*رسول اللّه کا غم کی حالت میں ران پر ماتم کرنا*

وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ترجمہ: راوی کہتا ہے رسول اللہ جب لوٹے اس حال میں کہ *اپنی ران کو پیٹ رہے تھے*
بخاری کی اس روایت کے شارح ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ


*ران پیٹ کر خون بہانا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے*
در روایت است که چندان فلق واضطراب دودے اثر کردہ که دست به زانو زدہ که گوشت و پوست از سر دست وسرزانو ے او رفته بود و استخوان ظاھر شد
*ترجمہ*
حضرت آدم میں بے چینی واضطراب نے اتنا اثر کیا ہاتھ اپنے زانو پر مارا اور اس سے گوشت وپوست ہاتھ اور زانو کا ضائع ہو گیا اور ہڈیاں ظاہر ہو گئیں۔

*ران پیٹنا حضرت علی علیہ السلام کی سنت ہے*
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں

جب حضرت عائشہ رضی اللہ کو شکست ہوئی تو امیر المومنین نے مقتولوں کی لاشوں کو دیکھا اور اپنی ران پیٹنا شروع کر دی







*قرآن و عمل رسول ص و اصحاب رض کے مطابق (اہل سنت کتب احادیث سے)*
تحریر: سید علی اصدق نقوی اور احمد بابری
س: کیا افسوس/غم (تأسف) میں ران پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! رسول اکرم ص نے تأسف میں اپنی ران پر ہاتھ مارا ہے۔ [1]
س: کیا تعجب میں ران پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! صحابہ کرام رض نے ایسا کیا ہے۔ [2]
س: کیا غم میں اپنے سینے اور چہرے پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! ام المومنین، حضرت عائشہ رض نے رسول اکرم ص کی وفات پر دیگر خواتین کے ساتھ مل کر ایسا کیا ہے۔ [3] دوسرا، رسول اکرم ص کے سامنے ایک صحابی، عرب بدو نے ایسا کیا تو آپ ص نے اسکو منع نہیں فرمایا۔ [4]
س: کیا تعجب و افسوس میں اپنے ماتھے پر ہاتھ مارنا جائز ہے؟
ج: جی ہاں! نبی ابراہیم ع کی زوجہ، جناب سارہ ع نے ایسا کیا ہے۔ [5] دوسرا، صحابی رسول ص، حضرت ابوھریرہ رض نے ایسا کیا ہے۔ [6]
——-
«حوالہ جات»
[1] صحيح البخاري، رقم: 7347، صحيح مسلم، رقم: 775، سنن النسائي، رقم: 1611]
[2] صحيح مسلم، رقم الحديث: 537، سنن النسائي، رقم الحديث: 1218، سنن أبي داود، رقم الحديث: 930
[3] مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث: 26348، السيرة النبوة لإبن هشام الحميري، ج 4، ص، 1069، تاريخ الرسل والملوك للطبري، ج 2، ص 441، الكامل في التاريخ لإبن أثير، ج 2، ص 323، مسند أبي يعلى الموصلي، ج 8، ص 63
[4] المؤطاء، رقم الحديث: 663
[5] سورۃ الذاریات ، آیت 29
[6] سنن النسائي، رقم الحديث: 5370، سنن ابن ماجة، رقم الحديث: 393