.

” ابوبرزہ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر ایک آدمی پر سخت ناراض ہوئے، میں نے پوچھا: اے امیرالمومنین! یہ کون ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : تاکہ اگر آپکی اجازت ہو تو میں اسکی گردن مار دوں۔ راوی فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : کیا تو واقعی ایسا کرے گا ؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میری بات سے ان کا غصہ جاتا رہا ، پھر فرمایا : ( میرے یہ جذبات ) محمد ﷺ کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ۔
٭٭ یہ حدیث امام بخاری و امام مسلم کے معیار کے مطابق صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین نے اس کو نقل نہیں کیا ۔”
حوالہ : [ المستدرك الحاكم – روایت ٨٠۴۵ – صحیح ]
تبصرہ: اس روایت کو امام ذہبی نے نے تلخیص ذہبی میں نقل کرنے کے بعد اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک آدمی حضرت ابوبکر کو بہت برا بھلا کہہ رہا تھا ، میں نے عرض کی : اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ کیا میں اس کو قتل نہ کر دوں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : قتل کرنا تو اس شخص کی سزا ہے جو نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کرے ۔
حوالہ : [ المستدرك الحاكم – روایت ٨٠۴٦ – صحیح ]

حضرت ابوبرزہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کے بارے میں کوئی سخت بات کی ۔ میں نے کہا : میں اسے قتل کر دوں؟ انہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ کسی کا حق نہیں ۔
حوالہ : [ سنن نسائی – روایت ۴٠٧٨ – صحیح ]

حضرت ابوبرزہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکر کے پاس تھا کہ وہ کسی آدمی پر ناراض ہوئے اور بہت زیادہ ناراض ہوئے ۔ میں نے کہا : اے خلیفہ رسول ! اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار ڈالوں ؟ تو میری اس بات نے ان کا سب غصہ زائل کر دیا ۔ پھر وہ وہاں سے اٹھ کر گھر چلے گئے اور مجھے بلوا بھیجا اور کہا : تم نے ابھی ابھی کیا کہا تھا میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیں میں اسکی گردن مار دوں ۔ فرمایا اگر میں تجھے ایسے کہہ دیتا تو کیا واقعی تم یہ کر گزرتے ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ فرمایا : نہیں اللہ کی قسم حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بشر کو یہ مقام حاصل نہیں۔امام ابوداؤد نے کہا : یہ لفظ یزید بن زریع کے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل نے کہا یعنی ابوبکر کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو قتل کرے سوائے اس کے کہ تین میں سے کوئی ایک بات ہو جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے :’’ ایمان کے بعد کفر ‘ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا و کسی جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر ڈالنا اور نبی ﷺ کو حق تھا کہ وہ کسی کو قتل کر ڈالیں ۔
حوالہ : [ سنن ابو داؤد – روایت ۴٣٦٣ – صحیح ]

حضرت ابو برزہ اسلمی سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کی شان میں گستاخی کی اور انتہائی سخت کلمات کہے، میں نے عرض کیا کہ میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ حضرت ابوبکر نے مجھے پیار سے جھڑک کر فرمایا کہ نبیؐ کے بعد یہ بات کسی کے لیے نہیں ہے (شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا تو یہی ہے البتہ ہم اپنے لیے اس کی اجازت نہیں دیں گے)
حوالہ : [ مسند احمد بن حنبل – روایت ۵۴ – صحیح ]
تبصرہ: الالبانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے یہی روایات دیگر کتب میں بھی صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں جو درج ذیل ہیں
١) [ مسند احمد بن حنبل – روایت ٦١ ]
٢) [تلخیص الذہبی – روایت٨٠۴۵ – صحیح علی شرط بخاری مسلم]
٣) [ تلخیص الذہبی – روایت ٨٠۴٦ ]
۴) [ مسند الحمیدی – روایت ٦ – اسنادہ صحیح ]
۵) [ مسند أبي يعلى الموصلي – روایت٧٩،٨٠،٨١،٨٢ – اسناد صحیح ]