کربلا میں جناب سیدہ زینب (ع) کا اپنا چہرہ پیٹنا

*اھل مدینہ کا امام حسين عليه السلام کی شھادت کی خبر سن کر شدید گریہ کرنا*
📜 لما قتل عبيد الله بن زياد الحسين بن علي و جيء برأسه إليه دعا عبد الملك بن أبي الحارث السلمي فقال: انطلق حتي تقدم المدينه علي عمر بن سعيد فبشّره بقتل الحسين – وكان عمرو أمير المدينه -. قال عبد الملك فقدمت المدينه، فلقيني رجل من قريش فقال: ما الخبر؟ فقلت: الخبر عند الأمير؛ فقال إنا لله وإنا إليه راجعون؛ قتل الحسين بن علي.
فدخلت علي عمرو بن سعيد، فقال: ما وراءك، فقلت: ما سرّ الأمير؛ قتل الحسين بن علي؛ فقال: ناد بقتله، فناديت بقتله، فلم أسمع والله واعيه قط مثل واعيه نساء بني هاشم في دورهن علي الحسين…
📃 جب عبيد الله بن زياد نے امام حسين بن علي عليهما السلام کو شھید کیا ان کے سر مبارک کو عبد الملك بن أبي الحارث سلمی کے لیے لے کر گئے اور کہا کہ مدینے کے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی خبر دو۔
عبد الملک کہتا ہے کہ میں مدینے آیا۔ ایک قریش کے بندے نے مجھے دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا نئی خبر ہے؟میں نے کہا کہ امیر کے پاس خبر ہے وہ میری بات کے معنی کو سمجھ گیا اور کہا إنا لله وإنا إليه راجعون؛ امام حسين بن علي علیہ السلام کو شھید کر دیا گیا ہے۔
عمرو بن سعيد، حاكم مدينه کے پاس گیا اور کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟میں نے کہا جو امیر چھپا رہا ہے وہ حسين بن علی علیہ السلام کا شھید ہونا ہے۔
خدا کی قسم میں نے اپنی عمر میں ہر گز اس قدر شدید گریہ عورتوں کا جیسا کہ شهادت امام حسين علیہ السلام پر کیا ہے نہیں سنا۔
📚 تاريخ طبري، ج 3، ص 342
🔴 امام حسین علیہ السلام کی شہادرت کے بعد عمر سعد نے دو دن قیام کیا اور پھر کوفے کی طرف کوچ کیا اس کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے بچے اور بہنیں اسیر تھیں جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی لاشوں پر سے گزرے تو سب مستور روئیں اور منہ پیٹے (چہرے پر ماتم کیا)
اور حضرت زینب نے فریاد کی یا محمداہ آپ پر ملایکہ یعنی آسمان کے فرشتے دورد پڑھتے ہیں اور میرا بھائی حسین علیہ السلام بے آسرا خون میں غلطاں ہے
📚 تاریخ الکامل ابن اثیر الجزری
🔴 اہل سنت مفتی غلام رسول اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
📃 جب قتل امام حسین علیہ السلام کی خبر مدینہ پہنچی تو بنوں ہاشم کی عورتوں نے اپنے گھروں میں ماتم اور نوحہ کیا
📚 تذکرہ امام حسین علیہ السلام
🔴 کربلا میں جناب سیدہ زینب (ع) کا اپنا چہرہ پیٹنا
اہل سنت کے ہاں حافظ ابن کثیر دمشقی (المتوفیٰ 774ھ) کو بطور مورخ و مفسر قرآن، انتہائی اعتبار و اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ابن کثیر اپنی تاریخ کی کتاب [البداية والنهاية] جسے اردو میں “تاریخ ابن کثیر” کہا جاتا ہے، میں «مقتل» (قتل کی روداد و بیان) کے ضمن میں روایات لاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے:
«وَهَذِهِ صِفَةُ مَقْتَلِهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، مَأْخُوذَةً مِنْ كَلَامِ أَئِمَّةِ هَذَا الشَّأْنِ، لَا كَمَا يَزْعُمُهُ أَهْلُ التَّشَيُّعِ مِنَ الْكَذِبِ الصَّرِيحِ وَالْبُهْتَانِ» [ج 11، ص 521]
ترجمہ:
“اس مقتل [حسین ع] کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اہم آئمہ کے کلام سے ماخوذ ہے، ایسے جھوٹ و صریح بہتان سے نہیں جیسے اہل تشیع کا زعم ہے”…
چند ہی صفحات بعد ابن کثیر اپنے اس دعوے پر مبنی مقتل میں یہ بات بھی نقل کرتے ہیں:
«هَذَا وَحُسَيْنٌ جَالِسٌ أَمَامَ خَيْمَتِهِ مُحْتَبِيًا بِسَيْفِهِ، وَنَعَسَ فَخَفَقَ بِرَأْسِهِ، وَسَمِعَتْ أُخْتُهُ زَيْنَبُ الضَّجَّةَ فَدَنَتْ مِنْهُ فَأَيْقَظَتْهُ، فَرَجَعَ بِرَأْسِهِ كَمَا هُوَ، وَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ لِي: ” «إِنَّكَ تَرُوحُ إِلَيْنَا» “. فَلَطَمَتْ وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا وَيْلَتَا» [ج 11، ص 529]
ترجمہ:
“حسین (ع) اپنے خیمے کے آگے اپنی تلوار کو گود میں رکھے بیٹھے تھے کہ آپ (ع) کو اونگھ آگئی اور آپ کے سر [اقدس] کو جھٹکا لگا، آپ (ع) کی بہن زینب (ع) نے سنا تو آپ (ع) کو جگایا اور آپ (ع) اپنے سر کو پہلے والی حالت میں واپس لائے اور فرمایا: «میں نے خواب میں رسول الله (ص) کا دیدار کیا، انہوں نے مجھے فرمایا: آپ (ع) شام کو میرے پاس آئیں گے»۔ [امام حسین ع سے یہ سنا تو سیدہ زینب (ع) نے] اپنا چہرہ پیٹا اور فرمایا: ہائے افسوس!”
سلام ہو جناب سیدہ زینب بنت علی و فاطمہ پر!
کیا امام حسین ؑ نے سیدہ زینب ؑ کو ماتم کرنے سے منع کیا تھا؟
شیخ مفید اعلیٰ اللہ مقامہ نے الارشاد میں امام حسین علیہ السلام کا اپنی بہن سیدہ زینب علیہا السلام سے مکالمہ نقل کیا ہے جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
…يا أُخيّةُ إِنِّي أقسمتُ فأبِرِّي قَسَمي، لا تَشُقِّي عليَّ جيبأً، ولا تَخْمشي عليَّ وجهاً، ولا تَدْعِي عليٌ بالويلِ والثّبورِ إِذا أنا هلكتُ.
اے میری بہن، میں نے اللہ کی قسم کھائی ہے پس میری قسم کو پورا کرنا، مجھ پر (غم میں) گریبان نہ چاک کرنا اور نہ واویلا کرنا اور شور مچانا جب میں شہید ہوجاؤں۔
كتاب الإرشاد، ج 2، ص 94
مگر یہاں پر یہ بات بلا سند منقول ہے، اور مرسل روایت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسکو قبول کیا بھی جائے تو اس ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ کہ دشمنان اس سب کو دیکھ کر خوش نہ ہوں
أما زينب فإنها لما رأته فأهوت إلي جيبها فشقت ، ثم نادت بصوت حزين يفزع القلوب ، يا حسيناه ! يا حبيب رسول الله !
جب بی بی زینب(س) نے اپنے بھائی کے سر مبارک کو دیکھا تو شدید غم کی حالت میں اپنے گریبان کو چاک کر دیا اور بہت غمناک آواز میں کہا < يا حسيناه ! يا حبيب رسول الله
اللهوف ـ سيد بن طاووس ـ ص 178
وَذَكَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ اَلْقُمِّيُّ فِي نَوَادِرِهِ قَالَ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنْ أَخِيهِ جَعْفَرِ بْنِ عِيسَى عَنْ خَالِدِ بْنِ سَدِيرٍ أَخِي حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ عَنْ رَجُلٍ شَقَّ ثَوْبَهُ عَلَى أَبِيهِ أَوْ عَلَى أُمِّهِ أَوْ عَلَى أَخِيهِ أَوْ عَلَى قَرِيبٍ لَهُ فَقَالَ «لاَ بَأْسَ بِشَقِّ اَلْجُيُوبِ قَدْ شَقَّ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى أَخِيهِ هَارُونَ وَلاَ يَشُقَّ اَلْوَالِدُ عَلَى وَلَدِهِ وَلاَ زَوْجٌ عَلَى اِمْرَأَتِهِ وَتَشُقُّ اَلْمَرْأَةُ عَلَى زَوْجِهَا وَإِذَا شَقَّ زَوْجٌ عَلَى اِمْرَأَتِهِ أَوْ وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ فَكَفَّارَتُهُ حِنْثُ يَمِينٍ وَلاَ صَلاَةَ لَهُمَا حَتَّى يُكَفِّرَا وَيَتُوبَا مِنْ ذَلِكَ وَإِذَا خَدَشَتِ اَلْمَرْأَةُ وَجْهَهَا أَوْ جَزَّتْ شَعْرَهَا أَوْ نَتَفَتْهُ فَفِي جَزِّ اَلشَّعْرِ عِتْقُ رَقَبَةٍ أَوْ صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ إِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِيناً وَفِي اَلْخَدْشِ إِذَا دَمِيَتْ وَفِي اَلنَّتْفِ كَفَّارَةُ حِنْثِ يَمِينٍ وَلاَ شَيْءَ فِي اَللَّطْمِ عَلَى اَلْخُدُودِ سِوَى اَلاِسْتِغْفَارِ وَاَلتَّوْبَةِ وَقَدْ شَقَقْنَ اَلْجُيُوبَ وَلَطَمْنَ اَلْخُدُودَ اَلْفَاطِمِيَّاتُ عَلَى اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَعَلَى مِثْلِهِ تُلْطَمُ اَلْخُدُودُ وَتُشَقُّ اَلْجُيُوبُ».
حنان بن سدیر کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے کسی کا پوچھا جو اپنے والد یا اپنی والدہ یا اپنے بھائی یا رشتہ دار پر اپنا گریبان چاک کرے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: گریبانوں کو چاک کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
موسی بن عمران علیہما السلام نے اپنے بھایئ ہارون علیہ السلام پر گریبان چاک کیا تھا۔
اور کوئی باپ اپنے بیٹے پر گریبان چاک نہ کرے نہ کوئی شوہر اپنی بیوی پر۔ اور اگر عورت اپنے شوہر پر گریبان چاک کرے جب شوہر اپنی عورت پر کرے، یا باپ اپنے بیٹے پر کرے تو اسکا کفارہ قسم توڑنے کا ہے، اور ان دونوں کی کوئی نماز نہیں ہوگی جب تک وہ کفارہ دیکر توبہ نہ کرلیں اس سے۔ اور اگر عورت اپنے چہرے پر خراش کرے یا اپنے بال کھینچے یا انکو نوچے تو بال کھینچنے پر ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اگر خراش سے خون نکل آئے اور نوچنے پر قسم توڑنے کا کفارہ ہے۔ اور گالوں کو مارنے پر کوئی چیز نہیں کرنی ہوگی سوائے استغفار اور توبہ کرے۔
اور فاطمی عورتوں نے بھی اپنے گریبانوں کو چاک کیا تھا اور گالوں کو مارا تھا امام حسین بن علی علیہما السلام پر، اور ان علیہ السلام جیسے پر گالوں کو مارا جا سکتا ہے اور گریبانوں کو چاک کیا جا سکتا ہے۔
عنه عن صفوان بن يحيى عن العلا بن رزين عن محمد ابن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام (وقد شققن الجيوب ولطمن الخدود الفاطميات على الحسين بن علي عليهما السلام، وعلى مثله تلطم الخدود وتشق الجيوب.)
تهذيب الأحكام – الشيخ الطوسي – ج ٨ – الصفحة ٣٢٥
محمد تقی مجلسی ؓ اول روضة المتقين في شرح أخبار الأئمة المعصومين ؑ جلد 13 الصفحة 87 میں اس روایت کی سند کو بسند موثق قرار دیا ہے
امام(ع) نے گریبان چاک کرنے کی نسبت بنی ہاشم کی عورتوں کی طرف دی ہے لیکن کوئی بھی اعتراض و مذمت نہیں کی پس معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ عمل بنی ہاشم کی عورتوں کی شان و مرتبے کے خلاف نہیں تھا۔
.
.
.
سیدہ زینب بنت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بھائی حسین (علیہ السلام) کے پاس سے گزریں جو کربلا میں شہید ہو چکے تھے اور زمین پر پڑے تھے۔ زینب (سلام اللہ علیہا) نے پکارا:
قال: فما نسيت من الأشياء لا انس قول زينب ابنة فاطمة حين مرت بأخيها الْحُسَيْن صريعا وَهِيَ تقول:
📜 يَا مُحَمَّداه، يَا مُحَمَّداه! صلى عَلَيْك ملائكة السماء، هَذَا الْحُسَيْن بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، يَا مُحَمَّداه! وبناتك سبايا، وذريتك مقتلة، تسفي عَلَيْهَا الصبا
📃 “یا محمداه، یا محمداه! آسمان کے فرشتے آپ پر درود بھیجیں، یہ حسین کھلے میدان میں پڑے ہیں، خون میں لت پت، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے، یا محمداه! اور آپ کی بیٹیاں قید ہیں، آپ کی نسل ماری گئی ہے،