طلحہ کی طرف سے عثمان کو قتل کرنے کا اعتراف

.
ابن أبي شيبه اپنی کتاب المصنف میں ، ابن عبد البر نے الإستيعاب میں اور ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں نقل کیا ہے:
حدثنا وَكِيعٌ عن إسْمَاعِيلَ عن قَيْسٍ قال كان مَرْوَانُ مع طَلْحَةَ يوم الْجَمَلِ قال فلما اشْتَبَكَتْ الْحَرْبُ قال مَرْوَانُ َلاَ أَطْلُبُ بِثَأْرِي بَعْدَ الْيَوْمِ قال ثُمَّ رَمَاهُ بِسَهْمٍ فَأَصَابَ رُكْبَتَهُ فما رَقَأَ الدَّمُ حتي مَاتَ قال وقال طَلْحَةُ دَعَوْهُ فَإِنَّمَا هو سَهْمٌ أَرْسَلَهُ اللَّهُ.
مروان جنگ جمل میں طلحه ساتھ تھا ، جس وقت جنگ شروع ہوئی، مروان نے کہا : آج کے بعد عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا ،یہ کہا اور ایک تیر طلحہ کی پھر پھینکا ،تیر طلحہ کے گھٹنے پر آلگا، طلحه نے کہا : یہ تیر اللہ کی طرف سے آیا ہے ، اس کے گھٹنے سے خون نکلتا رہا اور وہ مرگیا ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص 542، ح 37803، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ؛
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 769، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 5، ص 19، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولي، 1404هـ – 1984م.
.
اس روایت کی سند کی تحقیق:
.
وكيع بن الجراح: ثقة حافظ عابد من كبار التاسعة.
تقريب التهذيب، ج 2، ص 284، رقم: 7441.
.
اسماعيل بن ابوخالد: ثقة ثبت من الرابعة مات سنة ست وأربعين.
تقريب التهذيب، ج 1، ص 93، رقم: 439.
.
قيس بن ابوحازم: ثقة من الثانية مخضرم ويقال له رؤية.
تقريب التهذيب، ج 2، ص 32، رقم: 5583.
.
ابن عبد البر الإستيعاب میں لکھتا ہے:
وإن الذي رماه مروان بن الحكم بسهم فقتله فقال لا أطلب بثأري بعد اليوم وذلك أن طلحة فيما زعموا كان ممن حاصر عثمان واستبد عليه ولا يختلف العلماء الثقات في أن مروان قتل طلحة يومئذ وكان في حزبه.
مروان نے طلحہ پر ایک تیر سے حملہ کیا اور اس کو مار دیا ، اور کہا: آج کے بعد میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا ؛ کیونکہ طلحه ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے عثمان کے گھر کا محاصره کیا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا۔
ابن عبد البر آگے لکھتا ہے : ثقہ علماء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ طلحہ کو مروان نے قتل کیا جبکہ دونوں ایک ہی لشکر میں تھے{دونوں جناب عثمان کے خون کا انتقام لینے جناب امیر المومنین سے مقابلے میں کھڑے تھے۔}
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 766، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ
حکیم بن جابر سے منقول ہے کہ جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا تو حضرت علیؑ، حضرت طلحہٰ کے پاس تشریف لائے وہ اپنے گھر میں تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت علیؑ نے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں آپ نے لوگوں کو امیرالمومنین سے نہیں روکا، کیونکہ ان کو قتل کردیا جائے گا ۔
حضرت طلحہٰ نے فرمایا اللہ کی قسم نہیں روکوں گا یہاں تک کہ بنوامیہ لوگوں کو حق نہ دے دیں۔
[📖مصنف ابنِ ابی شیبہ کتاب الفتن]
⭕یہی گروہ تھا جو بعد میں مولا علیؑ سے قصاصِ عثمان کا مطالبہ کررہا تھا اور اسکے نتیجے میں جمل و صفین ہوئی۔
(طلحہٰ و عثمان دونوں عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں)
.
طلحه نے مصر کے لوگوں کو خط لکھا تھا :
.
ابن قتيبه دينوري، طلحه کی طرف مصر والوں کے نام لکھے خط کو اس طرح نقل کرتا ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم من المهاجرين الأولين وبقية الشوري إلي من بمصر من الصحابة والتابعين أما بعد أن تعالوا إلينا وتداركوا خلافة رسول الله قبل أن يسلبها أهلها فإن كتاب الله قد بدل وسنة رسوله قد غيرت وأحكام الخليفتين قد بدلت
فننشد الله من قرأ كتابنا من بقية أصحاب رسول الله والتابعين بإحسان إلا أقبل إلينا وأخذ الحق لنا وأعطاناه فأقبلوا إلينا إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر وأقيموا الحق علي المنهاج الواضح الذي فارقتم عليه نبيكم وفارقكم عليه الخلفاء غلبنا علي حقنا واستولي علي فيئنا وحيل بيننا وبين أمرنا وكانت الخلافة بعد نبينا خلافة نبوة ورحمة وهي اليوم ملك عضوض من غلب علي شيء آكله.
یہ خط شروع کے مہاجرین اور شوری میں موجود باقی رہنے والے افراد کی طرف سے مصر میں موجود صحابہ اور تابعین کے نام ہے۔
ہمارے پاس آئیں تاکہ خلافت کو نالائق لوگوں کے ہاتھ لگنے سے نجات دے سکے۔ اللہ کی کتاب میں تبدیلی کی ہے اور رسول اللہ کی سنت کو بدل دیا ہے۔ اور پچھلے دو خلفاء کے احکام بھی بدل دیے ہیں۔
اصحاب اور تابعین میں جو بھی باقی ہو ،انہیں اللہ کی قسم دے کر ہم کہتے ہیں:ہمارے پاس آئیں تاکہ حق کو واپس لیا جائے۔لہذا اگر اللہ اور قیامت پر ایمان ہو تو ہماری طرف حرکت کریں۔ تاکہ حق کو اسی راستے پر دوبارہ لگاسکے حس راستے پر رسول اللہ کے دور میں تھا اور جس حالت میں خلفاء کو ہم نے چھوڑا اسی حالت اور راستے کی طرف واپس پلٹا دیا جائے۔ کیونکہ ابھی صورت حال ہے کہ حق کو پامال کیا گیا ہے ۔ بیت المال پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور خلافت کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو نبوت اور رحمت کی جانشینی تھی اب یہ ایسی بادشاہت میں تبدیل ہوئی ہے کہ جس کو جو ملے ہڑپ کر جاتا ہے۔
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 34، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت – 1418هـ – 1997م
.
سودان نے عثمان کو طلحه کے حکم سے قتل کیا 
.
عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزي عن أبيه قال رأيت اليوم الذي دخل فيه علي عثمان فدخلوا من دار عمرو بن حزم خوخة هناك حتي دخلوا الدار فناوشوهم شيئا من مناوشة ودخلوا فوالله ما نسينا أن خرج سودان بن حمران فأسمعه يقول أين طلحة بن عبيد الله قد قتلنا ابن عفان.
سعيد بن عبد الرحمن بن ابزي نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے: میں دیکھ رہا تھا کہ لوگ عمرو بن حزم کے گھر کے دوازے سے عثمان کے گھر میں داخل ہورہے تھے۔ اللہ کی قسم میں یہ بھول نہیں کرسکتا ؛سودان بن حمران عثمان کے گھر سے باہر نکلا اور میں نے اس کو یہ کہتے سنا :طلحہ کہاں ہے؟ {اس کو یہ بتائے }ہم نے عفان کے بیٹے کو قتل کیا ہے ۔
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 669، ناشر: دار الكتب العلمية
.
طلحه جناب عثمان تک پانی لے جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا 
.
بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :
حرس القوم عثمان ومنعوا من أجل أن يدخل عليه، وأشار عليه بن العاص بأن يُحرم ويلبي ويخرج فيأتي مكة فلا يُقدم عليه، فبلغهم قوله فقالوا: والله لئن خرج لا فارقناه حتي يحكم الله بيننا وبينه، واشتد عليه طلحة بن عبيد الله في الحصار، ومنع من أجل أن يدخل إليه الماء حتي غضب عليّ بن أبي طالب من ذلك، فأدخلت علي روايا الماء.
نگہبان اور محافظ گھر کی حفاظت کر رہے تھے اور کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے، ابن عاص نے یہ مشورہ دیا کہ احرام کا لباس پہن لیا جائے اور لوگ لبیک کہتے ہوئے مکہ کی طرف حرکت کرئے تاکہ اس طرح عثمان کی جان محفوظ رہ جائے۔ یہ مشورہ مخالفوں کی کانوں تک جب پہنچا تو انہوں نے یہ قسم کھائی ؛ اگر یہ گھر سے نکلا تو پھر ہم نہیں چھوڑیں گے ۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دئے{قتل کرنے کی طرف اشارہ ہے}۔ طلحه بن عبيد الله نے محاصرہ کو اور سخت کیا اور وہاں تک پانی پہنچانے بھی نہیں دیا ، حضرت علی علیہ السلام اس حالت کو دیکھ کو غصہ آیا۔ ۔۔۔۔۔
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 285
.
طلحہ کی طرف سے عثمان کو قتل کرنے کا اعتراف :
.
ابن عبد البر نے الإستعاب میں لکھا ہے:
روي عبد الرحمن بن مهدي عن حماد بن زيد عن يحيي بن سعيد قال قال طلحة يوم الجمل
ندمت ندامة الكسعي لما شريت رضا بني جرم برغمي
اللهم خذ مني لعثمان حتي يرضي.
طلحه جنگ جمل میں کہتا تھا : میں اس کام سے پشیمان ہوں جس کے ذریعے سے بنی حزم کی خوشنودی حاصل کی گئی.
اے اللہ ! عثمان کے خون کا بدلہ ہم سے لے لے۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 766، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 85، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ – 1996 م.
.
بلاذري نے أنساب الأشراف میں نقل ہے:
.
قال مروان يوم الجمل: لا أطلب بثأري بعد اليوم، فرمي طلحة بسهم فأصاب ركبته فكان الدم يسيل فإذا أمسكوا ركبته انتفخت فقال: دعوه فإنما هو سهم أرسله الله، اللهم خذ لعثمان مني اليوم حتي ترضي.
مروان نے جنگ جمل کے دن کہا : آج کے بعد خون کا انتقام لینے کے کوشش نہیں کروں گا، ایک تیر عثمان کی طرف پھینکا اور پھر ،تیر اس کے گھٹنے پر لگا، خون بہنے لگا زخم کو باندھا لیکن خون اچھل کر نکلنے لگا، طلحه نے کہا : مجھے چھوڑ دو ، یہ ایسا تیر ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے، اے اللہ! عثمان کے خون کا بدلہ مجھ سے لے لے اور مجھ پر راضی رہے.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 1، ص 311.
.
بلاذري نے مندرجہ بالا بات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
وكان طلحة شديداً علي عثمان فلما كان يوم الجمل قال: إنا داهنا في أمر عثمان فلا نجد اليوم شيئاً أفضل من أن نبذل له دماءنا اللهم خذ لعثمان مني حتي يرضي.
طلحه ،عثمان کے خلاف سخت موقف رکھتا تھا ؛ لیکن جنگ جمل کے دوران اس نے کہا : عثمان کے بارے میں کوتاہی اور غلطی کی ہے،اج بہتریں کام یہی ہے کہ اس کی خاطر اپنا خون بہا دوں اور یہ کہا : اے اللہ ! عثمان کے خون کا انتقام مجھ سے لے لینا اور مجھ پر راضی رہنا .
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 311.
.
ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
وكيع حدثنا إسماعيل بن أبي خالد عن قيس قال رأيت مروان بن الحكم حين رمي طلحة يومئذ بسهم فوقع في ركبته فما زال ينسح حتي مات رواه جماعة عنه ولفظ عبد الحميد بن صالح عنه هذا أعان علي عثمان ولا أطلب بثأري بعد اليوم.
قيس کہتا ہے : جس وقت مروان بن حكم طلحہ کی طرف تیر مار رہا تھا میں اس کو دیکھ رہا تھا؛ یہ تیر طلحہ کے گھٹنے پر لگا اور اس حد تک خون نکلا کہ وہ مرگیا ۔
ایک اور نقل کے مطابق: (مروان نے کہا:( یہ ایسا آدمی ہے کہ جس نے عثمان کے خلاف لوگوں کی مدد کی ؛ ( میں نے عثمان کے خون کا انتقام اس سے لیا ) اور آج کے بعد پھر عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کروں گا۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 1، ص 35 ـ 36، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
.
مروان نے عثمان کے بیٹے سے کہا : میں نےتیرے باپ کے بعض قاتلوں کو سزا دے دیا ہے
.
ابن أثير جزري نے اسد الغابه میں نقل کیا ہے:
وكان سَبَبُ قَتْلِ طَلْحَةَ أن مروان بن الحكم رماه بسهم في ركبته، فجعلوا إذا أمسكوا فَمَ الجرح انتفخت رجله، وإذا تركه جري، فقال: دعوه فإنما هو سهم أرسله الله تعالي، فمات منه. وقال مروان: لا أطلب بثأْري بعد اليوم، والتفت إلي أبان بن عثمان، فقال: قد كفيتك بعض قتلة أبيك.
طلحہ کے مرنے کا سبب ، مروان بن حکم کا وہ تیر تھا جو طلحہ کے گھٹنے پر آلگا اور جب زخم کو باندھا جاتا تو زخم خراب ہوجاتا اور جب کھولتا تو خون نکلنا شروع ہوتا ۔ طلحہ نے کہا : مجھے چھوڑ دو، یہ ایسا تیر ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔طلحہ اسی زخم کی وجہ سے دنیا سے چلا گیا ۔مروان نے کہا: آج کے بعد عثمان کے خون کا انتقام لینے کی کوشش نہیں کروں گا اور مروان نے ابان بن عثمان سے کہا : میں نے تیرے باپ کے بعض قاتلوں سے انتقام لیا ۔
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 86، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ – 1996 م.
.
عبد الرحمن بن عديس، طلحه کے دستور کے مطابق عمل کرتا تھا 
.
طبري نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
حدثني عبد الله بن عباس بن أبي ربيعة قال دخلت علي عثمان رضي الله عنه فتحدثت عنده ساعة فقال يا ابن عباس تعال فأخذ بيدي فأسمعني كلام من علي باب عثمان فسمعنا كلاما منهم من يقول ما تنتظرون به ومنهم من يقول انظروا عسي أن يراجع فبينا أنا وهو واقفان إذ مر طلحة بن عبيد الله فوقف فقال أين ابن عديس فقيل هاهو ذا قال فجاءه ابن عديس فناجاه بشئ ثم رجع ابن عديس فقال لأصحابه لا تتركوا أحدا يدخل علي هذا الرجل ولا يخرج من عنده. قال فقال لي عثمان هذا ما أمر به طلحة بن عبيد الله ثم قال عثمان اللهم اكفني طلحة بن عبيد الله فإنه حمل علي هؤلاء وألبهم والله إني لأرجو ا أن يكون منها صفرا وأن يسفك دمه انه انتهك مني ما لا يحل له سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول لا يحل دم امرئ مسلم الا في إحدي ثلاث رجل كفر بعد اسلامه فيقتل أو رجل زني بعد احصانه فيرجم أو رجل قتل نفسا بغير نفس ففيم أقتل قال ثم رجع عثمان قال ابن عباس فأردت أن أخرج فمنعوني حتي مر بي محمد بن أبي بكر فقال خلوه فخلوني.
عبد الله بن عباس بن ابوربيعه نقل کرتا ہے: میں عثمان کے پاس گیا اور ان سے گفتگو کی،عثمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر لوگوں کی باتیں سننے کا کہا ۔ ان میں سے بعض کہہ رہے تھے : ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟ بعض کہہ رہے تھے : منتظر رہیں شاید پلٹ کر آئے۔ اسی دوران طلحه بن عبيد الله آیا ، اور کہا : ابن عديس کہاں ہے ؟ جواب دیا : یہاں ہی ہے، طلحہ نے آہستہ اس کو کچھ کہا، ابن عديس نے اپنے دوستوں سے کہا : کسی بھی صورت میں کسی کو اس گھر میں داخل ہونے یا گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دینا.
عثمان نے کہا : یہ طلحه بن عبيد الله کا حکم ہے، پھر کہا : اے اللہ مجھے اس شخص کے شر سے محفوظ فرمایا، اس نے لوگوں کو اکسایا ہے۔ اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کو فقر و تنگدستی کا شکار کرئے اور اس کا خون بہادیا جائے اور وہ مر جائے۔ کیونکہ وہ ایسا خون بہانا چاہتا ہے جس کو بہانا اس پر حرام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا:مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورت میں جائز ہے۔مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو،کوئی مرد زنا کرئے اور اس کی بیوی بھی ہو،کوئی کسی بے گناہ کو قتل کرئے۔ پھر عثمان نے کہا: میرا جرم کیا ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں؟
ابن عباس کہتا ہے : نکلتے وقت مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ،لیکن محمد بن ابی بکر کے حکم سے مجھے نکلنے کی اجازت ملی ۔
الطبري، محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 3، ص 411، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 174، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ
.
.
.
مروان بن الحکم ایک بڑی جماعت کے نزدیک صحابی ہیں اس لیے کہ وہ حضورﷺ کی زندگی میں پیدا ہوا ہے اور صلح حدیبیہ کے واقعہ کے بارے میں اس سے روایت کی گئی ہے یہ عثمان کا کاتب بھی تھا داماد بھی تھا اسی کے سر کے نیچے الدار کا قضیہ ہوا اور اسی کے سبب سے حضرت عثمان کا اس میں محاصرہ ہوا اور انہوں نے آپ سے اصرار کیا کہ آپ مروان کو ان کے سپرد کر دیں مگر عثمان نے سختی سے انکار کیا اور یوم الدار کو مروان نے شدید جنگ کی اور یوم الجمل کو یہ میسرہ کا امیر تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے حضرت طلحہ کے گھٹنے میں تیر مارا جس سے آپ مر گئے۔
حوالہ : [ تاریخ ابن کثیر – جلد ہشتم – صفحہ ٣٢٢ ، ٣٢٣ ]
♨ طلحہ بن عبیداللہ نے پوچھا۔ “ابن عدیس کہاں ہے” لوگوں نے کہا “وہ یہ ہیں” چنانچہ ابن عدیس ان کے پاس آئے تو انہوں نے اس سے کچھ سرگوشی کی پھر ابن عدیس اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا ” کسی شخص کو اس شخص(عثمان) کے پاس نہ جانے دو اور نہ وہاں سے نکلنے دو ” اس پر حضرت عثمان نے مجھ سے فرمایا اس بات کا طلحہ بن عبیدالله نے حکم دیا ہے پھر حضرت عثمان نے فرمایا :
” اے الله تو مجھے طلحہ سے بےنیاز کر دے کیونکہ اسی نے انہیں بھڑکایا ہے اور انہیں جمع کیا ہے۔ بخدا! مجھے توقع ہے کہ وہ اس سے خالی جائے گا اور اس کا خون بہایا جائے گا کیونکہ اس نے میرے ساتھ وہ کیا ہے جو اسے جائز نہیں ہے۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد سوم – صفحہ ۴٣۴ ، ۴٣۵ ]
♨ حضرت حسن فرماتے ہیں : حضرت طلحہ اور زبیر بصرہ میں آئے ، لوگوں نے ان سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : ہم حضرت عثمان کا قصاص چاہتے ہیں ۔ حضرت حسن نے کہا : واہ ! سبحان الله، اس قوم کے عقلمند لوگ تو کہتے ہیں کہ خدا کی قسم حضرت عثمان کے قاتل تو خود تم ہو ، پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تو وہاں کے ذمہ دار لوگوں نے کہا : ہم آپ کو اپنا کفیل نہیں بنا سکتے ۔
حوالہ : [ المستدرک – جلد ۴ – صفحہ ٢۴٢ – رقم ۴٦٠٦ ]
♨ ابن حجر عسقلانی نے طلحہ کے ذیل میں یوں لکھا ہے : خلیفہ بن خیاط نےاپنی تاریخ میں اسماعیل بن خالد سے جنہوں نے قیس بن ابی حازم سے روایت کیا ہے کہ جمل کے دن حضرت طلحہ کے گھٹنے میں تیر پھینکا گیا ، جب اس تیر کو روکتے تو گھٹنا پھول جاتا اور چھوڑتے تو گھٹنا ظاھر ہوجاتا۔ آپ نے فرمایا : اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔
ابن عساکر نے متعدد طرق کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت طلحہ پر تیر پھینکا تھا وہ مروان بن حکم تھا۔ اور ابی القاسم بغوی نے بھی صحیح سند کیساتھ جارود بن ابی سبرہ سے روایت کیا ہے مروان نے جمل کے دن جب طلحہ کو دیکھا تو کہنے لگا : آج کے بعد میں قصاص کا مطالبہ نہیں کروں گا ، پھر اس نے تیر پھینکا اور حضرت طلحہ کو قتل کردیا ۔
اور یعقوب بن سفیان صحیح سند کے ساتھ قیس بن ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ مروان بن حکم نے لشکر کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو کہنے لگا : اس ( طلحہ) نے عثمان کے قتل میں اعانت کی تھی، پھر تیر پھینک کر آپکو زخمی کردیا ، جس سے مسلسل خون جاری رہا حتی کہ آپ وصال فرما گئے۔ اور عبدالحمید بن صالح نے قیس سے اور طبرانی نے یحیی بن سلیمان الجعفی سے وکیع کی اسی سند سے روایت کیا ہےکہ یحیی نے کہا میں نے مروان بن حکم کو تیر پھینکتے ہوئے دیکھا جو طلحہ کے گھٹنے میں پیوست ہوگیا تھا، جس کے باعث مسلسل خون بہتا رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ یہ واقعہ جمادی الاول ٣٦ ھجری میں ہوا۔
حوالہ : [ الاصابہ فی تمیز الصحابہ – جلد٣ – صفحہ ١٢۵ ]
♨ امام ابن الاثیر طلحہ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی نے طلحہ ، زبیر ، عائشہ کے بارے میں فرمایا وہ مجھ سے اس حق کو طلب کرتے ہیں جس کو انہوں نے خود چھوڑ دیا اور اس خون کا قصاص مانگتے ہیں جس کو انہوں نے خود گرایا بے شک انہوں نے خود اس کام کو کیا میں ان کے ساتھ نہ تھا اگرچہ عثمان پر اعتراض کرنے میں میں بھی ان کا شریک تھا مگر قتل عثمان کا گناہ خود انہی لوگوں پر ہے۔
حوالہ : [ اسد الغابہ – جلد۵ – صفحہ ١٢٠ ]