▪قتــــل جنـــاب عثمـــان▪
🌀قارئین الـــزام لگــایا جــاتا ہـــے کـــہ، امام علـــی علـــیه السلام نـــے جنــاب عثمـــان کـــو قتـــل کروایـــا..!!
🌀ہـــم جنـــاب عـــثــمان کـــی اپـــنی زبانی نقـــل کـــرتے ہـــیں جب جنـــاب زخمـــی حــالــت میں تہـــے تب انہـــوں نے کہــا: 👇🏻👇🏻
.
👁🗨اھلســـنت کی کـــتاب طبـــقات الکـــبریٰ میــں نـــقل ہـــوا ہـــے کـــہ:
👁🗨بحــذف سنـــد:::۳۰۳۲ قتلنــی عبــادك المــؤمنــین.
📝ترجـــمه: مــجہــے اپـــنے مؤمــنو نـــے قتـــل کـــیا ہےـ
📚طبـــقات الکبــرىٰ

▪روایـــت کـــی سنــد کـــی تصحیــح▪
.
✒پہــلا راوی: روح بــن عبادة بن العلاء….
اسم الشهرة: روح بـــن عباده القیــسی
الرتبة: ثقة

✒دوســرا راوی: عثمـــان بن غیـــاث
نــوٹ: روایــات میں اســکے باپ کــا نام عــتاب ہــے، مگــر کـــتب الرجال السنه مــیں تصحیحاً عثمان بـــن غیــاث ہــے ـ
اسم الشهرة: عثمان بن غياث الراسبى
الرتبة: صــدوق حسن الحدیــث ـ

✒تیســـرا راوی: خالد الربــعی
اســم الشهرة: خالد بـــن ربـعی الأسدی
الرتبة: ثقة

پس اس روایت کــے سب راویان کـــی توثیــق ہوی ہــے روایــت بغیـــر نقص کـــے حسن ہــے، اور روایـــت ســـے ثــابت ہوا کــے جنــاب عثمــان کــو اپنــے پیــارے لــوگوں نــے قتــل کیــا!!
والـــسلام
أبوعزرائیــل
.
.
حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا
ویلی من طلحہ ! اعطیتہ کذا ذھبا وھو یروم ۔۔۔۔۔۔ اللھم لا تمتعہ بہ ولقہ عواقب بغیہ “
مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگار ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچانا ۔
ڈاکٹر طہ حسین ۔الفتنة الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 8
مدائنی “قتل عثمان ” میں تحریر کرتے ہیں : طلحہ نے حضرت عثمان کی لاش کو تین دن تک دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور جب حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم ان کی لاش کو اٹھا کر جارہے تھے تو طلحہ نے راستے میں ایسے افراد کھڑے کر رکھے تھے جنہوں نے ان کی لاش پر پتھر پھینکے
ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ص 5-6 طبع مصر
.
.
عبد الله بن عباس بن ابوربيعه نقل کرتا ہے: میں عثمان کے پاس گیا اور ان سے گفتگو کی،عثمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر لوگوں کی باتیں سننے کا کہا ۔ ان میں سے بعض کہہ رہے تھے : ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟ بعض کہہ رہے تھے : منتظر رہیں شاید پلٹ کر آئے۔ اسی دوران طلحه بن عبيد الله آیا ، اور کہا : ابن عديس کہاں ہے ؟ جواب دیا : یہاں ہی ہے، طلحہ نے آہستہ اس کو کچھ کہا، ابن عديس نے اپنے دوستوں سے کہا : کسی بھی صورت میں کسی کو اس گھر میں داخل ہونے یا گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دینا.
عثمان نے کہا : یہ طلحه بن عبيد الله کا حکم ہے، پھر کہا : اے اللہ مجھے اس شخص کے شر سے محفوظ فرمایا، اس نے لوگوں کو اکسایا ہے۔ اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کو فقر و تنگدستی کا شکار کرئے اور اس کا خون بہادیا جائے اور وہ مر جائے۔ کیونکہ وہ ایسا خون بہانا چاہتا ہے جس کو بہانا اس پر حرام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا:مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورت میں جائز ہے۔مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو،کوئی مرد زنا کرئے اور اس کی بیوی بھی ہو،کوئی کسی بے گناہ کو قتل کرئے۔ پھر عثمان نے کہا: میرا جرم کیا ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں؟
ابن عباس کہتا ہے : نکلتے وقت مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ،لیکن محمد بن ابی بکر کے حکم سے مجھے نکلنے کی اجازت ملی ۔
الطبري، محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 3، ص 411، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 174، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
.
.
اہل سنت امام عمر بن شبہ النمیری (المتوفی ۲۲۴ ھ) نے اپنی سند سے اس طرح نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ غِيَاثٍ الْبَكْرِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَتْلِ عُثْمَانَ هَلْ شَهِدَهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَقَدْ شَهِدَهُ ثَمَانِمِائَةٍ
غیاث بکری نے فرمایا ہے کہ ابو سعید الخدری سے قتل عثمان بن عفان کے بارے میں سوال کیا کہ آیا اسکا مشاہدہ رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی نے کیا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ۸۰۰ صحابہ نے اسکا مشاہدہ فرمایا تھا۔

تاریخ مدینہ – عمر بن شبہ النمیری // جلد ۲ // صفحہ ۲۲۴ // رقم ۲۰۴۰ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
حضرت عثمان کے قتل میں 800 صحابہ کرام شریک تھے۔
عبداللہ بن میسرہ غیاث البکری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رض کے قتل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں حضرت عثمان بن عفان کے قتل میں آٹھ سو (800) اصحاب رسول ﷺ شریک تھے۔
تاريخ المدينة المنوّرة۔ (أخبار المدينة النبوية)
لا بن شبه أبو زيد عمر بن شبه النميري البصري
اور حالت یہ تھی کہ ان صحابہ کرام نے تین دن تک حضرت عثمان کی لاش کو دفن بھی نہ ہونے دیا اور اخر کار رات کے اندھیرے میں انہیں یہودیوں کے قبرستان حش کوکب میں دفنانا پڑا
All reactions:
71Sunana Naqvi, Nadir Ali and 69 others