عاشور کا روزہ قاتلانِ امام حسین ع کی بدعت ہے

.
یومِ عاشور کا روزہ قاتلانِ امام حسین علیہ السلام کی بدعت ہے۔
.
امام حاکم نیشاپوری
امام حاکم کہتے ہیں کہ میں جوبیر سے خدا کی جانب سے بیزاری چاہتا ہوں۔ یومِ عاشورہ پورے دن کا روزہ رکھنا رسول اللہ ص سے بلکل ثابت نہیں بلکہ یہ تو قاتلانِ امام حسین کی بدعت ہے جس کو انھوں نے شروع کیا تھا۔
📚 امام ابن الجوزی کتاب الموضوعات جز الثانی ص ۲۰۴۔
اہل سنت کے ایک با بصیرت عالم مناوی نے روز عاشورا کے بارے میں کہا ہے کہ:
ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاه فیه والانفاق والخضاب والادهان والاکتحال، بدعه ابتدعها قتله الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامه لبغض اهل البیت، وجب ترکه.
جو کچھ عاشورا کے دن کے روزے کی فضیلت، نماز، انفاق، خضاب کرنے، بالوں میں تیل لگانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب بدعت ہے کہ جسکو امام حسین کے قاتلوں نے ذکر کیا ہے اور یہی باتیں انکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی بھی علامت ہے کہ ان سب بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔
فیض القدیر ج 6 ص 306
پس جیسا کہ مناوی نے بھی کہا ہے کہ عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا نہ یہ کہ سنت نہیں ہے بلکہ بنی امیہ کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے۔
.
🧭قاتلین امام حسینؑ کی طرف سے دس محرم (عاشوراء) کے بدعات🧭
.
سلفی محقق نے مصری عالم سید سابق کی کتاب “فقہ السنہ” کی تعلیق میں یوں لکھا :
عاشوراء کے روزے اور اسمین نماز س انفاق اور خضاب اور تیل اور سرمہ لگانے کی فضیلت کے بارے میں جو روایت کی جارہی ہے وہ بدعت ہے جس کو حسینؓ کے قاتلین نے ایجاد کیا ہے۔
⛔تمام المنہ فی التعلیق علیٰ فقہ السنہ – ناصر الدین البانی (اردو) // صفحہ ۵۱۵ // طبع الکتاب انٹرنیشنل دھلی ھندوستان۔
اگر آپکو دیکھا ہے کہ قاتلین حسین بن علیؑ کی طرف سے ایجاد کردہ ان بدعات پر آجکل کون عمل کر رہا ہے تو اس لنک کو ضرور چک کریں
⚡عاشوراء کے دن خوشی منانا شام کے نواصب کی سنت⚡
.
ابن کثیر الدمشقی (المتوفی ۷۷۴ھ) نے اپنی تاریخ میں یوں کہا ہے :
وقد عاكس الرافضة والشيعة يوم عاشوراء النواصب من أهل الشام، فكانوا إلى يوم عاشوراء يطبخون الحبوب ويغتسلون ويتطيبون ويلبسون أفخر ثيابهم ويتخذون ذلك اليوم عيدا
اور عاشوراء کے دن کے بارے میں روا فض و شیعہ کی مخالفت شام کے نوا__صب کرتے۔ پس وہ عاشوراء کے دن روٹیاں تیار کرتے، نہاتے، خوشبو لگاتے اور بہترین کپڑیں پہنتے تھے اور وہ اس دن کو خوشی کا دن مانتے تھے۔
⛔البدایۃ و النہایۃ – ابن کثیر // جلد ۲ // صفحہ ۵۴ // طبع بیت الافکار عمان اردن۔
⭐ابن تیمیہ کے بقول نواصب عاشوراء کے دن رافضیون کی مخالفت میں خوشی مناتے⭐
.
تقی الدین احمد بن تیمیہ اپنے فتاویٰ میں عاشوراء کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
عن الذين عارضوا الرافضة، فجعلوا يوم عاشوراء موسم فرح، وهم النواصب المتعصبون على الحسين وأهل بيت النبي ومن الجهَّال الذين قابلوا الفاسد بالفاسد، والكذب بالكذب، والشر بالشر، والبدعة بالبدعة، فوضعوا الآثار في شعائر الفرح والسرور يوم عاشوراء؛ كالاكتحال، والاختضاب، وتوسيع النفقات على العيال، وطبخ الأطعمة الخارجة عن العادة، ونحو ذلك مما يُفعل في الأعياد والمواسم، فصار هؤلاء يتخذون يوم عاشوراء موسمًا كمواسم الأعياد والأفراح.
ان (روا__فض) کے مقابل میں ایک جماعت اٹھی جو یا حسینؑ یا اہل بیتؑ کے متعصب دشمن تھے یا پھر جاہل قسم کے لوگ تھے جنہوں نے فاسد کا مقابلہ فاسد سے، جھوٹ کا مقابلہ جھوٹ سے، شر کا مقابلہ شر سے اور بدعت کا مقابلہ بدعت سے کیا اور انہوں نے عاشوراء کے دن خوشی اور مسرت منانے سے متعلق احادیث وضع کئے مثلاً سرمہ لگانا، خضاب لگانا، بچوں پر خوب خرچ کرنا، عام عادت سے ہٹ کر کھانے پکوانا وغیرہ جیسا کہ عید یا باقی مناسبات میں کیا جاتا ہے۔
⛔مجموعہ الفتاویٰ – ابن تیمیہ // جلد ۲۵ // صفحہ ۱۶۶ // طبع دار الوفاء ریاض سعودیہ۔
عاشواء کے بارے میں ابن تیمیہ کے مکمل فتاوی کو اہل حدیث عالم نے ترجمہ بھی کیا ہے۔
⛔عاشوراء کی حقیقت (ترجمہ طہ سعید خالد عمری) // صفحہ ۴۲ // طبع مرکز السنہ اوڈیسا ھندوستان۔

*روزہ عاشورا اہل سنت اور انکے علماء کے نزدیک:*

.

اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں، کچھ ایسی متضاد روایات موجود ہیں کہ ان سے ایک اور صحیح معنی سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
.
🔴 رسول خدا (ص) اور قریش کا اسلام سے پہلے عاشورا کے دن روزہ رکھنا:
اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایات ذکر ہوئی ہے کہ جسکی بناء پر اہل سنت کے بعض علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے مستحب ہونے کا فتوا دیا ہے:
📜 عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ.
📃 عائشہ کہتی ہے کہ: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول خدا بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور جب رسول خدا مدینہ آئے تو بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور وہ دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہو گیا کہ اسکے بعد رسول خدا نے عاشورا کے دن روزہ رکھنا ترک کر دیا اور حکم دیا کہ جس کا دل چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا دل نہ چاہے وہ اس دن روزہ نہ رکھے۔
📚 صحیح البخاری، ج 2، ص 250، ح 2002، کتاب الصوم، ب 69. باب صِیَامِ یَوْمِ عَاشُورَاءَ.
اس روایت پر تحقیقی نگاہ
.
اولا:
اس روایت کے سلسلہ سند میں ہشام ابن عروہ راوی کی وجہ سے، اس روایت کی سند میں اشکال و اعتراض ہے،
کیونکہ
ابن قطان نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:
أنّه اختلط و تغیّر ،
وہ تبدیل ہو گیا ہے اور وہ صحیح و غلط مطالب کو آپس میں ملا کر نقل کرتا تھا۔
.
ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:
أنّه نسی بعض محفوظه أو وهم ،
وہ اپنی بعض علمی معلومات کو بھول چکا تھا یا ان میں شک کیا کرتا تھا۔
.
ابن خرّاش نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:
کان مالک لا یرضاه نقم علیه حدیثه لأهل العراق،
مالک اس سے راضی نہ تھا اور جب وہ اسکی احادیث کو اہل عراق کے لیے نقل کرتا تھا تو اس پر اعتراض کیا جاتا تھا۔
میزان الاعتدال، ج 4، ص 301
.
و ثانیا
.
یہ روایت مندرجہ ذیل ذکر ہونے والی روایات سے تضاد رکھتی ہے:
.
🔴 *ہجرت تک رسول خدا (ص) اور قریش کو روزہ عاشورا کا علم نہ ہونا:*
.
یہ روایت کہ جو کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوئی ہے، یہ مندرجہ بالا صحیح بخاری کی روایت سے مکمل طور پر تضاد رکھتی ہے:
.
📜 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضى الله عنهما – قَالَ قَدِمَ النَّبِىُّ – صلى الله علیه وسلم – الْمَدِینَةَ. فَرَأَى الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ «مَا هَذَا». قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَا یَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِى إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْکُمْ». فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ.
📃 نبی اکرم صلى الله علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے اور انھوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ہوا ہے، حضرت نے فرمایا: یہ روزہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے جواب دیا:
یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
📚 صحیح بخاری، ج 2، ص 251، شماره حدیث 2004
👈🏻 قابل توجہ ہے کہ پہلی روایت کہتی تھی کہ رسول خدا اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس دن میں روزہ رکھتے تھے اور 13 سال مکہ میں بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے اور ماہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی لوگوں کو حق انتخاب تھا کہ وہ اس دن روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔
.
لیکن
.
یہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ یہ کہ وہ حضرت اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس دن روزہ رکھنے کا انکو علم تک نہ تھا اور جب یہودیوں کو دیکھا کہ انھوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا ہے تو تعجب سے ان سے سوال کیا تو جواب سنا کہ ہم حضرت موسی کو نجات ملنے کی خوشی میں آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میں بھی کفار مکہ کے ہاتھوں نجات ملنے کی خوشی میں اس دن روزہ رکھنے کا موسی سے زیادہ اہل ہوں، اسکے بعد نہ صرف یہ کہ رسول خدا نے خود اس دن روزہ رکھنا شروع کر دیا بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
.
🔴 *رسول خدا (ص) کا اہل کتاب کے دین کے ساتھ موافق ہونا ؟*
.
کتاب صحیح بخاری میں ایک ایسی روایت ذکر ہوئی ہے کہ جو مکمل طور پر اوپر والی روایات سے تضاد رکھتی ہے کہ جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا ان امور میں کہ جنکے بارے میں خداوند نے کوئی حکم ذکر نہیں کیا تھا، وہ حضرت ان امور میں یہود کے دین کے تابع اور پیروکار تھے !
.
بخاری نے کتاب صحیح بخاری میں ابن عباس سے ایسے نقل کیا ہے کہ:
📜 وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم یُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْکِتَابِ فِیمَا لَمْ یُؤْمَرْ فِیهِ بِشَىْ‏ءٍ….
📃 رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم پسند کرتے تھے کہ جن امور میں خداوند کی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں ہوا، ان امور میں اہل کتاب (یہود و نصارا) کی پیروی کریں !!!!!
📚 صحیح البخاری، ج 4، ص 269، ح 3558، کتاب المناقب، ب 23، باب صِفَه النَّبِیِّ صلى الله علیه وسلم‏
.
یہ اہل سنت کا دین و ایمان ہے !
.
اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ہے کہ:
📜 و قد کان (ص) یحبّ موافقة أهل الکتاب فیما لم یؤمر فیه بشی‏ء و لا سیّما إذا کان فیما یخالف فیه أهل الأوثان.
📃 رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم جن امور میں خداوند کی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں ہوا، ان امور میں اہل کتاب کی پیروی کرنے کو پسند کرتے تھے،خاص طور پر اگر اس کام میں بت پرستوں کی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی تھی۔
📚 فتح الباری، ابن حجر، ج 4، ص 213
📚 زین الدین حنبلی، لطائف المعارف، ص 102
.
*رسول خدا (ص) کا اپنے ہی حکم کے خلاف عمل کرنا؟*
.
اہل سنت عالِم ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے:
.
ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ:
📜 انّ رسول الله صلى الله علیه وسلم أمر بصوم عاشوراء وکان لا یصومه.
📃 رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، حالانکہ وہ خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔
📚 مجمع الزوائد، هیثمی، ج 3، ص 186
ہیثمی کی روایت کے مطابق عاشورا کے دن روزہ رکھنے والی روایت واضح اشکال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا دوسروں کو تو ایک کام کرنے کا حکم دیں، لیکن خود وہ اس عمل کو انجام نہ دیں ؟
.
🔴.*روزہ عاشورا کو ماہ رمضان کے روزے کی وجہ سے ترک کرنا:*
.
اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت کو ذکر کیا ہے
📜 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: صَامَ النَّبِیُّ صلى الله علیه وسلم عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِکَ. وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ یَصُومُهُ، إِلاَّ أَنْ یُوَافِقَ صَوْمَهُ.
📃 رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلّم عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ ماہ رمضان واجب ہو گیا اور اسکے بعد اس دن کا روزہ رکھنا ترک ہو گیا اور عبد اللہ ابن عمر اس دن کو روزہ نہیں رکھتا تھا، مگر یہ کہ عاشورا کا دن اس دن ہوتا کہ جس دن عام طور پر وہ روزہ رکھتا تھا تو اس دن کو وہ روزہ رکھ لیتا تھا (مثلا روز جمعہ)،
📚 صحیح البخاری، ج 2، ص 226، ح 1892،کتاب الصوم، باب وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ
🔴 *عاشوراء کا روزہ اور صحابی رسول جناب عبداللہ بن مسعود*
.
حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی رائے تھی کہ عاشوراء یعنی دس محرم کا روزہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے مشروع تھا ، پھر منسوخ ہو گیا ۔
.
دَخَلَ الأشْعَثُ بنُ قَيْسٍ علَى عبدِ اللهِ، وَهو يَتَغَدَّى فَقالَ: يا أَبَا مُحَمَّدٍ ادْنُ إلى الغَدَاءِ، فَقالَ: أَوَليسَ اليَوْمُ يَومَ عَاشُورَاءَ؟ قالَ: وَهلْ تَدْرِي ما يَوْمُ عَاشُورَاءَ؟ قالَ: وَما هُوَ؟ قالَ: إنَّما هو يَوْمٌ كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ تُرِكَ. وقالَ أَبُو كُرَيْبٍ تَرَكَهُ. [وفي رواية]: فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تَرَكَهُ.
اشعث بن قیس دسویں محرم کو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس گئے ، اس وقت آپ کھانا تناول فرما رہے تھے ، آپ نے اشعث کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے کہ میں رتو روزے سے ہوں ، یہ سن کر عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : ” یہ روزہ نزول رمضان سے پہلے مشروع تھا ۔
شفیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عاشوراء کے دن حضرت ابن مسعود کے پاس گیا اس وقت آپ کے پاس کھجوریں پڑی تھیں ۔ آپ نے مجھے کھانے کے لئے کہا ۔ میں نے جواب میں کہا کہ آج محرم کی دسویں تاریخ ہے اور میں روزے سے ہوں ، آپ نے یہ سن کر فرمایا : ہمیں اس دن روزہ رکھنے کا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب ابھی رمضان کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی
📚 فقہ عبد اللہ بن مسعود // ڈاکڑ محمد رواس قلعہ جی // ص 413 // طبع سعودیہ
حضرت عبد اللہ بن عمر عاشورہ کا روزہ نہیں رکھتے تھے
📚 اسناد صحیح 👇🏻
.
*شیعہ اور روزہ عاشورا:*
.
بعض شیعہ علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے، جیسے مرحوم خوانساری کتاب جامع المدارک میں ہے کہ:
📜 وجزم بعض متأخری المتأخرین بالحرمة ترجیحا للنصوص الناهیة وحملا لما دل على الاستحباب على التقیة. والظاهر أن هذا أقرب،
📃 بعض شیعہ علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے سے منع کرنے والی روایات پر عمل کیا ہے اور روزے کے جائز ہونے والی روایات کو تقیے کی حالت میں صادر ہونے والی روایات قرار دیا ہے، پس نتیجے کے طور پر اس دن روزہ رکھنے کے حرام ہونے کو یقینی قرار دیا ہے، اور یہی قول صحیح ہے۔
📚جامع المدارک، مرحوم خوانساری، ج 2، ص 226
.
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب حدائق میں لکھا ہے کہ:
📜 و بالجملة فإن دلالة هذه الأخبار على التحریم مطلقا أظهر ظاهر.
📃 ۔۔۔۔۔ اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایات عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
📚 الحدائق الناضره، محقق بحرانی، ج 13، ص 376
.
مرحوم نراقی نے کتاب مستند الشیعۃ میں لکھا ہے کہ:
📜 فالحق: حرمة صومه من هذه الجهة. فإنه بدعة عند آل محمد متروکة،
📃 صحیح رائے و فتوا یہ ہے کہ عاشورا کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، کیونکہ اس دن روزہ رکھنا آل محمد کے نزدیک ایک تری شدہ بدعت شمار ہوتی ہے۔
📚 مستند الشیعه، محقق نراقی، ج 10، ص 493
.
اگرچہ بعض شیعہ علماء جیسے سید یزدی صاحب عروه و مرحوم بروجردی و حکیم و امام خمینی نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
📚 العروه الوثقى، سید یزدی، ج 3، ص 657
.
اور بعض شیعہ علماء نے حزن و غم کی نیت سے روزہ رکھنے کو، نہ کہ بنی امیہ کی طرح اس دن کو عید شمار کرتے ہوئے روزہ رکھے، صبح سے عصر کے وقت تک مستحب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بہتر ہے کہ خاک شفاء امام حسین (ع) سے افطار کرنا مستحب ہے۔
📚 استبصار، شیخ طوسی، ج2، ص 136
.
📜 عبد الله بن سنان عن الصادق علیه السلام قال: دخلت علیه یوم عاشورا فألفیته کاسف اللون ظاهر الحزن و دموعه تنحدر کاللؤلؤ المتساقط، فقلت: یا ابن رسول الله مم بکاؤک لا أبکى الله عینیک فقال لی: أو فی غفلة أنت؛ اما علمت أن الحسین علیه السلام أصیب فی مثل هذا الیوم فقلت: یا سیدی فما قولک فی صومه قال لی: صمه من غیر تبییت وأفطره من غیر تشمیت ولا تجعل صوم یوم کملا ولیکن إفطارک بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء فإنه فی ذلک الوقت من ذلک الیوم تجلت الهیجاء عن آل رسول الله صلى الله علیه وآله وانکشفت الملحمة عنهم ،
📃 عبد الله ابن سنان نے امام صادق علیہ ‌السلام سے روایت کی ہے کہ:
میں روز عاشورا امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام بہت ہی غم و حزن کی حالت میں مسلسل اشک بہا رہے ہیں۔ میں نے پریشان ہو کر عرض کیا: یا ابن رسول اللہ ! خداوند کبھی بھی آپکی آنکھوں کو نہ رلائے، آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟
حضرت نے فرمایا: کیا تم غافل ہو اور نہیں جانتے کہ امام حسین آج کے دن مصائب میں مبتلا ہوئے تھے ؟ ابن سنان نے عرض کیا: اے میرے آقا و سردار ! آج کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ؟ امام نے فرمایا:
آج کے دن روزہ رکھو لیکن مغرب کے وقت تک روزہ مکمل نہ کرو بلکہ مغرب سے پہلے پہلے افطار کر دو اور بغیر اسکے کہ اس روزے سے خدا کی رحمت کی امید رکھو، اس دن کے روزے کو مکمل روزے کی طرح قرار نہ دو اور نماز عصر کے تھوڑی دیر بعد پانی کے ایک گھونٹ سے اسے افطار کر دو۔۔۔۔۔
📚 مصباح المتهجد، شیخ طوسی، ص 547
.
امام رضا (ع) نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:
📜 من کان یوم عاشوراء یوم مصیبته وحزنه وبکائه یجعل الله عز وجل یوم القیامة یوم فرحه وسروره وقرت بنا فی الجنان عینه.
📃 جس شخص کا روز عاشورا غم ، حزن اور گرئیے کا دن ہو تو خداوند قیامت کے دن کو اسکے لیے خوشی اور سرور کا دن قرار دے گا اور اسکی آنکھوں کو جنت میں ہماری زیارت سے سکون عطا فرمائے گا۔
📚 علل الشرائع، شیخ صدوق، ج 1، ص 227
.
امام رضا علیہ السلام سے اسی بارے میں حدیث نقل ہوئی ہے کہ:
📃 یہ دن وہ دن ہے کہ بنی امیہ اس دن روزہ رکھتے تھے، حالانکہ اس دن اسلام اور مسلمین عزادار ہوئے تھے، پس آج کے دن روزہ نہ رکھو، جو بھی اس دن روزہ رکھے گا تو آل امیہ کی طرح اسکے نصیب میں بھی جہنم کی آگ لکھی جائے گی۔
📚 اصول کافی، ج 4، ص147، شماره حدیث 6
📚 تهذیب الاحکام ، ج4، ص301، شماره حدیث 912
📚 الإستبصار، ج2، ص135، شماره حدیث 443
📚 بحارالأنوار، ج61، ص291.
📚 شفاءالصدور، طهرانی ، ص 259،
📚 وافی، جزء7، ص ‏14به ‏نقل ‏از امالی ‏صدوق و علل‏الشرائع صدوق.
📚 کراجکی، التعجب، ص 45، ضمیمه کنز الفوائد.
📚 جامع احادیث الشیعة، ج 9، ص 477
📚 حسن ثقفی تهرانی، شرح زیارت عاشورا، ص 420
.
*شہادت امام حسین (ع) اور روزه عاشورا سنت بنی امیہ:*
.
اسی وجہ سے آئمہ معصومین اور انہی کی راہ پر چلنے والے فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے، اس دن کے روزے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
.
امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:
📜 ذاک یوم قتل فیه الحسین علیه السلام، فإن کنت شامتا فصم. ثم قال: إن آل أمیة علیهم لعنة الله ومن أعانهم على قتل الحسین من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسین علیه السلام وسلم من خرج إلى الحسین علیه السلام وصارت الخلافة فی آل أبی سفیان، أن یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وأن یصوموا فیه شکرا، ویفرحون أولادهم، فصارت فی آل أبی سفیان سنّة إلى الیوم فی الناس، واقتدى بهم الناس جمیعا، فلذلک یصومونه ویدخلون على عیالاتهم وأهالیهم الفرح ذلک الیوم. ثم قال: إن الصوم لا یکون للمصیبة، ولا یکون إلا شکرا للسلامة، وإن الحسین علیه السلام أصیب، فإن کنت ممن أصبت به فلا تصم، وإن کنت شامتا ممن سرک سلامة بنی أمیة فصم شکرا لله تعالى.
📃 یہ دن امام حسین کی شہادت کا دن ہے، اگر تم اس دن امام حسین پر ہونے والے مصائب سے راضی و خوش ہو تو اس دن روزہ رکھو۔
بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 امالی شیخ طوسی، ص 667، رقم‏1397 / 4.
.
*امام صادق علیہ السلام اور روزہ عاشورہ*
عبد الملک نے امام صادق (ع) سے نو اور دس محرم کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دو دنوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے ؟
📃 امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: نو محرم کا دن وہ دن ہے کہ جب میدان کربلا میں امام حسین اور انکے اصحاب کا اہل شام نے محاصرہ کیا تھا۔ ابن مرجانہ عبید اللہ ابن زیاد ملعون اور ابن سعد ملعون اپنے لشکر کی زیادہ تعداد دیکھ کر بہت خوش تھے اور انھوں نے اس دن امام حسین اور انکے اصحاب کو کمزور شمار کیا تھا اور اس دن انکو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی حسین کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئے گا، پھر امام صادق نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!
پھر فرمایا و اما روز عاشورا:
📜 محمد بن یعقوب عن الحسین بن علی الهاشمی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان (عن أبان عن عبد الملک) قال: سألت أبا عبد الله علیه السلام عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال:… ما هو یوم صوم. وما هو إلا یوم حزن ومصیبة دخلت على أهل السماء وأهل الأرض وجمیع المؤمنین. ویوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زیاد وأهل الشام. غضب الله علیهم وعلى ذریاتهم…
📃 یہ وہ دن ہے کہ جب امام غم و مصیبت میں مبتلا ہوئے اور زخمی حالت میں اپنے اصحاب کے درمیان زین سے زمین پر آ پڑے اور اس دن انکے اصحاب کے اجساد بھی برھنہ حالت میں انکے ارد گرد گرے ہوئے تھے، کیا اس حالت والے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے،
خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔
روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔
جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔
جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔
.
📜 الكافی عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَا وَ عَاشُورَاءَ مِنْ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ فَقَالَ تَاسُوعَا یَوْمٌ حُوصِرَ فِیهِ الْحُسَیْنُ وَ أَصْحَابُهُ بِكَرْبَلَاءَ وَ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ خَیْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا عَلَیْهِ وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَیْلِ وَ كَثْرَتِهَا وَ اسْتَضْعَفُوا فِیهِ الْحُسَیْنَ ع وَ أَصْحَابَهُ وَ أَیْقَنُوا أَنَّهُ لَا یَأْتِی الْحُسَیْنَ نَاصِرٌ وَ لَا یُمِدُّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِأَبِی الْمُسْتَضْعَفَ الْغَرِیبَ ثُمَّ قَالَ وَ أَمَّا یَوْمُ عَاشُورَاءَ فَیَوْمٌ أُصِیبَ فِیهِ الْحُسَیْنُ ع صَرِیعاً بَیْنَ أَصْحَابِهِ وَ أَصْحَابُهُ حَوْلَهُ صَرْعَى عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ كَلَّا وَ رَبِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ مَا هُوَ یَوْمَ صَوْمٍ وَ مَا هُوَ إِلَّا یَوْمُ حُزْنٍ وَ مُصِیبَةٍ دَخَلَتْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ وَ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَ یَوْمُ فَرَحٍ وَ سُرُورٍ لِابْنِ مَرْجَانَةَ وَ آلِ زِیَادٍ وَ أَهْلِ الشَّامِ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ عَلَى ذُرِّیَّاتِهِمْ وَ ذَلِكَ یَوْمٌ بَكَتْ جَمِیعُ بِقَاعِ الْأَرْضِ خَلَا بُقْعَةِ الشَّامِ فَمَنْ صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ آلِ زِیَادٍ مَمْسُوخَ الْقَلْبِ مَسْخُوطاً عَلَیْهِ وَ مَنِ اذَّخَرَ إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِیرَةً أَعْقَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى نِفَاقاً فِی قَلْبِهِ إِلَى یَوْمِ یَلْقَاهُ وَ انْتَزَعَ الْبَرَكَةَ عَنْهُ وَ عَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ وَ وُلْدِهِ وَ شَارَكَهُ الشَّیْطَانُ فِی جَمِیعِ ذَلِكَ‏
📚 بحار الأنوار (ط – بیروت) ج‏45 ص95
📚 وسائل الشیعه (آل البیت)، شیخ حر عاملی، ج 10، ص 460.ح 13847
.
*آئمہ معصومین (ع) اور روزہ عاشورا :
.
محمد ابن مسلم اور زراره ابن أعین نے امام باقر علیہ السلام سے عاشورا کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا:
📜 کان صومه قبل شهر رمضان، فلما نزل شهر رمضان ترک.
📃 اس دن کا روزہ رکھنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنے سے پہلے واجب تھا، لیکن جب ماہ رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہو گیا تو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو ترک کر دیا گیا۔
📚 من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 51، ح 224.
.
ایک دوسری روایت میں یہی سوال امام باقر (ع) سے کیا گیا تو امام نے فرمایا:
📜 صوم متروک بنزول شهر رمضان، والمتروک بدعة.
📃 اس دن کا روزہ ماہ رمضان کے روزے کے واجب ہونے کے بعد ترک کر دیا گیا اور ترک شدہ دن میں روزہ رکھنا بدعت ہوتی ہے، (نہ سنت)۔
.
*عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟*
.
اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے، شیعہ فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے کا فتوا دیا ہے، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ حتی بعض فقہاء جیسے بحرانى اور مجلسى نے اس دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔
.
مکروہ ہونے پر دلائل:
1- عاشورا کے دن روزہ رکھنا دشمنان دین اور دشمنان اہل بیت کی سنت (بدعت) تھی کہ مسلمانوں کو اس دن انکی غلط سنت کو زندہ نہیں کرنا چاہیے۔
2- وہ روایات جو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے جائز یا واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان روایات سے غم کی حالت میں فقط کھانے پینے کے ترک کرنے کو سمجھا جائے گا، نہ روزہ رکھنے کو، یا کہا جائے گا کہ اہل بیت نے تقیے کی حالت میں ان روایات کو بیان کیا تھا۔ اب جبکہ حالات ٹھیک ہیں اور تقیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اب اس حالت میں عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہو گا۔
3- خود رسول خدا، انکے اہل بیت اور اصحاب نے عاشورا کے دن روزہ نہیں رکھا تھا، پس جب انکی سنت نہیں تھی تو اب اس دن روزہ رکھنا، سنت نہیں بلکہ بدعت ہو گا۔
شیعہ فقہاء کی ایک بہت بڑی تعداد نے عاشورا کے دن صبح سے عصر کے وقت تک امساک کرنے کا فتوا دیا ہے نہ روزے کی نیت سے کھانے پینے کے ترک کرنے کا فتوا دیا ہے۔ وہ فقہاء جیسے:
شہید ثانى، محقق کرکى، علامہ حلّى، محقق اردبیلى، شہید اول، شیخ بہائى، سبزوارى، فیض کاشانى، حرّ عاملى، علامہ مجلسى، کاشف الغطأ، نراقى، محقق قمى و….
.
امام صادق (ع) کی نظر میں نو اور دس محرم کو روزہ رکھنا:
📜 الكافی عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَا وَ عَاشُورَاءَ مِنْ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ فَقَالَ تَاسُوعَا یَوْمٌ حُوصِرَ فِیهِ الْحُسَیْنُ وَ أَصْحَابُهُ بِكَرْبَلَاءَ وَ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ خَیْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا عَلَیْهِ وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَیْلِ وَ كَثْرَتِهَا وَ اسْتَضْعَفُوا فِیهِ الْحُسَیْنَ ع وَ أَصْحَابَهُ وَ أَیْقَنُوا أَنَّهُ لَا یَأْتِی الْحُسَیْنَ نَاصِرٌ وَ لَا یُمِدُّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِأَبِی الْمُسْتَضْعَفَ الْغَرِیبَ ثُمَّ قَالَ وَ أَمَّا یَوْمُ عَاشُورَاءَ فَیَوْمٌ أُصِیبَ فِیهِ الْحُسَیْنُ ع صَرِیعاً بَیْنَ أَصْحَابِهِ وَ أَصْحَابُهُ حَوْلَهُ صَرْعَى عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ كَلَّا وَ رَبِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ مَا هُوَ یَوْمَ صَوْمٍ وَ مَا هُوَ إِلَّا یَوْمُ حُزْنٍ وَ مُصِیبَةٍ دَخَلَتْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ وَ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَ یَوْمُ فَرَحٍ وَ سُرُورٍ لِابْنِ مَرْجَانَةَ وَ آلِ زِیَادٍ وَ أَهْلِ الشَّامِ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ عَلَى ذُرِّیَّاتِهِمْ وَ ذَلِكَ یَوْمٌ بَكَتْ جَمِیعُ بِقَاعِ الْأَرْضِ خَلَا بُقْعَةِ الشَّامِ فَمَنْ صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ آلِ زِیَادٍ مَمْسُوخَ الْقَلْبِ مَسْخُوطاً عَلَیْهِ وَ مَنِ اذَّخَرَ إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِیرَةً أَعْقَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى نِفَاقاً فِی قَلْبِهِ إِلَى یَوْمِ یَلْقَاهُ وَ انْتَزَعَ الْبَرَكَةَ عَنْهُ وَ عَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ وَ وُلْدِهِ وَ شَارَكَهُ الشَّیْطَانُ فِی جَمِیعِ ذَلِكَ‏.
📃 عبد الملک نے امام صادق (ع) سے نو اور دس محرم کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دو دنوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے ؟
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: نو محرم کا دن وہ دن ہے کہ جب میدان کربلا میں امام حسین اور انکے اصحاب کا اہل شام نے محاصرہ کیا تھا۔ ابن مرجانہ عبید اللہ ابن زیاد ملعون اور ابن سعد ملعون اپنے لشکر کی زیادہ تعداد دیکھ کر بہت خوش تھے اور انھوں نے اس دن امام حسین اور انکے اصحاب کو کمزور شمار کیا تھا اور اس دن انکو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی حسین کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئے گا، پھر امام صادق نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!
پھر فرمایا و اما روز عاشورا:
📜 محمد بن یعقوب عن الحسین بن علی الهاشمی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان (عن أبان عن عبد الملک) قال: سألت أبا عبد الله علیه السلام عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال:… ما هو یوم صوم. وما هو إلا یوم حزن ومصیبة دخلت على أهل السماء وأهل الأرض وجمیع المؤمنین. ویوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زیاد وأهل الشام. غضب الله علیهم وعلى ذریاتهم…
📃 یہ وہ دن ہے کہ جب امام غم و مصیبت میں مبتلا ہوئے اور زخمی حالت میں اپنے اصحاب کے درمیان زین سے زمین پر آ پڑے اور اس دن انکے اصحاب کے اجساد بھی برھنہ حالت میں انکے ارد گرد گرے ہوئے تھے، کیا اس حالت والے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے،
خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔
روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔
جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔
جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔
📚 بحار الأنوار (ط – بیروت) ج‏45 ص95
📚 وسائل الشیعه (آل البیت)، شیخ حر عاملی، ج 10، ص 460.ح 13847
.
امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:
.
📜 ذاک یوم قتل فیه الحسین علیه السلام، فإن کنت شامتا فصم. ثم قال: إن آل أمیة علیهم لعنة الله ومن أعانهم على قتل الحسین من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسین علیه السلام وسلم من خرج إلى الحسین علیه السلام وصارت الخلافة فی آل أبی سفیان، أن یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وأن یصوموا فیه شکرا، ویفرحون أولادهم، فصارت فی آل أبی سفیان سنّة إلى الیوم فی الناس، واقتدى بهم الناس جمیعا، فلذلک یصومونه ویدخلون على عیالاتهم وأهالیهم الفرح ذلک الیوم. ثم قال: إن الصوم لا یکون للمصیبة، ولا یکون إلا شکرا للسلامة، وإن الحسین علیه السلام أصیب، فإن کنت ممن أصبت به فلا تصم، وإن کنت شامتا ممن سرک سلامة بنی أمیة فصم شکرا لله تعالى.
📃 یہ دن امام حسین کی شہادت کا دن ہے، اگر تم اس دن امام حسین پر ہونے والے مصائب سے راضی و خوش ہو تو اس دن روزہ رکھو۔
بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 امالی شیخ طوسی، ص 667، رقم‏1397 / 4
.
🔰 روز عاشور ( دس محرم ) کا روزہ حرام ۔
.
✅ عن عبد الملك قال: سألت أبا عبد الله (عليه السلام) ( اقتباس ) أفصوم يكون في ذلك اليوم؟! كلا ورب البيت الحرام۔۔۔۔
✅ عبد الملک نے روایت کیا کہ کیا اس روز ( عاشور ) روزہ ہے؟ امام ص نے فرمایا بیت الحرام کے رب کی قسم ہرگز نہیں۔
✅ جعفر بن عيسى أخوه قال: سألت الرضا (عليه السلام) عن صوم عاشورا ( اقتباس ) فمن صامهما أو تبرك بهما لقى الله تبارك وتعالى ممسوخ القلب۔۔۔۔۔
✅ امام الرضا ص نے فرمایا: جس نے دس محرم کو روزہ رکھا یا اس سے برکت چاھی تو وہ اللہ تبارک و تعالی سے مسخ دل کیساتھ ملاقات کرے گا ( یعنی مسخ شدہ دل سے محشور ہوگا )
📚 الكافي جلد 4 صفحه 146۔
شیخ یوسف البحرانی لکھتے ہیں
لا يخفى عليك ما في دلالة هذه الأخبار من الظهور والصراحة في تحريم صوم هذا اليوم مطلقاً وأن صومه إنما كان في صدر الاسلام ثم نسخ بنزول صوم شهر رمضان
تم پر مخفی نہ رہے کہ روایات صراحت کے ساتھ عاشوراء کے روزے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ یہ شروع اسلام میں موجود تھا اور رمضان کے روزوں کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔( اور روایت کے مطابق آل زیاد نے عاشوراء کے روز اس روزے پر زور دیا )
📗 الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة – جلد ۱۳ – صفحة ۳۴۴
امامیہ کے محدث شیخ الصدوقؒ (المتوفی ۳۸۱ھ) نے اپنی سند سے اس طرح نقل کیا ہے :
حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق (رحمه الله)، قال: أخبرنا أحمد بن محمد الهمداني، عن علي بن الحسن بن علي بن فضال، عن أبيه، عن أبي الحسن علي بن موسى الرضا (عليه السلام)، قال: من ترك السعي في حوائجه يوم عاشورا قضى الله له حوائج الدنيا والآخرة، ومن كان يوم عاشورا يوم مصيبة وحزنه وبكائه جعل الله عز وجل يوم القيامة يوم فرحه وسروره، وقرت بنا في الجنان عينه، ومن سمى يوم عاشوراء يوم بركة وادخر فيه لمنزله شيئا لم يبارك له فيما ادخر، وحشر يوم القيامة مع يزيد وعبيد الله بن زياد وعمر بن سعد (لعنهم الله) إلى أسفل درك من النار
علی بن حسن بن علی بن فضال نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابوالحسن علی بن موسیؑ (الرضا) نے فرمایا کہ جو شخص روزِ عاشور اپنے دنیاوی کاموں کو ترک کرے تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں حاجات پوری کرے گا اور جوکوئی روزِ عاشور کو حزن و گریہ میں بسر کرے گا تو خدا روزِ قیامت اس کے لیے خرسندی و شادی عطا کرے گا اور بہشت میں اس کی آنکھیں ہمارے درجے سے روشن ہوں گی اور جوکوئی روزِ عاشور کو روزِ برکت بنائے گا اور اپنے گھر میں مال کا ذخیرہ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور روز قیامت یزید، عبیداﷲ بن زیاد اور عمر بن سعد (ان پر اللہ کی لعنت ہو) کے ساتھ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے اسفل میں محشور ہوگا۔
⛔️الامالی – الصدوقؒ // صفحہ ۱۰۳ // طبع موسسۂ التاریخ العربی بیروت لبنان۔
شیخ آصف محسنیؒ نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے۔
⛔️معجم الاحادیث المعتبرۃ – محسنیؒ // جلد ۲ // صفحہ ۲۲۲ // رقم ۱۲۵۳ // طبع دار الادیان تہران ایران۔