عمر بن خطاب کا رسول اللہﷺ پر اعتراض اور تنبیہہ

.
رسول اللہﷺ نے ابوہریرہ سے فرمایا: لوگوں میں خوشخبری سنا دو کہ جس نے یقینِ دل سے “لاالہ الااللہ” کی گواہی دی اسکے لیے جنت کی بشارت ہے۔
عمر بن خطاب پہلا شخص تھا جس سے ابوہریرہ ملا, عمر نے یہ خبر سنتے ہی ابوہریرہ کو اس شدت سے گھونسا مارا کہ وہ سرین کے بل گر پڑا۔
[📒صحیح مسلم 147 کتاب الایمان]
برادران اسکی تشریح یوں کرتے ہیں کہ حضرت عمر یہ نہیں چاہتے کہ یہ راز فاش ہو( یعنی اللہ و رسولﷺ کو اس راز کے فاش کرنے سے باز رکھنا چاہتے تھے)
👈🏿اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رعیت کو امام کے حکم پر اعتراض کرنا پہنچتا ہے اور امام کو چاہیے کہ رعایا کے اعتراض کا معقول جواب دے یا اپنے حکم کو واپس لے۔
یعنی رسولﷺ کے حکم پر عمر کا اعتراض بجا تھا لیکن رسولﷺ کے پاس کوئی معقول جواب نہ ہونے کیوجہ سے رسول اللہﷺ نے اپنا حکم واپس لے لیا۔
⭕قرآن میں متعدد بار رسولﷺ کے حکم کو ماننے اور اسکی خلاف ورزی سے ممانعت کا حکم ہے لیکن خدا جانے انکے پاس کونسی وحی اترتی تھی جو رسول اللہﷺ پر اعتراض کرتے اور انھیں سکھانے کی کوشش کرتے تھے اور حکم الہٰی کی کھلی نافرمانی کرتے تھے اور پیروکار ان کے اعمال کی ڈٹ کر وکالت کرتے ہیں اور انھی کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہیں😔
رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کا انجام👇🏽
ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ شَاقُّوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۖ وَمَنْ يُّشَآقِّ اللّـٰهَ فَاِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (الحشر۴)
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ كُبِتُوْا كَمَا كُبِتَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ ۚ وَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۚ وَلِلْكَافِـرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ (المجادلة۵)
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اُولٰٓىٕكَ فِی الْاَذَلِّیْنَ(المجادلة20)
بےشک وہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں)
قُلْ اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۖ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُـمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُـمِّلْتُـمْ ۖ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ(النور54)