نماز فجر میں الصلوتہ خیر من النوم کہنے کا حکم

تحریر : قبلہ خیر طلب
.
ناظرین شیعہ موقف کے مطابق نماز میں الصلوتہ خیر من النوم کہنا (تثویب) بدعت ہے اور اس کا اضافہ آذان میں بقصد جزئیت کرنا حر ام ہے۔
.
اس سلسلہ میں دلائل دینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اہلسنت فقہاء و محدثین کے مؤقف جو شیعی مؤقف کی تائید میں ہے، اس کو نقل کردیا جائے
.
اول، امام شافعی
.
امام شافعی کے دو اقوال پائے جاتے ہیں ایک قدیم قول ہے جو تثویب کو جائز قرار دیتا ہے اور جدید قول کے مطابق شافعی اس کو مشروع نہیں سمجھتے، چنانچہ کتاب الام میں مرقوم ہے:
.
ولا أحب التثويب في الصبح ولا غيرها ; لأن أبا محذورة لم يحك عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه أمر بالتثويب فأكره الزيادة في الأذان وأكره التثويب بعده . .
.
میں صبح کی نماز اور اس کے علاوہ تثویب (الصلوتہ خیر من النوم کہنا) کو اچھا نہیں سمجھتا کیونکہ ابو محذورہ نے رسول ص سے نقل نہیں کیا کہ انہوں نے تثویب کا حکم دیا اور مجھے نا پسند ہے کہ آذان میں زیادتی ہو اور اسی طرح میں نا پسند کرتا ہوں کہ اس میں تثویب کو کہا جائے۔
حوالہ: کتاب الام جلد ٢ ص ١٨٧ و ١٨٨ باب حكاية الآذان
دوم، امام مالک
.
ناظرین ان کا قول ابن وضاح یوں نقل کرتے ہے:
حدثني : أبان بن عيسى ، عن أبيه ، عن ابن القاسم ، عن مالك : أنه قال : التثويب بدعة ، ولست أراه
ابن القاسم مالک سے نقل کرتے ہے کہ انہوں نے کہا کہ تثویب (الصلوتہ خیر من النوم کہنا) کہنا بد عت ہے اور میں اس کو جائز نہیں پاتا۔
حوالہ: البدع لابن وضاح ص ٤٦، باب تغير البدع
سوم
.
عطاء بن ابی رباح
عبدالرزاق اپنی المصنف میں نقل کرتے ہے:
عبد الرزاق عن ابن جريج قال : سألت عطاء : متى قيل : الصلاة خير من الوم ؟ قال : لا أدري
بن جریج کہتے ہے کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کب الصلوتہ خیر من النوم کہا گیا؟ تو عطاء نے کہا مجھے (اس کی ابتدا کرنے والے کا) نہیں معلوم
حوالہ: المصنف عبدالرزاق جلد ١ ص ٤٧٤ باب الصلاة خير من النوم
تبصرہ: ناظرین یہ اقوال مضبوط و ثابت ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ہمارے پیش نظر ان علماء کے اقوال ہیں جو اس کو صحیح نہیں جانتے، اور ان میں سے بعض کے اسماء بعنوان شواہد نقل کئے جاتے ہیں۔
.
پہلا، ابن عمر
.
عبد الرزاق عن ابن عيينة عن ليث عن مجاهد قال : كنت مع ابن عمر فسمع رجلا يثوب في المسجد فقال : اخرج بنا من [ عند ] هذا المبتدع
مجاہد کہتے ہے کہ میں ابن عمر کے ساتھ تھا کہ انہوں نے مسجد میں ایک شخص کو تثویب (الصلوتہ خیر من النوم) پڑھتے سنا، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ اس بد عتی کے پاس سے چلو۔
حوالہ: المصنف عبدالرزاق جلد ١ ص ٤٧٥ باب التثويب في الاذان والاقامة
تبصرہ: روایت کی سند محتمل ہے اور لیث بن ابی سلیم متکلم فیہ راوی ہے۔ اس پر اپنا نظریہ کیا ہے وہ الگ بحث ہے لیکن فی الحال مشہور نظریہ کے تحت حکم دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خود ابن عمر سے اس حوالہ سے متعارض اخبار منقول ہیں۔
.
دوسرا، اسود بن یزید
.
حدثنا أبو بكر قال أنا وكيع عن إسرائيل عن حكيم بن جبير عن عمران بن أبي الجعد عن الأسود بن يزيد أنه سمع مؤذنا يقول في الفجر الصلاة خير من النوم فقال لا يزيدون في الأذان ما ليس منه .
عمران ابن ابی الجعد کہتے ہے کہ اسود بن یزید نے ایک موذن کو نماز فجر میں الصلوتہ خیر من النوم کہتے سنا تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے نماز میں ان چیزوں کا اضافہ کردیا ہے جو اس میں سے نہیں۔
حوالہ: مصنف ابن ابی شیبہ جلد ٢ ص ١٦ باب من كان يقول في الأذان الصلاة خير من النوم
تبصرہ: روایت کی سند میں ایک راوی عمران بن ابی جعد کی توثیق بعض محققین کے نزدیک ثابت نہیں تو ہم نے مشہور نظریہ کے تحت اس روایت سے احتجاج نہیں کیا۔
.
ناظرین اب جب کہ واضح ہوگیا کہ یہ نظریہ خود اہلسنت میں مختلف فیہ ہے اور ان کے سلف کا نظریہ بھی اس کے بد عت کا رہ چکا ہے، اب آتے ہے اصلی دلیل کی طرف
.
دار القطنی نقل کرتے ہے:
حدثنا : محمد بن مخلد ، ثنا : محمد بن اسماعيل الحساني ، ثنا : وكيع ، عن العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر ووكيع ، عن سفيان ، عن محمد بن عجلان ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر : أنه قال : لمؤذنه إذا بلغت حي على الفلاح في الفجر ، فقل : الصلاة خير من النوم ، الصلاة خير من النوم.
ابن عمر وہ عمر بن خطاب سے کہ انہوں نے اپنے مقرر کردہ موذن سے کہا کہ جب تم حی علی الفلاح پر نماز فجر میں آنا تو پھر کہا کرو الصلوتہ خیر من النوم (دو مرتبہ)
حوالہ: سنن دار القطنی جلد ١ ص ٥٣٧ كتاب الصلاة – باب ذكر الإقامة واختلاف الروايات فيها
اس روایت کی دو اسناد ہیں:
پہلی: حدثنا : محمد بن مخلد ، ثنا : محمد بن اسماعيل الحساني ، ثنا : وكيع ، عن العمري ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر
دوسری: حدثنا : محمد بن مخلد ، ثنا : محمد بن اسماعيل الحساني ، ثنا : وكيع عن سفيان ، عن محمد بن عجلان ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر
دونوں اسناد معتبر ہیں اور قابل احتجاج ہیں اور روایت میں واضح ہوگیا کہ اس چیز کو رائج کرنے والے حضرت عمر کی شخصیت ہی تھی۔
.
اب ناظرین ہم مزید دو روایات بطور شاہد پیش کرتے ہیں (اور بعض مبانی کے مطابق یہ روایات معتبر ہیں)۔
.
ابن ابی شیبہ نقل کرتے ہے:
حدثنا أبو بكر قال أنا عبدة بن سليمان عن هشام بن عروة عن رجل يقال له إسماعيل قال جاء المؤذن عمر بصلاة الصبح فقال الصلاة خير من النوم فأعجب به عمر وقال للمؤذن أقرها في أذانك .
راوی اسماعیل کہتا ہے کہ موذن حضرت عمر کے ہاں آیا اور اس نے صبح کی نماز میں الصلوتہ خیر من النوم کہا جو عمر کو بہت پسند آیا تو انہوں نے موذن سے کہا کہ تم اس کو اپنی فجر کی آذان کا حصہ بنا لو۔
حوالہ: مصنف ابن ابی شیبہ جلد ٢ ص ١٥ باب من كان يقول في الأذان الصلاة خير من النوم
.
مالک اپنی موطا میں نقل کرتے ہے:
وحدثني ، عن مالك : أنهم بلغهم أن المؤذن جاء إلى عمر بن الخطاب يؤذنه لصلاة الصبح فوجده نائما ، فقال : الصلاة خير من النوم فأمره عمر : أن يجعلها في نداء الصبح.
مالک کہتے کہ انہوں نے خبر پہنچائی کہ مؤذن عمر کے پاس نماز فجر کی آذان دینے پہنچا تو ان کو سوتا پایا تو اس نے کہا الصلوتہ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے) تو عمر نے حکم دیا کہ اس کو صبح کی آذان کا حصہ بنایا جائے۔
حوالہ: الموطا ص ٧٢ كتاب الصلاة
ناظرین یہ دو روایات شاہد ہیں اس روایت کی جو ہم نے شروع میں نقل کی جو واضح طور پر عمر بن خطاب کو تثویب کا بانی قرار دیتی ہے۔
.
یہی وجہ سے کہ ایک مکالمہ میں طاوؤس الیمانی جو اہلسنت کے سلف بزرگوں میں سے ہے انہوں نے اس چیز کا دفاع کیا اور روایت کچھ یوں ہے:
.
عبد الرزاق عن ابن جريج قال : أخبرني ابن مسلم
أن رجلا سأل طاووسا جالسا مع القوم فقال : يا أبا عبد الرحمن ! متى قيل : الصلاة خير من النوم ؟ فقال طاووس : أما إنها لم تقل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولكن بلالا سمعها في زمان (2) أبي بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها رجل غير مؤذن فأخذها منه ، فأذن بها ، فلم يمكث أبو بكر إلا قليلا ، حتى إذا كان عمر قال : لو نهينا بلالا عن هذا الذي أحدث ، وكأنه نسيه ، فأذن به الناس حتى اليوم
حسن بن مسلم راوی کہتے ہے کہ ایک شخص نے طاوؤس سے سوال کیا درحالآنکہ وہ اپنی قوم میں بیٹھے تھے کہ اے ابو عبدالرحمان!! کب سے الصلاتہ خیر من النوم کہا گیا؟ طاؤوس نے جواب دیا کہ یہ جملہ رسول ص کے زمانہ میں نہ تھا بلکہ بلال نے اس کو رسول ص کی وفات کے بعد ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ایک غیر موذن شخص سے سنا تو بلال نے یہ بات اس سے لے لی، اور پھر ابوبکر کچھ ہی عرصہ زندہ رہے یہاں تک عمر کی زمانہ خلافت آگئی، تو اگر بلال اب ہمیں اس سے منع کریں جو خود ان کی شروع کردہ ہے تو گویا وہ اپنی ہی شروع کردہ بات بھول گئے، تو آج تک یوں ہی لوگوں کے درمیان آذان (تثویب کے ساتھ) دی جاتی ہے۔
حوالہ: المصنف عبدالرزاق جلد ١ ص ٤٧٤ باب الصلاة خير من النوم
دارقطنی نے اپنی سند سے ایک روایت نقل کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا کہ :
عمر بن خطاب نے موذن سے کہا : جب تم صبح کی آذان میں “حی علی الفلاح” پر پہنچ جاؤ تو تم “الصلاۃ خیر من النوم، الصلاۃ خیر من النوم” کہنا۔
⛔سنن دارقطنی – علی بن عمر دارقطنی // صفحہ ۲۰۳ // رقم ۴۰ // طبع دار ابن حزم ریاض سعودیہ۔
بہیقی نے اسکو اپنی سند سے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے۔
کتاب کے محقق نے اس روایت کو “حسن” کا حکم لگایا ہے۔
⛔سنن الکبریٰ – بہیقی // جلد ۱ // صفحہ ۷۹۱ // رقم ۱۹۸۷ // طبع دار الحدیث قاھرہ مصر۔
ابن رشد اندلسی نے بھی تثویب پر اختلاف نقل کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے :
اور علماء نے اختلاف کیا ہے موذن کے اس قول پر جو صبح کی آذان میں دیا جاتا ہے الصلاۃ خیر من النوم۔ آیا اسکو پڑھنا چاھئے یا نہیں؟
جمہور نے کہا کہ اسکو اس آذان میں پڑھا جائے۔ اور باقیوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہنا چاھئے کیونکہ یہ مسنون آذان کا حصہ نہیں ہے۔ ایسا شافعی نے کہا ہے۔
اس اختلاف کا سبب اس وجہ سے ہے کہ آیا ایسا نبی ﷺ کے زمانے میں کہا گیا یا عمر بن خطاب کے زمانے میں؟
⛔بدایۃ مجتہد – ابن رشد // صفحہ ۱۰۲ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
موجود زمانے میں شیعہ امامیہ و زیدیہ اس زیادت “الصلاۃ خیر من النوم” کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ باقی تمام مکاتب فکر اسکی جوازیت کے قائل ہیں (بلکہ صاحب مذھب علی الفقہ اربعہ نے اس پر اتفاق کا دعوہ کیا ہے جیسا کہ شیعہ محقق نے فقہ کہ تقابلی کتاب میں ذکر کیا ہے)۔
⛔فقہ علی مذھب خمسہ – علامہ جواد مغنیہ // صفحہ ۱۰۸ // طبع دار الغدیر قم ایران۔
فائنل کمنٹ: ناظرین ان تفصیلات کی روشنی میں واضح ہوا کہ یہ بات خود اہلسنت کے ہاں مختلف فیہ ہے کہ آیا یہ چیز مشروع ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض شواہد کی بنا پر اس کی ابتدا خلیفہ دوم سے ملتی ہے یا ان کے زمانہ کی پیدا کردہ ایجاد قرار پاتی ہے جب ہی شیعان حیدر کرار اس بد عت سے احتزار کرتے ہے، نفس جملہ میں اشکال نہیں کیونکہ بیشک نماز نیند سے بہتر ہے لیکن اس کی اضافت بقصد جزئیت ثابت نہیں۔
تحریر: خیر طلب
.
اھل سنت والجماعت افراد اپنی صبح فجر کی اذان میں جو الصلاۃ خیر من النوم کہتے ہیں اس کی در اصل حقیقت کیا ہے ؟
آئے اھل سنت والجماعت کے بلند ترین عالم دین
امام عبدالرزاق بن ھمام صنعانی اپنی کتاب
” المصنف” میں لکھتے ہیں ♨️
پہلی روایت تثویب پر🌀
ابن جریح بیان کرتے ہیں : میں نے عطاء سے سوال کیا الصلاۃ خـیر مـن النوم کے کلمات کب
کہے جائیں گئے؟
یا پہلی مرتبہ کب کہے گئے” انہوں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم!
دوسری روایت تثویب پر 🌀
عمر بن حفص بیاں کرتے ہیں، سعد نامی شخص
نے عمر بن خطاب کے عہد حکومت میں سب سے پہلی مرتبہ الصلاۃ خـیر مـن النوم کے کلمات
کہے ، تو عمر بن خطاب نے فرمایا یہ بدعت ہے
لیکں پھر انہوں نے اس مؤذن کو کچھ نہیں کہا،
تیسری روایت تثویب پر 🌀
مجاھد بیان کرتے ہیں، ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر کے ساتھ تھا،، انہوں نے ایک شخص کو مسجد میں تثویب یعنی ” الصلاۃ خـیر مـن النوم” کہتے ہوئے سنا،، انہوں نے کہا اس بدعتی کو ہمارے یہاں سے نکال دو ،،
حوالہ 📚 مصنف از عبدالرزاق اُردو جلد اول ص 462
نوٹ،، باپ اور بیٹے کے نزدیک الصلاۃ خـیر مـن النوم بدعت ہیں،، سارے سنی صحابہ کے دیوانے
.
آذان میں لصلوتہ خیر من النوم حضرت عمر
.
.
کیا شیعہ کتب سے اذان میں الصلاۃ خیر من النوم ثابت ہے ؟
.
السلام علیکم
ایک برادر نے دو شیعہ روایات پیش کیں جن میں کسی اہلسنت نے ثابت کیا تھا کہ شیعہ کتب میں اذان میں الصلاۃ خیر من النوم ثابت ہے
اس کا مختصر جواب عرض ہے
.
یہ روایات کچھ وجوہات کی بنا پر مردود ہیں
.
( 1 ) یہ حالت تقیہ میں بیان کی گئی ہیں
.
2 ) مذہب شیعہ کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے کہ جب دو روایات میں اختلاف آجائے تو ان روایات کو قبول کیا جائے جو مذہب شیعہ کے موافق ہوں اور ان روایات کو رد کردیا جائے جو اہلسنت مذہب کے موافق ہوں
.
اخبار شاذ کو ترک کردیا جائے اور اخبار متواترہ کو ترجیح دی جائے
اخبار متواترہ سے جو اذان و اقامت نقل ہوئی ہے اس میں یہ الفاظ موجود نہیں
.
3 ) ان میں سے دوسری روایت کی سند مؤثق ہے
.
اور مؤثق روایت اس روایت کو کہتے ہیں جس میں غیر شیعہ راوی ہوں ، اور غیر شیعہ راوی کی روایت اس وقت قابل قبول نا ہوگی جب وہ شیعہ مذہب کے برخلاف کوئی روایت نقل نا کرے
.
شیخ طوسی فرماتے ہیں
كان الراوي من فرق الشيعة مثل الفطحية، والواقفة، والناووسية وغيرهم نظر فيما يرويه:فان كان هناك قرنية تعضده أو خبر آخر من جهة الموثوقين بهم، وجب العمل به.
وان كان هناك خبر آخر يخالفه من طريق الموثوقين، وجب اطراح ما اختصوا بروايته والعمل بما رواه الثقة
مختصر ترجمہ: شیخ صاحب لکھتا ہے اگرچہ کوئی راوی شیعہ فرقے سے ہو مثلا فطحی واقفی وغیرہ ان لوگوں کی روایات اس صورت میں قبول ہیں جب اُن کی روایات ثقہ روایات کے خلاف نہ ہو اگر ثقہ روایات کے خلاف کوئی واقفی، فطحی ، روایت نقل کرے تو اُس کی روایت قبول نہیں ہے
عدة الأصول الشيخ الطوسي – ج ١ – الصفحة ١٥٠
.
علامہ تقی مجلسی رح نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام ع نے الصلاۃ خیر من النوم کو بدعت قرار دیا ہے
روضة المتقین ج 3 ص 361
شیخ آصف محسنی نے بھی لکھا ہے کہ یہ روایات عامہ کے موافق ہیں