.
حضرت عمر رض اسلام لانے کے بعد لوگوں کے قت ل کے ڈر و خوف سے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے اور اپنے وقت کے کفار کے سردار عاص بن وائل نے پناہ دی

.
بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
35. باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ۔

حدثني يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني عمر بن محمد، قال: فاخبرني جدي زيد بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال:” بينما هو في الدار خائفا إذ جاءه العاص بن وائل السهمي ابو عمرو عليه حلة حبرة , وقميص مكفوف بحرير وهو من بني سهم وهم حلفاؤنا في الجاهلية، فقال له: ما بالك؟ قال: زعم قومك انهم سيقتلوني إن اسلمت، قال: لا سبيل إليك بعد ان امنت فخرج العاص فلقي الناس قد سال بهم الوادي، فقال: اين تريدون؟ فقالوا: نريد هذا ابن الخطاب الذي صبا، قال: لا سبيل إليه , فكر الناس”.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے دادا زید بن عبداللہ بن عمرو نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ (اسلام لانے کے بعد قریش سے) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ عاص نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا بات ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ عاص نے کہا ”تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھر گیا ہے۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بےدین ہو گیا ہے۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے۔

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو بن دينار: سمعته قال: قال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:” لما اسلم عمر اجتمع الناس عند داره، وقالوا: صبا عمر وانا غلام فوق ظهر بيتي , فجاء رجل عليه قباء من ديباج، فقال: قد صبا عمر فما ذاك فانا له جار، قال: فرايت الناس تصدعوا عنه، فقلت: من هذا؟ قالوا: العاص بن وائل”.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو لوگ ان کے گھر کے قریب جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ عمر بےدین ہو گیا ہے۔ میں ان دنوں بچہ تھا اور اس وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھا ہوا تھا۔ اچانک ایک شخص آیا جو ریشم کی قباء پہنے ہوئے تھا، اس شخص نے لوگوں سے کہا ٹھیک ہے عمر بےدین ہو گیا لیکن یہ مجمع کیسا ہے؟ دیکھو میں عمر کو پناہ دے چکا ہوں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی یہ بات سنتے ہی لوگ الگ الگ ہو گئے۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب تھے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ عاص بن وائل ہیں۔