روایات روز غدیر (تحریر)

جس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
امام ترمذی نے حدیث غدیر کو صحیح السند سے حضرت زيد بن أرقم (رض) سے نقل کیا ہے
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں ۔
متن سنن ترمذی
حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن سلمة بن كهيل قال سمعت أبا الطفيل يحدث عن ابي سريحة أو زيد بن أرقم شك شعبة : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال من كنت مولاه فعلي مولاه
قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح
وقد روى شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد الله عن زيد بن أرقم عن النبي صلى الله عليه و سلم
و أبو سريحة هو حذيفة بن أسيد الغفاري صاحب النبي صلى الله عليه و سلم
قال الشيخ الألباني : صحيح
مشہور سلفی محقق الالبانی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حوالہ : سنن ترمذی ج 5 ص 633
۱۸ ذلحجہ کے دن غدیرِ خُم کے مقام پر نازل ہونے والی آیات میں اللہ تعالی ٰٰ کا ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
(سورہ مائدہ : 3)
(ترجمہ) آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے
یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس کو تمام صحابہ نے جانا، پورے عرب نے سمجھا اور جس کے پاس اس کی خبر آئی اس نے اس کے ذریعے احتجاج کیا اور اس پر اھل سنت کے بہت سے علمائے تفسیر ، آئمہ حدیث .چنانچہ آیت اکمال کا شان نزول مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے
حافظ ابو بکر خطیب بغدادی نے حضرت عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران سے ، انہوں نے حافظ علی بن عمر دارقطنی سے انہوں نے ابی نصر جشون خلال سے انہوں نے علی بن سعید رملی سے انہوں نے حمزہ بن ربیعہ سے انہوں نے عبداللہ بن شوذب سے انہوں نے مطر وارق سے انہوں نے شہر بن حوشب سے انہوں نے حضرت ابوھریرہ(رض) سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھے ،اللہ اسے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائے گا.یہی غدیر خم کا وہ دن ہے جب نبی اعظم (ص) نے علی بن ابی طالب(کرم اللہ وجہ) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: کیا میں مومنوں کا ولی نہیں ہوں? سب نے کہا : ہاں ! اے اللہ کے رسول ! تب آپ (ص) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ،یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب (رض) بولے مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابو طالب آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے.اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے
اس حدیث کو حافظ بغدادی نے ایک اور سند کے ساتھ علی بن سعید رملی سے بھی نقل کیا ہے
(تاریخ بغداد ، ج 9 ، 222،ترجمہ:4345)
سند حدیث کے رجال پر بحث
*حضرت ابوھریرہ (رض)
جمہور نے اس کی عدالت اور وثاقت پر اجماع و اتفاق کیا ہے لہذا اس کے بارے میں ہمیں بات بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں
*حضرت شہر بن حوشب اشعری
ایک جماعت نے ان پر جرح کی ہے لیکن جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے
(المجموع ،ج 1، ص 370)
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ جمہور کے نزدیک مقبول ہیں
(الامالی المطلقہ ، ج 1، 75)
ارباب صحاح نے ان سے روایات لیں ہیں اور ان روایات کو صحیح اورحسن کا ردجہ دیا ہے
*حضرت مطر بن طہمان وراق ابو رجا خرسانی
بخاری مسلم اور دوسرے تمام ارباب صحاح نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں. ابن حجر نے ان کے حالات لکھے ہیں ،کسی نے ان کی نقل شدہ حدیث رد نہیں کی .ان کی صداقت اور ان کا بےلوث ہونا منقول ہے علمائے رجال سے
(تہذیب التہذیب ، ج 10 ، ص 167)
*حضرت عبداللہ بن شوذب
حضرت ثیر بن ولید سے مروی ہے کہ جب میں حضرت ابن شوذب کو دیکھتا تھا تو مجھے فرشتے یاد آجاتے تھے.احمد بن حنبل، ابن معین، نسائی ،،عجلی ، ابن عمار نے ان کو ثقہ کہا ہے. مسلم کے علاوہ کل صحاح ستہ میں ان کی روایات ہیں .ذہبی نے ان کی حدیث کو تلخیص میں صحیح کہا ہے
(تہذیب التہذیب ، ج 5 ، ص 255)
*حضرت ضمرۃ بن ربیتہ قرشی
ابن حجر نے صدوق کہا ہےاور مسلم کے علاوہ دیگر صحاح ستہ میں ان کی روایات موجود ہیں
(تقریب: 221)
*علی بن سعید رملی
ذہبی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے امر میں ایسے پختہ ہیں کہ گویا وہ سچے ہیں
(میزان،ج3،ص 131)
*حضرت ابونصر حبشون بن موسیٰٰ
حافظ خطیب نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ووہ ثقہ تھے،بصرہ میں رہتے تھے اور دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ وہ سچے ہیں
(تاریخ بغداد ، ج 9 ، 222،ترجمہ:4345)
*حافظ علی بن عمر دارقطنی
حافظ خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے وحید و فرید اور امام وقت تھے ، علم علل حدیث اور اسماء رجال و روایت کی ان پر انتہا ہوگئی
(تاریخ بغداد ، ج 12 ، 34)
*عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران
خطیب بغدادی نے ان کے حالات قلم بند کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان کا سماعت صحیح ہے
(تاریخ بغداد ، ج 11 ، 185)
تنیجہ: سند کے لحاظ سے اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور یہ حدیث صحیح یا حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے
تاریخ بغداد کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں آیت اکمال کا شان نزول مروی ہے کہ یہ آ پ (ص) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے) اس کے بعد رسول (ص) پر یہ آیت اتری
شواهد التنزيل للحاكم الحسكاني ج 1 ص 203
خوارزمی ،مناقب ،س 94
السيوطي في تفسبر الاية الكريمة من الدر المنثور
تاريخ مدينة دمشق – ابن عساكر ج 42 ص 232
تذکرۃ الخواص الامتہ ، ص 18
روايت واحدي
… عن أبي سعيد الخدري قال نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» يوم غدير خم في علي بن أبي طالب رضي الله عنه.
حضرت ابو سعید خدری (رض) سےنقل ہوا ہے کہ آيت«يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» غدير خم کے دن اور علي بن أبي طالب(کرم اللہ وجہ) کی شان میں نازل ہوئی ہے
أسباب النزول واحدي، ص 115.
ذهبي نے واحدي کے احوال میں اسطرح لکھا ہے :
الإمام العلامة الأستاذ أبو الحسن … صاحب التفسير، وإمام علماء التأويل …
إمام، علامه، استاد، ابو الحسن … صاحب تفسير، اور علماء تاویل کے امام …
سير أعلام النبلاء، ج 18، ص 339.
روایت
أخرج ابن مردويه عن ابن مسعود قال : كنا نقرأ على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم { يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك } أن علياً مولى المؤمنين { وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس } .
یعنی :حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم زمانہ رسول اکرم [ص] میں اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے: يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك إن عليا مولى المؤمنين وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس.
الدر المنثور، ج 2، ص 298.
روايت ابن أبي حاتم عبد الرحمن بن محمد بن إدريس رازي
وأخرج ابن أبي حاتم وابن مردويه وابن عساكر عن أبي سعيد الخدري قال : نزلت هذه الآية { يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك } على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم ، في علي بن أبي طالب .
ابن ابی حاتم ۔ ابن مردویہ اور ابن عساکر نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ :حضرت ابو سعید(رض) کہتے ہیں یہ آیت { يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك }رسول اکرم {ص} پر غدیر خم کے روز علی بن ابیطالب کے حق میں نازل ہوئی ۔
1. الدر المنثور، ج 2، ص 298 ـ /
2. عمده القاري، عيني، ج 18، ص 206 ـ
3. أسباب نزول الآيات، واحدي نيشابوري، ص 135 ـ
4. شواهد التنزيل، حاكم حسكاني، ج 1، ص 250 ـ
5. فتح القدير، شوكاني، ج 2، ص 60 ـ
6. تفسير آلوسي، ج 6، ص 193. ‌
1. اخبار اصفهان: ج1ص107و235.ج2ص227.
2. اخبارالدول وآثارالاول:ص102.
3. أربعين الهروي:ص12.
4. أرجح المطالب:ص36و56 و58 و67 و203 و338 و339 و389 و581-545 و681 .
5. الارشاد: ص420.
6. أسباب النزول:ص135.
7. أسد الغابه:ج1ص308و367.ج2ص233.ج3ص92و93و274و307و321.ج4ص28.ج5ص6و205و208.
8. الامامه و السياسه:ج1 ص109.
9. أنساب الاشراف:ج1 ص156.
10. البدايه و النهايه:ج5 ص208-213و227و228-ج7ص338و344-349.
11. بلاغات النساء:ص72.
12. تاريخ بغداد:ج8ص290-ج7ص377-ج12ص343-ج14ص236.
13. التاريخ الکبير:ج1ص375-ج2قسم2ص194.
14. تاريخ الخلفاء:ص114و158و179.
15. تفسير الثعلبي:ص78و104و181و235.
16. تفسير الطبري:ج3ص428.
17. تفسير فخر الرازي:ج3ص636.
18. التمهيد(باقلاني):ص171.
19. الجمع بين الصحاح:ص458.
20. حياه الصحابه:ج2ص769.
21. حليه الاولياء:ج5ص26و363-ج6ص294.
22. الخصائص:ص4و49و51.
23. خصائص النسائي:ص21و40و86و88و93و94و95و100و104و124.
24. الخصائص(السيوطي):ص18.
25. الخطط والآثار(مقريزي):ص220.
26. الدر المنثور:ج2ص259و298.
27. دول الاسلام(ذهبي):ج1ص20.
28. ذخائرالعقبي:ص67و68.
29. روضات الجنات(زمجي):ص158.
30. سر العالمين(غزالي):ص16.
31. سنن الترمذي:ج5ص591 .
32. سنن ابن ماجه:ج1 ص43.
33. سنن النسائي:ج5 ص45.
34. سنن المصطفي صلي الله عليه و آله:ج1ص45.
35. السيره النبويه(زيني):ج3 ص3.
36. شرح نهج البلاغه(ابن أبي الحديد):ج1ص317و362-ج2ص288-ج3ص208-ج4ص221-ج9ص217.
37. الشرف الموبد(نبهاني):ص58و113.
38. شواهد التنزيل:ج1ص158و190.
39. صحيح الترمذي:ج1ص32-ج2ص298-ج5ص633.
40. صحيح مسلم:ج4ص1873.
41. الصواعق المحرقه:ص25و26و73و74.
42. طبقات ابن سعد:ج3ص335.
43. العقد الفريد:ج5ص317.
44. عمده الاخبار:ص191.
45. الفصول المهمه:ص23و24و25و27و74.
46. الفضائل(ابن حنبل):ج1ص45و59و77و111-ج2ص560و563و569و592و599-ج3ص27و35.
47. فضائل الصحابه:ج2ص610و682.
48. الکفايه:ص151.
49. کفايه الطالب:ص13و17و58 و62 و153و285و286.
50. کنز العمال:ج1ص48-ج6ص397-405-ج8ص60-ج12ص210-ج15ص209.
51. الکوکب الدري:ج1ص39.
52. مجمع الفوائد:ج9ص103-108و163.
53. مختلف الحديث(ابن قتيبه):ص52و276.
54. مروج الذهب:ج2ص11.
55. مستدرک الحاکم:ج3ص109و110و118و371و631.
56. مسند ابن حنبل:ج1ص84و119و180-ج4ص241و281و368و370و372-ج5ص347و366و370و419-494-ج6ص476.
57. مسند الطيالسي:ص111.
58. مصابيح السنه:ج2ص202و275.
59. معارج النبوه:ج1ص329.
60. المعارف(ابن قتيبه):ص58.
61. معالم الايمان(دباغ):ج2ص299.
62. المعتصرمن المختصر:ج2ص301و332.
63. معجم البلدان:ج2ص389.
64. المعجم الصغير:ج1ص64و71.
65. المعجم الکبير(طبراني):ج1ص149و157و390-ج5ص196.
66. مقاصد الطالب:ص11.
67. مقتل الحسينعليه السلام(خوارزمي):ص47.
68. مقصد الراغب:ص39.
69. المنار:ج1ص463.
70. مناقب الائمه(باقلاني):ص98.
71. المناقب(ابن جوزي):ص29.
72. المناقب(ابن مغازلي):ص16و18و20و22و23و24و25و224و229.
73. المناقب(عبدالله شافعي):ص106و107و122.
74. منتخب کنز العمال:ج5ص30و32و51.
75. المواقف:ج2ص611.
76. موده القربي:ص50.
77. نزهه الناظرين:ص39.
78. النهايه(ابن الأثير):ج4ص346.
79. نهايه العقول:ص199.
80. الوفيات(ابن خلکان):ج1ص60-ج2ص223.
81. ينابيع الموده:ص29-40و53-55و81و120و129و134و154و155و179-187و206و234و284.
82. الاصابه:ج1ص372و550-ج2ص257و382و408و509-ج3ص512-ج4ص80.
83. الاستيعاب:ج2ص460.
84. أشعه اللمعات في شرح المشکاه:ج4ص89و665و676.
85. تفريح الأحباب:ص31و32و307و319و367.
86. التمهيد و البيان(أشعري):ص237.
87. الفتوح(ابن الأعثم):ج3ص121.
88. التمهيد البيان(أشعري):ص237.
89. ثمار القلوب(ثعالبي):ص511.
90. الأعتقاد(بيهقي):ص182.
91. تاريخ دمشق:ج1ص370-ج2ص5و85و345-ج5ص321.
92. الجمع بين الصحاح:ص458.
93. الشفاء(قاضي عياض):ج2ص41.
94. أسني المطالب:ص4و221.
95. انسان العيون:ج3ص274.
96. الأنوار المحمديه:ص251.
97. بلوغ الأماني:ج1ص213.
98. البيان والتعريف:ج2ص36.
99. التاج الجامع:ج3ص296.
100. تجهيز الجيش:ص135و292.
101. ذخائرالعقبي:ص67و68.
102. الحاوي للفتاوي:ج1ص79و122.
103. الرياض النضره:ج2ص169و170و217و244و348.
104. السيره الحلبيه:ج3ص274و283و369.
105. شرح المقاصد:ج2ص219.
106. فرائد السمطين:ج1ص56و64و65و67و68و69و72و75و76و77.
107. العثمانيه:ص145.
108. مرقاه المفاتيح:ج1ص349-ج11ص341و349.
109. مصابيح السنه:ج2ص202و275.
110. المورود في شرح سنن أبي داود:ج1ص214
حدیث غدیر کی خصوصی کیفیت اور اس سے متعلق خاص حالات شرائط ھر محقق اور مفکر کو اس کی سند پر بحث کرنے سے بے نیاز بنا دیتے ھیں۔ اس کا صحیح ھونا نا قابل انکار ھے اور اس کی ضرورت ھی نھیں کہ اس کی صحت کے لئے استدلال و گواھی پیش کی جائے۔ اور کیوں ایسا نہ ھو جب کہ اس کے اھم رجال اور راوی بخاری و مسلم کی نظر میں مورد وثوق و اعتماد ھوں۔ اکثر مؤلفین نے اپنی حدیث، تاریخ، تفسیر اور کلام کی کتابوں میں اسے درج کیا ھے، حتی بعض مصنفین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ھیں۔ لهذا کوئی بھی ضدی شخص اس حدیث کے تواتر سے انکار نھیں کرسکتا۔ کیا یہ ممکن ھے کہ واقعہ غدیر جیسی مسلم اور ثابت حقیقت سے انکار کیا جائے۔ کیا یہ ممکن ھے روز روشن میں آفتاب سے انکار کیا جائے؟! حقیقت میں اس بحث سے ھمارا مقصد یہ ثابت کرنا ھے کہ مخالفت و موافق دونوں نے عمومی طور سے اس کی سند کے صحیح ھونے کی تائید کی ھے کہ اگر کوئی اس کا منکر ھوجائے تو گویا سیدھے راستے اور مسلم حقیقت سے بھٹک گیا ھے۔
اب ھم امت اسلامیہ کے چند بزرگ و نامور شخصیتوں کا ذیل میں ذکر کرتے ھیں جنھوں نے حدیث غدیر کی سند کے صحیح ھونے کی صراحت فرمائی ھے:
۱۔ حافظ ابو عیسی ترمذی (وفات ۲۷۹ ھجری)
اپنی صحیح کی ج۲، ۲۹۸ پر حدیث کو غدیر کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ھیں:
“ھذا حدیث حسن صحیح” یہ حدیث حسن اور صحیح ھے”
۲۔ حافظ ابو جعفر طحاوی (وفات ۳۲۱ ھجری) نے “مشکل الآثار” کے ج۲، ص۳۰۸ پر حدیث غدیر کو صحیح حدیث کے طور پر درج کیا ھے اور کھا ھے کہ حدیث غدیر میں کسی قسم کا کھوٹ نھیں ھے”
۳۔ ابو عبد اللہ محاملی بغدادی (وفات ۳۳۰ ھجری) نے
اپنی “امالی” میں حدیث غدیر کو صحیح حدیث کے طور پر درج کیا ھے۔
۴۔ ابو محمد عاصمی نے:
کتاب “زین الفتٰی” میں لکھا ھے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
اس حدیث کو امت اسلامیہ نے قبول کیا ھے اور یہ حدیث قواعد و اصول کے مطابق ھے”
۵۔ ابو عبد اللہ حاکم (وفات ۴۰۵ ھجری) نے:
“مستدرک” میں چند طریقوں سے حدیث غدیر کو ذکر کیا ھے اور اس کے صحیح ھونے کی تائید کی ھے”۔
۶۔ حافظ ابن عبد البر قرطبی (وفات ۴۶۳ ھجری) نے:
“استیعاب” کے ج۲ صفحہ ۳۷۳ پر حدیث مواخات (برادری) حدیث “رایت” و “غدیر” کو بیان کرنے کے بعد لکھتا ھے:
“یہ احادیث ثابت اور صحیح ھیں”
۷۔ ابن مغازلی شافعی (وفات ۴۸۳ ھجری) نے:
اپنی “مناقب” میں اپنےا ستاد ابوالقاسم فضل بن محمد اصفھانی سے نقل کیا ھے کہ: حدیث غدیر صحیح ھے اور تقریباً ۱۰۰ افراد نے من جملہ عشرۂ مبشرہ نے اس کی روایت کی ھے اور یہ حدیث ثابت ھے۔ میں اس میں کسی قسم کا ضعف نھیں پاتا ھوں اور یہ ایسی فضیلت ھے کہ اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کوئی شریک نھیں ھے”
۸۔ ابو حامد غزالی (وفات ۵۱۵ ھجری) نے:
“سرالعالمین” کے صفحہ ۹ پر اپنی حجت کو واضح کرتے ھوئے لکھا ھے کہ: “جب غدیر کے دن پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” تو حضرت عمرؓ نے بخ بخ تمام لوگوں نے اس حدیث کے متن پر اتفاق کیا ھے”
۹۔ حافظ ابن جوزی حنبلی (وفات ۵۹۷ ھجری) نے:
“مناقب” میں لکھا ھے: سیرت اور تاریخ کے علماء واقعہ غدیر پر اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حج سے واپسی پر ۱۸ ذی الحجۃ کو اس واقعہ کے دن ایک لاکھ بیس ھزار اصحاب و اعراب نے جو آنحضرت(ص) کے ھمراہ تھے، نے آنحضرت(ص) سے اس حدیث کو سنا اور شاعروں نے اس واقعہ کے بارے میں بہت سے اشعار کھے ھیں”۔
۱۰۔ ابو المظفر سبط ابن جوزی حنفی (وفات ۶۵۴ ھجری) نے:
“تذکرہ” ص۱۸ پر حدیث غدیر کی ابتداء و انتھا اور علی علیہ السلام کو عمر کی مبارک بادی کو چند طریقوں سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ھے: ان تمام روایات کو احمد بن حنبل نے “فضائل” میں اضافے کے ساتھ روایت کیا ھے۔
اس کے بعد لکھا ھے: حضرت عمر کے قول کے بارے میں جو روایت ھوئی ھے کہ انھوں نے کھا:
“اصبحت مولای و مولا کل مؤمن و مؤمنۃ” صحیح ھے۔ علمائے تاریخ کا اس بات پر اتفاق ھے کہ واقعۂ غدیر، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجۃ الوداع سے واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ کو واقع ھوا ھے۔
آنحضرت(ص) کے ھمراہ اس وقت ایک لاکھ بیس ھزار صحابی تھے۔ آنحضرت(ص) نے پوری وضاحت کے ساتھ صاف الفاظ میں فرمایا ھے: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ……”
۱۱۔ ابن ابی الحدید معتزلی (وفات ۶۵۵ ھجری) نے:
“شرح نہج البلاغہ” کی جلد۲ صفحہ ۴۴۹ پر حدیث غدیر اور مبارک باد کو علی ابن ابی طالب کی مشھور فضیلت کے طور پر بیان کیا ھے”۔
اس کے علاوہ صفحہ ۱۴۸ پر لکھا ھے: شوریٰ کے دن امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا استدلال و استشھاد جو حدیث غدیر پر مشتمل ھے فائدہ بخش ھے۔
۱۲۔ حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی (وفات ۶۵۸ ھجری) نے
“کفایۃ الطالب” میں حدیث غدیر کو احمد سے روایت کرنے کے بعد لکھا ھے “احمد نے مسند میں اسی طرح روایت کی ھے اور تمھارے لئے ایک راوی کی روایت کافی ھے جب کہ احمد جیسے امام نے اس حدیث کے کئی طرق جمع کئے ھیں”۔ حافظ گنجی شافعی نے اس حدیث کو جامع ترمذی کے طرق سے روایت کرنے کے بعد لکھا ھے: دار قطنی نے حدیث غدیر کے طرق کو ایک جلد میں جمع کیا ھے اور حافظ ابن عقدہ کوفی نے ایک مستقل کتاب اس سلسلے میں مرتب کی ھے۔
اھل سیرت اور تاریخ نے واقعۂ غدیر کی روایت کی ھے اور محدث شامی نے اپنی کتاب میں حدیث غدیر کو مختلف طرق سے اصحاب و تابعین سے ذکر کیا ھے اور مشائخ و اساتید نے مجھے اس کی اطلاع دی ھے۔
حافظ گنجی نے ص۱۷ پر اس حدیث کو اسناد کے ساتھ محاملی سے روایت کرتے ھوئے آخر میں لکھا ھے: “یہ حدیث مشھور و حسن ھے اور اس کے راوی ثقہ ھیں اور یہ اسناد ایک دوسرے کی معاونت کرتے ھیں اور اسے حجت اور نقل کو صحیح قرار دیتے ھیں”
۱۳۔ ابو المکارم علاء الدین سمنانی (وفات ۷۳۶ ھجری) نے:
“عروة الوثقی” میں لکھا ھے “…اور حجۃ الوداع کے بعد غدیر خم میں بھت سے مھاجرین اور انصار کے سامنے آنحضرت نے جب کہ علی علیہ السلام کے کندھے کو ھاتھ سے پکڑے ھوئے تھے فرمایا: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ……” یہ ایک ایسی حدیث ھے جس کے صحیح ھونے پر سب کو اتفاق ھے۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ سید اولیاء ھوئے اور ان کا قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب پر قرار پایا”
۱۴۔ شمس الدین ذھبی شافعی (وفات ۷۴۸ ھجری)
اس نے حدیث غدیر پر مستقل ایک کتاب لکھی ھے اور المستدرک کے خلاصہ میں ان کے مختلف طرق ذکر کئے ھیں ان میں سے کئی ایک طرق کو صحیح جانا ھے اور صدر حدیث کو متواتر بتایا ھے۔
۱۵۔ ابن کثیر شافعی دمشقی (وفات ۷۷۴ ھجری) نے:
اپنی تاریخ کی جلد ۵۔ ص۲۰۹ پر حدیث غدیر کے صحیح ھونے اور اس کی سند اچھی اور درست ھونے کو بعض افراد جیسے ذھبی۔ احمد۔ و ترمذی وغیرہ سے نقل کیا ھے۔
۱۶۔ حافظ نور الدین ھیثمی (وفات ۸۰۷ ھجری) نے:
“مجمع الزوائد ج۹ ص۱۰۴ و ۱۰۹ میں “حدیث رکبان” کو احمد و طبرانی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: احمد کی سند کے رجال ثقہ ھیں اور حدیث “احتجاج و استشھاد” کو احمد ابی طفیل سے روایت کرتے ھوئے لکھا ھے۔ “اس کے رجال صحیح ھیں بجز فطر، کہ وہ بھی ثقہ ھے”.
۱۷۔ شمس الدین جزری شافعی (وفات ۸۳۳ ھجری)
انھوں نے حدیث غدیر کو اسی (۸۰) طرق سے ذکر کیا ھے اور اس سلسلے میں “اسنی المطالب” کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ھے۔ حدیث غدیر کو پیغمبر سے ارسال مسلّم کی حیثیت سے جانا ھے اور امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے استدلال کو صحیح اور حسن طریقے سے ذکر کیا ھے اور اسی طرح اصل نقل کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے متواتر ذکر کیا ھے۔
۱۸۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (وفات ۸۵۲ ھجری) نے:
“تھذیب التھذیب” میں چند جگہ من جملہ ج۷ ص۲۳۷ پر کئی طریقوں سے اس کو ذکر کیا ھے اور حدیث: من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ھے اور حقیقتاً یہ حدیث فراوان طرق و اسناد کی حامل ھے حتی ابن عقدة نے ان طرق کو ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ھے اور اس کے بہت سے اسناد صحیح اور حسن ھیں اور ھم نے احمد سے روایت کی ھے کہ اس نے کھا: جو چیزیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل میں ھم تک پہونچی ھیں نہ کسی اور صحابی کے بارے میں وارد ھوئی ھیں اور نہ ھم تک پہنچی ھیں۔
۱۹۔ ابو الخیر شیرازی شافعی نے:
“ابطال باطل” میں لکھا ھے؛ اور یہ جو روایت ھوئی ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن جب آپ(ص) علی کا ھاتھ پکڑے ھوئے تھے فرمایا الست اولی … ثابت اور صحیح احادیث میں سے ھے”
۲۰۔ حافظ جلال الدین سیوطی (وفات ۹۱۱ ھجری) نے:
لکھا ھے: “حدیث غدیر متواتر ھے۔ اور بهت سے متاخرین نے یہ چیز ان سے نقل کی ھے”
۲۱۔ حافظ ابو العباس شھاب الدین قسطلانی (وفات ۹۲۳ ھجری) نے:
“المواھب اللدنیۃ” ج۷، ص۱۳ پر لکھا ھے: اور نسائی کی حدیث “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” پس شافعی نے کھا ھے کہ ولایت سے مراد اسلام ھے جیسے قول خدائے تعالیٰ (ذلک بان اللہ مولی الذین آمنوا وان الکافرین لا مولی لھم)
اور قول حضرت عمر: “اصبحت مولی کل مؤمن” یعنی آپ ھر مؤمن کے مولا ھوئے۔
اس حدیث کے طرق یقیناً زیادہ ھیں اور ابن عقدہ نے انھیں الگ سے ایک کتاب میں اکٹھا کیا ھے اور اس کے بهت سے اسناد صحیح و حسن ھیں”
۲۲۔ ابن حجر ھیثمی مکی (وفات ۹۷۴ ھجری) نے:
“الصواعق المحرقہ کے “صفحہ ۲۵ پر شیعوں کے استدلال کو رد کرتے ھوئے لکھا ھے: “یہ حدیث صحیح ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے اور ایک جماعت نے جیسے ترمذی، نسائی اور احمد نے اس کی روایت کی ھے اور اس حدیث کے طرق یقیناً بھت ھیں……”
احمد کی روایت میں آیا ھے کہ تیس اصحاب نے اس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت جھگڑے کا باعث بنی تو انھوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں گواھی دی۔ اس حدیث کے بہت سے طرق صحیح و حسن ھیں۔ اگر کوئی اس کے صحیح ھونے پر معترض ھو تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے…”
۲۳۔ جمال الدین حسینی شیرازی (وفات ۱۰۰۰ ھجری) نے:
کتاب “اربعین” میں حدیث غدیر اور واقعہ غدیر کے سلسلے میں اور نزول آیۂ “سأل سائل” کے ذکر کے بعد لکھا ھے: “اصل حدیث غدیر (نہ قصۂ حارث) امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متواتر ھے۔ صحابیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کی روایت کی ھے”۔
۲۴۔ ابو المحاسن صلاح الدین حنفی (وفات …… ھجری) نے:
“المعتصر من المختصر” ص۴۱۳ پر واقعہ رحبۂ کوفہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتے ھوئے اس کے ضمن میں حدیث غدیر کو صحیح حدیث تعبیر کیا ھے۔
۲۵۔ شیخ قاری حنفی (وفات ۱۰۱۴ ھجری) نے:
“مرقاة شرح المشکاة” ج۵ ص۵۴۸ میں چند گوناگون طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: حدیث غدیر ایک صحیح حدیث ھے کسی قسم کا شبہ اس میں نھیں نے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر بتایا ھے۔
۲۶۔ زین الدین منادی شافعی (وفات ۱۰۳۱ ھجری) نے:
“فیض القدیر”ج۶ ص۲۱۸ میں لکھا ھے: “ابن حجر نے حدیث غدیر کے بارے میں لکھا ھے کہ: اس حدیث کے بہت سے طرق ھیں جنھیں ابن عقدة نے ایک مستقل کتاب میں اکٹھا کیا ھے ان میں سے بعض صحیح اور بعض حسن ھیں……”
۲۷۔ نور الدین حلبی شافعی (وفات ۱۰۴۴ ھجری) نے:
“سیرۂ حلبیہ” ج۳/ ص۳۰۲ میں اسی ابن حجر کی بات کو نقل کیا ھے کہ حدیث غدیر کے بهت سے طرق ھیں اور ان کی ایک بڑی تعداد صحیح اور حسن ھے اور اگر کسی کو ان کے صحیح ھونے پر اعتراض ھو تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے۔
۲۸۔ با کثیر مکی، شافعی ۱۰۴۷ ھجری) نے:
“وسیلۃ المآل فی مناقب الآل” میں حدیث غدیر چند اصحاب سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ھے: “اس حدیث کو بزّاز نے صحیح رجال سے فطر ابن خلیفہ سے روایت کیا ھے اور خود فطر ثقہ ھیں… حدیث غدیر خم ایک صحیح حدیث ھے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے اور ایک بڑی جماعت سے روایت ھوئی ھے جیسا کہ ظاھر ھے اس کے بعد انھوں نے ابن حجر کے اسی نظریہ کو نقل کیا ھے کہ اس حدیث کے بهت طرق ھیں اور ان کی ایک بڑی تعداد صحیح و حسن ھیں…”
۲۹۔ دھلوی بخاری (وفات ۱۰۵۲ ھجری) نے:
“شرح مشکوة” میں لکھا ھے: ” یہ حدیث بلا شبہہ صحیح ھے اور ترمذی، نسائی اور احمد جیسوں نے اس کی روایت کی ھے”
۳۰۔ شیخانی قادری مدنی نے
“الصراط السوی” میں لکھا ھے: “اور اُن احادیث صحیح میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد ھوئی ھیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں قول رسول اللہ: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” ھے ۔ ترمذی، نسائی اور امام احمد وغیرہ نے اس کی روایت کی ھے اور بهت سی احادیث صحیح کو بخاری و مسلم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے۔!!”
۳۱۔ سید محمد بر نجی شافعی (وفات ۱۱۳۰ ھجری) نے:
“النواقص” میں لکھا ھے: حدیث غدیر کا یہ حصہ “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” صحیح احادیث میں سے ھے یہ بهت طرق سے روایت ھوئی ھے۔
۳۲۔ ضیاء الدین مقبلی (وفات ۱۱۰۸ ھجری) نے:
کتاب “الابحاث المسّددة” میں حدیث غدیر کو حدیث متواترہ کے طور پر ذکر کیا ھے کہ وقوع کے علم کا سبب ھے۔
۳۳۔ شیخ محمد صدر العالم نے:
کتاب “معارج العُلی فی مناقب المرتضٰی” میں لکھا ھے: “جان لو کہ حدیث “مولاة” سیوطی کے ھاں متواتر ھے، جیسے کہ “قطف الأذھار” میں اسے ذکر کیا ھے اور میں چاھتا ھوں اس کے طرق کو بیان کروں تا کہ اس کا تواتر واضح ھوجائے”۔ اس کے بعد انھوں نے دسیوں علماء و محدثین سے اسے نقل کیا ھے۔
۳۴۔ ابن حمزہ حرّانی دمشقی (وفات ۱۱۲۰ ھجری) نے:
حدیث غدیر کو کتاب “البیان و التعریف،ج۲، ص۱۳۶ و ۲۳۰ میں ترمذی، نسائی، طبرانی حاکم اور ضیاء مقدسی سے نقل کیا ھے اس کے بعد لکھا ھے: “سیوطی نے کھا ھے کہ حدیث غدیر صحیح ھے۔”
۳۵۔ ابو عبد اللہ زرقانی مالکی (وفات ۱۱۲۲ ھجری) نے:
کتاب “شرح المواھب”، ج۷، ص۱۳ میں حدیث غدیر کے اسناد کو صحیح جانا ھے اور اس کی روایت کو احمد سے نقل کیا ھے اور انھوں نے لکھا ھے کہ تیس اصحاب نے اس حدیث کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے۔”
۳۶۔ شھاب الدین شافعی (بارھویں صدی ھجری کا ایک شاعر جس نے غدیر پر شعر کهے ھیں) نے کتاب “ذخیرة الاعمال” میں لکھا ھے کہ:
حدیث غدیر صحیح ھے اور اس میں کسی قسم کا شک نھیں ھے۔ ترمذی، نسائی و احمد نے اس کو بیان کیا ھے اور اس کے بہت سے طرق ھیں۔”
۳۷۔ میرزا محمد بد خشی نے:
“نزل الأبرار”، ص۲۱ میں لکھا ھے: “حدیث غدیر ایک صحیح اور مشھور حدیث ھے اور کسی نے اس کے صحیح ھونے میں شک نھیں کیا ھے مگر یہ کہ کوئی متعصب و ضدی ھو، ایسے افراد کا کوئی اعتبار ھی نھیں ھے۔ بے شک اس حدیث کے بھت سے طرق ھیں، ابن عقدة نے ایک مستقل کتاب میں ان کو اکٹھا کیا ھے اور ذھبی نے اس کے بھت سے طرق کو واضح الفاظ میں صحیح ذکر کیا ھے اور صحابیوں کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کی روایت کی ھے۔”
۳۸۔ مفتی شم عمادی حنفی (وفات ۱۱۷۱ ھجری) نے:
کتاب “الصلوة الفاخرة” ص۴۹ میں حدیث غدیر کو احادیث متواترہ کے طور پر پیش کیا ھے۔
۳۹۔ ابو عرفان صبّان شافعی (وفات ۱۲۰۶ ھجری) نے:
“اسعاف الراغیین” میں روایت غدیر نقل کرنے کے بعد لکھا ھے: “اسے اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تیس افراد نے نقل کیا ھے اور اس کے بھت سے طرق صحیح یا حسن ھیں،”
۴۰۔ سید محمد آلوسی بغدادی (وفات ۱۲۷۰ ھجری) نے:
“روح المعانی”، ج۲، ص۲۴۹ میں لکھا ھے: ھاں یہ پهلے ثابت ھوچکا ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے حق میں غدیر خم میں فرمایا: “من کنت مولاہ فعّلی مولاہ…” اور ج۲، ص۳۵۰ میں ذھبی سے اس حدیث کے صحیح ھونے کو نقل کیا ھے اور پھر ذھبی سے ھی نقل کیا ھے کہ اس نے کھا حدیث: “من کنت مولاہ…” مواتر ھے کہ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ھے اور “الّلھم وال من والاہ” کے اسناد قوی ھیں۔”
۴۱۔ شیخ محمد حوت بیروتی شافعی (وفات ۱۲۷۶ ھجری):
وہ کھتے ھیں: “حدیث: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کو ابو داؤد کے علاوہ اصحاب سنن اور احمد نے اس کی روایت کی ھے اور اسے صحیح جانا ھے۔”
۴۲۔ مولوی ولی اللہ نے:
“مرآة المؤمنین” میں حدیث غدیر کو چند طرق سے ذکر کرنے کے بعد لکھا ھے: “یہ حدیث صحیح ھے اور اس کے بھت سے طرق ھیں اور اگر کسی نے اس میں شک کیا ھے تو وہ اس کی خطا ھے کیونکہ علماء کی ایک بڑی تعداد جس میں ترمذی و نسائی نے اس کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ھے اور صحابیوں کی ایک جماعت نے اس کی روایت کی ھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں اس کی گواھی دی ھے۔”
۴۳۔ شھاب الدین خضری (ھمارے ھم عصر) نے:
کتاب “تشنیف الأذان”، ص۷۷ میں لکھا ھے: “اور حدیث “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ھونا متواتر ھے اور تقریبا ۶۰ افراد نے اس کی روایت کی ھے اگر ان سب کے اسناد لکھنے بیٹھیں تو طولانی ھوگا… لیکن اگر جو کوئی اس کے اسناد و طرق سے آگاھی حاصل کرنا چاھے، تو وہ ھماری کتاب جو “متواتر” کے موضوع پر ھے، کا مطالعہ فرمائے۔
نتیجہ
جو کچھ بیان ھوا اس سے یہ نتیجہ اخذ ھوتا ھے کہ اھل سنت و الجماعت کے علماء، ماھرین فن اور نامور شخصیات نے حدیث غدیر کو متواتر، صحیح اور ثابت کے طور پر ذکر کیا ھے۔ اب ھم چند ایک گذشتہ عبارتوں پر ایک بار پھر نگاہ ڈالتے ھیں تاکہ ان پر مزید غور کریں:
“رواہ بمأتی و خمسین طریقا۔”
“حدیثاً یبلغ ھذا المبلغ من الثبوت و الیقین و التواتر”
“نسب منکرہ الی الجھل”۔
“ان لم یکن معلوماً فما فی الدین معلوم”۔
“تلقّتہ الأمۃ بالقبول و ھو موافق بالاصول”۔
“اجمع الجمھور علی متنہ”۔
اتّفق علیہ جمھور اھل السنۃ”۔
“حدیث صحیح مشھور ولم یتکلم فی صحۃ الّا متعصب جاحد لا اعتبار بقولہ”۔
“انّہ حدیث متفق علی صحتہ”۔
“و انّ صدرہ متواتر یتیقّن انّ رسول اللہ قالہ”
“انہ حدیث صحیح قد اخطأ من تکلّم فی صحتّہ”۔
“انہ حدیث مشھور کثیر الطرف جداً”۔
“نعم ثبت عندنا انہ قالہ فی حق علی”۔
“حدیث صحیح لامریۃ فیہ”۔
“انہ متواتر عن النبی(ص) و متواتر عن امیر المؤمنین ایضا”۔
“رواہ الجمّ الغفیر”۔
“ولا عبرة بمن حاول تضعیفہ ممن لا اطّلاع لہ فی ھذا العلم”
“انہ متواتر لا یلتفت الی من قدح فی صحتہ”۔
“حدیث صحیح ثابت لا اعرف لہ علّۃ و غیر ذلک”۔
.
.
.
رسول اکرم ص نے حضرت علی ع کا ہاتھ پکڑا………….!!!
اور اپنے ہاتھ سے اُسے اتنا بلند کیا کہ آپ ص کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی.سب لوگوں نے اس منظر کو دیکھا.پھر آپ ص نے فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جان مال پر اُن سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں؟
سب نے کہا: جی ہاں.پھر آپ ص نے فرمایا:
“جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے”
آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا. احمد بن حنبل کے بقول آپ نے اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا. اس کے بعد آپ نے فرمایا:
“خدایا! تو اُس سے دوستی کر جو علی ع سے دوستی کرے اور تو اُس سے دشمنی رکھ جو علی ع سے دشمنی رکھے اور تو اس سے محبت کر جو علی ع سے محبت کرے اور تو اُس سے بغض رکھ جو علی ع سے بغض رکھے اور تو اُس کی مدد کر جو علی ع کی مدد کرے اور تو اُسے بے یارومددگار چھوڑ جو علی ع کو بے یارومددگار چھوڑے اور حق کو اُس کے ساتھ پھیر جدھر علی ع پھر جائے. جو یہاں موجود ہے وہ میرا یہ پیغام غائب تک پہنچا دے.”
جب آپ کا خطبہ مکمل ہوا تو آپ ص منبر سے نیچے تشریف لائے اورمسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ علی ع کی خلافت کے لیے بیعت کریں اور اُنھیں امیرالمومنین کہہ کرسلام کریں.
مسلمان ہر طرف سے بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے.شیخین رسول اکرم ص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یہ حکم آپ ص کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ہے؟
آپ ص نے فرمایا: کیا یہ غیر اللہ کی طرف سے ہے؟ یہ خدا اور اس کے رسول ص کا فرمان یے.
یہ سن کر دونوں حضرات اُٹھے اور بیعت کی.حضرت دوم نے ان الفاظ سے سلام کیا:
“امیرالمومنین! آپ پر سلام,آپ کو مبارک ہو,آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم و مولا بن گئےہیں.”
(علی ع ولادت سے شہادت تک,مولف,آیت اللہ کاظم قزوینی دام ظلہ,ص,٢٩٩,٣٠٠)