رسول اللّه ص اور مولا علی ع غم کی حالت میں ران پر ماتم کرنا

*رسول اللّه کا غم کی حالت میں ران پر ماتم کرنا*
📜 حدثنا أبو اليمان قال أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني علي بن حسين أن حسين بن علي أخبره أن علي بن أبي طالب أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة بنت النبي عليه السلام ليلة فقال ألا تصليان فقلت يا رسول الله أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف حين قلنا ذلك ولم يرجع إلي شيئا ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه وهو يقول
وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ترجمہ: راوی کہتا ہے رسول اللہ جب لوٹے اس حال میں کہ *اپنی ران کو پیٹ رہے تھے*
بخاری کی اس روایت کے شارح ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
📜 *اس حدیث میں وقت افسوس ران پیٹنے کا جواز ملا ہے*
📚 فتح الباری (سکین کمنٹ میں)
*ران پیٹ کر خون بہانا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے*
در روایت است که چندان فلق واضطراب دودے اثر کردہ که دست به زانو زدہ که گوشت و پوست از سر دست وسرزانو ے او رفته بود و استخوان ظاھر شد
*ترجمہ*
حضرت آدم میں بے چینی واضطراب نے اتنا اثر کیا ہاتھ اپنے زانو پر مارا اور اس سے گوشت وپوست ہاتھ اور زانو کا ضائع ہو گیا اور ہڈیاں ظاہر ہو گئیں۔
📚 کتاب معارج النبوہ
*ران پیٹنا حضرت علی علیہ السلام کی سنت ہے*
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں
📝 چوں شکست بر لشکر ام المومنین افتاد مر دم از طرفین مقتول شدند و حضرت امیر قتل راہ ملا حظ فرمود رانھاے خود را کوفتن گرفت
جب حضرت عائشہ رضی اللہ کو شکست ہوئی تو امیر المومنین نے مقتولوں کی لاشوں کو دیکھا اور اپنی ران پیٹنا شروع کر دی
📚 کتاب تحفہ اثناء عشری
*قرآن و عمل رسول ص و اصحاب رض کے مطابق (اہل سنت کتب احادیث سے)*
تحریر: سید علی اصدق نقوی اور احمد بابری
س: کیا افسوس/غم (تأسف) میں ران پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! رسول اکرم ص نے تأسف میں اپنی ران پر ہاتھ مارا ہے۔ [1]
س: کیا تعجب میں ران پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! صحابہ کرام رض نے ایسا کیا ہے۔ [2]
س: کیا غم میں اپنے سینے اور چہرے پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! ام المومنین، حضرت عائشہ رض نے رسول اکرم ص کی وفات پر دیگر خواتین کے ساتھ مل کر ایسا کیا ہے۔ [3] دوسرا، رسول اکرم ص کے سامنے ایک صحابی، عرب بدو نے ایسا کیا تو آپ ص نے اسکو منع نہیں فرمایا۔ [4]
س: کیا تعجب و افسوس میں اپنے ماتھے پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! نبی ابراہیم ع کی زوجہ، جناب سارہ ع نے ایسا کیا ہے۔ [5] دوسرا، صحابی رسول ص، حضرت ابوھریرہ رض نے ایسا کیا ہے۔ [6]
——-
«حوالہ جات»
[1] صحيح البخاري، رقم: 7347، صحيح مسلم، رقم: 775، سنن النسائي، رقم: 1611]
[2] صحيح مسلم، رقم الحديث: 537، سنن النسائي، رقم الحديث: 1218، سنن أبي داود، رقم الحديث: 930
[3] مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث: 26348، السيرة النبوة لإبن هشام الحميري، ج 4، ص، 1069، تاريخ الرسل والملوك للطبري، ج 2، ص 441، الكامل في التاريخ لإبن أثير، ج 2، ص 323، مسند أبي يعلى الموصلي، ج 8، ص 63
[4] المؤطاء، رقم الحديث: 663
[5] سورۃ الذاریات ، آیت 29
[6] سنن النسائي، رقم الحديث: 5370، سنن ابن ماجة، رقم الحديث: 393