جنگ احد میں حضرت علیؑ ڈر کر زمین پر لیٹ گئے؟عیاشی

رسولﷺ کی میدان احد میں جب علیؑ پر نظر پڑی تو آپؐ نے سیدنا علیؑ سے پوچھا کہ آپ کہاں تھے ؟ تو سیدنا علیؑ نے جواب میں فرمایا کہ میں زمین کیساتھ ملا ہوا تھا۔ رسولﷺ نے آپؑ سے فرمایا کہ تمہارا گمان تمہارے ساتھ ہے۔ (تفسیر عیاشی – جلد اول – صفحہ ١٨٣)
▪قارئین اس روایت کی سند مرسل ہے جو قابل استدلال نہیں ہے اور تفسیر عیاشی میں جو الفاظ ہی وہ یہ ہیں:
” وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: يا علي أين كنت؟ فقال : يا رسول الله لزقت بالأرض فقال: ذاك الظن بك “ رسول اللہؐ نے فرمایا علی آؑپ کہاں تھے؟ عرض کی رسول اللہ میں تو زمین کیساتھ جما ہوا تھا۔ رسول اللہ ص نے فرمایا علیؑ آپ سے امید بھی یہی تھی۔
اہل عقل روایت کا خود مشاہدہ کریں۔ زمین پر جمے ہونے کو زمین سے لگے ہونا ترجمہ لکھ دیا گیا ۔۔۔ زمین سے لگے ہونا بھی اگر مان لیا جائے تو بھاگتے ہوئے لوگ زمین سے لگے ہوئے نہیں ہوتے۔ زمین سے وہی لگا ہوتا ہے جو جم کر لڑ رہا ہو ۔ جو بھاگ رہا ہو وہ کیسے کہ سکتا ہے کہ میں زمین سے لگا ہوا تھا۔ پھر اس پر رسول اللہؐ کا فرمان کہ علی ع آپ سے یہی امید تھی ظاہر کرتا ہےکہ حضور ص بھی مولا علی سے جو امید رکھتے تھی وہ پوری ہوئی ۔۔۔۔۔۔ یقینا رسول اللہ تو کسی کو بھی بھاگنے کی اجازت نہ دیتے ۔۔ تو ایسی امید کیسے رکھی جاتی۔ امید یہی تھی کہ سب جم کر لڑتے۔ البتہ صرف مولا علی اور ابو جندل جمے رہے۔
.
علل الشرائع کی صحیح حدیث کے مطابق مولا علی ع اور حضرت ابو دجانہ رض ڈٹے رہے تھے
.
🎗امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ جب احد کے دن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درجہ شکست کھائی کہ آنحضرتؐ کے ساتھ سوائے حضرت علی ابن ابی طالب ع اور ابو دجانہ سماک بن خرشہ کے اور کوئی نہ رہا تو آنحضرت نے ان سے فرمایا اے ابو دجانہ کیا تم اپنی قوم کو نہیں دیکھ رہےہو؟ ابو دجانہ نے کہا جی ہاں دیکھ رہا ہوں پھر تم بھی اپنی قوم کیساتھ جا ملو ابو دجانہ نے کہا میں نے اللہ اور اسکے رسول کے ہاتھ پر اسکے لئے بیت نہیں کی ہے ۔۔ آپ نے فرمایا تمہیں اجازت ہے ۔۔ ابو دجانہ نے کہا خدا کی قسم میں قریش سے یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتا کہ میں بھی آپ کو چھوڑ کر بھاگ لیا لہذ اب تو جو آپ کو جو جھیلنی پڑے گی رہی میں بھی جھیلوں گا ۔ یہ سنکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما اللہ تجھے جزائے خیر دے۔ اور حضرت علی علیہ السلام کا یہ عالم تھا کہ جب مشرقوں کا کوئی گروہ آنحضرت پر حملہ کرتا تویہ انکا مقابلہ کرتے اور مار بھگاتے اور ان میں سے اکثر کتل ہونے یا زخمی ہوتے کہ اس انشا میں حضرت علی کی تلوار ٹوٹ گئی تو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کیا یارسول اللہ ص آدمی اپنے اسلحہ کےذریعے ہی تو جنگ کرتا ہےمگر میری تلوار ٹوٹ گئی ۔ یہ سنکر آنحضرت نے انہیں اپنی تلوار ذوالفقار عطا فرمائی ۔ پھر وہ اس تلوار سے آنحضرت کا مسلسل دفاع کرتے رہے یہاں تک سارے مشرقین شکست کھاکر بھاگ گئے تو حضرت پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا یا محمد اسوقت علی نے آپ کے ساتھ جو کام کیا اس کا نام مساوات و ہمدردی ہے آنحضرت نے فرمایا ( وہ کیوں ایسا نہ کرتے) وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ جبرئیل ع نے کہا اور میں آپ دونوں سے ہوں اور لوگوں نے آسمان سے یہ آواز آتے ہوئے سنی لا سیف الا ذوالفقار ولافتى الاعلى۔
حوالہ : [ علل الشرائع – الباب السابع – صفحہ ١٠ ، ١١ ]