*حسان بن ثابتؓ کا لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کرنا*
غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا :
فقال لہ قم یا علی فاننی فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً
*یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔*
اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال کردہ لفظ مولا کو امامت، پیشوای ،ہدایت اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے
حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :





.
.
*رسول خدا ﷺ کا جھومنا*
جب احسان بن ثابت نے غدیر خم میں اشعار سنائے تو رسول خدا ﷺ ان کے اشعار پر جھوم اٹھے ،
آپ نے دعا دی : احسان جب تک تم ھماری نصرت کرو گے جبرائیل کی تائید سے سرفراز ھوگے
آنحضرت ﷺ نے مسجد میں احسان کے لیے ممبر نصب کیا تھاجس پر وہ فضائل رسول ﷺ سناتے تھے

.
.
غدیر خم پر حضرت حسانؓ کا قصیدہ
صحابیٔ رسول حضرت حسانؓ بن ثابت (م۵۵ھ) حجۃ الوداع کے بعد ۱۸ذی الحجہ کو غدیرخم پر موجود تھے جہاں نبی کریم ﷺنے تفصیلی خطبہ دیتے ہوئے اعلان فرمایاکہ: مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ(جس جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی بھی مولا ہیں۔) اس کے بعد دربار رسالت کے شاعر حضرت حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور یہ قصیدہ کہا:
ینادیھُم یومَ الغدیر نبیُّھم
بخُمِّ فَأسْمَعّ بالرَّسول منادیا
وقال فمن مولا کم و ولیُّکم
فقالوا ولم یُبدوا ھناک تعامیا
الھک مولانا وأنت و لیُّنا
ولم یلف منّا فی الولایۃ عاصیا
فقال لہ قُم یا علیُّ فانَّنی
رضیتُک من بعدی اماماً وّ ھادیا
فمن کنتُ مولاہ فھذا ولیُّہ
فکونوا لہ أنصار صدق موالیا
ھناک دعا اللّھم و ال ولیہ
وکن بالذی عادی علیّا معادیا
ترجمہ: غدیر کے دن ان(صحابہؓ) کے نبی ؐ انھیں پکار رہے تھے اور وہ خم کے میدان میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس ندا کو سن رہے تھے۔
آنحضرت ؐ نے فرمایا :
تمھارا مولا اور ولی کون ہے ؟
(صحابہؓ) کہنے لگے: آپؐ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے،
آپ ؐ کا پروردگار ہمارا مولا ہے اور آپؐ ہمارے ولی ہیں،
آج کے دن آپؐ ہم میں سے کسی کو بھی نافرمان نہیں پائیں گے،
پھر حضرت نے ارشاد فرمایا : یا علی ؑ! کھڑے ہو جایئے،
میں چاہتا ہوں کہ آپؑ میرے بعد امام اور ہادی ہوں،
پس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ ولی ہیں،
لہٰذا ان کے سچے مددگار اور حامی بنو۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر دعا مانگی کہ اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔
حو الہ:الکتاب: الازدھار فی ما عقدہ الشعراء من الأحادیث والآثار(از مکتبہ شاملہ)
المولف: عبدالرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی(المتوفی: ۹۱۱ھ)ص۱۹
.
.
غدیر اور حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ کے اشعار
آپ کے تین اشعار جو کہ آپ نے حضرت علی شان میں بیان کیے انکا ترجمہ
اور علیؑ ھمارے بھی امام ھیں اور ھمارے سوا دوسروں کے بھی ۔ اس سلسلے میں آیت بھی نازل ھوئی ھیں ۔ جس دن رسول خدا نے عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں مولا ھوں اسکے یہ علی مولا ھیں رسول خدا (ص) نے جو کچھ امت سے فرمایا وہ حتمی ھے ، اب اس میں ذرا بھی چون چرا کی گنجائش نہیں
حضرت قیس نے مولا کےمعنی کی تشریح واضع طور پر کردی وہ خود واقعہ غدیر کے وقت موجود تھے
حضرت قیس فرماتے ھیں جب دشمن نے ھم پر بغاوت کی (یعنی جنگ جمل ) تو میں نے کہا ھمارا پروردگار ھمارے لیے کافی ھے اور وہ بہترین کارساز ھے ھمارے لیے وھی پروردگار کافی ھے جس نے بصرہ فتح کرایا تھا اور اسکی کہانی طویل ھے ۔
آپ ان اشعار کو درج ذیل کتب میں ملاحظہ کرسکتے ھیں
1۔ تذکرۃالخواص ( 20 (ص33)
2۔ تفسیر ابوالفتوح رازی جلد 2 ص 193 (جلد 4 ص 279)
3۔ کتاب سلیم بن قیس جلد 2 ص 778ح 36
شعیہ کتب
4۔ فصول مختارہ جلد 2 ص 87
آپ کے حالات زندگی
آپ کونبی کریم (ص) کے ھاں محافظ کی حثیت حاصل تھی ۔ آپ نے نبی کریم (ص) کی دس سال خدمت کی ۔ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے عرب کے بہادر تھے اور بہت سخٰی تھے ۔ بعد از رسول خدا (ص) حضرت علی کے ساتھ رھے اور جنگ جمل و صفین میں شرکت کی معاویہ نے انہیں اپنے ساتھ ملانا چاھا لیکن آپ حضرت علی کے ساتھی رھے اور پھر انان حسن بن علیؑ کے ساتھ تھے معاویہ سے امام حسن کی صلح کے بعد مدینے لوٹ آئے۔ ابن حبان کا قول ھے کہ آپ معاویہ سے بھاگ نکلے اور مدینہ میں وفات پائی ( اصابہ فی التمیزالصحابہ جلد 5 ص 145) عہد رسول (ص) میں پولیس افسر تھے ( ترمذی جلد 2 ص 317 جلد 5 ص 648)
ابن کثیر لکھتا ھے کہ علی علیہ السلام نے انہیں مصر کو گورنر بنایا اور انہوں نے اپنی ذھانت اور تدبر سے معاویہ اور عمرو کا مقابلہ کیا ( البدایہ والنہایہ جلد8 ص 107)
آپ کے والد ان بارہ نقیبوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی قوم کے اسلام کی ضمانت رسول اسلامؐ کے سامنے لی تھی نقیب ضامن کو کہتے ھیں ( تاریخ ابن عساکر ج 1 ص 86(ج 7 ص 112 مختصر تاریخ ابن عساکر جلد 9 ص 236، 238)
.
.
حضرت حسان بن ثابت ؓ
نے واقعہ غدیر کے اوصاف اپنے اشعار میں بیان فرماۓ ہیں
ان اشعار کو سید رضی ؒ نے اپنی کتاب خصائص الائمة میں نقل کیا ھے
فرماتے ہیں
ینادیهم یوم الغدیر نبیهم بخم و أسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و ولیکم؟ فقالوا و لم یبدوا هناک التعادیا
إلهک مولانا و أنت ولینا و لمتر منا فی المقالة عاصیا
فقال له قم یا علی فإننی رضیتک من بعدی إماما و هادیا
فمن کنت مولاه فهذا ولیه فکونوا له أنصار صدق موالیا
هناک دعا الّلهم وال ولیه و کن للذی عادی علیاً مُعادیاً
پیغمبر خداﷺ نے یوم غدیر لوگوں سے پکار کر کہا، کیسی عظیم پکار تھی یہ۔ انہوں نے فرمایا: تمہارا مولا اور سرپرست کون ہے؟ لوگوں نے فورا کہا: تمہارا اللہ ہمارا مولا ہے اور آپؐ ہمارے سرپرست ہیں۔ ہم آپؐ کے حکم کی نافرمانی نہی کریں گے۔
اس وقت پیغمبرؐ نے حضرت علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: کھڑے ہوجاؤ!میں نے آپ کو اپنے بعد امام و رہبر منتخب کیا ہے۔اس کے بعد فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہوگا؛ پس تم سب سچ مچ اس کی اطاعت کرو۔ اے میرے اللہ علی سے محبت کرنے والے سے محبت کر اور علی ؑ سے دشمنی رکھنے والے سے دشمنی رکھ۔
خصائص الائمة سید رضی ص 41

