1
.
*کیا مولا علیؑ نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر خلیفہ اول کی محبت میں رکھا تھا؟*
.
ابوالفرج اصفھانی لکھتے ھیں۔


.
حضرت امام علی علیہ السلام کے فرزند کا نام ابو بکر ہے نہیں ہے بلکہ *محمد اصغر* ہے۔
اور ابو بکر ان کی *کنیت* ہے اور یہ کربلا میں شہید ہو گئے تھے ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت مسعود ہے۔
چنانچہ علامہ حلی لکھتے ہیں:


.


.


.
اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﮐﻨﯿﺖ ﮨﮯ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ہے۔
لہذا
.
ﺍﮔﺮ مولا علیؑ نے ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﮑﻌﺒﮧ، ﻋﺘﯿﻖ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺟﻮ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻨﯿﺖ ﭘﺮ۔
.
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ : ﮐﻨﯿﺖ ﺑﺎﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﺎ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
.
*ﺍﺏ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ( ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ) ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺭﮐﮭﺎ؟*
.
کتاب سیرت امیر المومنین (ع) میں علامہ نجاح طائی لکھتے ہیں کہ امیرالمومنین (ع) کے کسی بیٹے کا نام بکر نہیں تھا
مگر بنوامیہ طنزاً امیر المومنین (ع) کے بیٹوں کو ان ناموں سے پُکارتے تھے۔جو بعد میں مشہور ہو گئے۔
آیت الله حبیب الله کاشانی نے تذکرہ الشہداء میں آپ کا نام محمد لکھا ہے۔
کتاب سیرت امیر المومنین میں آپ کا نامر محمد اصغر لکھا ہے۔
.
روایات میں جو نام ذکر ہے 

روایت میں ہے کہ جب میدان کربلا میں موت وشہادت کا بازار گرم تھا۔ امام حسین (ع) کے انصار ایک ایک کر کے میدان میں جانے کے لیے تیار بیٹے تھے اسی دوران *محمد اصغر* امام حسین (ع) کے سامنے آئے اور سر جھکا کر اذن جہاد مانگا اجازت ملنے کے بعد آپ (ع) میدان جنگ کی طرف یہ رجز کہتے ہوئے آگے بڑھے
” مــیرے بابا کا نام عــلی ہے ، جن کی تلوار ذوالفقار ہے اور یہ حســین (ع) فرزند رســول (ص) ہیں اور مــیں فرزند رســول (ص) کے حــق میں تلــوار چلا رہا ہوں اور ان پر اپنی جــان فــدا کروں گا. “
امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ *محمد اصغر (ع)* کا قاتل بنی ہمدان سے تھا۔
روضہ الشہداء میں ہے کہ آپ (ع) کی شہادت حضرت قاسم بن حسن (ع) کے بعد ہوئی اور پھر آپ کی ماں کے قبیلہ والوں نے اس جگہ دفن کیا جہاں آج آپ کا مرقد مبارک ہے. آپ کا روضہ مبارک کربلا سے ٥٠ کلو میٹر دور ہے.

.
2
.
*کیا مولا علی نے اپنے بیٹے کا نام عمر خلیفہ دوم کی محبت میں رکھا تھا؟*
پہلی بات تو یہ ہے کہ اہل سنت کی حدیثی و رجالی کتب میں لکھا ہے کہ
مولا علیؑ کے بیٹے کا نام *عمر نہیں بلکہ عمرو تھا*



کتب اہل سنت سے سکین ثبوت کمنٹس میں ملاحظہ کیجئے

اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ عمرو نہیں بلکہ عمر ہی تھا
تو جہاں تک عمر بن علی ابن ابی طالب کا تعلق ہے تو اہل سنت کے علماء میں سے ابن اثیر نے اسدالغابہ میں اس نام سے متعدد صحابہ کا ذکر کیا ہے
*یہ اتنے سارے صحابہ کے نام عمر تھے تو کیا ان سب نے خلیفہ دوم کی محب میں نام رکھے تھے؟*
1. عمر بن الحكم السلمي؛
2. عمر بن الحكم البهزي؛
3 . عمر بن سعد ابوكبشة الأنماري؛
4. عمر بن سعيد بن مالك؛
5. عمر بن سفيان بن عبد الأسد؛
6. عمر بن ابوسلمة بن عبد الأسد؛
7. عمر بن عكرمة بن ابوجهل؛
8. عمر بن عمرو الليثي؛
9. عمر بن عمير بن عدي؛
10. عمر بن عمير غير منسوب؛
11. عمر بن عوف النخعي؛
12. عمر بن لاحق؛
13. عمر بن مالك؛
14. عمر بن معاوية الغاضري؛
15. عمر بن وهب الثقفي؛
16. عمر بن يزيد الكعبي؛
17. عمر الأسلمي؛
18. عمر الجمعي؛
19. عمر الخثعمي؛
20. عمر اليماني.
21. عمر بن الخطاب.



*اگر کوئی بھی شخص عمر نام رکھے تو خلیفہ دوم کی محبت کیسے لازم آتی ہے؟*
*کیا کوئی شخص ان 20 عمر نامی صحابہ میں سے کسی کے نام سے نام نہیں رکھ سکتا؟*
اور

اور
امالی شیخ طوسی میں اس نے اپنی والدہ ام سلمیٰ سے حدیث کساء کو روایت کیا ہے
اور ان کا شمار امامی شیعوں میں ہوتا ہے
اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے جنگ جمل کے موقع پر اسے اپنے لشکر کا سربراہ مقرر کیا تھا
.
اور اہل سنت کے علماء میں سے ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں اسے بحرین کا حاکم مقرر کیا تھا۔
تو کیا مخا لفین پر وحی نازل ہوئی ہے کہ مولا علیؑ نے اپنے فرزند کا نام خلیفہ دوم کے نام پر رکھا تھا۔؟
*پھر اس طرح تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ مولا علیؑ نے اپنے فرزند کا نام عمر بن ام سلمیٰ کے نام پر رکھا تھا۔*
.
کیوں کہ
عمر بن ابی سلمہ (رض) جو ام المومنین ام سلمہ (رض) کے پہلے شوہر سے فرزند تھے،
اہلبیت (ع) کے محب و جان نثار تھے۔
ام المومنین ام سلمہؓ نے اپنے اس بیٹے کو جمل کی جنگ میں مولا علی (ع) کی خدمت میں بھیجا تھا۔

.
مزید یہ کہ
یہ بھی ثابت نہیں کہ امام علی ع نے یہ نام رکھا تھا
بلکہ
خلیفہ دوم نے جبراً یہ نام اپنی طرف سے رکھ لیا تھا جیسا کہ جبر اس کا شیوہ رہا ہے یہاں تک کہ نبی پاک والے نام بھی ہٹوا دیتا تھا لوگوں سے۔
.
*بلاذری نقل کرتے ہیں کہ یہ عمر نام خلیفہ دوم نے رکھا تھا۔*


.
*خلیفہ دوم کے زمانے میں پیدا ہونے والوں کے نام خلیفہ دوم اکثر خود رکھا کرتے تھے*
.
کیونکہ یہ فرزندِ مولا علیؑ عمر کی خلافت میں متولد ہوئے تھے ، تو عمر نے یہ نام رکھا (نہ کہ امام علی ع نے)


.
*خلیفہ دوم لوگوں کے نام بدلتے تھے*
.


لیکن عمر نے بدل کر عبدالرحمن رکھ لیا تھا

.
*دوسری مثال*
.
اجدع کا نام بھی عمر نے تبدیل کرکے عبدالرحمن رکھ لیا تھا


.
*مزید*
.
ثعلبہ کا نام معلی رکھا خلیفہ دوم نے خود ہی رکھا


.
*خلیفہ دوم جبراً نام رکھتے تھے یہاں تک کہ نبی پاک کا نام رکھنے سے منع کرتے تھے*



.
*بلکہ خلیفہ وقت کی سختی یہاں تک تھی کہ نبی پاک کے نام سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرنے کا حکم دے دیا*


.
مزید اہل سنت کتب سے ثابت ہے کہ انکا نام عمر نہیں بلکہ عمرو تھا








.
3
.
*کیا مولا علیؑ نے اپنے بیٹے کا نام عثمان خلیفہ سوم کی محبت میں رکھا تھا؟*
.
ﻧﺎﻡ “ﻋﺜﻤﺎﻥ “بهی ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺭﺍﺋﺞ ﺍﺳماء ﻣﯿﮟ سے ﺗﮭﺎ – ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ
ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻨﺎﺑﻊ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺍﮐﺮﻡ ( ﺹ ) ﮐﮯ 25 ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ “ﻋﺜﻤﺎﻥ ” ﺗﮭﺎ –
*یہ اتنے سارے صحابہ کے نام عثمان تھے تو کیا ان سب نے خلیفہ سوم کی محبت میں نام رکھے تھے؟*
1۔ عثمان بن ابوجهم الأسلمي ؛
2. عثمان بن حكيم بن ابوالأوقص ؛
3. عثمان بن حميد بن زهير بن الحارث ؛
4. عثمان بن حنيف بالمهملة ؛
5. عثمان بن ربيعة بن أهبان ؛
6. عثمان بن ربيعة الثقفي ؛
7. عثمان بن سعيد بن أحمر ؛
8. عثمان بن شماس بن الشريد ؛
9. عثمان بن طلحة بن ابوطلحة ؛
10. عثمان بن ابوالعاص ؛
11. عثمان بن عامر بن عمرو؛
12. عثمان بن عامر بن معتب ؛
13. عثمان بن عبد غنم ؛
14. عثمان بن عبيد الله بن عثمان ؛
15. عثمان بن عثمان بن الشريد ؛
16. عثمان بن عثمان الثقفي ؛
17. عثمان بن عمرو بن رفاعة ؛
18. عثمان بن عمرو الأنصاري ؛
19. عثمان بن عمرو بن الجموح ؛
20. عثمان بن قيس بن ابوالعاص؛
21. عثمان بن مظعون؛
22. عثمان بن معاذ بن عثمان ؛
23. عثمان بن نوفل زعم ؛
24 . عثمان بن وهب المخزومي ؛
25. عثمان الجهني ؛
26. عثمان بن عفان.
اور صحابی رسول عثمان بن حنیف انصاری کا شمار بھی امامی شیعوں میں ہوتا ہے۔



*اگر کوئی بھی شخص عثمان نام رکھے تو خلیفہ سوم کی محبت کیسے لازم آتی ہے؟*
*کیا کوئی شخص ان 25 عثمان نامی صحابہ میں سے کسی کے نام سے نام نہیں رکھ سکتا؟*
.
*جہاں تک عثمان بن علی بن ابی طالب کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ*
.
ھبیرہ بن مریم بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت امام علی علیہ السلام کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، تو انہوں نے اپنے فرزند عثمان کو ندا دی پھر ان سے فرمایا:


.
خود اہل سنت کی ہی کتب معتبرہ میں درج ہے کہ اہلبیت (ع) نے اپنے ایک بچے کا نام عثمان، عثمان بن مظعون کے نام پہ رکھا۔
یہ عثمان بن مظعون آپ حضور (ص) کے رضاعی بھائی تھے۔ نبی کریم (ص) انکے بوسے لیا کرتے تھے۔
اور
انکی وفات پہ رسول اللہ (ص) کو بہت صدمہ ہوا۔ اور آپ نے انکی میت کے بھی بوسے لیئے۔
ملاحظہ ہوں۔






.
*امام علی ع نے یہ نام عثمان بن مظعون کی محبت میں رکھا تھا*
.
جیسا کہ امام علی ع نے خود فرمایا:




.
4
.
اگر کوئی عالم، علامہ یا مفتی دنیا کی کسی بھی کتاب سے یہ ثابت کر دے کہ اہلبیت (ع) نے یہ نام بالترتیب ثلاثہ کی محبت میں رکھے تھے، کسی اپنی ہی کتاب سے ایک حوالہ پیش کرنے پہ بھی شکریہ کیساتھ علمی داد پیش کی جائیگی۔
.
جبکہ ہمارا یہ دعوٰی ھے، کہ کسی کے نام پر نام رکھ دینا ہرگز اس شخصیت سے محبت کرنے کے مترادف نہیں ھے۔
مثال کے طور پر صرف دو ناموں کی مثال دینے پہ ہی اکتفا کرتا ہوں۔
.
*ایک نام ہے فیروز اور ایک نام ہے عبدالرحمن۔*
.
دونوں نام اہل سنت برادران کے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
جیسا کہ آپ سب جانتے بھی ہیں کہ *فیروز* خلیفہ ثانی حضرت عمر کا قاتل ہے۔
جبکہ
*عبدالرحمن* مسلمانوں کے خلیفہ راشد و چہارم حضرت علی ابن ابی طالب کا قاتل تھا۔
کیا والدین اپنے بچوں کے یہ نام قاتلان خلفاء راشدین کے ناموں کی نسبت ان قاتلوں سے محبت کیوجہ سے رکھتے ہیں؟
*یقیناً ایسا ہرگز نہیں ھے* آپ اپنے بچوں کے نام ان قاتلانِ خلفاء راشدین کی محبت میں نہیں رکھتے۔
.
بلکہ
یہ مشہور نام ہیں اور انکے معنی بهی اچھے ہیں اسلیئے رکھ لیئے جاتے ہیں۔
.
ﺻﺮﻑ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﻣﺘﻌﺎﻝ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺭﮐﮭﮯ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
.
ﺣﺘﯽ ﯾﺰﯾﺪ ﺟﻮ ﺷﯿﻌﯿﺎﻥ ﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﻨﻔﻮﺭﺗﺮﯾﻦ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﻣﺜﻼ *ﯾﺰﯾﺪ ﺍﺑﻦ ﺣﺎﺗﻢ* ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﺣﺘﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ( ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ) ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ *ﺷﻤﺮ* ﮨﮯ
*ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻧﺎﻡ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﺰﯾﺪ ﯾﺎ ﺷﻤﺮ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ( ﻋﻠﯿﮭﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ) ﯾﺎ ﺷﯿﻌﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮨﯿﮟ؟*
.
ﺍﮔﺮ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ خلیفہ دوم ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﺎﻡ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ؟
ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ : *ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺍﮨﻞ ﮐﻮﻓﮧ ﮐﻮ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﺖ ﺭﮐﮭﻮ۔*
ﻛﺘﺐ ﻋﻤﺮ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﻜﻮﻓﺔ ﺍﻻ ﺗﺴﻤﻮﺍ ﺃﺣﺪًﺍ ﺑﺎﺳﻢ ﻧﺒﻰ۔
بحوالہ:
ﺇﺑﻦ ﺑﻄﺎﻝ ﺍﻟﺒﻜﺮﻱ ﺍﻟﻘﺮﻃﺒﻲ، ﺃﺑﻮ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﻚ ( ﻣﺘﻮﻓﺎﻱ 449 ﻫـ ) ، ﺷﺮﺡ ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﺝ 9 ، ﺹ 344 ، ﺗﺤﻘﻴﻖ : ﺃﺑﻮ ﺗﻤﻴﻢ ﻳﺎﺳﺮ ﺑﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ، ﻧﺎﺷﺮ : ﻣﻜﺘﺒﺔ ﺍﻟﺮﺷﺪ – ﺍﻟﺴﻌﻮﺩﻳﺔ / ﺍﻟﺮﻳﺎﺽ، ﺍﻟﻄﺒﻌﺔ : ﺍﻟﺜﺎﻧﻴﺔ، 1423 ﻫـ – 2003 ﻡ . ﺍﻟﻌﺴﻘﻼﻧﻲ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ، ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﺃﺑﻮ ﺍﻟﻔﻀﻞ ( ﻣﺘﻮﻓﺎﻱ 852 ﻫـ ) ، ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﻱ ﺷﺮﺡ ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﺝ 10 ، ﺹ 572 ، ﺗﺤﻘﻴﻖ : ﻣﺤﺐ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﺨﻄﻴﺐ، ﻧﺎﺷﺮ : ﺩﺍﺭ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ – ﺑﻴﺮﻭﺕ .
.
ﻋﯿﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻋﻤﺪۃ ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ :
.
ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻛﺘﺐ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﻜﻮﻓﺔ ﻻ ﺗﺴﻤﻮﺍ ﺃﺣﺪﺍ ﺑﺎﺳﻢ ﻧﺒﻲ ﻭﺃﻣﺮ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺑﺎﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﺑﺘﻐﻴﻴﺮ ﺃﺳﻤﺎﺀ ﺃﺑﻨﺎﺋﻬﻢ ﺍﻟﻤﺴﻤﻴﻦ ﺑﻤﺤﻤﺪ ؛
ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺍﮨﻞ ﮐﻮﻓﮧ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﺎﻡ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ *ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﮟ۔*
بخوالہ:
ﺍﻟﻌﻴﻨﻲ، ﺑﺪﺭ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ( ﻣﺘﻮﻓﺎﻱ 855 ﻫـ ) ، ﻋﻤﺪﺓ ﺍﻟﻘﺎﺭﻱ ﺷﺮﺡ ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﺝ 15 ، ﺹ 39 ، ﻧﺎﺷﺮ : ﺩﺍﺭ ﺇﺣﻴﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﻲ – ﺑﻴﺮﻭﺕ
.
مکتب تسنن کے تو بہت بڑے امام ابن ماجہ کے والد کا نام *یزید* تھا۔
تو کیا تسلیم کر لیا جائے کہ انہیں یزید لعین سے بہت پیار تھا؟
حوالہ کیلیئے ملاحظہ ہو
(ابن ماجہ شریف جلد 1 صفہہ 5)
.
اہلسنت کے تو اکثر راویوں کے نام *یزید* تھے۔
حوالہ دیکھیں
(مشکواۃ شریف جلد 3 صفہہ 446)
.
کیا مان لیا جائے کہ اہلسنت مکتب سے وابستہ افراد کو یزید لعین سے بہت پیار ہے؟
.
اب صرف ایک سوال ہماری طرف سے۔
.
اگر نام رکھنا محبت کی ہی علامت ہے تو جواب دیں کہ پھر آخر یہ یکطرفہ محبت کیوں؟
بقول آپکے اگر آپکی بات کو درست مان بھی لیا جائے۔
کہ اہلبیت (ع) نے تو محبت کیوجہ سے اولاد کے یہ نام رکھے۔
مگر
کیا یہی محبت ان مخصوص افراد (ثلاثہ) کو اہلبیت (ع) کیساتھ نہیں تھی؟
کیونکہ
*انکی تو پوری نسل میں “علی، حسن اور حسین ” کا نام ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔*
کیا آپ خلفاء ثلاثہ کے فرزندان کے نام مولا علی (ع) کی محبت میں علی ، امام حسن (ع) کی محبت میں حسن، اور امام حسین (ع) کی محبت میں حسین ثابت کر سکتے ہیں؟
.
*ہرگز نہیں – قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے۔*
.
عرب میں اولاد کے نام بر بنائے رواج رکھے جاتے تھے۔ بر بنائے محبت نہیں۔
نام اور رشتے تو بڑے بڑے موجود ھیں۔ مگر حیثیت کردار کی ھے نام کی نھیں
قابیل و ھابیل دونوں اولاد نبی (ع) ہیں ، مگر ایک کیلئے رحمت اور دوسرے کیلئے لعنت کی وعید ہے۔
حضرت نوح (ع) نبی کے بیٹے کو ھی دیکھ لیجیئے۔ جس کیلئے لیس من اھلک کی آیت نازل ہوئی اور جو مثبت کردار نہ ہونے کی وجہ سے آل نوح سے ہی خارج کر دیا گیا تھا۔
نیز
حضرت نوحؑ و لوطؑ نبیوں کی بیویوں کو دیکھ لیں کہ قران پاک میں ان کے منفی کردار کی وجہ سے انہیں کافرہ کہا گیا ، دو ازواج امہات کو تنبیہ قرآن پاک میں نازل ہوئی۔
.
خود صحابہ کی ایسی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
لیکن اتنا ہی کہنا چاہوں گا نام و رشتہ داری سے کچھ نہیں ہوتا ، ساری بات کردار کی ہوتی ہے۔
.
فاخر رضوی کی تحریر سے