.
ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا ہے :
.
نعثل: رجل من أهل مصر كان طويل اللحية، قيل: إنه كان يشبه عثمان، رضي الله عنه هذا قول أبي عبيد، وشاتمو عثمان، رضي الله عنه، يسمونه نعثلا. وفي حديث عثمان: أنه كان يخطب ذات يوم فقام رجل فنال منه، فوذأه ابن سلام فاتذأ، فقال له رجل: لا يمنعنك مكان ابن سلام أن تسب نعثلا فإنه من شيعته،
وكان أعداء عثمان يسمونه نعثلا تشبيها بالرجل المصري المذكور آنفا. وفي حديث عائشة: اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا تعني عثمان، وكان هذا منها لما غاضبته وذهبت إلي مكة، وكان عثمان إذ نيل منه وعيب شبه بهذا الرجل المصري لطول لحيته ولم يكونوا يجدون فيه عيبا غير هذا.
نعثل ایک مصری کا نام ہے کہ جس کی دھاڑی لمبی تھی ،کہا گیا ہے کہ عثمان کا ہم شکل تھا اور اسی نام کے ذریعے لوگ عثمان کی مذمت کرتے تھے ۔ ایک دن عثمان تقریر کر رہا تھا ایک آدمی نے ایک بری بات کہہ کر اس کی تقریر کاٹ ڈالی ۔ابن سلام نے اس شخص کو روکنا چاہا ،ایک اور شخص نے کہا : ابن سلام عثمان کے حامیوں میں سے ہے،ابن سلام کی وجہ سے تم عثمان کی برائی بیان کرنے سے باز نہ آئے۔لہذا عثمان کے دشمن عثمان کو اسی مصری شخص سے تشبیہہ دیتے تھے اور اس کو نعثل کہتے تھے۔
عائشہ سے نقل ہے : نعثل کو قتل کرو ۔ {اس سے ان کا مقصد عثمان ہی تھا}یہ اس وقت کہا جب جناب عائشہ ،عثمان سے ناراض اور غضبناک ہوگئ اور مدینہ چھوڑ کر چلی گئی۔
جو بھی عثمان سے ناراض ہوجاتا اور اس کی سرزنش کرنا چاہتا اس کو اسی مصری شخص سے تشبیہہ دیتا اور یہ تشبیہہ دھاڑی لمبی ہونے کی وجہ سے لوگ دیتے ،کوئی اور عیب اس میں یہ لوگ نہیں دیکھتے تھے۔
الأفريقي المصري، محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب، ج 11، ص 670، ناشر: دار صادر – بيروت، الطبعة: الأولي.
.
بی بی عائشہ کا لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے کے کچھ نمونے
.
عثمان کے خلاف لوگوں کو ورغلانے کے موارد میں سے ایک جناب عمار کی حمایت کا مسئلہ تھا
بلاذري نے انساب الأشراف میں نقل کیا ہے:
وبلغ عائشة ما صنع بعمار فغضبت وأخرجت شعراً من شعر رسول الله صلي الله عليه وسلم وثوباً من ثيابه ونعلاً من نعاله ثم قالت: ما أسرع ما تركتم سنة نبيكم وهذا شعره وثوبه ونعله ولم يبل بعد، فغضب عثمان غضباً شديداً حتي ما دري ما يقول، فالتج المسجد وقال الناس سبحان الله سبحان الله.
جب جناب عائشہ کو یہ معلوم ہوا کہ عثمان نے جناب عمار یاسر کی پٹھائی اور انہیں تکلیف پہنچائی ہے تو اس وقت جناب عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر کے بال اور آپ کے کپڑوں میں سے ایک کپڑا اور آپ کے جوتوں میں سے ایک جوتا لے کر آئی اور کہنے لگی:تم لوگوں نے اپنے نبی کی سنت کو کتنی جلدی بلادئی۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال ان کا لباس اور ان کی نعلین ہے ابھی یہ خراب نہیں ہوئی ہے ۔عثمان کو عائشہ پر سخت غصہ آیا اور اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو کیا کہنا جائے۔ مسجد میں بھی بہت رش تھا لوگ سبحان الله، سبحان الله کہہ رہے تھے.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 275
.
ابن عبد ربّه اندلسي عقد الفريد میں لکھتا ہے:
دخل المغيرة بن شعبة علي عائشة فقالت يا أبا عبد الله لو رأيتني يوم الجمل قد نفذت النصال هودجي حتي وصل بعضها إلي جلدي قال لها المغيرة وددت والله أن بعضها كان قتلك قالت يرحمك الله ولم تقول هذا قال لعلها تكون كفارة في سعيك علي عثمان.
مغيره بن شعبه عائشه کے پاس گیا : عائشہ نے کہا : اے مغيره! اگر تم جنگ جمل کے دن ہوتا اور یہ دیکھتا کہ کس طرح میری کجاوے پر تیروں اور نیزوں سے حملہ ہو رہا تھا بعض تو میرے بدن کے نذدیک بھی پہنچ گیا تھا۔ مغیرہ نے کہا : اللہ کی قسم تم اسی تیروں سے قتل ہوجاتی۔ عائشہ نے کہا :اللہ تم پر رحم کرئے ، تم نے ایسی بات کیوں کہی ؟ اس نے جواب دیا : شاید آپ کا قتل ہونا عثمان کے قتل میں آپ کی کوششوں کا کفارہ ہوتا۔
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي: 328هـ)، العقد الفريد، ج 4، ص 277، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ – 1999م.
.
اہل سنت کے مشہور مفسر فخر رازی اس سلسلے میں لکھتا ہے
.
الحكاية الثانية أن عثمان رضي الله عنه أخر عن عائشة رضي الله عنها بعض أرزاقها فغضبت ثم قالت يا عثمان أكلت أمانتك وضيعت الرعية وسلطت عليهم الأشرار من أهل بيتك والله لولا الصلوات الخمس لمشي إليك أقوام ذوو بصائر يذبحونك كما يذبح الجمل.
فقال عثمان رضي الله عنه: (ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ الآية. التحريم: 10/66.
فكانت عائشة رضي الله عنها تحرض عليه جهدها وطاقتها وتقول: ايّها الناس هذا قميص رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبل وقد بليت سنّته اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا….
عثمان نے عائشہ کے اخراجات پورا کرنے میں کوتاہی کی ، اسی لئے جناب عائشہ ان سے ناراض ہوئی اور عثمان سے کہا: جو چیز تیرے پاس امانت تھی اسے تو نے کھائی ہے، امت کو تو نے ذلیل کیا ہے۔تیرےخاندان کے برے لوگوں کو تو نے امت پر مسلط کیا ہے۔ اللہ کی قسم اگر تیرا یہی پانچ وقت کی نماز پڑھنا نہ ہوتا تو بعض لوگ تجھ پر حملہ کرتے اور تجھے اونٹ کی طرف ذبح کردیتے۔
جناب عثمان بھی قرآن مجید کی ان دو آیتوں{ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ الآية. التحريم: 10/66.} کو ذکر کرتا {کیونکہ ان میں جناب نوح ع اور لوط ع کی بیویوں کی مذمت ہوئی ہے لہذا جناب عائشہ کو اس کے ذریعے سے جواب دیتا}
جناب عائشه بھی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکساتی اور کہتی: لوگو! رسول خدا (ص) کے لباس ابھی پٹھا اور پرانا نہیں ہوا ہے لیکن ان کی سنت کو ختم کیا ہے۔ اس نعثل کو قتل کرو{نعثل ایک مصری یہودی مرد کی طرف اشارہ ہے جس کی رھاڑی لمبی تھی لیکن بےوقوف انسان تھا }
الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ) المحصول في علم الأصول، ج 4، ص 343، تحقيق: طه جابر فياض العلواني، ناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية – الرياض، الطبعة: الأولي، 1400هـ
.
وليد بن عقبه کے شراب پینا کا واقعہ جب پیش آیا اور خلیفہ نے اس کو مارنے اور کو سزا دینے سے اجتناب کیا تو جناب عائشہ نے آواز بلند کی اور کہا : عثمان نے اللہ کے حدود کو پامال کیا ہے اور اس واقعے کے گواہوں کو دھمکی ہے۔
قال أبو إسحاق: وأخبرني مسروق أنه حين صلي لم يرم حتي قاء، فخرج في أمره إلي عثمان أربعة نفر: أبو زينب وجندب بن زهير وأبو حبيبة الغفاري والصعب بن جثامة، فأخبروا عثمان خبره، فقال عبد الرحمن بن عوف: ما له أجُنَّ قالوا: لا، ولكنه سكر، قال: فأوعدهم عثمان وتهددهم وقال لجندب: أنت رأيت أخي يشرب الخمر؟ قال: معاذ الله، ولكني أشهد أني رأيته سكران يقلسها من جوفه وأني أخذت خاتمه من يده وهو سكران لا يعقل؛ قال أبو إسحاق: فأتي الشهود عائشة فأخبروها بما جري بينهم وبين عثمان وأن عثمان زبرهم، فنادت عائشة: إن عثمان أبطل الحدود وتوعد الشهود.
مسروق نے نقل کیا ہے: (وليد بن عقبه) نے نماز کے دوران قی کیا ، اور چار لوگ{ ابوزينب، جندب بن زهره، ابوحبيبه غفاري و صعب بن جثامه} عثمان کے پاس گئے اور واقعے کو ذکر کیا ۔ عبد الرحمن عوف نے کہا : پاگل ہوگیا ہے کیا ؟ انہوں نے کہا : نہیں؛ بلکہ مست ہوگیا ہے،مسروق کہتا ہے : عثمان نے انہیں دھمکی دی اور جندب سے کہا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ میرا بھائی شراب پیتا ہے؟اس نے کہا : اللہ کی پناہ اور کہا : میں نے اس کو مست دیکھا اور یہ دیکھا کہ کوئی چیز اس کے منہ سے باہر نکل رہی تھی۔ میں نے اس کی انگلی کو اس کے منہ سے باہر نکالا لیکن اس کو پتہ نہیں چلا ،کیونکہ مست تھا اس کی عقل کام نہیں کررہی تھی.
ابو اسحاق کہتا ہے: یہ گواہی دینے والے جناب عائشه کے پاس گئے اور جو عثمان کے پاس پیش آیا،سب بتایا ۔ جناب عائشه نے فرياد بلند کی : عثمان نے اللہ کے حدود کو پامال کیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 267.
.
عائشة اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا









دیث ہے کہ میں ام المومنین کے ساتھ تھا جب عثمان بن عفان کا محاصرہ کیا جاچکا تھا اور عثمان کے قتل کا زمانہ تھا لوگ چاہتے تھے کہ حج کی طرف جائیے ام المومنین بھی حج کی راہ پر تھی اس وقت مروان بن حکم ام المومنین کی خدمت میں ایا اور کہنے لگا یا ام المومنین عثمان نے اپکو سلام بیجھا ہے اور کہہ رہا ہے آپ رسول اللہﷺ کی زوجہ ہیں اپ مجھے بچا لیجے عثمان نے اپ کو بہت وعدے دۓ ہیں۔ ام المومنین نے اس بات کا کوی جواب نہیں دیا تو مروان بن حکم یہ اشعار پڑھتے ہوے نکلنے لگا۔


“قیس نے میری زمین پر آگ لگا دی ہے اب آگ کے جھولے بلند ہوے ہیں تو وہ یہاں سے جانا چاہتا ہے۔”
جب یہ اشعار ام المومنین نے سنے تو کہنے لگی اس مروان بن حکم کو بلاو اس وقت ام المومنین کے ہاتھ میں ایک ٹھلا تھا ام المومنین نے کہا اللہ سے میری دعا یہی ہے کہ کاش تیرا بھای میرے اس ٹھلے میں ہوتا اور میں اس میں پھتر ڈال کر اسکو دریا میں پھینک اتی۔

بشرط بخاری مسلم





.
کتب تواریخ و سیر میں عائشہ بنت ابی بکر کا یہ جملہ موجود ہے کہ وہ نے فرمایا کرتی تھیں :
اقتلوا نعثلا فقد كفر
نعثل ( عثمان ) کو قتل کر دو کیونکہ وہ کافر ہو چکا ہے۔
تاریخ طبری میں ہے کہ جب عائشہ مکہ سے مدینہ آ رہی تھیں کہ عائشہ کی ” عبد بن ام کلاب” سے ملاقات ہوئی:
عائشہ : مھیم
کیا خبر ہے
عبد بن ام کلاب : قتلوا عثمان
لوگو نے عثمان کو قتل کر دیا
عائشہ : ثم صنعوا ماذا
اس کے بعد لوگو نے کیا کیا ؟
عبد بن ام کلاب : اجتموا علی علي بن أبي طالب
لوگو نے علي بن أبي طالب ( کی خلافت پر ) جمع ہو گئے
عائشہ : ردواني ردوني
مجھے مکہ پلٹا دو مجھے مکہ پلٹا دو !
فانصرفت إلى مكة وهي تقول :
عائشہ یہ کہتے ہوئے مکہ آئی :
قتل و الله عثمان مظلوما و الله لاطلبن بدمه
اللہ کی قسم کو عثمان ، مظلوم قتل ہوئے اور اللہ کی قسم میں ان کے خون کے بدلا چاہتی ہوں۔
ابن ام کلاب نے کہا :
آخر کیوں تم عثمان کا بدلہ چاہتی ہو کہ
سب سے پہلے جس نے عثمان کے خلاف بولا وہ تم ہی تو تھی
و کنت تقولین: اقتلوا نعثلا فقد کفر
اور تم کہا کرتی تھی کہ : نعثل کو قتل کر دو کیونکہ وہ کافر ہو چکا ہے۔
عائشہ نے اس پر جواب دیا :
انہوں نے پہلے عثمان سے توبہ کروائی پھر اسے قتل کر دیا اور میرا آخری قول ( طلب دم عثمان ) میرے پہلے والے قول سے اچھا ہے۔

