ناص بی حضرات ، اھل تشیع کی اذان پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی اذان مختلف ہے ، کسی بھی معتبر طریق سے ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ صرف ناص بیوں کا جھوٹ اور ان کی جہال ت ہے. ہماری اذان صحیح اور موثق اسانید کے ساتھ رسول اللہ (ص) سے ثابت ہے اور اھل سنت کی کتب بھی اس کی تائید کرتیں ہیں . ہم اپنی اس تحریر میں اھل سنت کی کتب سے حی علی خیر العمل کا ثبوت پیش کریں گے
.
ثبوت نمبر 1
.
مصنف ابن أبي شيبة جلد 1 حدیث نمبر 2255 صفحہ 413 کتاب الاذان،
حدثنا أبو أسامة قال نا عبيد الله عن نافع قال كان ابن عمر زاد في أذانه حي على خير العمل
عبداللہ بن عمر بعض اوقات اپنی اذان میں حي على خير العمل بھی کہتے تھے
صحیح سند
.
ثبوت نمبر 2
امام زین العابدین (ع) جب اذان دیتے اور حی علیٰٰ الفلاح پر پہنچتے تو آپ حیی علیٰٰ خیر العمل پڑھتے اور فرماتے کہ اذان اول یہی ہے
مندرجہ بالا روایت کی سند صحیح ہے ، اس کے تمام رجال بخاری ومسلم کے رجال ہیں
مصنف// ابن شیبہ // ج 2 // ص 26



مصنف ابن ابی شیبہ کے مولف امام ابن ابی شیبہ نے اس حوالےسے اس نام سے باب باندھا ہے : من کان یقول فی اذانہ حی علی ٰٰ خیر العمل یعنی وہ لوگ جو اپنی اذان میں حیی علیٰٰ خیر العمل کہتے تھے . معلوم ہوا کہ اذان میں حیی علی ٰٰ خیر العمل کوئی بدعت نہیں بلکہ آثار صحابہ اور سنت اھل بیت (ع) سے ثابت ہے
.
ثبوت نمبر 3
حاشية الدسوقي على الشرح الكبير – ج1/ ص 193
تَنْبِيهٌ : كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَزِيدُ ( حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ ) بَعْدَ حَيِّ عَلَى الْفَلَاحِ وَهُوَ مَذْهَبُ الشِّيعَةِ الْآنَ
ترجمہ : حضرت علی (ع) اپنی اذان میں حیی علیٰٰ خیر العمل ، حی علی الفلاح کے بعد کہتے تھے اور یہی مذہب شیعہ ہے


ثبوت نمبر 4
حضرت زید بن علی (ع) فرماتے ہیں کہ امام زین العابدین (ع) اپنی اذان میں فرمایا کرتے تھے : حی علیٰٰ خیر العمل حی علیٰٰ خیر العمل
مسند زید // ص 83// طبع بیروت


علامہ ابن حزم کی گواہی
ابن حزم اپنی کتاب المحلیٰٰ میں لکھتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور ابو امامہ سہل بن حنیف سے منقول ہے کہ وہ اذان میں حیی علیٰٰ خیرالعمل کہا کرتے تھے . اس کے بعد آگے جا کر ابن حزم کہتا ہے کہ جو شخص اقوال صحابہ کو تسلیم کرتا ہے اسے چاہیئے کہ اس مسئلہ میں ابن عمر کے قول کو اختیار کرے. اس لئے کہ ایسی بات قیاس سے نہیں کہی جا سکتی . اور یہ قول ابن عمر سے صحیح ترین سند کے ساتھ ثابت ہے
المحلیٰٰ // ابن حزم // ج 3 // ص 161

علامہ شوکانی کی تحقیق حیی علی ٰ خیر العمل کے حوالے سے
اھل بیت (ع) کا مذہب حیی علی ٰ خیر العمل کو ثابت کرتا ہے اور وہ حیی علی الفلاح کے بعد ہے اور اسکو مہدی نے بحر میں ایک قول شافعی کی طرف نسبت کیا ہے مگر وہ اس کا خلاف ہے جو کتب شافعیہ میں ہے . اس لئے ہم نے ان کتب میں یہ بات نہیں پائی اور اس روایت پر امام عز الدین نے شرح بحر میں اور دوسرے علماء نے جن کو کتب شافعیہ پر اطلاع ہے ، اعتراض کیا ہے اور اس کلمہ کے قائلین نے کتب اھل بیت (ع) سے استدلال کیا ہے ، مثل امالی ، احمد بن عیسیٰٰ ، تجرید و احکام و جامع آل محمد کے جن میں اس کلمے کا اثبات رسول اللہ تک با اسناد ہے، اور انہوں نے اسکے ساتھ سند پکڑی ہے جو بیہقی نے سنن کبریٰٰ میں با اسناد صحیح عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ اذان میں میں اکثر اوقات حیی علیٰ خیر العمل کہتے تھے اور اُُسی میں امام زین العابدین (ع) سے مروی ہے کہ پہلی اذان یہی ہے (یعنی جو نبی (ص) کے وقت میں تھی ) اور محب طبری نے اپنی کتاب الاحکام میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ وہ اذان میں یہ کلمہ کہتا تھا ، محب طبری نے کہا ہے کہ اس کو ابن حزم اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابی امامہ بن سہل بدری سے مرفوعا“ نبی (ص) سے روایت کیا ہے کہ حیی علیٰ الفلاح کے بعد حیی علی ٰٰ خیر العمل کہتے تھے . اور دوسرے کسی راوی نے بجز طریقہ اھل بیت (ع) کے مرفوعا“ نبی (ص) سے اس طرح کی روایت نہیں کی ، اور کہا ہے کہ بیہقی نے ایک حدیث حیی علیٰٰ خیر العمل کے نسخ میں لکھی ہے لیکن وہ ایسے طریق سے مروی ہے جس کی مثل سے نسخ ثابت نہیں ہوتا
نیل الاوطار// شوکانی// ص 2 // ص 44

علامہ شوکانی کی اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ اھل بیت (ع) کے نزدیک اذان میں حیی علیٰٰ خیر العمل کہنا رسول اللہ (ص) سے ثابت ہے اور حدیث ثقلین (کتاب اللہ و اھل بیت) کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے میں اھل بیت (ع) کی اتباع کی جائے
.
ابن تیمیہ ناصبی کا بیان
مجموع فتاوى ابن تيمية – (ج 5 / ص 279)
كَمَا يُعْلَمُ : ” أَنَّ حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ ” لَمْ يَكُنْ مِنْ الْأَذَانِ الرَّاتِبِ وَإِنَّمَا فَعَلَهُ بَعْضُ الصَّحَابَةِ لِعَارِضِ تَحْضِيضًا لِلنَّاسِ عَلَى الصَّلَاةِ
ترجمہ : بعض صحابہ اپنی اذان میں حیی علی ٰ خیر العمل کہتے تھے
.
حاشية الدسوقي على الشرح الكبير – ج1/ ص 193
تَنْبِيهٌ : كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَزِيدُ ( حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ ) بَعْدَ حَيِّ عَلَى الْفَلَاحِ وَهُوَ مَذْهَبُ الشِّيعَةِ الْآنَ
ترجمہ : حضرت علی (ع) اذان میں حیی علیٰٰ خیر العمل کا حی علی الفلاح کے بعد اضافہ فرماتے تھے اور اب یہی مذہب شیعہ ہے


.
.


.
حیی علیٰٰ خیر العمل کو اذان سے کس نے نکالا
.
ملا سعد الدین تفتازانی ،شرح مقاصد میں لکھتے ہیں
عمر بن خطاب نے کہا
تین چیزیں رسول اللہ (ص ) کے زمانہ میں موجود تھیں ، میں (عمر) ان سے ممانعت کرتا ہوں اور انہیں حرام قرار دیتا ہوں ،وہ متعتہ النساء اور متعتہ الحج اور حی علی خیر العمل ہے
شرح مقاصد ،ج3 ، ص 512 ، طبع بیروت

میرا سوا ل ھے کہ حضرت عمر کو کس نے اختیار دیا کہ وہ حلال خدا کو ح رام قرار دے .یاد رکھیں حلال محمد (ص) قیامت تک حلا ل ہے اور ح رام محمد (ص ) قیامت تک ح رام ہے
.
*آذان اھلسنت کے کلمات 19 ہیں اور برادران 15 کیوں پڑھتے ہیں؟*
.
قارئین محترم
.
اھلسنت کی معتبر کتب میں آذان کے کلمے انیس درج ہیں جبکہ موجود کلمہ آذان پندرہ ہیں اور یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ھے آئیے
.
مختلف کتب سے اس روایت کو
نقل کرتے ہیں
.
ابو محذورہ ؓ 8 ھجری میں مشرف بااسلام ہوۓ تھے اور اموی دور خلافت میں 59 ھجری یا 79 ھجری میں وفات پائ تھی
ان سے ہی یہ روایت مروی ھے








اسی روایت کو حافظ ابو محمد عبداللہ بن علی بن جارود نیساپوری متوفی 307 ھجری نے اپنی کتاب المنتقی میں نقل کیا ھے


ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن بن الفضل بن بھرام الدارمی
متوفی 255 ھجری
انہوں نے بھی اس روایت کو سنن دارمی میں نقل کیا ھے


امام ابن شیبہ نے اپنی مشہور کتاب المصنف میں بھی اسی روایت کو نقل کیا ھے


مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی نے جو مشکوة کی شرح لکھی ھے اس میں بھی انہوں نے اس روایت کو نقل کیا ھے
ملاحظہ ہو


آذان کی اس روایت کے تحت تو اہلسنت برادران کو 19 کلمات والی آذان دینی چاہیے
.
جبکہ ان کے آذان کے کلمے 15 ہیں
.
اگر کوئ کہے کہ اس روایت کے تحت حنفی فقہ میں اقامت کے سترہ کلمات ہیں تو ان کے لیے جواب یہ ھے کہ روایت میں بھی یہ ثابت ھے کہ آذان کے کلمات دو دو بار جب کہ تکبیر کے کلمات کو ایک ایک بار ہی ادا کیا جاۓ لہذا آپ کا یہ استدلال بھی رائگاں جاۓ گا
.
اب صرف شیعہ آذان ہی ایسی ھے جو اس روایت کے تحت مکمل 19 کلمات رکھتی ھے
جس میں دو بار اشھدان علی امیر المومنین ولی اللہ
اور
دو بار حی علی خیر العمل شامل ہیں
لہذا
ہماری آذان تو آپ کی کتب سے ثابت ہوتی ھے
.
اس روایت کے تحت بھی اور



اس روایت کے تحت بھی

