ابوحنیفہ

1
امام ابن ابی حاتم الرازی (المتوفی ۳۲۷ھ) نے اپنی سند سے اس طرح نقل کیا ہے :
.
أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ:
أَبُو حَنِيفَةَ يَضَعُ أَوَّلَ الْمَسْأَلَةِ خَطَأً، ثُمَّ يَقِيسُ الْكِتَابَ كُلَّهُ عَلَيْهَا
شافعی کہتے ھیں :
ابوحنیفہ پہلے ایک غلط مسئلہ گھڑتے تھے، پھر ساری کتاب کو اُس پر قیاس کرتے تھے ۔
⛔️ آداب الشافعي ومناقبة – ابن أبي حاتم // صفحہ ۱۲۹ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسکی سند امام شافعی تک صحیح ہے۔
2
تاريخ بغداد – الخطيب البغدادي – ج ١٣ – الصفحة ٣٨٢
66 – حدثنا محمد بن علي بن مخلد الوراق – لفظا – قال في كتابي عن أبي بكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه
وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه. فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة.
ابو بکر بن أبی داود السجستانی نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور اسکے اصحاب شافعی اوراسکے اصحاب اوزاعی اور ا سکے اصحاب حسن بن صالح اور اسکے اصحاب سفيان ثوری اور اسکے اصحاب احمد بن حنبل اور اسکے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئی نہيں ہو سکتا
تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنيفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے
.
.
3
السوال :
سراج امتي ابو حنیفة
میری امت کا چرغ ابو حنیفہ ہے۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
الجواب :
یہ حدیث موضوع “گھڑی ہوئی” ہے جیسا کہ
علامہ ملا علی قاری اپنی کتاب (الأسرارُ المرفوعة في اخبار الموضوعة)
المعروفُ باالمرفوعات الکبری میں اسے ذکر کیا چنانچہ لکھتے ہیں:
۴ :- حدیث : ابو حنیفةَ سراجُ امتي
موضوع بالاتفاق المحدثین
حدیث “ابو حنیفة سراجُ امتی” ابو حنیفہ میری امت کا چراغ ہے
محدثین کے اتفاق کے ساتھ موضوع “گھڑی ہوئی” ہے۔
نیز علامہ شوکانی اپنی کتاب (فوائد المجموعة في الاحادیث الموضوعة) ص ۴۲۰ میں اس روایت سے متعلق تو اتنا تک لکھتے ہیں کہ:
(و ھذا الافک لا یحتاج إلی بیانِ بُطلانہٖ)
اور یہ تو ایسا جھوٹ ہے جس کا بطلان محتاجِ بیان نہیں۔
اسی طرح جب علماء دیوبند سے استفتاء کیا گیا تو انہوں نے بھی اسے موضوع کہا جیسا کہ خیرُ الفتاوی میں ہے:
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے امام صاحب کے متعلق مندرجہ بالا کلمات ثابت نہیں بلکہ (یہ حدیث موضوع ہے)
(خیرُ الفتاوی ج ۱ ص ۲۷۲ )
اسی طرح متعدد علماء اس حدیث کو موضوع گردانا ہے۔
4
.
🔥اعتراف غزالی🔥
😅غزالی (حجة الاسلام اهل سنت) : ابوحنیفه نه مجتهد تھا نہ اس کو عربی زبان آتی تھی اور نا ہی حدیث میں سے کسی چیز کو جانتا تھا😅
⭕وأما أبو حنیفة فلم یکن مجتهدا لأنه کان لا یعرف اللغة وعلیه یدل قوله ولو رماه بأبو قبیس وکان لا یعرف الأحادیث ولهذا ضری بقبول الأحادیث الضعیفة ورد الصحیح منها ولم یکن فقیه النفس بل کان یتکایس لا فی محله على مناقضة مآخذ الأصول …..
خلاصہ:
وہ.. ابوحنیفه مجتھد نھی تھا، کیونکہ زبان عربی نھی جانتا تھا، اور اس کا قول جس میں کہا ہے: <<ولو رماہ بابو قبیس>> اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس کو احادیث کے بارے میں پتا ہی نھی تھا ، اس لیے ضعیف احادیث کو قبول کرتا، اور صحیح احادیث کو رد کرتا……………….
📚المنخول من تعلیقات الأصول،ص471 ط دار الفکر
😅 ہے غزالی کے نزدیک ” امام اعظم ” کی علمی اوقات
اهل سنت کے نزدیک مقام غزالی :
الغَزَّالِیُّ أَبُو حَامِدٍ مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ مُحَمَّدٍ : الشَّیْخُ، الإِمَامُ، البَحْر، حجَّةُ الإِسْلاَم، أُعجوبَة الزَّمَان …..
📚سیر اعلام النبلاء،ج19،ص322 ط موسسة الرسالة
حجّة الإسلام، إمام الفقهاء الشافعیة، وربّانیّ الأمة، جمع بین علم الظاهر والباطن، وفاق أهل زمانه بتلخیص العبارة، وحسن التمثیل والاستعارة، وزاد على من کان قبله فی تنمیق التصنیف، وأعجز من جاء بعده فی حسن التألیف، ومن نظر فی تصانیفه علم. أنه کان منقطع القرین، متفنّنا فی کثیر من العلوم، لا یشقّ غباره، ولا یدرک مضماره …..
📚الدر الثمین فی أسماء المصنفین،ص84 ط دار الغرب الاسلامی، تونس
ابوحنیفه کو اھلسنت کے ہاں امام اعظم کا درجہ ملا ھوا ہے..
جبکہ اسے نا تو عربی زبان آتی تھی اور نہ مجتھد تھا..
پھر کس بنیاد پر یہ اھلسنت کا امام اعظم بنا ھوا ھے؟
افسوس تو اس بات پر ھورھا ھے کہ جزیرة عرب میں رھ کر ابوحینفه زبان عربی سے نا واقف تھا😅
والسلام
أبوعزرائیل
.
5
.
ابوحنیفہ نے ایک رات خواب میں اپنے آپ کو دیکھا اس نے رسول اللہﷺ کی قبر کھود کر آپؐ کا ڈھانچہ سینے تک اکٹھا کرلیا ہے
دہشت کھا کر اٹھ بیٹھا، صبح بصرہ کی طرف روانہ ہوا وہاں محمد بن سیرین سے اسکی تعبیر پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس خواب کا صاحب تو ابوحنیفہ ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کو ابوحنیفہ کہیں گے خدا میری سنت کو اس کے ذریعے زندہ کرے گا۔
(📓حدائق الحنفیہ)
6
.
حدثنا زكريا بن يحيى الساجي بالبصرة قال: حدثنا بندار ومحمد بن علي المقدمي قال: حدثنا معاذ بن معاذ العنبري قال: سمعت سفيان الثوري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين۔
سفیان ثوری کہتا ہے میں نے ابوحنیفہ کو دو دفعہ کفر سے توبہ کرائی ہے”
📘کتاب المجروحين – ابن حبان – ج ٣ – الصفحة ٦٤
.
7
.
معجم الرجال والحديث – محمد حياة الأنصاري – ج ١ – الصفحة ٢٢٨
قال سفين الثوري: ليس بثقة،
سفیان ثوری کہتے ہیں (ابوحنیفہ) ثقہ نہیں ہے
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، وهو كثير الغلط والخطاء على قلة روايته،
امام نسائی کہتے ہیں ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں اور بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود اکثر غلطیاں کر جاتا ہے۔
وقال النضر بن شميل، هو متروك الحديث،
نضر بن شمیل کہتے ہیں (ابوحنیفہ) متروک الحدیث ہے
وقال الواقدي: وكان أبو حنيفة ضعيفا في الحديث
واقدی کہتے ہیں ابوحنیفہ ضعیف الحدیث ہے
وقال مالك بن أنس: ما ولد في الاسلام أضر على أهل الاسلام من أبي حنيفة
یعنی مالک بن انس کہتے ہیں اسلام کو اتنا کسی نے نقصان نہیں پہنچایا جتنا ابوحنیفہ نے پہنچایا
(اسی طرح احمد بن حنبل نے اپنی کتاب العلل و معرفۃ الرجال، ۲/۵۴٦؛ میں درج کیا کہ
حدثني الحسن بن عبدالعزيز الجروي الجذامي قال : سمعت أبا حفص عمرو بن أبي سلمة التتيسي قال سمعت الأورزاعي يقول : ما ولد في الإسلام مولود أضر على الإسلام من أبي حنيفة
اوزاعی نے کہا کہ اسلام کو ابو حنیفہ سے زیادہ نقصان کسی اور مولود نہ نہیں پہنچایا)
وقال علي بن حشرم: سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول: سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة في الحديث يتيما وترك ابن المبارك أبا حنيفة في آخر عمره، وكان حماد بن سلمة يلعن أبا حنيفة، وكان شعبة يلعن أبا حنيفة.
ابن مبارک ابوحنیفہ کو حدیث میں یتیم سمجھتے تھے اور اسکی حدیث کو چھوڑ دیتے تھے حماد بن سلمہ حنیفہ پر لعنت کرتے تھے اور امام شعبہ ابوحنیفہ پر لعنت بھیجتے تھے۔
اسکی اور بھی ایک سند ہے جو بلکل اوکے ہیں
وقال أحمد: سمعت ابن عيينة يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين،
ابن عیینہ کہتے پیں ابوحنفیہ نے کفر سے تین بار توبہ کی
وقال يوسف بن أسباط: لم يولد أبو حنيفة على الفطرة وقال أيضا: رد أبو حنيفة أربعمائة أثر عن النبي صلى الله عليه وسلم
مالك بن أنس: أبو حنيفة من الداء العضال،
مالک بن ان سے کہتے ہیں اسلام میں ابوحنیفہ ایک بیماری ہے
ما قال أبو حنيفة في التوحيد؟ قال يحيى بن حمزة وسعيد بن عبد العزيز: سمعنا أبا حنيفة يقول:
” لو أن رجلا عبد هذا البغل تقربا بذلك إلى الله لم أر بذلك بأسا “.
يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا۔
تاريخ بغداد میں لکھا ہے
۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے
.
وقال أبو حنيفة: ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر ” وقال أيضا: ” ان آمنة بنت وهب أم رسول الله صلى الله عليه وسلم هي خالدة مخلدة في النار “.
ابوحنیفہ کہتا ہے رسولﷺ کء والدین کی موت کفر پر ہوئی اور آپ ﷺ کی ماں جہنم میں رہیں گی
وقال شريك: ” مذهب أبي حنيفة وأصحابه رد الأثر عن رسول الله ۔۔۔۔۔
ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کا مذہب رسواللہ ﷺ کی حدیث کو رد کرتا ہے۔
قال عبد الله بن أحمد: حدثني إبراهيم بن سعيد، نا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، كان أبو حنيفة يقول:
” ايمان إبليس وإيمان أبي بكر الصديق واحد قال أبو بكر: يا رب: وقال إبليس: يا رب!
ابوحنفیہ کہتا ہے ایمان ابلیس اور ایمان ابوبکر ایک جیسا ہے ابوبکر نے بھی کہا یارب ابلیس نے بھی کہا یا رب
.
8
.
حنـفیوں نـے حـضرت عیـسی نـبی ع کـو بـھی
مـلقدیـں امـام ابـو حـنفیہ کـی لـسٹ میــں
شـامـل کـردیـا، 😆
کـیا بـات ہـے 📚مـکتوبات امـام ربانــی ص 639
.
9
.
حضرت ابو حنیفہ نے کہا جس خچر کا نام عمر رکھا تھا اس نے لات مار کر رافضی کو قتل کیا ہوگا۔
پورا واقعہ پڑھیں:
كان لنا جار طحان رافضي
ہمارا پڑوسی ایک چکی چلانے والا رافضی تھا
وكان له بغلان سمی، أحدهما أبا بكر والآخر عمر
اس کے پاس دو خچر تھے اس نے ایک نام ابوبکر جب کہ دوسرے کا نام عمر رکھا تھا
فرمحه ذات ليلة أحدهما فقتله
کسی رات ان دو میں سے کسی ایک خچر نے اس ( رافضی ) کو لات مار کر قتل کر دیا
فأخبر أبو حنيفة فقال، أنظروا البغل الذي رمحه الذي سماه عمر فنظروا
حضرت ابو حنیفہ کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے فرمایا :تم لوگ جا کر دیکھو ، جس خچر نے اسے لات ماری وہ ہوگا جس کا نام اس نے عمر رکھا
فنظرو
پھر ان لوگوں جب جا کر دیکھا
کان کذلک
وہی خچر تھا
علامہ مفتی تقی عثمانی نے اس واقعہ کو حیاة الحیوان للدمیری سے نقل کیا ہے۔
.
10
.
حــنفیوں کا امــام در اصــل صوفـیوں کا
امـام ہے
.
11
.
محمد بن حکیم سے روایت ہے کہ میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ سلام کی خدمت میں عرض کیا:____
میں آپ علیہ سلام پر فدا ہوں ! ہم نے علم دین حاصل کیا اور آپ علیہ سلام کی وجہ سے ہم دوسروں سے علم حاصل کرنے سے بے پروا ہو گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کچھ لوگ جب جلسوں میں جاتے ہیں اور لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں تو ہم ان کے جواب دے دیتے ہیں اس لیے کہ خدا ﷻنے آپ علیہ سلام کی وجہ سے ہم پر احسان کیا ہے لیکن بعض اوقات ایسے سوالات بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ہم نے ان کا جواب نہ آپ سے حاصل کیا نہ آپ کے آبائے طاہرین علیہ السلام سے پس ایسے موقع پر جو ہمیں آتا ہے اس کے ہر پہلو پر غور کر کے جواب دے دیتے ہیں؟
آپ علیہ سلام نے فرمایا :____
اے ابن حکم ! افسوس ، اس میں افسوس ہے۔ خدا کی قسم ! اس میں ہلاکت ہے جس نے ایسا کیا وه ہلاک ہوا۔ پھر آپ علیہ سلام نے ارشاد فرمایا :؛؛____
خدا لعنت کرے “ابو حنیفہ” پر کہ وہ کہتا ہے اس مسئلہ میں علی علیہ سلام یہ کہتے ہیں اور میں یہ کہتا ہوں ۔ محمد بن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن عبد الحکیم سے کہا: واللہ ! میں چاہتا تھا کہ مجھے مسائل دین میں قیاس کرنے کی اجازت مل جاتی ۔
📕الکافی، جلد ۱، صفحه ۵۶، حدیث ۹
📕المحاسن، جلد ۱ صفحه ۳۳۶، حدیث ۶۸۶
📕مرآة العقول،جلد ۱، صفحه ۱۹۳-۱۹۴
📕روضة المتقین، جلد ۱۹، صفحه ۸۲-۸۳
.
.
12
.