صاحب ”العرف الشذی” شرح ترمذی میں تحریر فرماتے ہیں:
📜 لَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیمِ أَنَّ تَرَاوِیحَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکَعَاتٍ، وَلَمْ یَثْبُتْ فِي رِوَایَۃٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ أَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ صَلَّی التَّرَاوِیحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِي رَمَضَانَ الخ ۔
📝 ” اس بات کومانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی اکرمﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں اور کسی ایک بھی روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہو۔”
📚 العرف الشذی، باب ماجاء في قیام شہر رمضان، جلد 2 ص 208
👈🏼 مطلب دونوں ایک ہی چیز ہے!
.
.
.
کیا تراویح مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟
.
مفسرین عمریہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
1️⃣ “فصلوا أيها الناس في بيوتكم” (اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو)
📜 یعنی نوافل، جن میں جماعت مشروع نہیں، اور وہ نمازیں جو مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں، ان کو گھروں میں پڑھنا افضل ہے۔
2️⃣ “فإن أفضل صلاة المرء” (بندے کے لیے سب سے افضل نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے)
📜 یہ حکم تمام نفل اور سنت نمازوں کے لیے عام ہے، سوائے ان نمازوں کے جو اسلام کی شعائر میں شامل ہیں، جیسے:
نماز عید
نماز کسوف (گرہن کی نماز)
نماز استسقاء (بارش کی نماز)
📚 مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ؛ مصنف: عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؛ جلد: 4، صفحہ: 313
مزید لکھتے ہیں:
📜 “قلت: والحديث يدل على أن صلاة التراويح في البيت أفضل”
📃 (میں کہتا ہوں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تراویح کی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے)
📜 “فإذا كان صلاة رمضان في البيت أفضل منها في مسجده – صلى الله عليه وسلم”
📃 (جب رمضان کی نماز، نبی ﷺ کی مسجد میں پڑھنے سے زیادہ افضل گھر میں ہے، تو دیگر مساجد میں پڑھنے کا کیا حکم ہوگا؟)
📜 “وقد ذهب كثير من العلماء إلى أن صلاة رمضان أي التراويح في المسجد أفضل، وهذا يخالف هذا الحديث”
📃 (بہت سے علماء نے کہا کہ رمضان کی نماز یعنی تراویح مسجد میں افضل ہے، لیکن یہ حدیث کے خلاف ہے)
📚 مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح؛ مصنف: عبید اللہ رحمانی مبارکپوری؛ جلد: 4، صفحہ: 314
نتیجہ:
یہ حدیث واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ تراویح کی نماز مسجد میں پڑھنے کے بجائے گھر میں پڑھنا افضل ہے۔
بعض علماء کا یہ کہنا کہ تراویح مسجد میں افضل ہے، حدیث کے خلاف ہے۔
۔
اہل سنت محدث لکھتے ہیں کہ
📜 اگر تم کہو کہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تراویح انفرادی طور پر پڑھی جانی چاہیے، نہ کہ جماعت کے ساتھ، تو میں کہوں گا کہ امام مالک کا یہی قول ہے، لیکن تین اماموں (ابو حنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل) کا کہنا ہے کہ جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے کیونکہ یہ 👈🏼 عمر بن خطاب کا فعل ہے۔
📚 “النور الساری من فیض صحیح الامام البخاری” ج 2 ص 539
🖌 تجزیہ:
📜✏️ اہل سنت کے دو مفسرین کے کلام سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے:
اولاً، شرعاً نافلہ نماز مسجد میں نہیں پڑھنی چاہیے۔
ثانیاً، رسول اللہ کے عمومی حکم کے مطابق تمام نفل نمازیں، بشمول تراویح، گھر میں پڑھنی چاہئیں۔
ثالثاً، مسجد میں تراویح پڑھنا رسول اللہ کی ہدایت اور سنت سے متصادم ہے۔
رابعاً، تراویح انفرادی طور پر پڑھی جانی چاہیے، نہ کہ جماعت کے ساتھ۔
خامساً، جماعت کے ساتھ پڑھنا عمر بن خطاب کی سنت ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔
📖 نتیجہ:
📝 لہٰذا، یہ واضح ہو گیا کہ مسجد میں اور جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا رسول اللہ کی سنت نہیں ہے بلکہ یہ عمر کی سنت اور عمل ہے، اور جیسے کہ خود عمر نے کہا تھا، یہ عمل بدعت ہے۔
❓⁉️ عمری جماعت، کیا تم نہیں کہتے کہ تم رسول اللہ کی سنت پر عمل پیرا ہو؟ تو پھر کیوں عمر کی سنت پر عمل کر رہے ہو اور رسول اللہ کی سنت کے خلاف جا رہے ہو؟
.
.
.
❓ کیا آپ جانتے ہیں کہ عمر بن خطاب، عثمان اور عمر کے بیٹے نے کبھی نماز تراویح نہیں پڑھی؟
مالکی فقہ کی کتابوں میں، مالک بن انس نے المدونة الكبرى میں تصریح کی ہے کہ عمر اور عثمان نے کبھی تراویح کی نماز نہیں پڑھی:
📜 یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ان سے امیر کے قاری کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے جواب دیا: ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں پہنچی کہ عمر اور عثمان رمضان میں لوگوں کے ساتھ مسجد میں امام کے پیچھے کھڑے ہوئے ہوں۔
📚 المدونة الكبرى رواية سحنون (ط. الأوقاف السعودية) – مالک بن انس، جلد 1، صفحہ 224
📜 حضرت عمر نماز تراویح کو باجماعت پڑھنے میں مواظبت نہیں فرماتے تھے
📚 کتاب اہلسنت : رکعت تراویح

نماز تراويح کــي حقيقت اہل سنـــت کے آئـــمه ومحدثــــین کی نــــظر میں ؟

تحریر: سیف نجفی
قارئــــین کرام: آج ہـم اہل ســــنت کے ایک مایہ ناز فـقیہ و محدث کی زبانی تراویـــح کی حقیقت بتاتے ہیں
امام بدر الدیـــــنی العــــینی تراویح نــــماز حقیقت کے بارے میں لکھتا ہے
روى الطحاوي عن نافع ” عن ابن عمر أنه كان لا يصلي خلف الإمام في شهر رمضان ” وأخرج ابـن أبي شيبة أيضا في مصنفه ” عن ابن عمر أنه كان لا يقوم مع الناس في شهر رمضان قال وكان القاسم وسالم لا يقومان مع الناس
ترجمہ: طحاوی نے نافع سے اور نافع نے عبداللہ ابن عمــر سے روایت کی ہے وہ امام کے پـیچھے نماز تراویح نہیں پـڑھتے تھے اس طــرح مصنف ابن شیـــبہ نے اپنی کتاب (المصنف )میں بھی فرمایا عــــبد اللہ بن عـــــمر لوگــوں کـے ساتھ نماز تراویح مل کر نہیں پڑھتے تھے (یعنی جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے) اس طرح امام قــاسم اور سالم بھی لوگوں کے ساتھ نماز تروایح نہیں پڑھتے تھے ( یــعنی جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے)
امام عـــینی اس سے بھی مزید آگے لکھــتے ہیں
وذهب مالك والشافعي وربيعة إلى أن صلاته في بيته أفضل من صلاته مع الإمام وهو قول إبراهيم والحسن البصري والأسود وعلقمة وقال أبو عمر اختلفوا في الأفضل من القيام مع الناس أو الانفراد في شهر رمضان فقال مالك والشافعي صلاة المنفرد في بيته أفضل وقال مالك وكان ربيعة وغير واحد من علمائنا ينصرفون ولا يقومون مع الناس وقال مالك
ترجـمہ: امام عینی لکھتا ہے. امام شافعی ، امام مالــک، امام ربیعه بھی اس طرف گئے یعـــنی نماز تـراویح کو فرادی پڑھنا افضل سمجھتے تھے مسجد میں پڑھنے سے
یہ قول ابراھـــیم. حــسن البصری،اسود علقمہ سے نقل کیا ہے اور اخـتلاف ہے نمـاز تراویح گھر میں پڑھـنا افضل ہے یا مســجد میـں جـماعت کے ساتھ لیکن امــام مالـــک امام شافعی اس کے عــلاوہ کافی علماء اس طـرف گئے نماز (نافلہ فرادی) گھر میں پڑھنا افضل ہے مسجد میں جماعــت کے ساتھ پڑھنے سے
امـــام بدر الـــدین العــــینی آگے فرماتے ہیں
أنا أفعل ذلك وما قام رسول الله – صلى الله عليه وسلم إلا في بيته
ترجمہ امام عـــینی کہتا ہے
میں خـــود رمضان المبارک کے اس بابرکت صلات النافلہ کو گھر میں پڑھنا افضل سمجھتا ہوں، مسجد میں جماعـــت کے ساتھ پڑھنے سے.
اس کے بارے امام بدر الدینی عیـــنی دلیل دیتے فرماتے ہیں
ما قام رسول الله – صلى الله عليه وسلم إلا في بيته
ترجمہ: وہ اس لئے کیوں کے نـــبی اکـــرم (ص) خود یہ نماز گھر میں فرادی پڑھتے تھے ( یعنی میں تاسی رسول ص کرتے گھر میں پڑھنا افضل سمجھتا ہوں چہ جائیکہ حضرت عــمر کی سنت پر عمل کروں )
امام بدر الدین عـــینی لکھتا ہے اس پر فقط میں عــمل پیرا نہیں ہوں بلکہ بزرگ محدثـــین بھی اس طرف مائل ہوئے جیسے امام طحاوی کیوں کے اس نے روایت کی ہے ابن عــمر سے . امام سالم سے. امام قاســم سے .امام نافع. سے یہ سب بزرگان جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے
اور امام ترمذی نے امام شافعی سے نقل کیا انسان اس نماز کو فـــرادی پڑھے جب کہ وہ پڑہ ســـکتا ہو
تحـــریر: ســــیف نـــجفی

اسلامی پرینک

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدعت سے سختی سے منع فرمایا، مسلم نے جناب جابر بن عبداللہ علیہما الرحمہ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
📜 ﻭﺷﺮ ﺍﻻﻣﻮﺭ ﻣﺤﺪﺛﺎﺗﻬﺎ، ﻭﻛﻞ ﺑﺪﻋﺔ ﺿﻼﻟﺔ
📝 ﺍﻭﺭ (دین میں ) ﺳﺐ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺮﮮ، ﻧﺌﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﮐﺎﻡ (بدعت)ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ہے
📚 حوالہ: [صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺍﻟْﺠُﻤُﻌَﺔِ ،ﺑﺎﺏ ﺗَﺨْﻔِﻴﻒِ ﺍﻟﺼَّﻼَﺓِ ﻭَﺍﻟْﺨُﻄْﺒَﺔِ ،حدیث نمبر ٢٠٠٥]
اور نسائی نے بھی با سند صحیح روایت کی ہے
📜 ﻭﻛﻞ ﻣﺤﺪﺛﺔ ﺑﺪﻋﺔ ﻭﻛﻞ ﺑﺪﻋﺔ ﺿﻼﻟﺔ ﻭﻛﻞ ﺿﻼﻟﺔ ﻓﻲ ﺍﻟﻨﺎﺭ ،
📝 ﺍﻭﺭ (دین میں ) ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ ﻧﺌﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻧﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺑﺪﻋﺖ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ ۔
📚 حوالہ ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻌﻴﺪﻳﻦ ،ﺑَﺎﺏُ : ﻛَﻴْﻒَ ﺍﻟْﺨُﻄْﺒَﺔُ ، حدیث نمبر ١٥٧٩]
اور اگر بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم مدینہ منورہ میں انجام دی جائے تو اس کا شدید گناہ ہے،
بخاری نے انس بن مالک و امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام سے روایت کی ہے
📜 ﻋﻦ ﺍﻧﺲ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ “: ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﺣﺮﻡ ﻣﻦ ﻛﺬﺍ ﺇﻟﻰ ﻛﺬﺍ، ﻻ ﻳﻘﻄﻊ ﺷﺠﺮﻫﺎ، ﻭﻻ ﻳﺤﺪﺙ ﻓﻴﻬﺎ ﺣﺪﺙ ﻣﻦ ﺍﺣﺪﺙ ﺣﺪﺛﺎ، ﻓﻌﻠﻴﻪ ﻟﻌﻨﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﺍﺟﻤﻌﻴﻦ
📝 ﺍﻧﺲ سے روایت ہے ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺣﺮﻡ ﮨﮯ ﻓﻼﮞ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﻓﻼﮞ ﺟﮕﮧ ﺗﮏ ‏( ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺒﻞ ﻋﯿﺮ ﺳﮯ ﺛﻮﺭ ﺗﮏ ‏) ﺍﺱ ﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮧ ﮐﺎﭨﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ۔
📚 حوالہ [ صحیح بخاری حدیث نمبر ١٨٦٧]
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
📜 ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ، ﺣﺮﻡ ﻣﺎ ﺑﻴﻦ ﻋﺎﺋﺮ ﺇﻟﻰ ﻛﺬﺍ ﻣﻦ ﺍﺣﺪﺙ ﻓﻴﻬﺎ ﺣﺪﺛﺎ، ﺍﻭ ﺁﻭﻯ ﻣﺤﺪﺛﺎ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﻟﻌﻨﺔ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺍﻟﻤﻼﺋﻜﺔ، ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﺍﺟﻤﻌﻴﻦ، ﻻ ﻳﻘﺒﻞ ﻣﻨﻪ ﺻﺮﻑ، ﻭﻻ ﻋﺪﻝ،
📝 ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻋﺎﺋﺮ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻓﻼﮞ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﮏ ﺣﺮﻡ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﻮ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻼﺋﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ، ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻧﻔﻞ
📚 حوالہ: [صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﻓَﻀَﺎﺋِﻞِ ﺍﻟْﻤَﺪِﻳﻨَﺔِ ، ﺑَﺎﺏُ ﺣَﺮَﻡِ ﺍﻟْﻤَﺪِﻳﻨَﺔِ، حدیث نمبر ١٨٧٠]
.
مگر ان تمام تحذيرات کے بعد بھی عمر نے کچھ توجہ نہیں کی اور اللہ سبحانہ تعالی کے مبارک مہینہ میں بدعت انجام دی
.
نوافل رمضان المبارک کے متعلق بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں زید بن ثابت سے روایات نقل کی ہیں
📜 ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺗﺨﺬ ﺣﺠﺮﺓ ﻗﺎﻝ ﺣﺴﺒﺖ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺣﺼﻴﺮ ﻓﻲ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻓﺼﻠﻰ ﻓﻴﻬﺎ ﻟﻴﺎﻟﻲ ﻓﺼﻠﻰ ﺑﺼﻼﺗﻪ ﻧﺎﺱ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﻓﻠﻤﺎ ﻋﻠﻢ ﺑﻬﻢ ﺟﻌﻞ ﻳﻘﻌﺪ ﻓﺨﺮﺝ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻓﻘﺎﻝ ﻗﺪ ﻋﺮﻓﺖ ﺍﻟﺬﻱ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﻦ ﺻﻨﻴﻌﻜﻢ ﻓﺼﻠﻮﺍ ﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻓﻲ ﺑﻴﻮﺗﻜﻢ ﻓﺈﻥ ﺃﻓﻀﻞ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ
📝 ﺯﯾﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ سے روایت ہے کہ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺠﺮﮦ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﯾﺎ ﺑﺴﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﯿﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺑﻮﺭﺋﯿﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ۔ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻗﺘﺪﺍﺀ ﮐﯽ۔ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﺭﮨﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ‏( ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﺭﮐﮭﯽ ‏) ﭘﮭﺮ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺭﮨﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ۔ ﻣﮕﺮ ﻓﺮﺽ ﻧﻤﺎﺯ
📚 حوالہ: [ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏،ﺃﺑﻮﺍﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻭﺍﻹﻣﺎﻣﺔ ﺑﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻠﻴﻞ حدیث نمبر ٧٣١]
.
📜 ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ، ﻗﺎﻝ : ﺍﺣﺘﺠﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺠﻴﺮﺓ ﺑﺨﺼﻔﺔ ﺍﻭ ﺣﺼﻴﺮ، ﻓﺨﺮﺝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻴﻬﺎ، ﻗﺎﻝ : ﻓﺘﺘﺒﻊ ﺇﻟﻴﻪ ﺭﺟﺎﻝ ﻭﺟﺎﺀﻭﺍ ﻳﺼﻠﻮﻥ ﺑﺼﻼﺗﻪ، ﻗﺎﻝ : ﺛﻢ ﺟﺎﺀﻭﺍ ﻟﻴﻠﺔ، ﻓﺤﻀﺮﻭﺍ ﻭﺍﺑﻄﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻨﻬﻢ، ﻗﺎﻝ : ﻓﻠﻢ ﻳﺨﺮﺝ ﺇﻟﻴﻬﻢ، ﻓﺮﻓﻌﻮﺍ ﺍﺻﻮﺍﺗﻬﻢ ﻭﺣﺼﺒﻮﺍ ﺍﻟﺒﺎﺏ، ﻓﺨﺮﺝ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻐﻀﺒﺎ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : ” ﻣﺎ ﺯﺍﻝ ﺑﻜﻢ ﺻﻨﻴﻌﻜﻢ، ﺣﺘﻰ ﻇﻨﻨﺖ ﺍﻧﻪ ﺳﻴﻜﺘﺐ ﻋﻠﻴﻜﻢ، ﻓﻌﻠﻴﻜﻢ ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ ﻓﻲ ﺑﻴﻮﺗﻜﻢ، ﻓﺈﻥ ﺧﻴﺮ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ، ﺇﻻ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺍﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ
📝 ﺯﯾﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺑﻮﺭﯾﺌﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺠﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﻗﺘﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﻟﻮﮒ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﺮ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﭘﺮ ﮐﻨﮑﺮﯾﺎﮞ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﺼﮧ کی حالت میں ﻧﮑﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ” ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﻮ ﮔﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻮ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﺽ ﮐﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ “ ‏
📚 حوالہ [ : صحیح مسلم حدیث نمبر ١٨٢٥]
📜 ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ، ﺍﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺍﺗﺨﺬ ﺣﺠﺮﺓ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻣﻦ ﺣﺼﻴﺮ، ﻓﺼﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻴﻬﺎ ﻟﻴﺎﻟﻲ، ﺣﺘﻰ ﺍﺟﺘﻤﻊ ﺇﻟﻴﻪ ﻧﺎﺱ، ﻓﺬﻛﺮ ﻧﺤﻮﻩ، ﻭﺯﺍﺩ ﻓﻴﻪ، ﻭﻟﻮ ﻛﺘﺐ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﻣﺎ ﻗﻤﺘﻢ ﺑﻪ .
📝 ﺯﯾﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺑﻮﺭﺋﯿﮯ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﺠﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺭﺍﺕ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺫﮐﺮ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﺎﺑﻖ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ” ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻢ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ کے لئے کھڑے نہوتے ۔
📚 حوالہ:[صحیح مسلم، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺻَﻠَﺎﺓِ ﺍﻟْﻤُﺴَﺎﻓِﺮِﻳﻦَ ﻭَﻗَﺼْﺮِﻫَﺎ ،ﺑﺎﺏ ﺍﺳْﺘِﺤْﺒَﺎﺏِ ﺻَﻼَﺓِ ﺍﻟﻨَّﺎﻓِﻠَﺔِ ﻓِﻲ ﺑَﻴْﺘِﻪِ ﻭَﺟَﻮَﺍﺯِﻫَﺎ ﻓِﻲ ﺍﻟْﻤَﺴْﺠِﺪِ ، حدیث نمبر ١٨٢٦]
.
~روایات سے اخذ ہونے والے نتائج ~
۞١۞ بغیر اجازت کے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے لگے
۞٢۞جب آپ گھر سے باہر تشریف نہیں لائے تو کمال بیشرمی کا ثبوت دیتے دروازے پر کنکریاں مارنے لگے
۞٣۞ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کا یہ عمل اتنا ناگوار گزرا کہ ان پر غضبناک ہوئے
۞٤۞ صحابہ کی دلی کیفیت بھی آشکار کر دی کہ اگر تم پر یہ نماز واجب کر دی جائے تو تم ادا نہیں کروگے
۞٥۞ واجب نماز کے سوا نوافل گھر میں ادا کرنی چاہیے
.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو مسجد میں نوافل با جماعت ادا کرنے سے روکا
مگر کچھ ہی دنوں میں صحابہ نے سب کچھ بھلا دیا اور دوبارہ “وہی بدعت” انجام دینی شروع کر دی
.
بخاری نے اپنی صحیح میں عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت نقل کی ہے
📜 ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻘﺎﺭﻱ ، ﺍﻧﻪ ﻗﺎﻝ “: ﺧﺮﺟﺖ ﻣﻊ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻟﻴﻠﺔ ﻓﻲ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ، ﻓﺈﺫﺍ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺍﻭﺯﺍﻉ ﻣﺘﻔﺮﻗﻮﻥ، ﻳﺼﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻟﻨﻔﺴﻪ، ﻭﻳﺼﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻓﻴﺼﻠﻲ ﺑﺼﻼﺗﻪ ﺍﻟﺮﻫﻂ، ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻤﺮ : ﺇﻧﻲ ﺍﺭﻯ ﻟﻮ ﺟﻤﻌﺖ ﻫﺆﻻﺀ ﻋﻠﻰ ﻗﺎﺭﺉ ﻭﺍﺣﺪ ﻟﻜﺎﻥ ﺍﻣﺜﻞ، ﺛﻢ ﻋﺰﻡ ﻓﺠﻤﻌﻬﻢ ﻋﻠﻰ ﺍﺑﻲ ﺑﻦ ﻛﻌﺐ، ﺛﻢ ﺧﺮﺟﺖ ﻣﻌﻪ ﻟﻴﻠﺔ ﺍﺧﺮﻯ ﻭﺍﻟﻨﺎﺱ ﻳﺼﻠﻮﻥ ﺑﺼﻼﺓ ﻗﺎﺭﺋﻬﻢ، ﻗﺎﻝ ﻋﻤﺮ : ﻧﻌﻢ ﺍﻟﺒﺪﻋﺔ ﻫﺬﻩ.
📝 ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ہے کہ ﻣﯿﮟ رمضان المبارک کی ایک رات ﻋﻤﺮ بن خطاب کے ساتھ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ۔ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﺘﻔﺮﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﺗﮭﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ کہا ، ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﺗﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ اس ﻧﮯ ﯾﮩﯽ ﭨﮭﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﺑﯽ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ‏( ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ‏) ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ،” ﯾﮧ بدعت اچھی ﮨﮯ”
📚 حوالہ: [صحیح البخاری، ﻛِﺘَﺎﺏ ﺻَﻠَﺎﺓِ ﺍﻟﺘَّﺮَﺍﻭِﻳﺢِ ،ﺑَﺎﺏُ ﻓَﻀْﻞِ ﻣَﻦْ ﻗَﺎﻡَ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ، حدیث نمبر ٢٠١٠]
چاہئے تو یہ تھا کہ عمر بن خطاب حاکم وقت ہونے کے سبب صحابہ کو مسجد سے نکال پھینکتا اور کہتا کہ یہ اللہ کے گھر میں یہ کیا بدعت انجام دیتے ہو مگر اس کے برعکس عمر نے ان کی اس بدعت کو لوگوں میں عام کر دیا،
اہل سنت سے سوال تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے عمر کی بدعت کو کیوں اپنا شعار بنا لیا ہے؟
جو روایات بدعتی کے متعلق و بالخصوص مدینہ منورہ میں بدعت انجام دینے کے متعلق ائیں ہیں ان سے عمر بن خطاب کو کیسے بچا سکتے ہو
🖋 تحقیق : سید ابو ہشام النجفی حفظہ اللہ تعالیٰ
.
📣 *تراویح ایک بد عت*
👈🏻 *کتب اہل سنت*
📝 امام بخاری نے عبداللہ بن عبدالقاری سے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضرت عمر(رض) مسجد کے پاس سے گذرے تو کیا دیکھا کہ لوگ جدا جدا نماز میں مشغول ہیں لہذا سوچا کہ اگر یہ سب ایک شخص کی امامت میں نماز ادا کریں تو کتنا بہتر ہوگا لہذا ابی بن کعب کو اس کا حکم دیا ۔دوسری رات وہاں سے گذرے تو حضرت عمر (رض) دیکھا کہ لوگ ابی کے پیچھے نماز اداکررہے ہیں تو فرمایا : ﴿﴿نعم البدعۃ ھذہ ﴾﴾ یہ کتنی اچھی بدعت ہے.
📚 ﴿ صحیح بخاری ۱: ۲۴۳﴾
کیا رسول اکرم (ص) نے بدعتی شخص کو گمراہ اور جہنمی قرار نہیں دیا؟
📜 کلّ بدعۃ ضلالۃ وکلّ ضلالۃ فی النار.
📚 ﴿ سبل السلام ۲: ۰۱؛ مسند احمد ۳: ۰۱۳﴾
تو جب نماز تراویح نہ تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی اور نہ ہی حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں .تو پھر ہمیں اس قدر اس پر اصرار کرکے بدعت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ نماز تراویح حضرت عمر (رض) کی بدعات میں سے ہے اور پیغمبر (ص) کے زمانے میں اس کا مسلمانوں کے درمیان نام و نشان تک نہ تھا جیسا کہ ہمارے جید علمائ نے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے :
1️⃣ ابن ہمام: تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ہوا .
📚﴿فتح القدیر ۱: ۷۰۴﴾
2️⃣۔ جب پیغمبر (ص) کی رحلت ہوئی تب تک مسلمان نماز تراویح نہیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ ثبت ہوا ہے کہ عمر (رض) نے لوگوں کو ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا .
📚﴿فتح الباری شرح صحیح بخاری ۴: ۶۹۲﴾
3️⃣۔ عینی: جب پیغمبر (ص) کی رحلت ہوئی تب تک مسلمان نماز تراویح نہیں پڑھا کرتے تھے اور میراخیال یہ ہے
کہ یہ حضرت عمر (رض) کے اجتہاد کانتیجہ ہے .
📚﴿عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری ۱: ۲۴۳﴾
*نماز تراویح کا اجمالی جائزہ اور مروجہ بیس رکعات تراویح کی حقیقت ۔*
ہم اس مضمون میں نماز شب ( تراویح ) اور مروجہ بیس رکعات تراویح کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں فقط صحیح بخاری کی روایات کی روشنی میں کلام کیا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں۔
*رمضان میں کوئی اضافی نماز سنت نہیں ۔*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معمول ثابت ہے کہ آپ سال کے بارہ مہینے نماز شب ( تہجد ) ادا کیا کرتے تھے، اور دیگر مہینوں کی طرح ماہ رمضان میں بھی حسب معمول آنحضرت نے اسیطرح نماز شب کا اہتمام فرمایا جیساکہ غیر رمضان میں اہتمام کیا۔
چنانچہ امام بخاری نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( تراویح یا تہجد کی نماز ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ *تو انہوں نے بتایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔*
روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں ۔
📜 حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان يزيد في رمضان، ولا في غيرها على إحدى عشرة ركعة٫
📚 الجامع الصحیح للبخاری // رقم الحدیث 2013 // الناشر: دار طوق النجاة۔
حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت نے ماہ رمضان میں کسی اضافی نماز کا اہتمام نہیں کیا بلکہ رمضان میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے دیگر ایام کی طرح حسب معمول صرف صلاة الیل ( تہجد ) ہی پڑھا کرتے تھے۔
*رسول اللہ نے باجماعت نماز شب کا اہتمام ترک کردیا تھا ۔*
امام بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت نقل کری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ رمضان کی نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں نماز شب پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔
چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا
اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے اس رات بھی نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکی۔
چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھیں۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ اما بعد : تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ ۔
روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں :
📜 حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم، فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد ثم قال “أما بعد، فإنه لم يخف على مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها۔
📚 الجامع الصحیح للبخاری // رقم الحدیث 2012 // الناشر: دار طوق النجاة۔
صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے ماہ رمضان میں صحابہ کرام کو تین مرتبہ باجماعت صلاة اليل پڑھائی لیکن پھر آنحضرت نے امت کی سہولت کی خاطر یہ خیال کیا کہ اسطرح روزانہ نماز شب کے باجماعت اہتمام سے کہیں مسلمان اپنے اوپر اس نماز شب کو لازم نہ کرلیں اور پھر اس کی ادائیگی سے عاجز آجائیں تو اس خوف سے آنحضرت نے باجماعت نماز شب کو ترک کردیا جس کی بنیاد پر صحابہ کرام کا عمل بھی خلافت دوئم کے زمانہ تک یہی تھا کہ باجماعت نماز شب کا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔
*مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح کی حقیقت ۔*
صحیح اور مرفوع روایات اس بات پر شاھد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں نماز شب کی گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے اور خلافت دوئم کے زمانہ تک صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھا کہ فرادی ہوکر ( متفرق طور پر الگ الگ ) نماز شب ادا کیا کرتے تھے *لیکن جب حضرت عمر کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مسلمانوں کو بیس رکعات تراویح پر ایک امام کے پیچھے جمع کردیا اور ساتھ ہی حضرت عمر نے اپنے اس عمل کو بذات خود ایک ” اچھی بدعت ” کے عنوان سے تعبیر بھی کیا۔*
چنانچہ امام بخاری نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت نقل کری ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر حضرت ابی بن کعب کو ان کا امام بنادیا۔ عبد الرحمان بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ( تراویح ) پڑھ رہے ہیں یہ دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا کیا ہی اچھا نیا طریقہ ( بد عت ) ہے ۔ روایت کا متن ملاحظہ فرمائیں ۔
📜 وعن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال خرجت مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ ليلة في رمضان، إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل. ثم عزم فجمعهم على أبى بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر نعم البدعة هذه.
📚 الجامع الصحیح للبخاری // رقم الحدیث 2010 // الناشر: دار طوق النجاة۔
*بد عت کا حکم 😘
اب جبکہ تراویح کا بدعت ہونا خود تراویح کے شارع کی زبان سے ہی ثابت ہے تو ضروی معلوم ہوتا ہے کہ اس بدعت پر عمل اور عدم عمل کے حوالہ سے بھی کسی صحیح اور مرفوع حدیث کیطرف رجوع کیا جائے چنانچہ امام بخاری اور مسلم نے صحیحین میں ایک متفق علیہ روایت حضرت عائشہ سے نقل کری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جو شخص بھی دین میں کوئی ایسا نیا عمل ایجاد کرے جس کا دین ( قرآن و سنت ) سے کوئی تعلق نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے۔
📜 حدثنا يعقوب، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أَبيه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة قَالَت: قَال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منه فھو رد۔
📚 الجامع الصحيح للبخاري // رقم الحدیث 2697 // الناشر: دار طوق النجاة۔
📚 الجامع الصحيح للمسلم // رقم الحدیث ( 17 – 1718) الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
*نماز تراویح کی وجہ تسمیہ 😘
مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح گوکہ بدعت حسنہ ہے لیکن تمام اچھائیوں کے باوجود مروجہ بیس رکعات باجماعت تراویح بدعت کے حکم کی روشنی میں بہرحال ایک مردود عمل ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب آخر میں نماز تراویح کی وجہ تسمیہ بیان کیئے دیتے ہیں کہ کس وجہ سے ماہ رمضان میں صلاة الليل کو نماز تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا۔
حافظ ابن حجر نے تراویح کی وجہ تسمیہ ان الفاظ میں بیان کری ہے ۔
📝 والتراویح جمع ترویحۃ و ہی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ کالتسلیمۃ من السلام سمیت الصلوۃ فی الجماعۃ فی لیالی رمضان التراویح لانہم اول ما اجتمعوا علیہا کانوا یستریحون بین کل تسلیمتین.
📚 فتح الباري شرح صحيح البخاري // المجلد 4 // الصفحة 250 // الناشر: دار المعرفة – بيروت
حافظ فرماتے ہیں : تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح اسلیئے کہا گیا، کیونکہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔
مفہوم حافظ کے کلام کا یہ ہے کہ تراویح میں لوگ چونکہ طویل قرآت کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو تھکن کا احساس ہوا کرتا تھا چنانچہ لوگوں نے اس تھکن کو دور کرنے کے لیئے کچھ رکعات کے بعد آرام کی غرض سے وقفہ کرنا شروع کردیا جس کو ترویحہ کہاجاتا ہے پھر اسی مناسبت سے بعد میں اس نماز کو صلاة التراویح کے نام سے موسوم کردیا گیا و گرنہ احادیث مرفوعہ کا ذخیرہ تراویح نام کی کسی بھی چڑیا کے ذکر سے بالکل خالی ہے ۔
📝 كانَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يُرَغِّبُ في قِيامِ رَمَضانَ مِن غَيرِ أن يَأمُرَهُم فيهِ بِعَزيمَةٍ ، فَيَقولُ : «مَن قامَ رَمَضانَ إيماناً وَاحتِساباً غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ» . فَتُوُفِّيَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وَالأَمرُ عَلى ذلِكَ ، ثُمَّ كانَ الأَمرُ عَلى ذلِكَ في خِلافَةِ أبي بَكرٍ وصَدراً مِن خِلافَةِ عُمَرَ عَلى ذلِكَ
یعنی رسول اللہ(ص) ماہ رمضان میں عبادت کی ترغیب کرتے تھے اور فرماتے تھے “جو شخص بھی رمضان کے مہینے میں ایمان کی بدولت اللہ کے لئے (عبادت) کے لئے قیام کرے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں”۔ پھر آپ(ص) کا وصال ہوا اور اسی طرح سے یہ امر جاری رہا (یعنی نافلہ کو فرادی پڑھنا)، ابو بکر کی خلافت میں بھی ایسا ہی رہا اور خلیفۂ دوّم عمر کے دور میں بھی۔
📚 (صحيح مسلم : ۱/۵۲۳/۱۷۴ ، صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۵ وفيه مِن «مَن قام …» ، الموطّأ : ۱/۱۱۳/۲ وفيهما «قال ابن شهاب : فتوفّي رسول اللّه …» ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۳ / ۴۵۹۹ وص ۶۹۴ / ۴۶۰۲)
گویا رسول اللہ(ص) کی سنّت تھی کہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو خود پڑھتے تھے اور جماعت سے منع فرمایا ہے۔ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی رسم خلیفۂ دوّم حضرت عمر بن خطاب نے شروع کی۔
📝 خَرَجتُ مَعَ عُمَرَ بنِ الخَطّابِ لَيلَةً في رَمَضانَ إلَى المَسجِدِ ، فَإِذَا النّاسُ أوزاعٌ مُتَفَرِّقونَ ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفسِهِ ، ويُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلّي بِصَلاتِهِ الرَّهطُ ، فَقالَ عُمَرُ : إنّي أرى لَو جَمَعتُ هؤُلاءِ عَلى قارِىً?واحِدٍ لَكانَ أمثَلَ ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُم عَلى اُبَيِّ بنِ كَعبٍ ، ثُمَّ خَرَجتُ مَعَهُ لَيلَةً اُخرى وَالنّاسُ يُصَلّونَ بِصَلاةِ قارِئِهِم۔ قالَ عُمَرُ : نِعمَ البِدعَةُ هذِهِ!
راوی کہتا ہے کہ عمر بن الخطاب کے ساتھ رمضان کی کسی رات مسجد میں آیا، لوگوں کو ہم نے متفرّق دیکھا، ہر شخص خود نماز پڑھ رہا تھا، یا ایک قلیل جماعت کسی ایک شخص کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھی۔ عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہوں تو میری نگاہ میں بہتر ہے۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا اور سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ اگلی رات کو میں دوبارہ ان کے ساتھ باہر نکلا، لوگ ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ خلیفۂ دوّم عمر نے کہا کہ “یہ کتنی بہترین بدعت ہے۔”
📚 (صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۶ ، الموطّأ : ۱ / ۱۱۴ / ۳ ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۴ / ۴۶۰۳ وح .۴۶۰۴)
خلیفۂ دوّم نے اس سلسلے کو شروع کیا اور اہل سنّت آج تک ان کی اس سنّت پر عمل کرتے ہیں جبکہ شیعیانِ علی رسول اللہ(ص) کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
.
.
.
کیا آپ جانتے ہیں کہ عمریہ فقہ میں اگر اہل سنت میں سے کوئی شخص نماز تراویح نہ پڑھے تو اسے قتل کر دینا چاہیے اور اس کے جان، مال اور ناموس کو غارت کر دینا چاہیے؟
حساب لگائیں کہ کتنی خطرناک بدعت ہے،
اگر یہ فقہ نافذ ہو جائے تو آدھے سے زیادہ تو خود عمری ہی ڑگڑے جائیں گے
ہم اپنے ساتھ ان معصوم اہل سنت کا کے لئے بھی اس بدعت کے خلاف لڑ رہے ہیں جو یہ بدعت انجام نہیں دیتے
یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بعض اہل سنت کی فقہی کتابوں کے مطابق، اگر کسی شہر کے لوگ تراویح پڑھنے سے انکار کر دیں، تو وہاں کا امام اور حاکمِ شرع ان کے خلاف قتال کرے گا تاکہ “سنت عمری” ختم نہ ہو!
عبدالحق دہلوی، جو عمریہ کے بزرگوں میں سے ہیں، کہتے ہیں:
📜 “بعض فقہی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی کے لوگ تراویح کو ترک کر دیں تو امام ان سے قتال کرے۔”
📚 ما ثبت بالسنة فی الایام السنة، صفحہ 217
اللّه ہمیں اس سے محفوظ رکھے
.
.
.
🔴 بیچارے خود آج تک فیصلہ نہیں کر پائے 🔴
اہل سنت میں ایک بدعت جس پر وہ عمل کرتے ہیں، وہ باجماعت نمازِ تراویح ہے۔ وہ خود ہی اس بارے میں الجھن کا شکار ہیں اور نہیں جانتے کہ کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔ جب کوئی طریقہ سنت پر نہ ہو اور شیخین کی بدعت کی پیروی کی جا رہی ہو، تو اختلاف اور گمراہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔
اس دوران البانی، جو ان کے بڑے علماء میں سے ہے، پر الزام ہے کہ وہ غلط اور بے بنیاد باتیں کرتا تھا۔
📜 یہ ایک تحریر ہے جس میں میں نے شیخ ناصر الدین البانی کے اس دعوے کا رد کیا کہ تراویح نفل نمازوں میں شامل نہیں اور گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ایسے ہے جیسے ظہر میں پانچویں رکعت کا اضافہ کر دیا جائے۔
📚 تصحیح حدیث صلاة التراویح عشرین رکعة و الرد علی الالبانی فی تضعیفه، صفحہ 5
مصنف: اسماعیل بن محمد الانصاری
یاد رہے اسی البانی کے بارے خود ہی لکھتے ہیں
شیخ عبدالعزیز بن باز نے کہا:
“میں نے آسمان کے نیچے محمد ناصر الدین البانی جیسا حدیث کا عالم عصرِ حاضر میں نہیں دیکھا۔”
شیخ مقبل بن ہادی الوادعی نے کہا:
“ہم اب بھی شیخ کی کتابوں کی وجہ سے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔”
اور انہوں نے یہ بھی کہا:
“شیخ ناصر الدین اور ان کے علم پر صرف وہی شخص تنقید کرتا ہے جو بدعتی اور خواہشات کا پیروکار ہو، کیونکہ یہی لوگ اہلِ سنت سے بغض رکھتے ہیں اور ان سے لوگوں کو دور کرتے ہیں۔”
اسکے علاوہ
آج تک فیصلہ نہیں ہو پایا کہ تراویح آخر کتنی رکعت ہے؟ 20 رکعت، 36 رکعت، 41 رکعت، 39 رکعت، 11 رکعت، بے حد، 1000 رکعت؟
سعودی عالم ڈاکٹر حسن لکھتے ہیں
📜 عزیزم! جب بھی تم سرحال ہو، جتنا چاہے پڑھو، جتنی زیادہ اتنا بہتر!
اگر طبیعت ٹھیک نہ ہو تو مختصر پڑھ لو، یا بالکل نہ پڑھو، نہ 20 رکعت، نہ 30 رکعت!
📚 کتاب کا نام: نامہ‌ای به امام تراویح (احکام، تذکرات و لطایف)، صفحہ 15، 17
مصنف: حسن بن عبدالحمید بخاری
امام سیوطی اپنی کتاب “المصابیح فی صلاة التراویح” میں لکھتے ہیں:
📜 ترجمہ:
“مجھ سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے تراویح پڑھی؟ اور کیا یہ وہی 20 رکعتی نماز ہے جو آج کل رائج ہے؟
میں جواب دیتا ہوں: نہیں! اور مجھے اس بارے میں کوئی روایت قائل نہیں کر سکی۔
رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے، وہ صرف رمضان میں قیامِ لیل (رات کا قیام) ہے، وہ بھی بغیر کسی مخصوص تعداد کے۔
نبی اکرم ﷺ سے 20 رکعات پڑھنا ثابت نہیں، بلکہ آپ ﷺ نے چند راتوں میں قیام کیا، لیکن چوتھی رات اس خوف سے چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے۔
کچھ لوگ ایک حدیث سے تراویح کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وہ حدیث قابلِ استدلال نہیں، اور میں اس کے ضعف کو ثابت کروں گا۔”
📖 المصابیح فی صلاة التراویح، ص 14-15
ابن باز، وہابی علما میں سے، نماز تراویح کے بارے میں کہتے ہیں:
📜 نماز تراویح کا کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے، اگر کوئی بیس رکعت پڑھے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر کوئی تیس رکعت پڑھے تو کوئی بات نہیں، اور اگر کوئی چالیس رکعت پڑھے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، اور اگر کوئی گیارہ رکعت پڑھے تو کوئی بات نہیں، اور اگر کوئی تیرہ رکعت پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں، اور اگر کوئی اس سے زیادہ یا کم پڑھے تو بھی کوئی بات نہیں، اس نماز کا معاملہ وسیع ہے اور اس پر کوئی مخصوص تعداد نہیں ہے۔
📚 فتویٰ ساتھ منسلک ہے online 👇🏼
او پہلے خود تے فیصلہ کر لو کہ کنی رکعت پڑھنی اے ، سانوں فیر دس لینا 😆
.
.
.
سعودی عالم ڈاکٹر حسن بخاری کے نزدیک باجماعت تراویح ایک کمائی کا زریعہ ہے بعض کے نزدیک
لکھتے ہیں
📜 یہ وہ لوگ ہیں جو امامت کے لیے اجرت لینے کو مشروط کرتے ہیں اور معاہدہ پہلے سے طے کرتے ہیں۔ کچھ ائمہ اس پر سختی سے اصرار کرتے ہیں – اللہ انہیں ہدایت دے – وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں تراویح کی امامت کے بدلے ایک مخصوص رقم نہ دی جائے تو وہ کسی اور مسجد کے منتظمین سے معاملہ طے کر لیتے ہیں اور پھر وہاں چلے جاتے ہیں جہاں زیادہ اور بہتر معاوضہ ملے، اور پہلی مسجد کو چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ دوسری جگہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔
📚 امام تراویح
اب سمجھ آئی کہ ایک چیز جو سنت رسول ﷺ ثابت نہیں تو کچھ لوگ اتنی شدت کیوں دکھاتے ہیں کیوں کہ یہ روزی روٹی کا زریعہ ہے انکی 😅
.
.
.

❓اب عمریوں سے کچھ سوالات:

1⃣ باجماعت نماز تراویح اگر سنت تھی تو حضرت عمر نے اسے “بدعت” کیوں کہا؟

2⃣ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پیچھے جماعت بنا کر نماز پڑھنے پر ناراضگی کیوں ظاہر کی؟

3⃣ کیوں لوگوں کو نفل نمازیں اپنے گھروں میں پڑھنے کا حکم دیا؟

4⃣ اگر یہ کام سنتِ الٰہی تھا، تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد میں آ کر پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟

👈🏼 یہاں تک کہ لوگ کنکریاں لے کر رسول ﷺ کے گھر پر مارنے کیلئے پہنچ گئے

5️⃣ کیوں لوگوں کو مسجد سے باہر نکالا؟

6️⃣ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس عمل سے یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ انہیں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے پر کوئی رضا نہیں تھی۔

7️⃣ اگر مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کو مسجد سے باہر کیوں نکالا اور فرمایا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو

👈🏼 حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روایت میں کہا گیا ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنا ہزار گنا بہتر ہے؟

8️⃣ اگر تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت ہے تو پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی اقامت مسجد میں کیوں نہیں کی اور کیوں یہ حکم نہیں دیا کہ اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں اور کیوں اپنے ماننے والوں کو کہا کہ اپنے گھروں میں جاؤ اور فرداً نماز پڑھو؟ اور کیوں وہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھا پائے؟