*کائنات کا امام حسین ع کے غم میں اپنے اپنے انداز سے عزاداری کرنا*

وقال علي بن محمد المدائني، عن علي بن مدرك، عن جده الأسود بن قيس: احمرت آفاق السماء بعد قتل الحسين بستة أشهر، نري ذلك في آفاق السماء كأنها الدم. قال: فحدثت بذلك شريكا، فقال لي: ما أنت من الأسود؟، قلت: هو جدي أبو أمي قال: أم والله إن كان لصدوق الحديث، عظيم الأمانة، مكرما للضيف.
علی بن مدرک اپنے نانا اسود بن قیس سے نقل کرتا ہے کہ: پورا آسمان امام حسین(ع) کی شھادت کے بعد چھے ماہ تک سرخ رنگ کا ہو گیا تھا۔ ہم آسمان کو خون کی طرح دیکھتے تھے۔
علی بن محمد مدائنی نے اس سے سوال کیا کہ تمہارا اسود سے کیا رشتہ ہے؟ اس نے کہا وہ میری ماں کے بابا ہیں۔ اس نے کہا خدا کی قسم کہ وہ ایک سچّا، امانت دار اور مہمان نواز بندہ تھا۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227
*آسمان و زمین شھدا کربلاؑ کے غم میں گریہ کناں ہوں گے*
ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی ع نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی. یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا. آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اور آسمان و زمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے۔

وقال علي بن محمد المدائني ، عن علي بن مدرك ، عن جده الأسود بن قيس : احمرت آفاق السماء بعد قتل الحسين بستة أشهر ، نرى ذلك في آفاق السماء كأنها الدم . قال : فحدثت بذلك شريكا ، فقال لي : ما أنت من الأسود ؟ ، قلت : هو جدي أبو أمي قال : أم والله إن كان لصدوق الحديث ، عظيم الأمانة ، مكرما للضيف .
علی ابن مدرک نے اپنے نانا اسود ابن قیس سے نقل کیا ہے کہ: امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد آسمان چھ مہینے تک اس طرح سے سرخ رنگ کا ہو گیا تھا کہ گویا ہم آسمان میں خون کو دیکھتے تھے، علی ابن محمد مدائنی نے اس سے سوال کیا کہ: تمہارا اسود سے کیا رشتہ ہے ؟ اس نے کہا: وہ میرے نانا ہیں۔ اس نے کہا: خدا کی قسم تمہارا نانا ایک سچا ، امین اور مہمان نواز انسان تھا۔


حدثني أبو يحيي مهدي بن ميمون قال: سمعت مروان مولي هند بنت المهلب، قال: حدثني بواب عبيد الله بن زياد أنه لما جئ برأس الحسين فوضع بين يديه، رأيت حيطان دار الامارة تسايل دما۔
جب امام حسین(ع) کے مبارک سر کو ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا تو میں نے دیکھا کہ دار الامارۃ کی دیواروں سے خون جاری ہو گیا۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433 – 434
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 229
وقال ) يعقوب بن سفيان ثنا سليمان ابن حرب ثنا حماد بن زيد عن معمر قال َ أَوَّلُ مَا عُرِفَ الزُّهْرِيُّ تَكَلَّمَ فِي مَجْلِسِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَقَالَ الْوَلِيدُ أَيُّكُمْ يَعْلَمُ مَا فَعَلَتْ أَحْجَارُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ فَقَالَ الزُّهْرِيُّ بَلَغَنِي أَنَّهُ لَمْ يُقْلَبْ حجرا إِلَّا وَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيط ۔
ابو بكر بيہقى نے معروف سے روايت نقل کی ہے کہ: وليد ابن عبد الملك نے زہرى سے پوچھا کہ جس دن حسین ابن علی کو قتل کیا گیا تھا، تو اس دن بیت المقدس میں موجود پتھروں کی کیا حالت تھی ؟
زہری نے کہا: مجھے بتایا گیا تھا کہ حسین ابن علی کی شہادت کے دن جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا، تو اسکے نیچے سے تازہ خون دکھائی دیتا تھا۔


عَن أَبُو قَبِيلٍ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ(عليه السلام) كُسِفَتِ الشَّمْسُ كَسْفَةً بَدَتِ الْكَوَاكِبُ نِصْفَ النَّهَارِ حَتَّي ظَنَنَّا أَنَّهَا هِي
جب امام حسین(ع) کو شھید کیا گیا تو سورج کو گرہن لگ گیا اور اس قدر اندھیرا ہو گیا کہ دوپہر کے وقت آسمان پر ستارے نظر آنے لگے۔ میں نے اس واقعے سے یہ سمجھا کہ قیامت آ گئی ہے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 228
تلخيص الحبير، ابن حجر، ج 5، ص 84
السنن الكبري، البيهقي، ج 3، ص 337

ام المونین حضرت ام سلمہ فرماتی ھیں میں نے جنات کو حضرت امام حسین علیہ السلام پر نوحہ کرتے سنا وہ کہہ رھے تھے
اے حسین کو جہالت سے قتل کرنے والو ، تمہیں عذاب و سزا کی بشارت ھو تمام اھل آسمان ، نبی، مرسل اور لوگ تمہارے خلاف بدعا کر رھے ھیں تم پر داؤد، حضرت موسی اور صاحب انجیل علیہ السلام کی زبان سے لعنت کی گئی ھے ۔ اور فرمایا وحی کی رسول پاک ﷺ کی طرف اللہ پاک نے کی میں نے حضرت یحیی بن زکریا کے بدلے 70000 ھزار آدمیوں کو قتل کیا اور میں تیری بیٹی کے بیٹے کے بدلے 140000آدمیوں کو قتل کرنے والا ھوں


عن عيسي بن الحارث الكندي، قال: لما قتل الحسين مكثنا سبعة أيام إذا صلينا فنظرنا إلي الشمس علي أطراف الحيطان كأنها الملاحف المعصفرة، ونظرنا إلي الكواكب يضرب بعضها بعضا.
عیسی بن حارث کندی کہتا ہے کہ: جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو سات دن تک جب بھی ہم عصر کی نماز پڑھتے تو دیکھتے کہ سورج کی وہ شعاعیں جو گھروں کی دیواروں پر پڑتی ہیں اس قدر سرخ تھیں کہ گویا سرخ رنگ کی چادریں دیواروں پر ڈالی ہوئی ہیں اور ہم دیکھتے تھے کہ بعض ستارے آپس میں ٹکراتے رہتے تھے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432 – 433
تاريخ الإسلام، الذهبي، ج 5، ص 15
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227.
آسمان نے خون کے اشک بہائے:*
عَنْ نَضْرَةَ الْأَزْدِيَّةِ قَالَتْ: لَمَّا أَنْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بن علي(عليهما السلام) مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً فَأَصْبَحْتُ وَ كُلُّ شَيْ ءٍ لَنَا مَلْآنُ دَما ۔
نضرۃ ازدیہ کہتا ہے کہ: جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو آسمان سے خون برستا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے گھر کی تمام چیزیں اور سامان خون آلود ہو گئی تھیں۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 433
سير أعلام النبلاء، الذهبي، ج 3، ص 312، 313
الثقات، ابن حبان، ج 5، ص 487
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 227 – 228
دنیا کا تاریک ہو جانا:
حدثنا خلف بن خليفة، عن أبيه، قال: لما قتل الحسين اسودت السماء، وظهرت الكواكب نهارا حتي رأيت الجوزاء عند العصر وسقط التراب الأحمر.
خلف بن خلیفہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ: جب امام حسین(ع) شھید ہو گئے تو آسمان اتنا تاریک ہو گیا کہ دوپہر کے وقت آسمان پر ستارے ظاہر ہو گئے۔ یہاں تک کہ ستارہ جوزا دوپہر کے وقت دیکھا گیا اور سرخ رنگ کی خاک آسمان سے گری تھی۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 431 – 432
تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 305
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 226
وقال: وقال علي بن مسهر، عن جدته: لما قتل الحسين كنت جارية شابة، فمكثت السماء بضعة أيام بلياليهن كأنها علقة.
علی بن مسھر اپنی جدّہ سے نقل کرتا ہے کہ: جب امام حسین(ع) شھید ہوئے تو میں اس وقت ایک جوان لڑکی تھی۔ اس وقت آسمان سے چند دن اور چند رات خون کے لوتھڑے برستے تھے۔
تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 432
تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 226








حضرت محمدﷺ وآلہ فرماتے ہیں:
“حسینؑ کے قتل جیسا قتل پہلے کبھی نہیں ہوا ہو گا جس پر اہل آسمان و زمین ، وحشی جانور، نباتات، پہاڑ اور سمندر روئے ہوں گے مگر یہ سب حُسین پر روئیں گے اگر ان کو رونے کی پوری اجازت مل جائے تو زمین پر ایک جاندار بھی باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ وہ روتے رہیں گے”.
(مقتل سید الصابرین بزبان چہاردہ معصومین /صفحہ 86)


آلِ امیہ/ آلِ عثمان کے علاؤہ اللہ کی ہر مخلوق نے امام حسین ع کے لئے آنسو بہائے ۔
[۱/۱۲۷۰] كامل الزيارات: أبي عن سعد عن ابن عيسى عن القاسم بن يحيى عن جده الحسن عن الحسين بن ثوير قال: كنت أنا و ابن ظبيان و المفضل و أبـو سـلمة السراج جلوسا عند أبي عبدالله ال فكان المتكلم يونس وكان أكبرنا سنا و ذكـر حـديثاً طويلاً يقول: ثم قال أبو عبدالله: إن أبا عبدالله لما قضی بكت عليه السماوات السبع وما فيهن، والأرضون السبع وما فيهن، وما بينهن، و ما ينقلب في الجنة وال—-نار من خلق ربنا، و ما يرى و ما لا يرى، بكى على أبي عبدالله ال إلا ثلاثة أشياء لم تبك عليه، قلت: جعلت فداك ما هذه الثلاثة الأشياء؟ قال: لم تبك عليه البصرة، و لا دمشـق، و لا آل عثمان عليهم لع—–نة الله.
امام جعفر صادق ع نے فرمایا جب امام حسین ع شہید ہوئے تو آسمان زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، جنت اور جہن—-م کی ہر مخلوق ، ہر وہ چیز جسے تم دیکھ سکتے ہو اور جسے تم نہیں دیکھ سکتے ، وہ آپ کے لئے روئے سوائے تین کے ۔ راوی نے امام سے پوچھا کہ وہ تین کون تھے ؟ امام نے فرمایا بصرہ کے لوگ ، شام کے لوگ اور آلِ عثمان (عثمانی) اللہ کی لع—–نت ہو ان سب پر ۔


شھادتِ امام حسین ع اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
امام حسین ع کی شھادت کے بعد اس واقعے کی شہرت اس طرح ہوئی کہ مٹی خون بن گئی ، آسمان سے خون کی بارش ہوئی ، غیبی آواز سے مرثیے سنے گئے ، جنات روئے اور انھوں نے نوحہ کیا ، درندے آپ کی لاش کی نگہبانی کے لئے لاش کے گرد چکر لگاتے تھے ، آپ کے قاتلوں کی نتھنوں میں سانپ گھسے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں تا حیات اس رنج و غم اور درد ناک مصائب کا تذکرہ اسی شھادت ظاہری کا ثمرہ ہے۔ اس شھادت کا شہرہ عالم بالا میں بھی ہے اور عالم خاک میں بھی ، عالم غیب و عالم ظاہر میں بھی ، چاہے انسان ہوں یا جن صاحب زبان ہوں یا خاموش (سب میں اس واقعہ کی شہرت ہے)
[کتاب: سر الشھادتین // شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی] الصفحة 15:)



.