ناصبی حضرات ایک روایت نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہین کہ مولائے کائنات علیہ السلام نے ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی۔ یہ روایت علامہ طبرسی ( ص۱۶۶ ) نے مرسلا حماد ابن عثمان سے نقل کی ہے اور کوئی سند نقل نہیں کی، مگر یہ روایت بنیادی طور پر با سند شیخ علی ابن ابراہیم القمی کی تفسیر میں پایا۔
حوالہ : [ تفسیر القمی – جلد ۲ – صفحہ ۱۵۵-۱۵۹ ]
یہ روایت کافی بڑی ہے، اس لیے ہم فقط چیدہ نکات کو نقل کریں گے، اسکے بعد جہاں سے دلیل دی جارہی ہے، اس پر بحث کرینگے۔۔
.

ابوبکر نے سیدہ فاطمہ علیھا السلام کے نمائندوں کو فدک کی زمین سے نکال دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب فاطمہ علیھا السلام نے ابوبکر کے اس فعل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنی جاگیر لینے دربار گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوبکر نے گواہوں کے بارے میں سوال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدہ فاطمہ علیھا السلام نے جناب ام ایمنؓ (جنت کی عورت) اور مولائے کائناتؑ کو پیش کیا گواہی کیلئے ۔۔۔۔۔۔ ابوبکر نے جناب فاطمہؑ کو ایک خط بالآخر لکھ کر دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر نے وہ خط لے کر پھاڑ دیا جس کی وجہ سے سیدہؑ مغموم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ مولائےکائناتؑ نے ابوبکر اور کچھ مہاجرین ، انصار کے سامنے ایسے رویے پر احتجاج کرا ۔۔۔۔۔۔۔ ابوبکر نے یہ عذر پیش کرا کہ فدک مال غنیمت ہے اور اگر سیدہؑ گواہی پیش کردیں تو وہ انکا حق ہے ۔۔۔۔۔ مولا علیؑ نے دلائل قاطعہ سے ابوبکر کو ثابت کیا کہ اصولا گواہ ابوبکر کو پیش کرنا چاہئے کیونکہ وہ مدعی ہے ۔۔۔۔۔ ابوبکر عاجر آگئے جواب دینے سے ۔۔۔۔ عمر نے کہا کہ ہم مناظرہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور دلیل قائم کرے کہ فدک سیدہؑ کی جاگیر ہے ۔۔۔۔۔۔ اس مطالبے پر بالآخر مولائے کائناتؑ نے ایسے دندان شکن جوابات اور دلائل دئیے کہ دربار میں بیٹھے مولا علیؑ کے مؤقف کی تعریف کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا تو مولا علیؑ واپس آگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدہ فاطمہؑ نے مرثیہ پڑھا رسولﷺ کی قبر پر آکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوبکر نے عمر سے مشورہ کرا کہ اگر علیؑ ایسے دلائل قاہرہ دیتے رہے تو شیخین کی دال نہیں گل پائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر نے جواب میں کہا کہ مولاعلیؑ کو قتل کردو خالد بن ولید کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوبکر نے کہا کہ اے خالد! علیؑ کے بازو میں بیٹھ جاؤ اور نماز ختم ہونے پر علیؑ کی گردن مار دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسماء بنت عمیسؓ نے یہ خبر سن لی اور علیؑ کو بتا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علیؑ نے جواب میں کہا خدا انہیں اس میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ اب آگے کی روایت تفصیل کے ساتھ!!

وحضر المسجد و وقف خلف ابی بکر و صلی لنفسہ و خالد ابن ولید الی جنبہ و معہ السیف فلما جلس ابوبکر فی التشہد ندم علی ما قال و خاف الفتنتہ و شدتہ علی و بآسہ فلم یزل متفکرا۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علیؑ مسجد میں داخل ہوئے اور ابوبکر کے پیچھے ہوگئے اور اپنی فرادیٰ نماز پڑھنے لگے (وصلی لنفسہ) جب کہ خالد ابن ولید آپ کے بازو میں بیٹھا ہوا تھا اور اسکے پاس تلوار بھی تھی۔ پس جب ابوبکر تشہد میں گئے تو اپنے کئے پر بڑا نادم اور شرمسار ہوئے اور اسکے رد عمل میں جو فتنہ وقوع پذیر ہونا تھا اس سے گھبرانے لگے۔ اس فکر میں ابوبکر اتنے ڈوبے رہے کہ سلام ہی نہیں پڑھا پارہے تھے، یہاں تک لوگ گمان کرنے لگے ۔۔ بالآخر ابوبکر خالد کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جو میں نے تمہیں حکم دیا تھا اسے مت کرنا اور پھر سلام پھیرا۔ پس امیرالمؤمنین علیؑ نے خالد سے دریافت کرا کہ تمہیں کیا حکم دیا گیا تھا۔ خالد نے کہا کہ آپ کی گردن اتارنے کا (قتل کا)۔ علیؑ نے فرمایا اور کیا تم یہ کام کرتے۔ خالد نے جواب میں کہا اللہ کی قسم اگر سلام پھیرنے سے پہلے منع نہ کیا ہوتا تو ضرور کرتا ، پس مولا علیؑ نے خالد کو پکڑ کر زمین پر پٹھک دیا ۔ یہ منظر دیکھ کر عمر نے کہا رب کعبہ کی قسم آج علیؑ خالد کو قتل کردینگے۔ یہ دیکھ کر لوگ علیؑ کیطرف دوڑے اور عرض کی خدا کے واسطے اس صاحب قبر (رسولﷺ) کے صدقے میں چھوڑ دیں خالد کو۔ پس علیؑ نے چھوڑا اور عمر کی طرف متوجہ ہوئے اور عمر کو گلے سے دبا کر فرمایا : اے ابن صھاک اگر رسول اللہﷺ کی وصیت اور کتاب خدا نہ ہوتی تو تجھے معلوم ہوجاتا کہ ہم میں سے کون کمزور اور بےیار و مددگار ہے۔

کمنٹ :: قارئین کہاں اہلسنت کا یہ حوالہ دینا اس بات کے اثبات میں کہ علی علیہ السلام اور ابوبکر میں باہم محبت و پیار تھا اور کہاں یہ روایت جس سے شیخین کی اصلیت کے کیسے یہ اپنے سیاسی مخالفین کو راستہ سے ہٹاتے تھے۔
.
قارئین ہمارے مخالفین یہ ثابت کریں اس روایت سے کہ مولائے کائناتؑ نے ابوبکر کو امام سمجھ کر نماز پیچھے پڑھی؟ کیونکہ ہم نے روایت میں سے دیکھا دیاکہ مولاعلیؑ نے ابوبکر کی اقتداء میں نہیں بلکہ فرادیٰ نماز پڑھی ۔ “خلف” لفظ کا معنی پیچھے ہوتا ہے اقتداء نہیں کیونکہ بخاری کے دو باب خلف کے نام کیساتھ ہیں:
.
١) “باب الصلاتہ خلف النائم” یعنی سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا۔
٢) “باب التطوع خلف المراتہ” یعنی نفل نماز عورتوں کے پیچھے پڑھنا۔
حوالہ : [ صحیح بخاری – ص ۱۳۴ – کتاب الصلاتہ – باب ۱۰۳،۱۰۴ ]
کیا کہیں گے ناصبی حضرات کیا اب بھی کہیں گے کہ یہاں خلف سے مراد اقتداء میں نماز پڑھنے کے ہے، یعنیٰ سوئے ہوئے بندوں اور عورتوں کی اقتداء میں نماز پڑھنا۔ اگر بالفرض صرف فرض کریں مولاعلیؑ نے ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی بھی تب بھی یہ ابوبکر کی افضلیت کی دلیل نہیں کیونکہ اہلسنت کے مطابق ہر فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
.
ابنِ تیمیہ کہتا ہے کہ صحابہ اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ و فاجر ہے
اور عبداللہ بن مسعود و دیگر صحابہ نے ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھی اور اُس نے شراب پی ہوئی تھی اور ایک مرتبہ اُس نے صبح کی نماز میں (نشے کی حالت میں) چار رکعت نماز پڑھائی ، اور عثمان نے شراب پینے کی وجہ سے اُس پر حد جاری کروائی
عبداللہ بن عمر و دیگر صحابہ نماز پڑھتے تھے حجاج بن یوسف کے پیچھے ، صحابہ اور دیگر تابعین نماز پڑھتے تھے مختار ثقفی کے پیچھے ، اس (مختار) پر الزام ہے کہ وہ ملحد تھا جبکہ یہ گمراہی کی طرف بلایا کرتا تھا
حوالہ: [مجموعة الفتاویٰ – جلد ٣ – ص ١٧٦]

امام شافعی کہتے ہیں کہ رسولﷺوآلہ کےاصحاب ان حضرات کے پیچھے نماز پڑھتے جن کے افعال کو وہ پسند نہیں کرتے تھے حکمرانوں اور دیگر میں سے۔
حوالہ : [کتاب الام – جلد ۲ – ص ۳۰۲ ]
ملا علی قاری فرماتے ہیں: ہر نیک اور فاجر بندے کے پیچھے (خلف) نماز پڑھنا جائز ہے.
حوالہ : [ شرح فقہ اکبر – صفحہ ۴١٦ ]
اہلسنت کے ہاں فاسق فاجر کے پیچھے نماز ھو جاتی ھے حتکہ کھسرے کے پیچھے بھی
البخاری
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ لَنَا : مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ ، فَقَالَ : إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى ، وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ ، فَقَالَ : الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ ، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ : قَالَ الزُّهْرِيُّ : لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا .
وہ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے ۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے ۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے ۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں ۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ۔
Sahih Bukhari#695
کتاب اذان کے مسائل کے بیان میں
Status: صحی
حوالہ : [ بخاری شریف – روایت ٦٩۵ ]
تبصرہ : اہلسنّت حضرات آپ کے نزدیک ہر فاسق و فاجر کے پیچھے ہی نہیں بلکہ ہیجڑے کے پیچھے بھی نماز کو جائز سمجھتے ہیں۔ جس روایت سے یہ مولاعلیؑ کا ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھنا خلیفہ اول کی فضیلت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے وہ روایت تو خود انکے گلے میں پڑ گئی ان ناصبی حضرات نے روایت کا آگے اور پیچھے لکھا ہوا نقل نہیں کیا کیونکہ جانتے تھے کہ جعلی فضیلت گلے پڑھ جائے گئی اور ان کی خیانت خود واضع ہوجاتی۔۔