.
یومِ عاشور کا روزہ قاتلانِ امام حسین علیہ السلام کی بدعت ہے۔
.
امام حاکم نیشاپوری
امام حاکم کہتے ہیں کہ میں جوبیر سے خدا کی جانب سے بیزاری چاہتا ہوں۔ یومِ عاشورہ پورے دن کا روزہ رکھنا رسول اللہ ص سے بلکل ثابت نہیں بلکہ یہ تو قاتلانِ امام حسین کی بدعت ہے جس کو انھوں نے شروع کیا تھا۔


اہل سنت کے ایک با بصیرت عالم مناوی نے روز عاشورا کے بارے میں کہا ہے کہ:
ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاه فیه والانفاق والخضاب والادهان والاکتحال، بدعه ابتدعها قتله الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامه لبغض اهل البیت، وجب ترکه.
جو کچھ عاشورا کے دن کے روزے کی فضیلت، نماز، انفاق، خضاب کرنے، بالوں میں تیل لگانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے وغیرہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب بدعت ہے کہ جسکو امام حسین کے قاتلوں نے ذکر کیا ہے اور یہی باتیں انکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی کی بھی علامت ہے کہ ان سب بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔
فیض القدیر ج 6 ص 306

پس جیسا کہ مناوی نے بھی کہا ہے کہ عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا نہ یہ کہ سنت نہیں ہے بلکہ بنی امیہ کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے۔
.


.
سلفی محقق نے مصری عالم سید سابق کی کتاب “فقہ السنہ” کی تعلیق میں یوں لکھا :
عاشوراء کے روزے اور اسمین نماز س انفاق اور خضاب اور تیل اور سرمہ لگانے کی فضیلت کے بارے میں جو روایت کی جارہی ہے وہ بدعت ہے جس کو حسینؓ کے قاتلین نے ایجاد کیا ہے۔




اگر آپکو دیکھا ہے کہ قاتلین حسین بن علیؑ کی طرف سے ایجاد کردہ ان بدعات پر آجکل کون عمل کر رہا ہے تو اس لنک کو ضرور چک کریں


.
ابن کثیر الدمشقی (المتوفی ۷۷۴ھ) نے اپنی تاریخ میں یوں کہا ہے :
وقد عاكس الرافضة والشيعة يوم عاشوراء النواصب من أهل الشام، فكانوا إلى يوم عاشوراء يطبخون الحبوب ويغتسلون ويتطيبون ويلبسون أفخر ثيابهم ويتخذون ذلك اليوم عيدا
اور عاشوراء کے دن کے بارے میں روا فض و شیعہ کی مخالفت شام کے نوا__صب کرتے۔ پس وہ عاشوراء کے دن روٹیاں تیار کرتے، نہاتے، خوشبو لگاتے اور بہترین کپڑیں پہنتے تھے اور وہ اس دن کو خوشی کا دن مانتے تھے۔





.
تقی الدین احمد بن تیمیہ اپنے فتاویٰ میں عاشوراء کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
عن الذين عارضوا الرافضة، فجعلوا يوم عاشوراء موسم فرح، وهم النواصب المتعصبون على الحسين وأهل بيت النبي ومن الجهَّال الذين قابلوا الفاسد بالفاسد، والكذب بالكذب، والشر بالشر، والبدعة بالبدعة، فوضعوا الآثار في شعائر الفرح والسرور يوم عاشوراء؛ كالاكتحال، والاختضاب، وتوسيع النفقات على العيال، وطبخ الأطعمة الخارجة عن العادة، ونحو ذلك مما يُفعل في الأعياد والمواسم، فصار هؤلاء يتخذون يوم عاشوراء موسمًا كمواسم الأعياد والأفراح.
ان (روا__فض) کے مقابل میں ایک جماعت اٹھی جو یا حسینؑ یا اہل بیتؑ کے متعصب دشمن تھے یا پھر جاہل قسم کے لوگ تھے جنہوں نے فاسد کا مقابلہ فاسد سے، جھوٹ کا مقابلہ جھوٹ سے، شر کا مقابلہ شر سے اور بدعت کا مقابلہ بدعت سے کیا اور انہوں نے عاشوراء کے دن خوشی اور مسرت منانے سے متعلق احادیث وضع کئے مثلاً سرمہ لگانا، خضاب لگانا، بچوں پر خوب خرچ کرنا، عام عادت سے ہٹ کر کھانے پکوانا وغیرہ جیسا کہ عید یا باقی مناسبات میں کیا جاتا ہے۔



عاشواء کے بارے میں ابن تیمیہ کے مکمل فتاوی کو اہل حدیث عالم نے ترجمہ بھی کیا ہے۔



*روزہ عاشورا اہل سنت اور انکے علماء کے نزدیک:*
.
اہل سنت کی کتب صحاح ستہ میں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں، کچھ ایسی متضاد روایات موجود ہیں کہ ان سے ایک اور صحیح معنی سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
.

اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایات ذکر ہوئی ہے کہ جسکی بناء پر اہل سنت کے بعض علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے مستحب ہونے کا فتوا دیا ہے:





اس روایت پر تحقیقی نگاہ
.
اولا:
اس روایت کے سلسلہ سند میں ہشام ابن عروہ راوی کی وجہ سے، اس روایت کی سند میں اشکال و اعتراض ہے،
کیونکہ
ابن قطان نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:
أنّه اختلط و تغیّر ،
وہ تبدیل ہو گیا ہے اور وہ صحیح و غلط مطالب کو آپس میں ملا کر نقل کرتا تھا۔
.
ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:
أنّه نسی بعض محفوظه أو وهم ،
وہ اپنی بعض علمی معلومات کو بھول چکا تھا یا ان میں شک کیا کرتا تھا۔
.
ابن خرّاش نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:
کان مالک لا یرضاه نقم علیه حدیثه لأهل العراق،
مالک اس سے راضی نہ تھا اور جب وہ اسکی احادیث کو اہل عراق کے لیے نقل کرتا تھا تو اس پر اعتراض کیا جاتا تھا۔
میزان الاعتدال، ج 4، ص 301
.
و ثانیا
.
یہ روایت مندرجہ ذیل ذکر ہونے والی روایات سے تضاد رکھتی ہے:
.

.
یہ روایت کہ جو کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوئی ہے، یہ مندرجہ بالا صحیح بخاری کی روایت سے مکمل طور پر تضاد رکھتی ہے:
.


یہ خوشی کا دن ہے کہ اس دن خداوند نے بنی اسرائیل کو انکے دشمنوں سے نجات دلائی تھی، لہذا موسی اور انکے پیروکار آج کے دن روزہ رکھتے ہیں، رسول خدا نے فرمایا: میں سب سے زیادہ موسی کی اتباع کرنے والا ہوں، اسی وجہ سے ان حضرت نے اس دن کو روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔





.
لیکن
.
یہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ یہ کہ وہ حضرت اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس دن روزہ رکھنے کا انکو علم تک نہ تھا اور جب یہودیوں کو دیکھا کہ انھوں نے اس دن روزہ رکھا ہوا ہے تو تعجب سے ان سے سوال کیا تو جواب سنا کہ ہم حضرت موسی کو نجات ملنے کی خوشی میں آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میں بھی کفار مکہ کے ہاتھوں نجات ملنے کی خوشی میں اس دن روزہ رکھنے کا موسی سے زیادہ اہل ہوں، اسکے بعد نہ صرف یہ کہ رسول خدا نے خود اس دن روزہ رکھنا شروع کر دیا بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
.

.
کتاب صحیح بخاری میں ایک ایسی روایت ذکر ہوئی ہے کہ جو مکمل طور پر اوپر والی روایات سے تضاد رکھتی ہے کہ جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا ان امور میں کہ جنکے بارے میں خداوند نے کوئی حکم ذکر نہیں کیا تھا، وہ حضرت ان امور میں یہود کے دین کے تابع اور پیروکار تھے !
.
بخاری نے کتاب صحیح بخاری میں ابن عباس سے ایسے نقل کیا ہے کہ:



.
یہ اہل سنت کا دین و ایمان ہے !
.
اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ہے کہ:




.
*رسول خدا (ص) کا اپنے ہی حکم کے خلاف عمل کرنا؟*
.
اہل سنت عالِم ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے:
.
ہیثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ:




ہیثمی کی روایت کے مطابق عاشورا کے دن روزہ رکھنے والی روایت واضح اشکال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا دوسروں کو تو ایک کام کرنے کا حکم دیں، لیکن خود وہ اس عمل کو انجام نہ دیں ؟
.

.
اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک روایت کو ذکر کیا ہے






.
حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی رائے تھی کہ عاشوراء یعنی دس محرم کا روزہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے مشروع تھا ، پھر منسوخ ہو گیا ۔
.
دَخَلَ الأشْعَثُ بنُ قَيْسٍ علَى عبدِ اللهِ، وَهو يَتَغَدَّى فَقالَ: يا أَبَا مُحَمَّدٍ ادْنُ إلى الغَدَاءِ، فَقالَ: أَوَليسَ اليَوْمُ يَومَ عَاشُورَاءَ؟ قالَ: وَهلْ تَدْرِي ما يَوْمُ عَاشُورَاءَ؟ قالَ: وَما هُوَ؟ قالَ: إنَّما هو يَوْمٌ كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ تُرِكَ. وقالَ أَبُو كُرَيْبٍ تَرَكَهُ. [وفي رواية]: فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تَرَكَهُ.
اشعث بن قیس دسویں محرم کو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس گئے ، اس وقت آپ کھانا تناول فرما رہے تھے ، آپ نے اشعث کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے کہ میں رتو روزے سے ہوں ، یہ سن کر عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : ” یہ روزہ نزول رمضان سے پہلے مشروع تھا ۔


شفیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عاشوراء کے دن حضرت ابن مسعود کے پاس گیا اس وقت آپ کے پاس کھجوریں پڑی تھیں ۔ آپ نے مجھے کھانے کے لئے کہا ۔ میں نے جواب میں کہا کہ آج محرم کی دسویں تاریخ ہے اور میں روزے سے ہوں ، آپ نے یہ سن کر فرمایا : ہمیں اس دن روزہ رکھنے کا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب ابھی رمضان کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی



حضرت عبد اللہ بن عمر عاشورہ کا روزہ نہیں رکھتے تھے



.
*شیعہ اور روزہ عاشورا:*
.
بعض شیعہ علماء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے، جیسے مرحوم خوانساری کتاب جامع المدارک میں ہے کہ:



.
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب حدائق میں لکھا ہے کہ:



.
مرحوم نراقی نے کتاب مستند الشیعۃ میں لکھا ہے کہ:



.
اگرچہ بعض شیعہ علماء جیسے سید یزدی صاحب عروه و مرحوم بروجردی و حکیم و امام خمینی نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

.
اور بعض شیعہ علماء نے حزن و غم کی نیت سے روزہ رکھنے کو، نہ کہ بنی امیہ کی طرح اس دن کو عید شمار کرتے ہوئے روزہ رکھے، صبح سے عصر کے وقت تک مستحب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بہتر ہے کہ خاک شفاء امام حسین (ع) سے افطار کرنا مستحب ہے۔

.


میں روز عاشورا امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام بہت ہی غم و حزن کی حالت میں مسلسل اشک بہا رہے ہیں۔ میں نے پریشان ہو کر عرض کیا: یا ابن رسول اللہ ! خداوند کبھی بھی آپکی آنکھوں کو نہ رلائے، آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟
حضرت نے فرمایا: کیا تم غافل ہو اور نہیں جانتے کہ امام حسین آج کے دن مصائب میں مبتلا ہوئے تھے ؟ ابن سنان نے عرض کیا: اے میرے آقا و سردار ! آج کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ؟ امام نے فرمایا:
آج کے دن روزہ رکھو لیکن مغرب کے وقت تک روزہ مکمل نہ کرو بلکہ مغرب سے پہلے پہلے افطار کر دو اور بغیر اسکے کہ اس روزے سے خدا کی رحمت کی امید رکھو، اس دن کے روزے کو مکمل روزے کی طرح قرار نہ دو اور نماز عصر کے تھوڑی دیر بعد پانی کے ایک گھونٹ سے اسے افطار کر دو۔۔۔۔۔

.
امام رضا (ع) نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:



.
امام رضا علیہ السلام سے اسی بارے میں حدیث نقل ہوئی ہے کہ:










.
*شہادت امام حسین (ع) اور روزه عاشورا سنت بنی امیہ:*
.
اسی وجہ سے آئمہ معصومین اور انہی کی راہ پر چلنے والے فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے، اس دن کے روزے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
.
امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:


بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.
*امام صادق علیہ السلام اور روزہ عاشورہ*
عبد الملک نے امام صادق (ع) سے نو اور دس محرم کو روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان دو دنوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے ؟

میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!
پھر فرمایا و اما روز عاشورا:


خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔
روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔
جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔
جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔
.



.
*آئمہ معصومین (ع) اور روزہ عاشورا :
.
محمد ابن مسلم اور زراره ابن أعین نے امام باقر علیہ السلام سے عاشورا کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا:



.
ایک دوسری روایت میں یہی سوال امام باقر (ع) سے کیا گیا تو امام نے فرمایا:


.
*عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟*
.
اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے، شیعہ فقہاء نے بھی اس دن روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے کا فتوا دیا ہے، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ حتی بعض فقہاء جیسے بحرانى اور مجلسى نے اس دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔
.
مکروہ ہونے پر دلائل:
1- عاشورا کے دن روزہ رکھنا دشمنان دین اور دشمنان اہل بیت کی سنت (بدعت) تھی کہ مسلمانوں کو اس دن انکی غلط سنت کو زندہ نہیں کرنا چاہیے۔
2- وہ روایات جو عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے جائز یا واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان روایات سے غم کی حالت میں فقط کھانے پینے کے ترک کرنے کو سمجھا جائے گا، نہ روزہ رکھنے کو، یا کہا جائے گا کہ اہل بیت نے تقیے کی حالت میں ان روایات کو بیان کیا تھا۔ اب جبکہ حالات ٹھیک ہیں اور تقیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اب اس حالت میں عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہو گا۔
3- خود رسول خدا، انکے اہل بیت اور اصحاب نے عاشورا کے دن روزہ نہیں رکھا تھا، پس جب انکی سنت نہیں تھی تو اب اس دن روزہ رکھنا، سنت نہیں بلکہ بدعت ہو گا۔
شیعہ فقہاء کی ایک بہت بڑی تعداد نے عاشورا کے دن صبح سے عصر کے وقت تک امساک کرنے کا فتوا دیا ہے نہ روزے کی نیت سے کھانے پینے کے ترک کرنے کا فتوا دیا ہے۔ وہ فقہاء جیسے:
شہید ثانى، محقق کرکى، علامہ حلّى، محقق اردبیلى، شہید اول، شیخ بہائى، سبزوارى، فیض کاشانى، حرّ عاملى، علامہ مجلسى، کاشف الغطأ، نراقى، محقق قمى و….
.
امام صادق (ع) کی نظر میں نو اور دس محرم کو روزہ رکھنا:


امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: نو محرم کا دن وہ دن ہے کہ جب میدان کربلا میں امام حسین اور انکے اصحاب کا اہل شام نے محاصرہ کیا تھا۔ ابن مرجانہ عبید اللہ ابن زیاد ملعون اور ابن سعد ملعون اپنے لشکر کی زیادہ تعداد دیکھ کر بہت خوش تھے اور انھوں نے اس دن امام حسین اور انکے اصحاب کو کمزور شمار کیا تھا اور اس دن انکو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی حسین کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئے گا، پھر امام صادق نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
میرے ماں باپ اس حسین پر قربان ہو جائیں کہ جسکو کمزور شمار کیا گیا اور وہ پردیس میں تھے !!
پھر فرمایا و اما روز عاشورا:


خانہ کعبہ کے خدا کی قسم بالکل نہیں رکھا جا سکتا، یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ دن حزن و غم و مصیبت کا دن ہے کہ اس دن تمام اہل آسمان و زمین اور تمام مؤمنین غم و مصیبت سے دوچار ہوئے تھے۔
روز عاشورا، ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کے لیے خوشی و شادی کا دن ہو سکتا ہے، خداوند کا غضب و غصہ ہو ان پر اور انکی اولاد پر، عاشورا وہی دن ہے کہ جب سرزمین شام کے علاوہ تمام زمینوں نے گریہ کیا۔
جو بھی اس دن روزہ رکھے یا اس دن کو با برکت شمار کرے تو خداوند اسکو اس حال میں آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا کہ انکے دل مسخ ہو چکے ہوں گے اور ان پر خداوند کا غضب و عذاب ہوا ہو گا۔
جو بھی اس دن اپنے گھر میں خوشی کی حالت میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو خداوند اسکے دل کو نفاق میں مبتلا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں خدا سے ملاقات کرے گا اور برکت کو اس سے اور اسکی اولاد سے دور کر دے گا اور شیطان کو ان سب کے ساتھ شریک قرار دے دے گا۔


.
امام صادق علیہ السلام سے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:
.


بنی امیہ لعنت اللہ علیہم اور اہل شام، کہ جہنوں نے امام حسین کو شہید کیا تھا، نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگر حسین قتل ہو جائے اور ہمارا شامی لشکر سلامتی کے ساتھ واپس آ جائے اور مقام خلافت آل ابو سفیان کو مل جائے تو عاشورا کے دن کو خوشی کے ساتھ اپنے لیے عید کا دن قرار دیں گے اور شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

.







شیخ یوسف البحرانی لکھتے ہیں
لا يخفى عليك ما في دلالة هذه الأخبار من الظهور والصراحة في تحريم صوم هذا اليوم مطلقاً وأن صومه إنما كان في صدر الاسلام ثم نسخ بنزول صوم شهر رمضان
تم پر مخفی نہ رہے کہ روایات صراحت کے ساتھ عاشوراء کے روزے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ یہ شروع اسلام میں موجود تھا اور رمضان کے روزوں کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔( اور روایت کے مطابق آل زیاد نے عاشوراء کے روز اس روزے پر زور دیا )



امامیہ کے محدث شیخ الصدوقؒ (المتوفی ۳۸۱ھ) نے اپنی سند سے اس طرح نقل کیا ہے :
حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق (رحمه الله)، قال: أخبرنا أحمد بن محمد الهمداني، عن علي بن الحسن بن علي بن فضال، عن أبيه، عن أبي الحسن علي بن موسى الرضا (عليه السلام)، قال: من ترك السعي في حوائجه يوم عاشورا قضى الله له حوائج الدنيا والآخرة، ومن كان يوم عاشورا يوم مصيبة وحزنه وبكائه جعل الله عز وجل يوم القيامة يوم فرحه وسروره، وقرت بنا في الجنان عينه، ومن سمى يوم عاشوراء يوم بركة وادخر فيه لمنزله شيئا لم يبارك له فيما ادخر، وحشر يوم القيامة مع يزيد وعبيد الله بن زياد وعمر بن سعد (لعنهم الله) إلى أسفل درك من النار
علی بن حسن بن علی بن فضال نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابوالحسن علی بن موسیؑ (الرضا) نے فرمایا کہ جو شخص روزِ عاشور اپنے دنیاوی کاموں کو ترک کرے تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں حاجات پوری کرے گا اور جوکوئی روزِ عاشور کو حزن و گریہ میں بسر کرے گا تو خدا روزِ قیامت اس کے لیے خرسندی و شادی عطا کرے گا اور بہشت میں اس کی آنکھیں ہمارے درجے سے روشن ہوں گی اور جوکوئی روزِ عاشور کو روزِ برکت بنائے گا اور اپنے گھر میں مال کا ذخیرہ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور روز قیامت یزید، عبیداﷲ بن زیاد اور عمر بن سعد (ان پر اللہ کی لعنت ہو) کے ساتھ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے اسفل میں محشور ہوگا۔

شیخ آصف محسنیؒ نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے۔




