سند صحیح روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت صحیح السند کے ساتھ موجود ہے ،جس میں حضرت عمر نے نبی اکرم (ص) کی لخت جگر، نور نظر، بضعة النبی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر حلف اٹھا کر کہا، اگر علی (ع) ہماری بیعت نہیں کرتا میں حلفا کہتا ہوں اس گھر ( بیت الوحی) کو جلادوں گا
.
امام محمد بن اسماعیل بخاری کے استاد ابن ابی شيبہ نےاپنی کتاب المصنف میں اس روایت کی سند کو ایسے نقل کیا ہے:


عمر یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ جب علی ، زبیر کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے تو بنت رسول خدا نے علی اور زبیر کو بتایا کہ: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر آپ لوگ دوبارہ اس گھر میں اکٹھے ہوئے تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا، (حضرت زہرا نے کہا) خدا کی قسم ! وہ اپنی قسم پر عمل کر کے ہی رہے گا !





یہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت محدثین اہل سنت کے نزدیک صحیح السند کے ساتھ ثابت ہے
قارئین کرام
یہ روایت سند کے اعتبار سے بلکل صحیح بلکہ متصل ہے کوئی انقطاع اور ارسال نہیں ہے

لیکن پہر بھی ہم اس روایت کے بارے علماء اہل سنت کی تصحیحات پیش کریں گے جس نے اس روایت کو صحیح کہا ہے


















ابن ابی شيبہ نے اس روایت کی سند کو ایسے نقل کیا ہے:










علامہ صلابی صاحب لکھتا ہے یہ بات میں ابن شیبہ کی کتاب مصنف سے نقل کی ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے





المصنف والی روایت کو لکھا ہے اور صحیح قرار دیا ہے
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ المصنف والی روایت صحیح ہے






.
تبصرہ: جو شخص حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام کے دروازے پرآگ لیکر آئے، شور کرے، گھر جلانے کی دھمکی دے، کیا ایسے لوگوں کو صحابی رسول (ص) کہنا کیا دین اور اسلام کی توھین نہیں ہے؟ کیا اہل بیت(ع) کی توھین نہیں ہے، کیا صحابیت کی توھین نہیں ہے ؟
.




.


حرف الميم – من اسمه محمد – محمد مع الباء
الجزء : ( 9 ) – رقم الصفحة : ( 73 / 74 )








الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 469 )


الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 210 / 211 )


الطبقة السابعة – محمد بن بشر بن الفرافصة العبدي
الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 394 )


والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم – باب الميم – باب من اسمه محمد
الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 232 )


الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 235 )
[ النص طويل لذا استقطع منه موضع الشاهد ]




74 – محمد بن بشر بن الفرافصة بن المختار بن رديح العبدي
الجزء : ( 9 ) – رقم الصفحة : ( 265 / 266 )




الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 159 )



يحيى بن معين – أبو داود السجستاني – محمد بن سعد – النسائي – عثمان بن أبي شيبة – ابن حبان




تابع حرف العين – من اسمه عبيد الله مصغرا
الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 38 > 40 )











يحيى بن معين – النسائي – أبو زرعة الرازي – أبو حاتم الرازي – محمد بن سعد – أحمد بن صالح المصري




الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 395 > 397 )
[ النص طويل لذا استقطع منه موضع الشاهد ]








الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 222 )


153 – زيد بن أسلم أبو عبد الله العدوي العمري
الجزء : ( 5 ) – رقم الصفحة : ( 316 )





أحمد بن حنبل – محمد بن سعد – أبو زرعة الرازي – أبو حاتم الرازي – يعقوب بن شيبة – النسائي.




الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 266 )






ذكر من اسمه أسد إلى آخر من اسمه إسماعيل
الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 104 )


القسم الأول – باب الألف بعدها سين – 131 – أسلم – مولى عمر
الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 215 )


حرف الألف – القسم الأول – القسم الثالث من حرف الألف
باب الألف بعدها سين – 449 – أسلم ، مولى عمر
الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 338 )


باب الهمزة والسين وما يثلثهما – 120 – أسلم مولى عمر
الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 94 )
120 – أسلم : مولى عمر بن الخطاب من سبى اليمن ، أدرك النبي (ص).






آج کل facebooki محققین جناب سیدہ ص کو دھمکی دئے جانے والی روایت پر طرح طرح کے اعتراض کر رہے ہیں جو شاید انکے اپنے محدثین کو بھی نہیں پتا تھے
جناب سیدہ ص کو دھمکی دئے جانے والی روایت اس قدر صحیح ہے کہ جب محدثین سے اس روایت کا انکار نہ ہو سکا تو روایت میں ہی قینچی چلا دی۔
علما محدثین اہل سنت نے روایت میں جہاں جناب سیدہ ص کو دھمکی دی گئی تھی وہ الفاظ ہی غائب کر دئے، اگر روایت میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی یا یا روایت صحیح نہیں تھی تو کیا سوجھی انہیں تحریف کرنے کی ؟
اسکین آپ کے سامنے ہیں ، اور حساب لگائیں کہ یہ کام آج کے دور کے اہل سنت علما نے نہیں کیا ۔ کب سے چھپا رہے ہیں یہ
خدارا ہوش کے ناخن لیں کل کو منہ بھی دکھانا ہے رسول اللّه ص کو۔







کیا واقعہ احراق کے وقت ” اسلم ” عمر کا غلام غیر موجود تھا ؟
المصنف لابن ابی شیبہ کہ روایت پر ایک ضمنی اعتراض کا جواب :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
المصنف میں عمر بن خطاب کی “اہل بیت کو جلا کر مارنے” دھمکی موجود ہے
حدثنا محمد بن بشر نا عبيد الله بن عمر حدثنا زيد بن أسلم عن أبيه أسلم أنه حين بويع لابي بكر بعد رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ – كان علي والزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ – فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة فقال: يا بنت رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -! والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك، وأيم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك، إن أمرتهم أن يحرق عليهم البيت، قال: فلما خرج عمر جاءوها فقالت: تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وأيم الله ليمضين لما حلف عليه، فانصرفوا راشدين، فروا رأيكم ولا ترجعوا إلي، فانصرفوا عنها فلم يرجعوا إليها حتى بايعوا لابي بكر.
سند میں آپ دیکھ سکتے ہیں:
حدثنا زيد بن أسلم عن أبيه أسلم
زید اپنے باپ اسلم سے رویات کر رہا ہے
اس سند پر انقطاع کا ادعی کیا جاتا ہے
اس سند پر ارسال / انقطاع کا اعتراض سب سے پہلے علامہ دارقطنی نے کیا تھا
حافظ نے فتح میں اس کا دفاع کیا اور علامہ دارقطنی کو جواب دیا جو پڑھنے کے لائق ہے اگرچہ اُس روایت اور اِس روایت میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ وہ روایت مرفوع ہے جبکہ المصنف میں اثر مرقوم ہے کوئی مرفوع حدیث نہیں
اس جہت سے دیکھا جائے تو بخاری کی روایت کا دفاع المصنف کی روایت کے دفاع سے شدید تر اور سخت تر ہے
لیکن کیا کریں ہمارے مخالفین کی روش رہی ہے کہ شیعہ موافق مرویات میں بڑی کج روی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیڑے نکالنے والے مرحلہ سے تجاوز کر کے ” کیڑے ڈالنے ” والے مرحلہ میں داخل ہو جاتے ہیں
الغرض علامہ دارقطنی کے مجمل حکم کو مخالفین کے معاصر علماء نے کچھ تفصیل کے ساتھ اور ہماری مخالفت میں بڑے طمطراق سے بیان کیا
فتح الملہم کے حاشیہ میں علامہ مفتی تقی عثمانی نے اور اللہ بہتر جانتا ہے اس سے طاہر القادری صاحب نے سرقہ کیا لیکن کیونکہ طاہر القادری صاحب محب اہل بیت ہیں اس لیے ہم ان میں حسن ظن رکھتے ہیں کہ یہ ان کی ذاتی تحقیق ہوگی
الغرض ہم جواب کی طرف آتے ہیں:
اسلم العدوی یمن کے قیدیوں میں سے تھا :
محمد بن اسماعیل البخاری اپنی ” التاریخ الکبیر ج 2 ص 20 ” میں لکھتے ہیں :
أسلم، مولى عمر بن الخطاب، القرشي، العدوي، المدني، أبو خالد.
كان من سبي اليمن.
سمع عمر، روى عنه القاسم بن محمد، وزيد بن أسلم.
ترجمہ : اسلم یہ عمر کا غلام ، قرشی علوی مدنی ابو خالد ہیں
اور اسلم یمن کے قیدیوں میں سے تھے
ان کا عمر سے سماع ہے اور ان سے قاسم بن محمد اور زید بن اسلم ( اسی کا بیٹا ) نے روایت کی ہے۔
اسی طرح اسد الغابة فی معرفة الصحابة میں علی بن محمد الجزری( علامہ ابن اثیر ) لکھتے ہیں:
أسلم مولى عمر (د ع) أسلم، مولى عمر بن الخطاب، من سبي اليمن.
اسلم عمر کے غلام یمن کے قیدیوں میں سے ہیں۔
• دار الكتب العلمية – بيروت-ط 1( 1994) , ج: 1- ص: 216
نیز ابن ابی حاتم نے بھی اپنی الجرح و التعدیل میں ” یمن کے قیدیوں ” میں سے لکھا:
أسلم مولى عمر بن الخطاب أبو خالد مديني
كان من سبي اليمن سمع أبا بكر وعمر
اسلم عمر کے غلام أبو خالد مدینی
یہ یمن کے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے ابوبکر اور عمر سے سماع کیا۔
یمن کی طرف نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے پہلے خالد بن ولید کو پھر جناب امیر کو روانہ کیا 10 ہجری میں جناب امیر ( جعلتُ فداه ) سریہ یمن کے لیے روانہ ہوئے
نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ والہ و السلام ) نے حکم دیا تھا کہ پہلے یمن والوں کو اسلام کی دعوت دینا
خالد بن ولید نے اسلام کی دعوت دی مگر کسی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول نہیں کیا
پھر جناب امیر ( علیہ السلام ) نے دعوت اسلام دی آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر قبیلہ ہمدان نے اسلام قبول کیا
جناب امیر نے قبیلہ ہمدان کے قبولِ اسلام کی داستان نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ والہ و سلم ) کو لکھ بھیجی السنن الکبری للبیہقی میں ہے :
فَلَمَّا قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ خَرَّ سَاجِدًا
جب آپ ( صلی اللہ علیہ والہ و سلم ) نے جناب امیر کا مراسلہ پڑھا تو سجدے میں گر پڑے
ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: ” السَّلَامُ عَلَى هَمْدَانَ السَّلَامُ عَلَى هَمْدَانَ “
اس کے بعد اپنا سر (سجدہ سے) بلند کیا اور فرمایا:
سلامتی ہو ہمدان پر! سلامتی ہو ہمدان پر !
۔۔۔۔۔۔۔
الغرض : اسلم یمن کے قیدیوں میں لائے گئے اور یمن کا معرکہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ والہ و سلم ) کی حیات طیبہ میں ہے
بلکہ یہ تو سریہ تھا
سریہ : ایسی جنگ کو کہتے ہیں جس میں نبی مکرم نے شرکت نہ فرمائی ہو
غزوہ : ایسی جنگ جس میں آپ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے شرکت فرمائی ہو۔
کیا اسلم معرکہ عین التمر کے قیدیوں میں سے تھے ؟
محمد بن اسماعیل البخاری، حافظ ابن اثیر علامہ ابن ابی حاتم غیرھم کے نزدیک تو یہ ” یمنی قیدیوں ” میں سے ہیں لیکن بعض مورخین نے ان کو ” عین التمر” کے قیدیوں میں لکھا ہے جسے علماء رجال نے صیغہ تمريض سے نقل کیا گرچہ مذکورہ بالا تصریحات کے مقابلہ میں اس قول کی کوئی اہمیت نہیں لیکن پھر بھی چند ملاحظات کو برداشت کیجیے :
عین التمر 12 ھ کا معرکہ ہے
جبکہ نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) 11 ھ میں اس دنیا سے کوچ فرما چکے تھے
اور علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ
اسلم میں نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ایام کو درک کیا تھا
علامہ ابو نعیم الاصفہانی لکھتے ہیں:
وَأَسْلَمُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، يُكْنَى أَبَا خَالِدٍ، مِنْ سَبَايَا الْيَمَنِ اشْتَرَاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنِ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَدْرَكَ أَيَّامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور اسلم عمر کے غلام ، کنیت أبو خالد
* یمن کے قیدیوں میں سے تھے
عمر نے اسلم کو اشعریوں سے خریدا
اسلم نے نبی اکرم کے ایام کو درک کیا۔
اسی طرح ابن اثیر نے محمد بن اسحاق سے نقل کیا :
مُحَمَّد بْن إِسْحَاق: بعث أَبُو بكر الصديق عمر بْن الخطاب رضي اللَّه عنهما، سنة إحدى عشرة، فأقام للناس الحج، وابتاع فيها أسلم، قال: إنه أدرك النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولم يره، وهو من الحبشة
ابوبکر خالد عمر کو بھیجا 11 ھ میں چنانچہ وہ حج کا امیر تھا اور اس نے اسلم کو خریدہ
کہا ( ابن اسحاق نے ) اسلم نے نبی مکرم کو درک تو کیا تھا لیکن آپ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کو دیکھا نہیں تھا۔
حافظ نے تہذیب التحصیل میں لکھا:
ادرک زمن النبی
اسلم نے نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے زمانہ کو درک کیا۔
اگر یہ عین التمر میں قیدی بن کر آتے ( عین التمر کا معرکہ ابوبکر بن ابی قحافہ کے دور کا ہے )
تو علماء رجالیین کا کہنا ( ادرک زمن النبی و لم یرہ ) درست نہیں۔
ثانیا : عین التمر کا واقعہ 12 ھ میں پیش آیا ( البدایہ و النهاية ) اور ابن اسحاق کے قول کے مطابق عمر بن خطاب نے اسلم کو 11 ھ میں خریدہ چنانچہ تاریخ الکبیر ہی میں بخاری نے کہا :
وقال لي محمد بن مهران، عن محمد بن سلمة، عن ابن إسحاق؛ بعث أبو بكرٍ عمر بن الخطاب، سنة إحدى عشرة، فأقام للناس الحج، وابتاع فيها أسلم.
مجھ سے محمد بن مہران نے اس نے محمد بن سلمہ سے اس نے ابن ابی اسحاق سے :
ابوبکر نے عمر کو بھیجا گیارہ حجر میں چنانچہ اس نے لوگوں کو حج کرایا اور اسلم کو اس ( گیارہ ہجری ) میں خریدہ ۔
ثالثا : کتب تواریخ و سیر میں سبایا عین التمر کے نام ملتے ہیں مگر ان میں ” اسلم ” کا کوئی نام نہیں ملتا ۔
الغرض اسلم جناب ختمی مرتبت ( فداه ابی و امی ) کے ایام زندگی میں یمن کے قیدیوں میں لائے گئے
مخالفین کی ایک کمزور دلیل اور اس کا جواب :
مخالفین کہتے ہیں کہ اسلم کو عمر نے 11 ھ میں مکہ سے خریدہ سے چنانچہ اس نے واقعہ احراق کو درک ہی نہیں کیا چنانچہ یہ دھمکی والی روایت ” منقطع ” ہے
چنانچہ محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں اور اس سے بخاری نے نقل کیا کہ اسلم کو عمر نے 11 ھ میں خریدا :
وقال لي محمد بن مهران، عن محمد بن سلمة، عن ابن إسحاق؛ بعث أبو بكرٍ عمر بن الخطاب، سنة إحدى عشرة، فأقام للناس الحج، وابتاع فيها أسلم.
مجھ سے محمد بن مہران نے اس نے محمد بن سلمہ سے اس نے ابن ابی اسحاق سے :
ابوبکر نے عمر کو بھیجا گیارہ حجر میں چنانچہ اس نے لوگوں کو حج کرایا اور اسلم کو اس ( گیارہ ہجری ) میں خریدہ ۔
تاریخ الکبیر المجلد الثانی ص 20
اقول : اس قول میں کوئی دلالت نہیں اس پر کہ :
اسلم کو عمر نے مکہ میں خریدا
اور نہ ہی اس پر کہ اسلم نے نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کو درک نہیں کیا۔
چنانچہ یہ روایت مخالفین کے مدعی پر دلیل نہیں بن سکتی اب آئیے متن میں تامل کرتے ہیں :
بعث أبو بكرٍ عمر بن الخطاب، سنة إحدى عشرة، فأقام للناس الحج، وابتاع فيها أسلم.
11 ھ میں ابوبکر نے عمر کو حج کے لئے بھیجا تو
1 :- اس نے حج کیا
2 :- اس نے اسلم کو خریدہ
اس قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان دو واقعات کا وقوع اس ” گیارہ ہجری ” میں ہوا ہے
” فیھا” کی ضمیر مکہ کی طرف تھوڑی راجع ہے جبکہ مکہ مرقوم ہی نہیں
بلکہ یہ گیارہویں ہجری کی طرف راجع ہے ( علی الظاھر ) بلکہ علامہ ابو نعیم اصفہانی نے تو ضمیر کا مرجع ” تلک السنة ” ظاہر کر کے لائے :
حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا أَبُو شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ النُّفَيْلِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ – كَمَا حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، «عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ إِلَى الْحِجَّةِ، فَأَقَامَ لِلنَّاسِ الْحَجَّ، وَابْتَاعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي تِلْكَ السَّنَةِ مَوْلَاهُ أَسْلَمَ مِنْ أُنَاسٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ
۔۔۔
حرف آخر :
اسلم نے عمر بن خطاب سے سماع کیا ہے جس کی تصریح بخاری اور کئی سارے محدثین نے کی ہے
نیز ان دونوں کا کثرت لقاء بھئ ثابت ہے
اور اسلم عدوی یہ روایت اپنے آقا عمر سے روایت کر رہا ہے اور ہمارے مستدل کلمات وہی ہیں نہ کہ وہ منظر کشی جسے اسلم العدوی بیان کر رہے ہیں( کہ جب ابوبکر بن ابی قحافہ کی بیعت کی گئی تو علی نے بیعت سے تخلف کیا ۔۔۔الخ)
کیا اسلم کا گیارہویں یا بارہویں ہجری میں خریدہ جانا اس بات کو مستلزم ہے کہ اسلم واقعہ احراق کے وقت موجود نہیں تھا جبکہ محدثین نے یہ تصریح ہے کہ اسلم نے ” نبی مکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے زمانہ کو درک کیا “
ذرا یہ ملازمہ تو ثابت کریں پھر اس روایت کے انقطاع کا بہانا بنائیں ۔
احقر العباد : عبدالزهراء الغروی
