حديثٌ صحيحٌ صريحٌ في أن معاوية يموت علي غير ملة الإسلام

رسول اللہ ﷺ کی پیشنگوئی کہ معاویہ ابن ابی سفیان ملت اسلام پر نہیں مرے گا
.
اہل سنت مورخ احمد بن یحیی البلاذری (المتوفی ۲۷۹ھ) نے اس طرح روایت نقل کی ہے :
📜 وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، وَبَكْرُ بْنُ الْهَيْثَمِ ، قَالا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازِقِ بْنُ هَمَّامٍ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ” يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ مِلَّتِي . قَالَ : وَكُنْتُ تَرَكْتُ أَبِي قَدْ وُضِعَ لَهُ وَضُوءٌ ، فَكُنْتُ كَحَابِسِ الْبَوْلِ مَخَافَةَ أَنْ يَجِيءَ . قَالَ : فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هُوَ هَذَا .
📃 عبد الله بن عمرو بن العاص کہتا ہے : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا شخص آنے والا ہے جو مرتے وقت اسلام کے ساتھ نہیں مرے گا (جو میری ملت پر نہیں مرے گا)۔
(عبد الله بن عمرو بن العاص) کہتا ہے: میں نے اپنے والد کو وضو کرنے کے لئے پانی تیار کیا ہوا تھا اور سخت پیشاب آرہا تھا لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میرے والد اس شگاف سے بارہر نہ آئے میں پیشاب کو روکا ہوا اور انتظار میں تھا ، عبد الله بن عمرو بن العاص کہتا ہے : اتنے میں معاويه آیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ وہی شخص ہے [کہ جو میرے دین اور آئین پر نہیں مرے گا ].
بلاذری نے اسکو ایک اور سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
وحدثني عبد الله بن صالح ، حدثني يحيى بن آدم ، عن شريك ، عن ليث ، عن طاوس۔۔۔
📚 انساب الاشرف – بلاذری // جلد ۳ // صفحہ ۳۴۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
یہ حدیث رسول اللہ ﷺ بسند صحیح ثابت ہے۔
📜 سمعت أبا عبد الله، وقال له دلويه: سمعت علي بن الجعد يقول: مات والله معاوية على غير الإسلام….
مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية إسحاق بن إبراهيم بن هانئ النيسابوري…
📃 کتاب مسائل امام احمد بن حنبل میں اسحاق ابن ابراہیم نیشاپوری سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:..
میں نے علی ابن جعد کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ: خدا کی قسم معاویہ کی موت دین اسلام پر واقع نہیں ہوئی، یعنی وہ مسلمان دنیا سے رخصت نہیں ہوا۔..
🔹 “زياد بن أيوب دلويه”
أبو إسحاق الأصبهاني : ليس علي بسيط الأرض أحد أوثق من زياد بن أيوب…
بكر البيهقي : ثقة
أبو حاتم الرازي : صدوق
ابن حجر العسقلاني : ثقة حافظ
الدارقطني : ثقة مأمون
الذهبي : الحافظ…
🔹 ” علي بن الجعد”
علی بن جعد کی جمہور نے توثیق کی ہے…
الإمام الحافظ الحجة
حدث عنه : البخاري ، وأبو داود ، ويحيى بن معين ، وخلف بن سالم وأحمد بن حنبل شيئا يسيرا ، وأحمد بن إبراهيم الدورقى ، [ ص: 461 ] والزعفراني ، وأبو حاتم ، وأبو زرعة..
سير أعلام النبلاء……
اسم: علی بن جعد بن عبید, ابو الحسن الجوھری, مولی بنی ھاشم.
🔺 علی بن جعد الجوھری کا تعارف:
یہ اہل سنت کے عظیم امام اور آئمہ کے شیخ تھے مثلا یہ امام احمد, امام یحیی بن معین, امام ابوبکر بن ابی شیبہ, امام بخاری , امام مسلم, امام ابو داود, اسحاق بن اسرائیل, امام ابو زرعۃ, ابو حاتم, ابو القاسم بغوی, صالح بن محمد اسدی جسیے عظیم اہل سنت آئمہ کے شیخ تھے انہوں نے اس سے روایات بھی نقل کی ہیں.
امام علی بن الجعد سے جو منسلک ہوا اس نے انکی تعریف ہی کی ہے. امام علی بن جعد کے شاگرد جو ان سے علم حاصل کرتے اور ان کی مجالس میں بیٹھتے تھے انہوں نے اپکے بارے اچھے کلمات بیان کیے اور آپ کی توثیق کی ہے اور دوسرے علماء اکرام نے بھی آپکی توثیق پیش کی ہے.
🔵 توثیق:
1: یحیی بن معین
یہ علی بن جعد کے شاگرد ہیں انہوں نے علی بن جعد کے روایات نقل کی ہیں یحیی بن معین کے ٥ شاگردوں نے متابعت کر کے یحیی بن معین کی علی بن جعد کے متعلق توثیق نقل کی ہے.
جعفر بن محمد القلانسی, محمد بن حماد المقری, بکر بن سہل , عبدالخالق بن منصور اور جعفر بن محمد الطیالسی کہتے ہیں کہ یحیی بن معین سے علی بن جعد کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا یہ ثقہ ہیں.
١: تاریخ البغداد, جلد: ١٣ ص: ۲۸٣, ۲۸٧, خطیب بغدادی
۲: تہذیب الکمال جلد: ۲۰, ص: ٣٤۸, ٣٤۹ امام مزی
2: ابو زرعة…
یہ بھی امام علی بن جعد کے شاگرد ہیں.
ابو زرعۃ کہتے ہیں : علی بن جعد حدیث میں سچے ہیں.
تہذیب الکمال, جلد: ۲۰, ص: ٣٥۰ امام مزی
3: امام بخاری:
یہ بھی امام علی بن جعد کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنی کتاب الصحیح میں اپنے شیخ علی بن جعد کی روایت نقل کرکے انکی توثیق کی ہے.
تاریخ بغداد جلد:١٣, ص: ۲۸١ خطیب بغدادی
4: امام مسلم:
یہ بھی امام علی بن جعد کے شاگرد ہیں
امام مسلم نے بھی آپنے شیخ کو ثقہ کہا ہے.
میزان الاعتدال جلد: ٥, ص: ١٦۲
5:امام ابو حاتم:
یہ بھی علی بن جعد کے شاگرد ہیں انہوں نے بھی اپنے استاد کو صدوق (سچا) اور متقی کہا ہے اور ان کی ثقاہت کے باری کلمات کہے ہیں.
تہذیب الکمال, جلد: ۲۰, ص: ٣٥۰ امام مزی
6: صالح بن محمد اسدی
یہ بھی علی بن جعد کے شاگرد ہیں انہوں نے شیخ علی بن جعد کو ثقہ کہا ہے.
تہذیب الکمال, جلد: ۲۰, ص: ٣٥۰ امام مزی
دوسرے آئمہ محدثین نے بھی انکی توثیق کی ہے.
7: امام نسائی:
یہ کہتے ہیں علی بن جعد ثقہ ہیں.
تہذیب الکمال, جلد: ۲۰, ص: ٣٥۰ امام مزی
8: امام ذھبی کہتے ہیں
یہ حافظ الحدیث اور ثبت ہیں
9: امام برھان الدین ابی الوفا ابراہیم بن محمد سبط ابن عجمی الجلی.
کہتے ہیں علی بن جعد ثقہ ہیں.
حاشیہ الکاشف فی معرفۃ من لہ روایایۃ فی کتب الستۃ امام ذھبی جلد: ۲, ص: ٣٦
10: ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں.
علی بن جعد ثقہ ہیں
تقریب التہذیب ص: ٦۹١, رقم ٤٧٣۲
11: امام الدارقطنی:
یہ کہتے ہیں علی بن جعد ثقہ مامون ہے.
تہذیب التہذیب جلد:٣, ص: ١٤۸ ابن حجر عسقلانی
12: امام مطین:
کہتے ہیں علی بن جعد ثقہ ہیں.
تہذیب التہذیب جلد:٣, ص: ١٤۸ ابن حجر عسقلانی
13: امام ابن قانع:
یہ کہتے ہیں علی بن جعد ثقہ ثبت ہیں
تہذیب التہذیب جلد:٣, ص: ١٤۸ ابن حجر عسقلانی.
14: امام ابن حبان:
انہوں نے علی بن جعد کو ثقات میں درج کیا ہے.
الثقات ص: ۸٧٦ ابن حبان
(میرے پاس الثقات کو جو نسخہ ہے وہ ایک جلد کا ہی ہے دارالمعرفۃ بیروت لبنان سے شائع ہوا ہے)
15: ابن عدی:
(انہوں نے الکامل فی الضعفا کے نام سے کتاب لکھی حس میں راویوں کی منکر روایات کو نقل کیا)
یہ کہتے ہیں میں نے علی بن جعد کی کوئی منکر روایت نہیں دیکھی.
میزان الاعتدال جلد: ٥, ص: ١٦۲
🔴 راویوں کا حال اس طرح ہے : 🔴
🔵 اسحاق بن ابی اسرائیل : یہ ثقہ صدوق راوی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے اسکے بارے میں یوں لکھا :
📜 إسحاق ابن أبي إسرائيل واسمه إبراهيم ابن كامجرا بفتح الميم وسكون الجيم أبو يعقوب المروزي نزيل بغداد صدوق تكلم فيه لوقفه في القرآن
📃 اسحاق بن ابی اسرائیل اور اسکا نام ابراھیم بن کامجرا تھا۔ میم کے اوپر فتح اور جیم پر سکون کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اسکی کنیت ابو یعقوب المرزوی ہے۔ یہ بغداد آیا۔ یہ سچا (صدوق) تھا۔ اسکے اوپر کلام خلق قرآن پر توقف کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۱۳۹ // رقم ۳۳۸ // محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
اسی طرح شمس الدین ذھبی نے اسکے بارے میں یوں لکھا :
📜 إسحاق بن أبي إسرائيل إبراهيم المروزي الحافظ نزيل بغداد عن حماد بن زيد وكثير بن عبد الله وطبقتهما وعنه أبو داود والبغوي وأبو يعلى وخلق ثقة معمر قال الساجي خلوا الاخذ عنه لمكان الوقف قلت كان يقف تورعا
📃 اسحاق بن ابی اسرائیل۔ اسکا نام ابراھیم المروزی تھا۔ یہ حافظ تھا۔ بغداد آیا اور اس نے حماد بن زید، کثیر بن عبداللہ اور انکے طبقے کے راویوں سے احادیث لی اور اس سے ابو داود، بغوی، ابو یعلی اور باقی لوگوں نے روایت لی۔ اسکو معمر نے ثقہ قرار ہے۔ ساجی نے کہا کہ اسکو خلق قرآن پر توقف کی وجہ سے چھوڈ دو۔ میں (ذھبی) کہتا ہوں : اسکا توقف پرہیزگاری تھی۔
📚 الکاشف – ذھبی // جلد ۱ // صفحہ ۵۳ // رقم ۲۸۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
ایک شیعہ مخالف عربی سائٹ پر لکھا تھا کہ یہاں اسحاق سے مراد اسحاق بن ابی اسرائیل نہیں ہے کیونکہ بلاذری نے کہیں پر اسحاق بن ابی اسرائیل کی عبدالرزاق بن ھمام سے روایات نقل نہیں کی ہے۔
عرض ہے کہ بلاذری نے باقی جگہ بھی اسحاق بن ابی اسرائیل حدثنا عبدالرزاق بن ھمام والی روایات نقل کی ہے۔ مثال کے طور پر :
📚 انساب الاشرف – بلاذری // جلد ۲ // صفحہ ۶۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
🔵 عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی : یہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے اسکے بارے میں یوں لکھا :
📜 عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع
📃 عبدالرزاق بن ھمام بن نافع حمیری۔ انکا مولی۔ ابوبکر صنعانی۔ یہ ثقہ، حافظ، مشہور مصنف۔ آخری عمر میں اندھا ہوگیا تھا پس تغیر ہوگیا۔ یہ شیعہ تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۳۸۷ // رقم ۴۰۶۴ // محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
اب یہ اعتراض کیا جا سکھتا ہے کہ عبدالرزاق بن ھمام شیعہ تھا تو اسکی روایت کیسے قبول ہوگی ؟
عرض ہے کہ عبدالرزاق بن ھمام کا شیعہ ہونا ثابت ہی نہیں ہے بلکہ اس سے تشیع کے مخالف قول ثابت ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس طرح نقل کیا ہے :
📜 سمعت سلمة بن شبيب يقول سمعت عبد الرزاق يقول والله ما انشرح صدري قط ان أفضل عليا على أبي بكر وعمر رحم الله أبا بكر وعمر وعثمان من لم يحبهم فما هو مؤمن وقال أوثق أعمالي حبي إياهم.
📃 میں نے سلمہ بن شبیب کو کہتے ہوئے سنا کہ عبدالرزاق بن ھمام نے کہا :
اللہ کی قسم ! میرے دل میں کبھی علی کو ابوبکر و عمر پر فضیلت دینے پر اطمنان نہیں ہوا۔ اللہ ابوبکر پر رحم کرے، اللہ عمر پر رحم کرے، اللہ عثمان پر رحم کرے، اللہ علی پر رحم کرے اور جو ان سب سے محبت نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے۔ میرا سب سے مضبوط عمل یہ ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔
📚 کتاب العلل و المعرفہ الرجال – عبداللہ بن احمد بن حنبل // جلد ۲ // صفحہ ۵۹ // رقم ۱۵۴۶ // طبع دار القبس للنشر ریاض سعودیہ۔
عبدالرزاق بن ھمام کے قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ شیعہ ہرگز نہ تھا۔ لہذا تشیع کا اعتراض لے کر انکی روایات کو رد کرنا فضول عمل ہے۔
🔵 معمر بن راشد : یہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
ابن حجر عسقلانی انکے بارے میں یوں کہتا ہے :
📜 معمر ابن راشد الأزدي مولاهم أبو عروة البصري نزيل اليمن ثقة ثبت فاضل
📃 معمر بن راشد الازدی۔ انکا مولی۔ ابوعروبہ البصری۔ یہ یمن سے تھا۔ ثقہ، ثبت اور فاضل تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۵۷۰ // رقم ۶۸۰۹ // محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
🔵 عبداللہ بن طاوس : یہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے انکے بارے میں یوں لکھا :
📜 عبد الله بن طاوس بن كيسان اليماني أبو محمد ثقة فاضل عابد
📃 عبداللہ بن طاوس بن کیسان یمانی، ابوعبداللہ۔ یہ ثقہ، فاضل اور عابد تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۳۴۲ // رقم ۳۳۹۷ // محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
🔵 طاوس بن کیسان : یہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے انکے بارے میں یوں لکھا :
📜 طاوس بن كيسان اليماني أبو عبد الرحمن الحميري مولاهم الفارسي يقال اسمه ذكوان وطاوس لقب ثقة فقيه فاضل من الثالثة.
📃 طاوس بن كيسان اليماني ابو عبد الرحمن حميري، اهل فارس اور قبيله حمير کا غلام تھا . کہا گیا ہے اس کا نام ذکوان اور اس کا لقب طاوس تھا . وہ ثقہ ، فقيه ، فاضل تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۳۱۶ // رقم ۳۰۰۹ // محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
🔵عبداللہ بن عمرو بن العاص : یہ صحابی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے انکے بارے میں یوں لکھا :
📜 عبد الله بن عمرو بن العاص بن وائل بن هاشم بن سعيد بالتصغير بن سعد بن سهم السهمي أبو محمد وقيل أبو عبد الرحمن أحد السابقين المكثرين من الصحابة وأحد العبادلة الفقهاء
📃 عبداللہ بن عمرو بن العاص بن وائل بن ھاشم بن سعید (تصغیر کے ساتھ) بن سعد بن سھم السھمی۔ ابو محمد اور ابو عبدالرحمان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سابقین مکثرین صحابہ میں سے ایک تھا اور عبادلہ فقہاء میں سے ایک تھا۔
📚 تقریب التذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۳۴۹ // رقم ۳۴۹۹// محمد عوامہ نسخہ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔
لہذا یہ سند بلکل صحیح ہے۔
🍁کتاب کے مولف احمد بن یحیی بن جابر البلاذری کی توثیق شمس الدین ذھبی نے کی ہے۔ جناچہ اپنی کتاب میں انکو ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا :
📜 وَالْكَبِير: أَحْمد بن يحيى صَاحب التَّارِيخ فِي طبقَة أبي دَاوُد السجسْتانِي حَافظ أخباري عَلامَة.
📃 (ذھبی نے چھوٹے بلاذري کی زندگی نامہ لکھنے کے بعد یوں لکھا ہے): بڑا بلاذري ، احمد بن يحيي ہے کہ جو تاريخ کی کتاب کے مصنف اور ابو داود سجستاني کے طبقے کا ہے اور احادیث کے حافظ اور حدیث شناس اور علامہ ہے۔
📚 کتاب تذکرۃ الحفاظ – ذھبی // جلد ۲ // صفحہ ۷۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
🖋 بقلم : ذوالفقار مشرقي
📚 اسکین پیجز
علی بن جعد کہتے ہیں:
مات و اللہ معاویة على غير الاسلام
اللہ کی قسم ! معاویہ غیرِ اسلام پر مرا۔