رسول اللہ ص کا عائشہ کو جنگ جمل سے روکنا
.

نکتہ اول:

رسول خدا (ص) سے حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس قوم کی راہنما عورت ہو، وہ قوم کبھی کامیاب اور سعادتمند نہیں ہو سکتی

.
کتاب صحیح بخاری میں ابوبکرہ صحابی سے نقل ہوا ہے کہ:

عن أبي بَكْرَةَ قال لقد نَفَعَنِي الله بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا من رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَيَّامَ الْجَمَلِ بَعْدَ ما كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ قال لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قد مَلَّكُوا عليهم بِنْتَ كِسْرَى قال لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً.
ابوبکرہ سے نقل ہوا ہے کہ: بے شک خداوند نے مجھے اس ایک بات سے فائدہ پہنچایا کہ جسکو میں نے جنگ جمل کے بارے میں، رسول خدا سے سنا تھا۔ بہت نزدیک تھا کہ جب میں بھی اصحاب جمل کے ساتھ مل کر جنگ میں شرکت کروں۔ جب رسول کو خبر ملی کہ اہل فارس نے کسری (کسرا) کی بیٹی کو اپنے حاکم کے عنوان سے انتخاب کر لیا ہے، تو آپ (ص) نے فرمایا: جس قوم کی راہنما ایک عورت ہو، وہ قوم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

صحيح البخاري ج4، ص1610، ح4163،صحيح البخاري، ج6، ص2600، ح6686،
.

نکتہ دوم:
.

حتی خود اہل سنت کی معتبر کتب کے مطابق رسول خدا نے بہت تاکید کے ساتھ عائشہ کو جنگ جمل میں جانے سے منع کیا تھا۔ اب خود مسلمان بتائیں کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا نے ایک کام سے عائشہ کو سختی سے منع بھی کیا ہو اور عائشہ پھر بھی اس کام کو انجام دے اور حق پر بھی ہو


حدثنا أبو أُسَامَةَ قال حدثنا إسْمَاعِيلُ عن قَيْسٍ قال لَمَّا بَلَغَتْ عَائِشَةُ بَعْضَ مِيَاهِ بَنِي عَامِرٍ لَيْلاً نَبَحَتْ الْكَلاَبُ عليها فقالت أَيُّ مَاءٍ هذا قَالَوا مَاءُ الْحَوْأَبِ فَوَقَفَتْ فقالت ما أَظُنُّنِي إَلاَ رَاجِعَةً فقال لها طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ مَهْلاً رَحِمَك اللَّهُ بَلْ تَقْدُمِينَ فَيَرَاك الْمُسْلِمُونَ فَيُصْلِحُ اللَّهُ ذَاتَ بَيْنِهِمْ قالت ما أَظُنُّنِي إَلاَ رَاجِعَةً إنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال لنا ذَاتَ يَوْمٍ كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عليها كَلاَبُ الْحَوْأَبِ.
قيس ابن حازم سے نقل ہوا ہے کہ جب عائشہ شہر بصرہ کی طرف جاتے ہوئے، کنواں بنی عامر کے مقام پر پہنچی تو وہاں کے کتوں اس پر بھونکنا شروع کر دیا، اس پر عائشہ نے سوال کیا: یہ کونسا پانی ہے ؟ اسکو بتایا گیا کہ یہاں حوأب کے علاقے کا پانی ہے۔ یہ سن کر عائشہ کھڑی ہو گئی اور کہا مجھے یہاں سے واپس جانا چاہیے۔ طلحہ و زبیر نے اس سے کہا: خدا آپ پر رحمت کرے، تھوڑا صبر کریں، آپ آئی ہو تا کہ خداوند آپکے وسیلے سے مسلمانوں کے درمیان اصلاح کرے، عائشہ نے کہا: مجھے لازمی طور پر واپس جانا چاہیے، کیونکہ میں نے رسول خدا کو اپنی بیویوں سے فرماتے ہوئے سنا ہے تھا کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے ایک پر حوأب کے علاقے کے کتے بھونکیں گے تو اسکا کیا حال ہو گا ؟

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفى235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج7، ص536، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض،
.

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) قَالَ لِنِسَائِهِ: ” أَيَّتُكُنَّ الَّتِي تَنْبَحُهَا كِلابُ مَاءِ كَذَا وَ كَذَا، إِيَّاكِ يَا حُمَيْرَاءُ ” يَعْنِي عَائِشَةَ.
رسول خدا نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ: تم میں سے کون وہ ہو گی کہ جس پر فلان علاقے کے کتے بھونکیں گے ؟ اے حمیراء عائشہ ایسا نہ ہو کہ وہ تم ہی ہو۔

المروزي، أبو عبد الله نعيم بن حماد (متوفى288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص84، ح189، تحقيق: سمير أمين الزهيري، ناشر: مكتبة التوحيد – القاهرة،