تحقیق وفات حضرت عمر بن خطاب

محرالحرام میں عزاداری سید شھداء سے لوگو کی توجہ ہٹانے کی ناکام سازش
ہم نے ارادہ کیا کہ اس پر ذرا تحقیق تو کریں کہ آیا یکم محرم یوم وفات خلیفہ ثانی ہے ؟
.
۱۔ علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت عمر کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔
(مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)
.
۲۔علامہ دنیوی لکھتے ہیں: ماہ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کی چار راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر جمعہ کے روز رحلت فرما گئے۔
(اخبار الطوال صفحہ ۱۳۹)
.
۳۔ علامہ محب الدین طبری لکھتے ہیں: آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی۔
(ریاض النضرہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۵)
.
۴۔ مشہور مورخ طبری لکھتے ہیں: آپ نے چہار شنبہ کی شب کو ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔ عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس خبر میں سہو ہوا ہے کیونکہ حضرت عمر نے ۲۶ ذی الحجہ کو وفات پائی۔ ابو معشر کے نزدیک ۲۶ اور ہشام بن محمد کے نزدیک ۲۷ ذی الحجہ ہے۔
(تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۲۱۷۔۲۱۸)
.
۵۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: واقدی کا بیان ہے کہ حضرت عمر پر بدھ کے روز حملہ ہوا جب کہ ۲۳ ہجری کے ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں۔
(البدایہ و النہایہ جلد ۷ صفحہ ۱۸۶)
.
۶۔ علامہ ابو الفداء: توفی (عمر) یوم السبت سلخ ذی الحجہ روز شنبہ کو حضرت عمر نے وفات پائی۔
(تاریخ ابوالفداء صفحہ ۱۲۲)
.
۷۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔
(الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)
.
۸۔ ابن خلدون لکھتے ہیں: زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو اپنی خلافت کے ۱۰ برس ۶ مہینے بعد جان بحق تسلیم ہوئے۔
(تاریخ ابن خلدون جلد ۱ صفحہ ۳۰۷)
.
۹۔ امام اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔
(تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)
.
۱۰۔ ابن اثیر لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات ۲۶ ذی الحجہ کو ہوئی اور انتیس ذی الحجہ دو شنبہ کے دن حضرت عثمان کی بیعت کی گئی۔
(اسد الغابہ جلد ۲، صفحہ ۶۶۷)
.
آپ سب نے ملاحظہ کیا کہ قدیم علماء اہلسنت میں کس قدر اختلاف ہے۔ اور کتنی تواریخ ہیں یوم وفات پر۔ اب ہم جدید اہلسنت علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں۔
۱۱۔ دور جدید کے مشہور سلفی متعصب مورخ دکتر محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں: امام ذہبی لکھتے ہیں کہ ۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ بروز بدھ ۲۳ ھجری میں حضرت عمر نے جام شہادت نوش کیا۔
(سیدنا عمر بن خطاب صفحہ ۸۲۴،۸۲۵)
.
۱۲۔ مشہور دیوبندی عالم مفتی زین العابدین میرٹھی لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات زخمی ہونے کے تیسرے دن ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بدھ کی رات میں واقع ہوئی۔
(تاریخ ملت جلد ۱ صفحہ ۱۸۷)
.
۱۳۔ بر صغیر کے مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: حضرت عمر کی شہادت ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری ۶۴۴ عیسوی۔
(الفاروق صفحہ ۱۷۷)
.
۱۴۔ امام اہلسنت اور بر صغیر میں مناظرے کا باب کھولنے والے شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں: روز قتل حضرت عمر کا اٹھائیسویں ذی الحجہ کی بلا اختلاف اور دفن ان کا عزہ محرم۔
(تحفہ اثناء عشریہ باب ۹ صفحہ ۵۱۱)
.
آپ نے غور کیا کہ شاہ صاحب ۲۸ ذی الحجہ کو وفات عمر کو بلا اختلاف قرار دے رہے ہیں۔
.
۱۵۔ اسی طرح مصر کے مشہور مورخ محمد رضا مصری نے بھی ۲۴ ذی الحجہ ہی یوم وفات لکھی ہے۔
(سیرت عمر صفحہ ۳۲۹)
.
قارئین ہم نے قدیم اور جدید جید اور مستند علماء اہلسنت کے اقوال نقل کر دئیے ہیں جن سے ایک بات ثابت ہے کہ یوم وفات حضرت عمر ہر دور میں اختلافی رہی ہے۔ اب کچھ شر پسند لوگ کس بنیاد پر ۱ محرم کو یوم وفات مناتے ہیں ؟
.
ہمیں ان کے جواب کا انتظار ہے۔ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻗﻮﻝ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
۔ 1 ۔ ﺍﯾﮏ ﻗﻮﻝ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﺒﯿﺲ 26 ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮﺍ ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻋﻼﻣﮧ ﻗﻠﻘﺸﻨﺪﯼ ، ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﺍﻟﺒﻐﺪﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ۔
.
ﻋﻼﻣﮧ ﻗﻠﻘﺸﻨﺪﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻭﻃﻌﻨﻪ ﺃﺑﻮ ﻟﺆﻟﺆﺓ ﺍﻟﻔﺎﺭﺳﻲ ﻏﻼﻡ ﺍﻟﻤﻐﻴﺮﺓ ﺑﻦ ﺷﻌﺒﺔ ﻓﺒﻘﻲ ﺛﻼﺛﺎً ﻭﻣﺎﺕ ﻷﺭﺑﻊ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻦ ﺫﻱ ﺍﻟﺤﺠﺔ ﺳﻨﺔ ﺛﻼﺙ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﻣﻦ ﺍﻟﻬﺠﺮﺓ
ﻧﻬﺎﻳﺔ ﺍﻷﺭﺏ ﻓﻲ ﻣﻌﺮﻓﺔ ﺃﻧﺴﺎﺏ ﺍﻟﻌﺮﺏ // ﺟﻠﺪ 1 // ﺻﻔﺤﮧ //152 ۔
.
ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﺍﻟﺒﻐﺪﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ،
ﻭﻛﺎﻧﺖ ﻭﻓﺎﺗﻪ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻳﻮﻡ ﺍﻷﺭﺑﻌﺎﺀ ﻷﺭﺑﻊ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻦ ﺫﻱ ﺍﻟﺤﺠﺔ ﺳﻨﺔ ﺛﻼﺙ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﻣﻦ ﺍﻟﻬﺠﺮﺓ ۔
ﺍﻟﺪﺭﺓ ﺍﻟﺜﻤﻴﻨﺔ ﻓﻲ ﺃﺧﺒﺎﺭ ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ // ﺫﮐﺮ ﻭﻓﺎﺕ ﻋﻤﺮ // ۔
.
ﻗﻠﻘﺸﻨﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺗﺎﯾﺌﯿﺪ ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺷﺒﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﯿﮩﻘﯽ ﻧﮯ ﺳﻨﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ، ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﻌﺪﺍﻥ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻃﻠﺤﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮬﮯ، ﻭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
.
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﻮ ﺧﻄﺒﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺞ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ، ﯾﻌﻨﯽ ﭼﮭﺒﯿﺲ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺞ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮ :
ﻗﺎﻝ ﺧﻄﺐ ﻟﮭﻢ ﯾﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭ ﻣﺎﺕ ﯾﻮﻡ ﺍﻷﺭﺑﻌﺎﺀ ﻷﺭﺑﻊ ﺑﻘﯿﻦ ﻣﻦ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﺔ ۔
ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ ﻟﻠﺒﯿﮭﻘﯽ // ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ 16578 // ۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﻤﺪﯾﻨﺔ ﻷﺑﻦ ﺷﺒﺔ // ﺑﺎﺏ ﻣﻘﺘﻞ ﻋﻤﺮ // ۔
.
۔ 2 ۔ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻗﻮﻝ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮬﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺟﻤﮭﻮﺭ ﻣﺆﺭﺧﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺑﻮ ﻟﺆﻟﺆ ﻧﮯ ﭼﮭﺒﯿﺲ 26 ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺞ ﮐﻮ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺗﮏ ﺯﺧﻤﯽ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﮭﯿﺐ ﺭﻭﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﺆﺭﺥ ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﺑﻦ ﻗﺘﯿﺒﮧ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ، ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮨﻮ ،
ﻭ ﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻗﺘﯿﺒﺔ : ﺿﺮﺑﻪ ﺃﺑﻮ ﻟﺆﻟﺆﺓ ﻳﻮﻡ ﺍﻷﺛﻨﻴﻦ ﻷﺭﺑﻊ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻦ ﺫﻱ ﺍﻟﺤﺠﺔ، ﻭﻣﻜﺚ ﺛﻼﺛًﺎ، ﻭﺗﻮﻓﻲ، ﻓﺼﻠﻰ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺻﻬﻴﺐ ۔
ﺃﺳﺪ ﺍﻟﻐﺎﺑﺔ ﻓﻲ ﻣﻌﺮﻓﺔ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﺔ // ﺟﻠﺪ //3 ﺻﻔﺤﮧ 676 // ۔
.
ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﻠﻔﯽ ﻣﺤﻘﻖ ﺷﯿﺦ ﺷﻌﯿﺐ ﺍﻷﺭﻧﺆﻭﻁ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ، ﺷﯿﺦ ﺍﺭﻧﺆﻭﻁ ﺭﻗﻤﻄﺮﺍﺯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺧﻼﻓﺘﻪ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻋﺸﺮ ﺳﻨﻴﻦ ﻭﺳﺘﺔ ﺃﺷﻬﺮ، ﺿﺮﺑﻪ ﺃﺑﻮ ﻟﺆﻟﺆﺓ ﺍﻟﻤﺠﻮﺳﻲ ﻷﺭﺑﻊ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻦ ﺫﻱ ﺍﻟﺤﺠﺔ، ﻭﻣﻜﺚ ﺛﻼﺛﺎً ﻭﺗﻮﻓﻲ، ﻓﺼَﻠَّﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﺻﻬﻴﺐٌ
ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﻟﻸﺣﻤﺪ // ﺗﺤﺖ ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ 82 // ﻣﺴﻨﺪ ﻋﻤﺮ // ۔
.
ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺴﻌﻮﺩﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﺍﻧﮑﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍﺑﻮﻟﻮﻟﻮﮦ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ۲۳ ﻭﺍﮞ ﺳﺎﻝ ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺑﺪﮪ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻣﺎﮦ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﺭﻭﺯ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ۔ ‏
( ﻣﺮﻭﺝ ﺍﻟﺬﮨﺐ ﺟﻠﺪ۲، ﺻﻔﺤﮧ ۲۴۰)
.
ﻋﻼﻣﮧ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﻣﺎﮦ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۲۳ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺭﺣﻠﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﮔﺌﮯ۔ ‏
( ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻟﻄﻮﺍﻝ ﺻﻔﺤﮧ ۱۳۹)
.
ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﺐ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻃﺒﺮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍٓﭖ ﻧﮯ ۲۶ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﻮ ﻭﺻﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ ﺑﻌﺾ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺯﺧﻢ ﺍٓﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎﺕ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ۔ ‏
( ﺭﯾﺎﺽ ﺍﻟﻨﻀﺮﮦ ﺟﻠﺪ ۲ ﺻﻔﺤﮧ ۳۳۵)
.
ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﻮﺭﺥ ﻃﺒﺮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﭼﮩﺎﺭ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﯽ ﺷﺐ ﮐﻮ ۲۷ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۲۳ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺍﺧﻨﺴﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺧﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻮ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ۲۶ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﻮ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﺍﺑﻮ ﻣﻌﺸﺮ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ۲۶ ﺍﻭﺭ ﮨﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ۲۷ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮨﮯ۔ ‏
( ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻃﺒﺮﯼ ﺟﻠﺪ ۳ ﺻﻔﺤﮧ ۲۱۷۔۲۱۸)
.
ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﻭﺍﻗﺪﯼ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﭘﺮ ﺑﺪﮪ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﻮﺍ ﺟﺐ ﮐﮧ ۲۳ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﮯ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
‏( ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭ ﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ ﺟﻠﺪ ۷ ﺻﻔﺤﮧ ۱۸۶)
.
ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﻔﺪﺍﺀ : ﺗﻮﻓﯽ ‏( ﻋﻤﺮ ‏) ﯾﻮﻡ ﺍﻟﺴﺒﺖ ﺳﻠﺦ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ﺭﻭﺯ ﺷﻨﺒﮧ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔ ‏
( ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻮﺍﻟﻔﺪﺍﺀ ﺻﻔﺤﮧ ۱۲۲)
.
ﺍﺑﻦ ﺧﻠﺪﻭﻥ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺫﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺷﺐ ﭼﮩﺎﺭ ﺷﻨﺒﮧ ۲۷ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۲۳ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ۱۰ ﺑﺮﺱ ۶ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺎﻥ ﺑﺤﻖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮨﻮﺋﮯ۔ ‏
( ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﺧﻠﺪﻭﻥ ﺟﻠﺪ ۱ ﺻﻔﺤﮧ ۳۰۷)
.
ﺍﻣﺎﻡ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﯿﻮﻃﯽ :
ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺑﻦ ﺟﺮﺍﺡ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺑﺪﮪ ﮐﮯ ﺩﻥ ۲۶ ﺫﯼ ﺍﻟﺤﺠﮧ ۲۳ ﮬﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﮨﻔﺘﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﺤﺮﻡ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ۔ ‏
( ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﺨﻠﻔﺎﺀ ﺻﻔﺤﮧ ۱۳۹)
حضرت عمر کو غسل میت اسکے دوست افلح نے دیکر حق دوستی ادا کر دیا